0
Sunday 22 Feb 2015 20:22
لانگ مارچ کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی کوشش کرنیوالے قوم فروش عناصر سے ہوشیار رہنا ہوگا

لبیک یاحسین لانگ مارچ شیعہ سنی عوام کا تکفیریت اور دہشتگردی کیخلاف کامیاب ریفرنڈم تھا، علامہ مقصود ڈومکی

لبیک یاحسین لانگ مارچ شیعہ سنی عوام کا تکفیریت اور دہشتگردی کیخلاف کامیاب ریفرنڈم تھا، علامہ مقصود ڈومکی
گذشتہ دنوں سانحہ شکارپور کیخلاف وارثان شہداء کمیٹی کی جانب سے شکارپور تا کراچی کامیاب لبیک یاحسین لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنے کا انعقاد کیا گیا، جو کہ مطالبات کی منظوری تک جاری رہا۔ ”اسلام ٹائمز“ نے وارثان شہداء کمیٹی کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی کے ساتھ کامیاب لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنے کے آغاز سے لیکر مطالبات کی منظوری تک اور پھر اس کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے خصوصی نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ شکارپور کیخلاف اور اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے کامیاب لانگ مارچ کیا گیا اور احتجاجی دھرنا دیا گیا، یہ فیصلہ کس نے اور کب کیا۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ سانحہ شکارپور جس میں مسجد و امام بارگاہ کربلا معلٰی میں بے گناہ نمازیوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا، اس سانحہ نے پورے سندھ کو ہلا کر رکھ دیا، اس سانحہ کیخلاف سندھ کی عوام بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب سڑکوں پر نکل آئی، اظہار یکجہتی کیا، کیونکہ سندھ دھرتی میں نفرت نہیں ہے، ہر جگہ محبت ہے، شیعہ سنی مل کر رہتے ہیں، اس سانحہ کے بعد ضرورت اس بات کی تھی کہ ان اسلام و پاکستان دشمن سفاک دہشتگردوں کو بے نقاب کیا جائے، انکے خلاف اعلان جنگ کیا جائے، انہیں مزید رسوا کیا جائے، اور ریاستی ادارے جو مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں، انہیں جھنجھوڑا جائے، اور ہم وارثان شہداء پیغام شہدائے کو قریہ قریہ، شہر شہر پہنچائیں، اسی مقصد کیلئے وہاں شکارپور میں تاریخی نماز جمعہ شہداء کمیٹی کے زیر اہتمام ادا کی گئی، اس میں اہلسنت برادران کی بھی کثیر تعداد شریک تھی، ہم نے مل کر خوف کی فضا کو توڑا، ہم ڈرتے نہیں ہیں، ہم میدان عمل میں حاضر ہیں، ہم نے دہشتگردوں کو للکارا وہاں پر۔ اس کے بعد اسی نماز جمعہ میں وارثان شہداء کمیٹی نے شکارپور سے لیکر کراچی تک لبیک یاحسین لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ لانگ مارچ 15 فروری بروز اتوار شکارپور سے شروع ہوا۔ شکارپور سے لیکر کراچی تک ہر شہر میں، ہر قریہ میں عوام اور سیاسی جماعتوں نے وارثان شہداء کا استقبال کیا، شہداء کے معصوم بچے، شہداء کے خانوادے ہمارے ساتھ تھے، ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں ہمارے ساتھ تھیں، بڑی تعداد میں بزرگ اور جوان اس حسینی قافلے میں ساتھ تھے۔

اس لانگ مارچ کا پرتپاک استقبال کرکے سندھ کی عوام نے دہشتگردوں کے خلاف ریفرنڈم دیدیا، لبیک یاحسین لانگ مارچ سندھ کی شیعہ سنی عوام کا تکفیریت اور دہشتگردی کیخلاف کامیاب ریفرنڈم تھا، سندھ کی عوام دہشتگردوں کے خلاف ہے، دہشتگردوں اور ظالموں کی دشمن ہے اور مظلوموں کی حامی ہے، پھر کراچی پہنچنے کے بعد مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے، لیکن ہم نے واضح کر دیا کہ مطالبات کی منظوری تک ہم پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں، الحمد اللہ شرکاء کے صبر و استقامت کے باعث مذاکرات کامیاب ہوئے، جس کا باضابطہ اعلان وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ اور وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے شہداء کمیٹی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے کیا، اور اس کے بعد رکن سندھ اسمبلی سید ناصر حسین شاہ کی قیادت میں حکومتی وفد نے احتجاجی دھرنے میں آکر بھی مطالبات کی منظوری کا اعلان کیا۔ ہم نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جو ان مطالبات پر عمل درآمد کا جائزہ لے گی، کہیں پر بھی غفلت ہوگی تو ہم حکمرانوں کو گریبان سے پکڑیں گے، اگر ہم نے دیکھا کہ اس حوالے سے کسی خیانت کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو ہم پھر میدان عمل میں آئیں گے، حکمرانوں کو مجبور کرینگے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ قدم اٹھائے۔

اسلام ٹائمز: لانگ مارچ کا کامیاب انعقاد وارثان شہداء کمیٹی شکارپور کے تحت کیا گیا، کیا کہیں گے اس کمیٹی کے حوالے سے۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے کہ مومنین میں سے کچھ ایسے مرد ہیں، جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا اپنا وعدہ سچا ثابت کر دیا، ہم سلام پیش کرتے ہیں شہدائے راہ اسلام پر، جنہوں نے حسینیت کی بقاء کیلئے، دین کی بقاء کیلئے اپنے پاکیزہ خون کا نذرانہ پیش کیا، ہم سلام پیش کرتے ہیں تمام وارثان شہداء کو، جنہوں نے دہشتگردی و ظلم و بربریت کیخلاف شکارپور سے کراچی تک لبیک یاحسینؑ لانگ مارچ کرکے یزیدیت کو یہ بتا دیا کہ تم جو بم دھماکے اور خودکش حملے کرکے یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح حسینیت کا پیغام دبا دو گے، حسین ابن علی کا نام مٹا دو گے، لیکن شکارپور سے کراچی تک لبیک یاحسین کے گونجتے ہوئے فلک شگاف نعروں نے یہ بتا دیا کہ تمام تر دہشتگردی کے باوجود حسینؑ ابن علیؑ کا نام کل بھی زندہ تھا آج بھی زندہ ہے اور تاقیامت زندہ رہیگا، بندگان خدا پر ظلم کرنے والے بزدل دہشتگرد سمجھتے تھے کہ عاشقان حسینؑ ابن علیؑ کو خوفزدہ کر دینگے، لیکن ان وارثان شہداء نے پاکستان بھر کی عوام کو یہ پیغام دیا کہ ہم اس حسینؑ ابن علیؑ اور ثانی زہرا (س) کے ماننے والے ہیں، جنہوں نے بہتر جنازے اٹھا کر بھی انسانیت کو ظلم کے مقابل قیام کرنے کی جرات و حوصلہ عطا فرمایا، برسر بازار ظالموں کو للکارا، برسر دربار ظالموں کو للکارا، اسی طرح ان وارثان شہداء نے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم حسینی ہیں، ہم زینبی ہیں، ہم ظالموں کا تعاقب کرینگے، اور دنیا کو حوصلہ دیتے رہیں گے کہ ابھی حسینؑ و زینب کبریٰ (س) کے ماننے والے زندہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ وارثان شہداء کمیٹی کا لانگ مارچ ایک مخصوص گروہ یا مکتب کیخلاف تھا۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
ہم نے پہلے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ ہم کسی فرقے یا مکتب فکر کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ ہم اتحاد بین المسلمین کے علمبردار ہیں، شکارپور سے لیکر کراچی تک شیعہ سنی بھائی بھائی کے نعرے بلند ہوتے رہے، اتحاد و وحدت و امن کا پیغام عام ہوتا رہا، سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرکے جب وارثان شہداء شکارپور سے کراچی پہنچے، میں سلام پیش کروں گا، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو، جوانوں اور بزرگوں کو ، جنہوں نے امن پسندی کا بے مثال مظاہرہ کیا، شکارپور سے کراچی تک ایک ٹائر تک نہیں جلایا گیا، کسی گاڑی کا شیشہ نہیں ٹوٹا، بلکہ پاکستانی قوم کو دہشتگردوں کیخلاف ملکر مقابلہ کرنے کا پیغام دیا، وارثان شہداء نے ریاست کو بھی پیغام دیا کہ بس اب بہت ہوچکا، وقت آچکا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے، کیونکہ جب تک دہشتگرد موجود ہیں، ملک کی حفاظت نہیں کی جاسکتی، محب وطن وارثان شہداء نے مزار قائدؒ کے سائے تلے یہ پیغام دیدیا ہے کہ دہشتگردوں کیلئے ذلت و رسوائی ہے اور حسینیوں کے مقدر میں عزت و سربلندی ہے۔ ہم صرف شیعہ مکتب فکر نہیں بلکہ سب کیلئے امن کی بات کرتے ہیں، ہم سب کے ساتھ اتحاد و وحدت ک بات کر تے ہیں، ہم صرف اسلام و پاکستان دشمن دہشتگردوں کے خلاف ہیں۔

اسلام ٹائمز: وارثان شہداء کمیٹی کیجانب سے پیش کئے گئے مطالبات جنہیں سندھ حکومت نے منظور کیا ہے، انکی کیا تفصیلات ہیں۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
سب سے پہلا مطالبہ جسے حکومت نے تسلیم کیا ہے، وہ یہ ہے کہ سندھ بھر میں بالخصوص ضلع شکارپور میں Apex کمیٹی کی زیر نگرانی جس میں پاک فوج، آئی ایس آئی، ایم آئی، پولیس فورس اور رینجرز شامل ہیں، دہشتگردوں کیخلاف مشترکہ آپریشن کیا جائے گا، ان کے اڈوں کے خلاف آپریشن ہوگا۔ دوسرا نکتہ جو سندھ حکومت نے تسلیم کیا ہے وہ یہ کہ دہشتگردوں کی مدد کرنے والے تمام مراکز، مدارس اور عناصر کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔ مدرسہ تو ایک مقدس لفظ ہوتا ہے لیکن کچھ مدارس دہشتگردوں کے اڈے اور آماجگاہ بن چکے ہیں، شکارپور کے اندر بھی ایسے دہشتگردی کے تربیتی مراکز موجود ہیں مدارس کے نام پر۔ سانحہ شکارپور کی ایف آئی آر سے منسلک دہشت گردوں کو شامل تفتیش کیا جائے گا، جن کی شہداء کمیٹی نے نشاندہی کی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ جس دن سانحہ شکارپور ہوا، اس دن ایک کالعدم دہشتگرد تنظیم کا سربراہ شکارپور میں دیکھا گیا، اس لئے ہم نے حکومت سے سوال کیا کہ معلوم کیا جائے کہ وہ اس دن شکارپور میں کیا کر رہا تھا، لہٰذا ہم اس جواب کے حکومت سے منتظر ہیں۔ ہم شامل تفتیش دیکھنا چاہتے ہیں اس دہشتگرد کو کہ وہ اس دن شکارپور کیا کرنے گیا تھا۔ اس کے بعد جو مطالبہ تسلیم کیا گیا کہ سانحہ شکارپور کی مشترکہ جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی، جس میں مختلف ایجنسیز شامل ہونگی، وہ اس سانحہ کی تحقیقات کرینگی اور اس تحقیقات کی تفصیلات شہداء کمیٹی سے شیئر کی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتھ شیعہ مساجد، امام بارگاہوں اور مدارس کو مطلوبہ سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور سندھ بھر میں مساجد، امام بارگاہوں اور مذہبی شخصیات کو اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ لائسنس جاری کئے جائیں گے۔

ہم نے نشاندہی کی کہ بعض سرکاری اسکولوں پر مذہبی انتہاپسندوں کے ناجائز قبضے ہیں، جن کے قبضے سرکاری املاک اور اسکولوں پر سے ختم کروائے جائیں گے، کیونکہ اسکول بچوں کی تعلیم کیلئے ہوتے ہیں نہ کہ نفرتوں کی تعلیم کیلئے۔ سانحہ شکارپور کا مقدمہ فوجی عدالت میں بھیجا جائے گا، یہ مطالبہ بھی تسلیم کیا گیا۔ منظور شدہ مطالبات کا اگلا نکتہ یہ ہے کہ تمام فرقہ وارانہ، مذہبی منافرت، تکفیریت اور انتہاپسندی سمیت دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث کالعدم مذہبی گروہوں کی سرگرمیوں کو روکا جائے گا، ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، نیز صوبے بھر میں موجود کالعدم دہشتگرد گروہوں کی وال چاکنگ اور جھنڈوں سمیت پوسٹرز کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ شکارپور کے کسی ایک چوک کو شہدائے کربلا کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔ وصال اردو ٹی وی چینل جو کہ ایک تکفیری اور نفرت انگیز چینل ہے، جس کے ذریعے منافرت کی تعلیم دی جاتی ہے، اس کے حوالے سے ہمارا مطالبہ تسلیم کیا گیا کہ مذہبی منافرت میں ملوث وصال (اردو) ٹی وی چینل کو بند کرنے کے حوالے سے کارروائی کیلئے پیمرا کو خط ارسال کیا جائے گا، سندھ حکومت باقاعدہ طور پر پیمرا کو خط ارسال کریگی، نفرتوں کو پھیلانے والے، دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے والے، شرانگیز وصال ٹی وی چینل کی ہم اجازت نہیں دینگے۔ اگلا نکتہ یہ ہے کہ ماضی میں ملت جعفریہ پر ہونے والے دہشت گرد حملوں اور سانحات کی جے آئی ٹی انکوائری کی جائی گی اور عوام الناس کو دہشت گردوں کی سیاسی و مذہبی وابستگی سے آگاہ کیا جائے گا، یعنی بتایا جائے گا کہ ان دہشتگردوں کا سپورٹر کون ہے، کون ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

اگلا نکتہ ہے کہ Apex کمیٹی جس کی میں نے وضاحت کی تھی کہ جس میں پاک فوج کے کور کمانڈر، آئی ایس آئی کے ڈی جی، ایم آئی کے ڈی جی، رینجرز کے ڈی جی اور پولیس کے سربراہ شامل ہیں، انکے ذریعے کراچی اور صوبے بھر میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے تکفیری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔ شہر کراچی سمیت سندھ بھر میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے شہداء کے ورثاء کو مقرر کردہ معاوضے میں اضافہ کیا جائے گا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض نے بھی سانحہ شکارپور کے شہداء کیلئے فی کس دس دس لاکھ اور زخمیوں کیلئے فی کس پانچ پانچ روپے دینے کا اعلان کیا ہے، یہ سرکاری معاوضوں کے علاوہ ہوگا، جو چیکس کے ذریعے دیئے جاچکے ہیں۔ اگلا نکتہ یہ ہے کہ سانحہ شکارپور کے علاوہ دیگر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کا آغاز کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ صوبے میں موجود ازبک، چیچن، تاجک اور افغانوں سمیت دیگر غیر ملکی شہری جو دہشت گردی میں ملوث ہونگے، انکے خلاف آپریشن کیا جائے گا، کالعدم تکفیری دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے گی، جبکہ مشتبہ اور غیر ملکی بلادستاویز افراد کا داخلہ مقامی پولیس اسٹیشن میں درج کرنے کا عمل بھی یقینی بنایا جائے گا۔ اگلا نکتہ ہے کہ شہید مولانا شفقت عباس مطہری، جنہیں تین مہینے پہلے خانپور میں شہید کیا گیا تھا، ان کے ورثاء کیلئے سندھ حکومت نے 20 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔ اگلا نکتہ یہ ہے کہ سانحہ شکارپور دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ میں سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت فراہم کی جائے گی اور دہشت گردی کے نتیجے میں معذور ہونے والے افراد کو معذور افراد کے 5 فیصد سرکاری کوٹے کے تحت نوکری دی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: کراچی سمیت سندھ کی عوام کیجانب سے وارثان شہداء کے لانگ مارچ کا والہانہ استقبال دیکھنے میں آیا، کیا تاثرات ہیں آپکے اس حوالے سے۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
میں آپ کے ادارے کے توسط سے سندھ کی عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جنہوں نے جگہ جگہ وارثان شہداء کا تاریخی استقبال کیا، کراچی کے شہریوں کا بھی خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جنہوں نے وارثان شہداء کا شاندار استقبال کیا، علماء کرام اور مدارس کے طلباء کے بھی شکر گزار ہیں، جنہوں نے ہمارے حوصلے بلند کئے، علامہ شہنشاہ نقوی، علامہ حسن صلاح الدین، علامہ علی مرتضٰی زیدی، علامہ صادق تقوی و دیگر علماء کرام تشریف لائے، انکے علاوہ بھی نام ہیں، انکے بھی شکر گزار ہیں، اصغریہ کے دوستوں کا، آئی ایس او کے دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جنہوں نے ہمارے ساتھ مکمل تعاون کیا، تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے بھی شکر گزار ہیں، جنہوں نے جگہ جگہ استقبالیہ کیمپس لگا کر ہمارا پرتپاک استقبال کیا اور وارثان شہداء سے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا، میرے پاس شایانِ شان الفاظ نہیں ہیں کہ میں کس طرح شکریہ ادا کروں ناصر ملت حجت الاسلام حضرت علامہ ناصر عباس جعفری کا، اپنے بزرگ حضرت علامہ محمد امین شہیدی کا، اس کے ساتھ ساتھ مختار سندھ، سندھ کے مجاہد و مبارز عالم دین جنہوں نے ہمیں ہر لمحہ حوصلہ دیا، یقین جانیں کہ اگر وہ ساتھ نہ ہوتے تو ہم انتہائی تنہائی محسوس کرتے، ایک بڑے اور شفیق بھائی کی طرح ہمارے ساتھ رہے، ہم انکے احسان مند ہیں، علامہ مختار امامی صاحب جنہوں نے جگہ جگہ انتظامات کئے، ہم انشاءاللہ میدان عمل میں حاضر رہیں گے، جو مطالبات ہیں ان پر عمل درآمد کروائیں گے، اسی لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جس میں وارثان شہداء کی نمائندگی بھی ہے اور حکومت کی بھی نمائندگی ہے، جو ہفتہ وار مطالبات پر عمل درآمد پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لے گی، اگر کوئی رکاوٹ ہوگی تو اسے دور کریگی، انشاءاللہ وارثان شہداء اپنے اس مشن میں کامیاب ہونگے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کی قیادت شکارپور تا کراچی وارثان شہداء کمیٹی کے ساتھ نظر آئی، انکے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
مجلس وحدت مسلمین ملت جعفریہ پاکستان کی ایک نمائندہ جماعت ہے، جس کا وارثان شہداء کے لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنے کو کامیاب بنانے میں مجاہدانہ کردار رہا ہے، آپ نے دیکھا کہ کوئٹہ کے سانحے کے بعد جب ناصر ملت علامہ ناصر عباس جعفری نے ملک گیر احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا تو ظلم و بربریت کے خلاف ملک میں تاریخی دھرنا دیا گیا اور رئیسانی کی ظالم حکومت کا خاتمہ کیا گیا، اس بار بھی لبیک یاحسین لانگ مارچ میں مجلس وحدت مسلمین کا دامے، درہمے، سخنے، قدمے بھرپور تعاون رہا، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی قائدین سے لیکر کارکن تک تمام احباب ہمارے ساتھ رہے، جس پر ہم انکے بے حد شکر گزاز ہیں، خصوصاً ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مختار احمد امامی کے انتہائی شکر گزار ہیں۔

اسلام ٹائمز: ماضی کی طرح اب بھی چند حلقوں کی طرف سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا، قوم کو بیچ دیا گیا، آخر میں کیا کہنا چاہیں گے اس قسم کے پروپیگنڈے کے حوالے سے۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی:
دشمن چاہے اندر ہو یا باہر ہو، ہمیشہ ملت کی کامیابیوں کو ناکامیوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے ایسے نکات نکال کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جھوٹ کہتا ہے، الزامات لگاتا ہے، حوصلے پست کرنے کی کوشش کرتا ہے اور قومی یکجہتی و بیداری کی جو کیفیت پیدا ہوئی ہے، اسے خراب کیا جائے، ہمیں پتہ ہے کہ منفی پروپیگنڈے کے یہ سلسلے اب زیادہ تیزی سے شروع ہونگے، ہوسکتا ہے کہ بعض قلم فروش، بعض ضمیر فروش، بعض دین فروش، بعض قوم فروش، بعض بے ضمیر، جن کے اندر حمیت نہیں ہے اور ملت و قوم کا درد نہیں ہے، ایسے عناصر قومی درد کا لبادہ اوڑھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہداء کمیٹی نے سب کچھ بیچ دیا ہے، ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ ایسا ہوتا رہا ہے اور ہوسکتا ہے، ہم ان تمام صورتحال سے قوم کو آپ کے ادارے کے توسط سے پہلے ہی بتا رہے ہیں، ایسا ہوسکتا ہے کہ ایسا کہا جائے کہ فلاں شخص نے یہ کر دیا، فلاں شخص نے وہ کر دیا، قوم کو بہلا دیا، حاصل کچھ نہیں ہوا، نہیں، ہمیں ایسے کسی بھی پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونا ہے اور نہ ہی ان سازشیوں کو کامیاب ہونے دینا ہے۔ لہٰذا وارثان شہداء کمیٹی کے کامیاب لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنے کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے والے قوم فروش عناصر سے ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا۔ ہمارا اپنے خدا سے عہد تھا کہ جب تک شہداء کے خانوادے میدان میں رہیں گے، ہم ان کی پیٹھ مضبوط کرتے رہیں گے، اور جب وہ راضی ہونگے، تب ہم بھی راضی ہونگے، ہمارا اپنا یا کسی بھی تنظیم کا کوئی ذاتی ایجنڈا اور مطالبہ نہیں تھا، جو بھی مطالبہ اور ایجنڈا تھا، وہ شہداء کے خانوادوں کا تھا، اس لئے شہداء کی کمیٹی نے آزادی کے ساتھ، مشاورت کے ساتھ، باہمی یکسوئی اور یکجہتی کے ساتھ فیصلہ کیا اور ہمیں بھی اصل میں یہی چاہیئے تھا کہ قومی یکجہتی کا ایسا اظہار ہو کہ صرف شکارپور کے مسئلے میں نہیں بلکہ پاکستان میں جہاں کہیں پر بھی کسی بھی مظلوم کے خلاف دہشتگردی ہو، اس دہشتگردی کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت میں ہم کھڑے ہوں، اور یہ ایک مثال بن جائے۔ لہٰذا شہدائے شکارپور کے وارثان نے یہ عظیم مثال قائم کر دی ہے کہ جب شہداء کے وارثین میدان میں کھڑے ہو جاتے ہیں تو پھر پوری قوم ان کی پشت پر استقامت کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے، لہٰذا اس لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنے میں قوم نے یہ ثابت کر دیا۔ یہ ایک نیا مرحلہ ہے، اس کے بعد ملک کے جس حصے میں بھی کوئی ظلم ہوگا، ملک کے جس حصے میں بھی کسی بے گناہ کا خون بہے گا، انشاءاللہ تعالٰی ہم اسی طرح سے اس مظلوم کے ساتھ کھڑے بھی ہونگے اور اس مطلوم کی مدد میں اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 442254
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش