0
Saturday 28 Feb 2015 14:26
سول انتظامیہ کو بااختیار بنانے تک حالات میں بہتری ممکن نہیں

جب اوپر سے حکم ملنا بند ہوگا تو شیعہ کیا، ہر قسم کی قتل و غارت بند ہوجائے گی، صدیق بلوچ

ظفراللہ جمالی کے سامنے بگٹی کو مارنے کا منصوبہ پیش ہوا تو اس نے استعفٰی دیدیا
جب اوپر سے حکم ملنا بند ہوگا تو شیعہ کیا، ہر قسم کی قتل و غارت بند ہوجائے گی، صدیق بلوچ
صدیق بلوچ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، صحافت کی دنیا میں ان کا ایک نمایاں نام ہے۔ وہ سی پی این آئی تنظیم کے نائب صدر ہیں، جس کے صدر مجیب الرحمن شامی ہیں۔ صدیق بلوچ صاحب سیفما بلوچستان چیپٹر کے انچارج ہیں۔ تیس سال ڈان کے ساتھ وابستہ رہے۔ اب اپنے دو اخبار بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی کوئٹہ نکال رہے ہیں۔ انکو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے پاکستانی سویلین ہیں، جو آرمی ایکٹ میں جیل کاٹ چکے ہیں۔ صدیق بلوچ کی بلوچستان کے حالات و واقعات اور تاریخ و جغرافیہ پر گہری نظر کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ بلوچستان کے موضوع پر سو صفحات پر مشتمل انکی خصوصی رپورٹ ڈیلی ڈان میں شائع ہوچکی ہے۔ جو کہ ڈیلی ڈان میں بیس، بیس صفحات پر مسلسل پانچ دن شائع ہوتی رہی۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ انکی تازہ ترین کتاب بلوچستان اکنامک کے نام سے منظرعام پر آئی ہے۔ صدیق بلوچ دنیا کے تیس مختلف ممالک کا بطور صحافی دورہ کرچکے ہیں اور گورنر بلوچستان کے پریس سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے بلوچستان کے حوالے سے صدیق بلوچ سے خصوصی ملاقات کا اہتمام کرکے ان سے گفتگو کی ہے۔ جو کہ قارئین کے خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے مسائل کی تصویر ہمیشہ مختلف صورت میں سامنے آتی ہے، آپ مسائل پر روشنی ڈالیں۔؟
صدیق بلوچ:
اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان سے باہر کے لوگوں کو نہ بلوچستان کے بارے میں زیادہ پتہ ہے اور نہ ہی وہاں کے مسائل کے بارے میں زیادہ علم رکھتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ہمیشہ ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے، جو حقائق کے برعکس ہوتی ہے۔ بذات خود یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ میڈیا کے ذریعے وہی کچھ پیش کیا جاتا ہے، جو اوپر سے بتایا جاتا ہے۔ بلوچستان کے حالات بہتر ہیں۔ یہاں کی طرح وہاں بھی مکس کمیونٹی ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ بلوچستان کے حوالے سے ہمیشہ پنجابی وغیرہ کی سکیورٹی کا مسئلہ بیان کیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف کوئٹہ شہر میں چھ سے سات لاکھ پنجابی رہتے ہیں۔ کیا اس سے میڈیا آگاہ کرتا ہے۔ البتہ کسی فرد واحد کی کسی مذموم حرکت یا جرم کی ذمہ داری کسی قوم پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ بطور قوم یا عوام منافرانہ سرگرمی کا حصہ نہیں ہیں۔ جیسے ملک کے باقی حصے کے عوام کی رائے ہے، ویسی ہی رائے بلوچستان کے شہریوں کی ہے۔ وہ بھی غلط کو غلط کہتے ہیں، ظلم کو ظلم سمجھتے ہیں، پورا معاشرہ ظلم کی مذمت کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ روز آپ نے اسلام آباد ہوٹل میں اپنی تقریر کے دوران متعدد مسائل کا ذمہ دار وفاق کو قرار دیا، حقیقت تو یہ بھی ہے کہ وفاق ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز فراہم کرتا ہے، اگر وہاں کے اراکین صوبائی اسمبلی ہی اس فنڈ کو ہڑپ کرجائیں تو اس میں وفاق کا کیا قصور۔۔؟
صدیق بلوچ:
لمبی سانس لیکر۔۔۔ معلوم نہیں آپ لوگوں تک ایسی باتیں کہاں سے پہنچ جاتی ہیں، جن کا وجود نہیں ہوتا۔ پنجاب کا اپنا بجٹ پانچ سو ارب کا ہے۔ چھ سو ارب اسے وفاق دیتا ہے۔ پانچ سو ارب عالمی برادری دیتی ہے۔ کل ملا کر سولہ سے سترہ سو ارب کا سالانہ بجٹ ہے۔ پنجاب کا وجود دیکھیں کتنا ہے۔ سب سے کم۔ بلوچستان آدھے پاکستان جتنے رقبے پر مشتمل ہے۔ ستر کی دھائی میں بلوچستان کا سالانہ بجٹ 8 کروڑ روپے تھا۔ اسی کی دھائی میں یہ بجٹ ایک ڈیڑھ ارب کا ہوا۔ نوے کی دھائی میں پانچ ارب اور اب خصوصی پیکج کو ملا کر کل بجٹ چالیس ارب روپے سالانہ ہوا ہے۔ کہاں سترہ سو ارب اور کہاں چالیس ارب۔ آدھے پاکستان جتنے رقبے کا ترقیاتی بجٹ سب سے چھوٹے صوبے کے نصف تو کم از کم ہونا چاہیے کہ نہیں۔ دراصل قانون یہ بنا دیا گیا ہے کہ لوگوں کو مت دو۔ لوگوں کی خدمت مت کرو۔ اگر لوگوں کا معیار زندگی بلند کرو گے، تو ماریں گے۔ بوگس ووٹ والے اسمبلی میں آتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ شریف آدمی بھی ہوگا، مگر زیادہ تر چور ہی آتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کی حالت یہ ہے کہ پچاس لاکھ کا فنڈ لیا، بیس لاکھ کا آگے ٹھیکہ دیا، باقی تیس لاکھ جیب میں رکھ لئے۔ حالت یہ ہے کہ اتنی بڑی گوادر پورٹ بن گئی ہے، مگر پورے شہر میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ تین ارب روپے کے فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے کہ سمندری کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کیا جائے گا۔ ایک گیلن پانی نہیں نکلا۔ اب بھی نیوی کے جہاز کراچی سے پانی لیکر گوادر پہنچاتے ہیں۔ جے یو آئی کے مولانا صاحب سے اربوں کی اس کرپشن کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا، کیونکہ وہ مولانا ہے، انہوں نے کلمہ پڑھ کر سب کھا لیا، ان پر سب حلال ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک مخصوص تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجہ وہاں کے نواب ہیں، جو نہیں چاہتے کہ لوگ تعلیم حاصل کرکے انکے سامنے کھڑے ہوں۔؟
صدیق بلوچ:
کمال ہے، اس دور میں کون ایسا شخص ہوگا، جو یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے علاقے میں تعلیم عام ہو۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو۔ نواب اکبر خان بگٹی سب سے بڑا سردار تھا۔ جسے مار دیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ سکولز و کالجز اس کے علاقے میں ہیں اور جتنے بھی وہاں سکولز، کالجز بنے ہیں، اس نے سب کی زمین سرکار کو مفت دی ہے۔ دوسرا بڑا سردار عطاء اللہ مینگل ہے۔ اس کے علاقے میں جتنے سرکاری دفاتر ہیں، ہسپتال ہیں، ڈسپنسریاں ہیں، سکولز ہیں۔ ان تمام کی زمین اس نے بھی گورنمنٹ کو مفت دی ہے۔ اب اس کی فیملی نے اپنے گھر کے پاس ایک انگلش ماڈل سکولز بنایا ہے۔ جدید ترین سہولتوں سے مزین ہے۔ اس میں کئی ہزار طلباء کی گنجائش ہے۔ یہ غلط ہے کہ بلوچستان کے لوگ تعلیم کے خلاف ہیں۔ سب کی خواہش ہے کہ یہاں تعلیم عام ہو۔ زمینیں تک مفت دیتے ہیں، اس سے بڑی اور کیا مثال دی جائے۔

اسلام ٹائمز: چلیں مان لیا کہ حکومتی رویہ بلوچستان کیساتھ امتیازی ہے، کیا پورے بلوچستان کیساتھ یہ رویہ روا ہے یا کسی مخصوص قوم، قبیلے کیخلاف روا رکھا گیا ہے۔؟
صدیق بلوچ:
پورے بلوچستان کے ساتھ ہی روا رکھا گیا ہے۔ البتہ پٹھانوں کے ساتھ سختی کم کی جاتی ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمین پانی نہ ہونے کے باعث بنجر پڑی ہوئی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ 1990ء میں نواز شریف نے دس ہزار کیوسک پانی کے پراجیکٹ کا آغاز کیا تھا۔ جس میں قریبی دریاؤں سے کینال کے ذریعے یہ پانی زمینوں تک پہنچانا تھا۔ 2015ء جاری ہے۔ آج تک کینال ہی نہیں بنایا ہے، تو پانی کہاں سے دے گا۔ پتہ نہیں کس نے یہ منفی سوچ ڈال دی ہے، ان کے دماغ میں کہ بلوچ خوشحال ہوں گے، تو اپنے حقوق کیلئے لڑیں گے۔ لہذا انہیں بھوکا رکھو۔ برٹش دور سے یہ سلوک جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بلوچستان کی آبادی کے توازن میں مصنوعی بگاڑ پیدا کرنے کی بھی کوئی کوشش ہوئی۔؟
صدیق بلوچ:
جی بالکل ہوئی، افغان مہاجرین کو وہاں باقاعدہ آباد کیا گیا۔ پنجاب سے ان کو شناختی کارڈز ایشو کئے گئے۔ اب وہ مستقل شہری بن چکے ہیں۔ صرف پندرہ سے سولہ لاکھ تو افغان مہاجرین ہیں، باقی اس کے علاوہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ فرماتے ہیں کہ وہاں سکون ہے مگر اندرون بلوچستان بھی نہیں بلکہ کوئٹہ شہر کے اندر تواتر کیساتھ شیعہ ہزارہ کی نسل کشی جاری ہے، اس میں کون سے عناصر ملوث ہیں۔؟
صدیق بلوچ:
یقین کریں یہ تو ہمیں بھی سمجھ نہیں کہ شیعہ کو کون مار رہا ہے، اور کیوں مار رہا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مارنے والے پکڑے کیوں نہیں جاتے۔ آپ معمولی سی چوری کرکے دیکھیں نا، آپ فوراً پکڑے جائیں گے۔ مگر اتنی بڑی کارروائیاں کرنے والے پکڑے نہیں جاتے۔ جس کو جتنی بڑی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، وہ اتنا ہی محفوظ رہتا ہے اور پکڑا نہیں جاتا۔ عام بلوچ نے شیعہ کو کیا مارنا ہے۔ اسے تو یہ معلوم بھی نہیں کہ شیعہ ہوتا کیا ہے۔ بلوچ عوام کا مسلکی تفریق میں کوئی حصہ نہیں ہے، اور نہ فرقہ واریت اس کے لئے کوئی ایشو ہے۔ عوام میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلوچ، پنجابی، پٹھان، شیعہ سنی، بریلوی، دیوبندی، سب مکس ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایسی کوئی بھی خبر جسکی تصدیق مشکل ہوتی ہے، بلوچستان سے ہی کیوں منسوب ہوتی ہے۔؟
صدیق بلوچ:
نیوز کے حوالے سے بلیک آؤٹ کیا گیا ہے۔ آئینی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کی مرضی کے خلاف کوئی خبر منظر عام پر نہیں آتی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بلوچستان میں بیس ممالک کی ایجنسیاں متحرک ہیں۔؟ انکے کیا مقاصد اور عزائم ہیں۔؟
صدیق بلوچ:
آئی جی ایف سی نے پریس کانفرنس میں یہ بات کہی تھی، میں نے تو ان کی خبر کو دوہرایا ہے۔ اب انکے عزائم و مقاصد کیا ہیں، یہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں، جنہوں نے خبر دی ہے۔

اسلام ٹائمز: آزاد بلوچستان کی افواہوں یا باتوں میں کتنی حقیقت ہے۔؟
صدیق بلوچ:
ہر معاشرے، شہر، صوبے میں عوام کی مختلف آراء ہوتی ہے، ایسے ہی یہ بھی ایک رائے ہے۔ کسی کی ہے، کسی کی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارت آزاد بلوچستان سے متعلق تنظیموں کو سپورٹ کر رہا ہے۔؟
صدیق بلوچ:
زمینی حقائق کی مدنظر رکھیں، تو اس کا اظہار نظر نہیں آتا۔ جیسے شام اور عراق میں بیرونی مداخلت جاری ہے۔ سب کو نظر آرہی ہے۔ اس طرح بلوچستان میں تنظیموں کی پشت پناہی کے حوالے سے وجود نظر نہیں آتا۔

اسلام ٹائمز: جن ملکوں کی سرحدیں بلوچستان سے ملتی ہیں، کیا انکے اثرات ہیں۔؟
صدیق بلوچ:
اثرات سے کیا مراد ہے۔ آمدروفت جاری ہے۔ افغانی بھی آتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ انفرادی کیس میں شائد وجود ہو۔ کوئی فٹ پرنٹ نہیں ملتے۔ جو معاملات چل رہے ہیں، ان میں افغان مسلح بھی آتے ہیں، ایران کی جانب سے راکٹ فائر بھی ہوتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہماری سرحد اتنی طویل ہے کہ اسے مکمل طور پر سیل کرنا مشکل ہے۔ ہم نے سرحد پر خندق کھودی ہے۔ کیا دہشتگرد خندق کھودنے سے رک جائیں گے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ آج تک گلگت بلتستان والے چیخ رہے ہیں کہ بھئی ہم کشمیر کے ساتھ نہیں، پاکستان میں شامل ہوئے تھے، مگر حکومت بضد ہے کہ نہیں تم کشمیر کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں بلوچستان میں بنیادی طور پر جنگ کس چیز کی ہے، وسائل کی ہے، روٹس کی ہے، مذہب کی ہے، کیا ہے۔؟
صدیق بلوچ:
بنیادی طور پر سکیورٹی کی جنگ جاری ہے۔ اگر پاکستان کو کچھ ہوگیا تو آدھا بلوچستان ایران لے جائے گا اور آدھا افغانستان لے جائے گا۔ بلوچوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر پاکستان کو کچھ ہوا تو سب سے زیادہ نقصان بلوچوں کا ہی ہوگا۔ مکران کی ساحلی پٹی میں امریکہ بیٹھا ہوا ہے۔ تین ہزار کلومیٹر کی طویل پٹی ہے۔ جس میں پچاس وار شپس اور دو ائیر فلیٹ کیرئیر موجود ہیں۔ اتنی بڑی مقدار میں فوج بٹھانے کا مقصد کوئی سو، دو سو کلومیٹر کے ٹکڑے کو اپنے تصرف میں رکھنے کا نہیں، بلکہ اس پوری ساحلی پٹی کو تصرف میں رکھنا مقصد ہے۔ پوری ساحلی پٹی میں یا امریکی موجود ہیں یا ان کے اتحادی، کسی چینی یا روسی جہاز کو آنے کی اجازت نہیں۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں امریکہ نے بلوچستان میں قونصل خانہ کھولنے کی خواہش ظاہر کی تھی، کیا یہ اسی کا حصہ تھی۔؟
صدیق بلوچ:
بلوچستان کانفلیکٹ زون ہے۔ کسی غیر ملکی کو آزادی حاصل نہیں ہے، آنے جانے کی۔ اندرون بلوچستان یا ساحلی علاقوں کی جانب جائے گا، گرفتار ہوجائے گا۔ امریکہ کا قونصل خانہ جب کراچی، پشاور، لاہور میں کھل سکتا ہے، تو کوئٹہ میں کیوں نہیں، کیونکہ جنگی زون بن چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: گوادر کو چین کے حوالے کرنے سے کیا پاکستان کی پوزیشن مضبوط نہیں ہوجاتی۔؟
صدیق بلوچ:
ہم دنیا کا ہر مشکل کام پٹھان کو دیتے ہیں، پہاڑ توڑنا ہو، پتھر توڑنا ہو، شپ بریکنگ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ چین انٹرنیشنل پٹھان ہے۔ کم ریٹ میں چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے۔ گوادر پہ شپ پوانٹس بنانے کے لئے دوسرے ممالک نے تین، چار ارب مانگے۔ چین نے وہی کام چالیس کروڑ میں کر دیا۔ چین گوادر میں دلچسپی رکھتا ہے، مگر سمندر میں اتنی بڑی فوج لے کر امریکہ اور اس کے اتحادی موجود ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ چین یہاں کیسے آسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بلوچستان لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہونیکی امید کی جاسکتی ہے۔؟
صدیق بلوچ:
سول اختیارات ملنے پر فوج، ایف سی، رینجرز اپنی من مانی کرتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ یہ کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ پولیس ہے، ایک تو اسے عوام، علاقے کے لوگ جانتے ہیں۔ اگر غلط کرے گی تو اسے جواب دینا پڑے گا۔ چنانچہ اس وقت تک لا اینڈ آرڈر کی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی، جب تک سویلین انتظامیہ کو بااختیار نہیں کیا جاتا۔

اسلام ٹائمز: آپکو شکایات فوج اور وفاق سے ہیں، مگر فوجی دور میں ہی وزارت عظمٰی بلوچستان کو ملی ہے، میر ظفر اللہ جمالی کی صورت میں۔؟
صدیق بلوچ:
جو اقتدار میں آتے ہیں، وہ چاہیے جتنے بھی غلط ہوں۔ انکے اپنے بندے ہوتے ہیں۔ حقیقی اور مخلص چاہے، جتنے بھی اچھے ہوں، وہ طاقت میں نہیں آسکتے، کیونکہ وہ ان کے اپنے نہیں ہوتے۔ وہی بات ہے، ہمارا کتا کتا، ان کا کتا ٹومی۔ پرویز مشرف نے جب بگٹی کو مارنے کا منصوبہ میر ظفراللہ جمالی کے سامنے پیش کیا، تو ظفر اللہ جمالی نے استعفٰی دیدیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ظفر اللہ جمالی کے مستعفی ہونے کی وجہ نواب اکبر بگٹی کو مارنے کا منصوبہ تھا۔

اسلام ٹائمز: مسائل کا حل کس چیز میں دیکھتے ہیں۔؟
صدیق بلوچ:
باقی صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی نارمل انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ سویلین نیٹ ورک سے زیادہ مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک نہیں ہوسکتا۔ اختیارات سول انتظامیہ کو منتقل ہونے چاہیے، فوج کو بیرکس میں اور ایف سی کو بارڈر پر جانا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: مدارس کی کیا پوزیشن ہے، اور دہشتگردی سے کتنا تعلق ہے۔؟
صدیق بلوچ:
ایک دم سے پانچ ہزار مدارس کی تعمیر ہوئی۔ جس میں ہر مدرسے کے اندر ہزاروں طالب علم ہیں۔ یہ مدارس ایسے ایسے علاقوں میں موجود ہیں، جہاں پینے کا پانی تک نہیں ہے۔ سوچیں کہ مدارس پر اتنی سرعت کے ساتھ ڈویلپمنٹ کیسے ہوسکتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مدارس جے یو آئی مولانا فضل الرحمن گروپ کے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شیعہ کی نسل کشی کے حوالے سے جو سانحات پیش آتے ہیں، کیا اس میں مدارس کا کوئی کردار ہے۔؟
صدیق بلوچ:
اوپر سے حکم ملتا ہے، مار دو، مار دیا جاتا ہے۔ جب اوپر سے حکم ملنا بند ہوجائے گا۔ شیعہ کیا، ہر قسم کی قتل و غارت گردی بند ہوجائے گی۔ اندازہ کریں، ایران سے زائرین کا ایک قافلہ آتا ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہے۔ وہ بارڈر کراس کرکے ایک چھوٹی سی آبادی میں رکتا ہے۔ جہاں میلوں دور دور تک نہ کوئی آبادی ہے نہ کوئی انسان۔ وہاں اس قافلے پر خودکش حملہ ہوجاتا ہے۔ راستے میں ان گنت چیک پوسٹیں ہیں۔ کون تھا، کہاں سے آیا، کیسے وہاں پہنچا۔ کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ اتنا شدید اور خوفناک دھماکہ تھا کہ میں نے پہلا سوال ہی یہی کیا کہ ان زائرین کا تعلق پارہ چنار سے تو نہیں ہے۔ جواب ملا، واقعی پارہ چنار اور اس کے ساتھ ملحقہ پٹی سے ہے۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ کیوں۔ مگر یہ سچ ہے کہ پارہ چنار والوں کو بہت خوفناک طریقے سے مارتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے، کچھ علم نہیں۔ عام آدمی سے زیادہ اس علاقے میں اٹیلی جنس والے گھومتے ہیں۔ جب میں جائے وقوعہ پر جا رہا تھا تو مجھے گیارہ جگہوں پر اتار کر میری تلاشی لی گئی۔ میں اناسی سال کا بڈھا، مجھے گیارہ مقامات پر اتار کے چیک کیا گیا۔ شناختی کارڈ دیکھے گئے۔ پاسپورٹ تک طلب کیا گیا۔ پاکستان کی حدود میں بھی پاسپورٹ مانگا گیا۔ اتنی سختی کے باوجود وہاں خودکش پہنچ گیا۔ جہاں تک اس کا پہنچنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔

اسلام ٹائمز: کیا کوئٹہ شوریٰ کا کوئی وجود ہے۔؟
صدیق بلوچ:
یہ یہیں کی خبریں ہیں۔ ہوائی باتیں ہیں۔ کوئی شوریٰ وغیرہ نہیں ہے۔ طالبان اور افغانی موجود ہیں مگر شوریٰ والی بات سچ نہیں۔ وہ آپ نے بات تو سنی ہوگی کہ کتا پٹہ چھڑا کے بھاگا ہے۔ یہ پہلے قابو میں تھے، ان کو پالا پوسا گیا، سدھایا گیا۔ اب پٹہ چھڑاکے بھاگے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری علاقے شہریوں کے حوالے کئے جائیں۔ پولیس کے نیٹ ورک کو مضبوط اور فعال بنایا جائے۔ پولیس، لیویز بلوچستان میں اندرونی امن کے لئے کافی ہیں۔ ایف سی، فوج کو بارڈر پر بھیجا جائے۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ مسنگ پرسنز سامنے لائیں جائیں، تو سو فیصد اس کے بہتر اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
خبر کا کوڈ : 443886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش