0
Friday 27 Feb 2015 01:26
اہلسنت کسی بھی مسلمہ اسلامی مکتب فکر کی تکفیر کی سختی سے مذمت کرتے ہیں

متشدد گروہ کے اہل تشیع کی تکفیر پر مبنی مؤقف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، صاحبزادہ عزیر محمود الازھری

دنیا بھر میں تمام متشدد گروہوں کے پیچھے، امریکا، اسرائیل، مغرب اور یہود و نصاریٰ ہیں
متشدد گروہ کے اہل تشیع کی تکفیر پر مبنی مؤقف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، صاحبزادہ عزیر محمود الازھری
صاحبزادہ عزیر محمود الازھری جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے صدر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر کے فرزند ہیں، آپ کا تعلق حیدر آباد سے ہے، آپ نے بنیادی اور ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد قبلہ شاہ مفتی محمد محمود الوری کی قائم کردہ درس گاہ رکن الاسلام جامعہ مجددیہ حیدرآباد سے حاصل کی، اس کے بعد آپ نے ایم فل تک تعلیم حاصل کی، آپ نے نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے عربی اور انگلش لینگویج کورس میں امتیازی نمبرز حاصل کرکے جامعة الازہر مصر کا اسکالر شپ حاصل کیا، جامعة الازہر مصر میں آپ نے عربی زبان میں مزید مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علماءکرام و مشائخ عظام سے علمی استفادہ حاصل کیا۔ 2011ء میں صاحبزادہ عزیر محمود الازھری نے مصر کا علمی و فکری دورہ کیا، جس میں جامعہ الازہر سمیت مختلف اہم مقامات پر آپ کے لیکچرز اور خطابات کا اہتمام کیا گیا۔ 10 دسمبر 2013ء کو جامعہ الازہر کی جانب سے باقاعدہ طور پر صاحبزادہ عزیر محمود الازھری کو سرکاری خط موصول ہوا، جس میں جامعہ الازہر مصر کی پاکستان میں شاخ کی منظوری دی گئی، جس کی ذمہ داری بطور رئیس آپ کو سونپی گئی۔ آپ کی سربراہی میں جامعہ الازہر مصر کے تعاون سے "رائز فاؤنڈیشن" کے نام سے اسکول قائم کیا گیا، جہاں کیمبرج سسٹم کے ساتھ ساتھ بیک وقت اخلاق و کردار کی تربیت عربی زبان میں میں بھی مہارت کے ساتھ فراہم کی جا رہی ہے، اور عربی زبان کے مختلف کورسز بھی کرائے جا رہے ہیں۔ اس وقت رکن الاسلام جامعہ مجددیہ حیدرآباد کی ملک بھر میں قائم درجنوں برانچیں بھی آپ کی زیر نگرانی علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے صاحبزادہ عزیر محمود الازھری کے ساتھ انکے دفتر میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستانی نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر کالعدم تنظیم اہلسنت والجماعت (کالعدم سپاہ صحابہ) کے سرپرست اعلٰی احمد لدھیانوی کو بلایا گیا، جنہوں نے مسلمہ اسلامی مکتب فکر اہل تشیع کی تکفیر پر مبنی گفتگو کی، جسکی مذمت کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل پاکستان نے بیان جاری کیا کہ کسی بھی مسلمہ اسلامی مکتب کی تکفیر جائز نہیں، عالم اسلام کے تمام ذمہ دار علماء اور دینی ادارے اہل تسنن اور اہل تشیع کے مسلمہ مکاتب فکر کو مسلمان قرار دے چکے ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
صاحبزادہ عزیر محمود الازھری:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ جیسا کہ آپ نے خود بھی ذکر کیا کہ ایک نیوز چینل پر ایک گروہ اور ایک فرقے نے ایک ایسی بہیودہ حرکت کرنے کی کوشش کی، مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے کی کوشش کی، فرقہ واریت کو پھر سے ہوا دینے کی ناپاک سازش کی، یہ ہر دور میں ہوتا رہتا ہے، ایسے گروہ موجود ہیں، جو متشدد ہیں، ایسے متشدد گروہ اسلام پسند اور امن پسند نہیں ہیں، یہ اسلام دوست نہیں بلکہ اسلام دشمن ہیں، ایسے متشدد گروہوں اور لوگوں کا درحقیقیت اسلام سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے دور دور تک، یہ طویل بحث ہو جائے گی کہ احادیث کیا ہیں، قرآن کیا کہتا ہے، اسلام کی صحیح صورت کیا ہے، اس وقت میں ان سب کی روشنی میں مختصر عرض کر رہا ہوں کہ ایسے متشدد گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے گروہوں کے جواب میں ہر شخص نے اپنا کردار ادا کرنا ہے، ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے سربراہ اور انکی پوری ٹیم جس میں تمام مسالک و مکاتب فکر کی دینی جماعتوں کے قائدین شامل ہیں، انہوں نے ذرائع ابلاغ میں حقائق کی نشرواشاعت کیلئے عالمی حیثیت کے حامل دو اہم اعلانات ”اعلان عمان“ اور ”اعلامیہ مکہ“ جاری کئے، اور اس کے ذریعے ذرائع ابلاغ میں ایک متشدد گروہ کی جانب سے پیش کئے گئے فرقہ وارانہ مؤقف کی نفی کی اور پاکستان فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کو ناکام بنایا، ہمارا میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ ملی یکجہتی کونسل اور اس جیسے دیگر ادارے ایسے مواقعوں پر اگر فوراً جواب نہ دیں، آگے نہ آئیں، فوراً فرقہ وارانہ سازشوں کی روک تھام نہ کریں تو ہمارے پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں کا بھی وہی حال ہوگا، جو اس وقت شام و عراق میں ہو رہا ہے۔

لہٰذا فرقہ واریت کو روکنے میں ملی یکجہتی کونسل کا بہت بڑا کردار ہے کہ اس حالیہ سازش کو کس طرح ناکام بنایا، میں نے اس مسئلے میں ان کے میڈیا کو جاری بیان کو پڑھا ہے، جس میں انہوں نے کہہ دیا کہ متشدد گروہ کا اہل تشیع کی تکفیر پر مبنی مؤقف پاکستان بھر کے اکابر و جید علماء و مفتیان کرام اور مشائخ عظام کے متفقہ مؤقف کی نفی پر مبنی ہے، ایسے متشدد مؤقف کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ایک تو تعلق نہیں ہے اور دوسری جانب آپ کے اپنے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے، جس میں سعودی عرب بھی شامل ہے، عمان بھی شامل ہے، جس میں ازہر شریف بھی شامل ہے، بڑے بڑے موقر ادارے، اگر ان کو نہیں مانو گے تو کس کو مان رہے ہو، ان سارے اداروں نے فتوے دی دیئے، وہ سارے فتوے ذرائع ابلاغ کو بھی جاری کر دیئے گئے ہیں کہ جس میں عالمی سطح کے جید علمائے کرام نے تمام شیعہ سنی مسلمہ مکاتب فکر کی تکفیر کو ناجائز قرار دے رکھا ہے، کسی ایک فرقے کے پیچھے پڑ جانا اس کو کافر قرار دینا، کافر قرار دیکر اس پر حملے کرنا ناجائز ہے، حرام ہے۔ اتنی بڑی بات، اتنا بڑا احسن قدم، تو ملی یکجہتی کونسل نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، اور ہمارا ادارہ بھی اسی فکر کے تحت کام کر رہا ہے کہ جب کوئی شخص خود عربی سیکھے گا، سمجھے گا، خود سمجھے گا قرآن و حدیث کو کہ قرآن و حدیث میں کہاں تشدد کی تعلیم دی ہے، کہاں انتہاپسندی کی تعلیم دی ہے، یہ کون لوگ ہیں جو تیار کرتے ہیں نوجوانوں کو دس دس، بیس بیس، پچیس پچیس سال کے نوجوانوں کو، پھر ان کو کہتے ہیں کہ بس اپنے آپ کو اڑاؤ اور جنت میں جاؤ، ہمیں بتایا جائے کہ یہ کہاں لکھا ہے، کس جگہ ہے، درحقیقت ایسے نوجوانوں کو دہشتگردی کیلئے تیار کرنے والے وہی لوگ ہیں جو قرآن و حدیث پڑھتے ہی نہیں، جو عربی زبان سے واقف ہی نہیں، اس کی لطافت سے واقف ہی نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایسے متشدد گروہوں کے پیچھے کون سے عناصر ہیں، کون انکو سپورٹ کرتا ہے۔؟
صاحبزادہ عزیر محمود الازھری:
درحقیقت ایسے تمام متشدد گروہوں کے پیچھے امریکا، اسرائیل ہیں، یہودی ہیں۔ اصل میں یہودی ہی وہ قوم ہے جو شروع سے تفرقہ پھیلانے کا کام کر رہی ہے، یہ مسلمانوں میں فرقے پیدا کرتا ہے، وہی فرقہ واریت کو سپورٹ کرتا ہے، وہی ساری پلاننگ کرتا ہے، اس پر عمل کرواتا ہے، یہودیوں کے پاس ساری اسٹراٹیجی ہیں، اس میں کوئی شک کی بات ہی نہیں ہے، سارے متشدد گروہ یہودیوں کا ساتھ دینے والے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر داعش ہو یا القاعدہ ہو، یا پھر پاکستان میں لشکر جھنگوی ہو یا طالبان، سب اہلسنت کا نام استعمال کرتے ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
صاحبزادہ عزیر محمود الازھری:
اہلسنت کسی بھی مسلمہ اسلامی مکتب فکر کی تکفیر کی سختی سے مذمت کرتے ہیں، دہشتگردی کرنے والے کسی بھی گروہ کا اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں، جب اہلسنت خود دہشتگردی کی مذمت کرتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خود دہشتگردی میں ملوث ہوں، بات وہی آجاتی ہے کہ ان تمام کے پیچھے یہودی سازش کارفرما ہے، یہ امریکا و مغرب کا ایک بہت بڑا جال ہے کہ کس کو بدنام کرنا ہے۔ آج تو دور ہی پروپیگنڈے کا ہے، آج تو دور ہی میڈیا کی جنگ کا ہے، جس انداز میں جس کو بدنام کرنا چاہیں، اس کے پیچھے پڑ جائیں، لہٰذا یہ تمام متشدد گروہ اہلسنت نہیں ہیں، یہ تمام یہودی نواز ہیں، اس طرح ایک تیر سے دو شکار کئے جا رہے ہیں، نوجوانوں کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے، علم سے دور کیا جا رہا ہے، تشدد پر اکسایا جا رہا ہے، نوجوان علمی انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں، اور اصل اہلسنت کو نام کے ذریعے برباد کیا، اس طرح سے سارے مسلمانوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، یہ ہے یہودیوں کی منصوبہ بندی، انکا دماغ۔ لہٰذا ایسے متشدد لوگوں کا تو کوئی دین و مذہب ہی نہیں ہے، جو شخص بچوں کو ذبح کر رہا ہو اور نعرہ لگا رہا ہو اللہ اکبر، یہ تعلیم کب اور کہاں اسلام نے دی ہے، ہمیں بتائیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ دنیا بھر میں ان تمام متشدد گروہوں کے پیچھے، امریکا، اسرائیل اور مغرب ہیں، یہود و نصاریٰ ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تکفیریت اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کو کیسے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔؟
صاحبزادہ عزیر محمود الازھری:
افکار کا درست کرنا ضروری ہے، اداروں میں ایسے اساتذہ، معلمین، خطیب رکھے جائیں جو معتدل ہوں، متشدد نہ ہوں، جو صحیح اسلامی فکر سے آراستہ ہوں، معاشرے کی باگ دوڑ ان کے ہاتھوں میں ہے جو آئمہ مساجد ہیں، جو خطباء ہیں، جو علماء ہیں، جو مدرسین ہیں، جو اساتذہ ہیں، جو معلمین ہیں، لیکن جب اداروں میں آپ نے ان جیسے متشدد ذہنیت کے افراد بٹھائے ہوئے ہیں، جو متشدد کام کر رہا ہے، مثلاً حکومتی اداروں میں، فوج، پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی اداروں میں آپ نے متعین کر دیا ایسا متشدد شخص، جو صاف کہہ رہا ہے کہ یہ فرقہ کافر ہے، اس کو مارو گے تو جنت میں جاوگے، تو تربیت کا سلسلہ تو آپ نے خود ایسے متشدد ذہنیت کے حامل لوگوں کے حوالے کیا ہوا ہے، تو عوام اور خواص خودبخود ایسے متشدد معلمین، خطیب حضرات سے، آئمہ سے۔ اس صورتحال کو کنٹرول کرنا ضروری ہے، ہم پتہ نہیں کن معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، جب تک نیچے سے اس مسئلے کو کنٹرول نہیں کرینگے، جو آپ کی جڑیں ہیں، خود مدارس میں آپ نے پڑھانے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، تو حالات کی بہتری، دہشتگردی و انتہاپسندی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے، آپ اوپری سطح پر کوشش کر رہے ہیں، لیکن جن کا عوام کے ساتھ براہ راست تعلق ہے، وہاں متشدد لوگ رکھے ہوئے ہیں، فوج کے اندر جہاد کا جذبہ رکھنے والا جا رہا ہے، لیکن وہاں اس جہاد کو غلط معنوں میں استعمال کروانے والے خطیب بھرتی کئے ہوئے ہیں، جب تک ریاستی اداروں کو، تعلیمی اداروں کو ایسے متشدد لوگوں سے پاک نہیں کیا جائے گا، ان کو ہٹا کر صحیح سمت میں معتدل علماء، خطیب، مدرسین، معلمین اساتذہ وغیرہ فوج سمیت ریاستی اداروں میں، تعلیمی اداروں میں نہیں لائے جائیں گے، جب تک کچھ بھی نہیں ہوسکتا، اسی پر سب کچھ منحصر ہے، اس پر عمل کر لیں سب کچھ صحیح ہوجائے گا۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی میں ملوث مدارس جو خود مدارس جیسی مقدس جگہ کیلئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، انکی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ کیا یہ خود مدارس کی تنظیموں کی ذمہ داری نہیں بنتی۔؟
صاحبزادہ عزیر محمود الازھری:
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، ظاہر سی بات ہے کہ عوام کی ذمہ داری نہیں ہے، اب ایک متشدد شخص مدرسہ کھول کر بیٹھا ہوا ہے، آپ اس سے بولیں کہ تم صحیح ہو جاو، وہ کیا صحیح ہوگا، وہ تو آپ کو بھی مار دے گا، وہ کہے گا اچھا تم مجھے صحیح کرنے کی بات کر رہے ہو۔ کیونکہ اس متشدد شخص کی تو پرورش ہی غلط انداز میں ہوئی ہے، وہ آپ کو کیا صحیح کریگا، بہرحال اس چیز کی روک تھام حکومت، اور ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے، انکا کام ہے، کوئی بے اختیار کیسے کریگا۔ آپ مجھے کہہ دیں کہ آپ سارے مدارس کو صحیح کر دیں، تو جب میرا ان سے تعلق ہی نہی ہے، جب میں ان کے آگے حجت ہی نہیں، میرا فیصلہ ان کے سامنے مانا ہی نہیں جاتا، چلتا ہی نہیں، تو میں کیا کرسکتا ہوں، لہٰذا وہی کریگا جس کی چلتی ہے، جو صاحب اختیار ہے، اب جس کے پاس اختیار ہے، طاقت ہے، جس کی چلتی ہے، تو وہ دیکھے کہ اگر یہ محبت سے سمجھ رہا ہے تو محبت سے سمجھا لو، اور اگر محبت سے نہیں سمجھ رہا تو بند کر دو اس مدرسے کو، تم بتاتے رہتے ہو، لیکن بند کیوں نہیں کرتے ہو۔
خبر کا کوڈ : 443523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش