0
Tuesday 17 Mar 2015 19:25

پاکستان سمیت دنیا بھر سے تکفیریت کا خاتمہ شیعہ، سنی اتحاد میں ہے، علامہ حامد سعید کاظمی

پاکستان سمیت دنیا بھر سے تکفیریت کا خاتمہ شیعہ، سنی اتحاد میں ہے، علامہ حامد سعید کاظمی
اسلام ٹائمز۔ علامہ حامد سعید کاظمی 3 اکتوبر 1957 کو اولیاء اللہ کے شہر ملتان میں برصغیر کے معروف مذہبی گھرانے (کاظمی) میں پیدا ہوئے، علامہ حامد سعید کاظمی کے والد کا نام سید احمد سعید کاظمی تھا جنہیں غزالی زماں بھی کہا جاتا تھا، پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں وفاقی وزیر مذہبی اُمور رہ چکے ہیں، حامد سعید کاظمی نے 1985 میں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی، حامد سعید کاظمی شادی شدہ ہیں، آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ 2010 میں حامد سعید کاظمی سعودی عرب میں پاکستانی حاجیوں کی سہولیات کے سلسلے میں ایک بدنام بدعنوانی کے کیس کے اسکینڈل میں ملوث ہوئے۔ ان پر الزام عائد تھا کہ ایک بڑی رقم وصول کی گئی لیکن خوراک، وسائل اور رہائش کے انتہائی ناقص انتظامات تھے جس کے نتیجے میں اُنہیں 14 دسمبر 2010 کو عہدے سے برطرف کر کے گرفتار کر لیا گیا۔ گزشتہ روز ''اسلام ٹائمز'' نے ملتان میں اُن سے خصوصی گفتگو کیا جو قارئین کے پیش نظر ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان میں درود و سلام پر پابندی اور بے گناہ علماء کو گرفتار کرنے کے کیا مقاصد ہیں؟
علامہ حامد سعید کاظمی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، مسلم لیگ ن کی حکومت نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں پُرامن اور اہلسنت کے معتدل علمائے کرام کو بلاوجہ گرفتار کر رہی ہے۔ پاکستان میں درود و سلام پڑھنے والوں پر بے بنیاد مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان اوچھے ہتھکنڈوں کا مقصد اہلسنت اور اہل تشیع کو دیوار کے ساتھ لگانا اور تکفیری عناصر کو پاکستان میں مضبوط کرنا ہے۔ وفاقی حکومت دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ پشاور سے قوم کو کیا سبق حاصل کرنا چاہیے تھا اور قوم نے کیا سبق حاصل کیا ہے؟
علامہ حامد سعید کاظمی:
سانحہ پشاور انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ اس سانحے سے جو کچھ ہمیں حاصل کرنا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آ رہا، چاہیے تو یہ تھا کہ اس انسانیت سوز واقعے کے بعد پوری پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ حکومت اور مذہبی جماعتیں ایک پیج پر جمع ہوتیں اور ان قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان کرتیں لیکن دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ پاکستانی قوم اور پاک فوج ایک طرف ہیں جبکہ حکومت اور چند درباری لوگ دوسری طرف، صحیح معنوں میں اگر ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھیں تو اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں لیکن ہم ایک سانحے کے بعد دوسرے سانحے کے منتظر ہوتے ہیں اور ماضی کو فراموش کر دیتے ہیں، سانحہ پشاور میں شہید ہونے والوں کے ورثاء کے حوصلے اور استقامت کو سلام پیش کرتا ہوں، لیکن اگر ہم بطور پاکستانی ان شہداء کے ساتھ عہد وفا نبھانا چاہتے ہیں تو اس دہشت گردی کی جنگ میں ہمیں سینہ سپر ہونا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: ملک اس وقت دہشت گردی کے عفریت میں مبتلا ہے اور عوام کو دہشت گردی کا سامنا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دم سے کوئی بحران پیدا کر دیا جاتا ہے، کبھی پٹرول کا، کبھی بجلی کا اور کبھی گیس کا۔ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ دیکھتے ہیں؟
علامہ حامد سعید کاظمی: آپ نے ٹھیک کہا ان بحرانوں کے پیچھے کسی کا ہاتھ ضرور ہے ملک اس وقت سنگین حالات سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جو پٹرول بحران پیدا کیا گیا وہ چند عناصر نے موجودہ حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے پیدا کیا۔ پٹرول بحران کو سازش قرار دینا حکمرانوں کی کمزوری ہے۔ پاکستان میں نان ایشوز کو ایشوز بنایا جا رہا ہے۔ ملک میں جو بھی بحران پیدا کیے جاتے ہیں اُن کا مقصد عوام کو دہشت گردی کے ایشوز سے غافل کرنا ہے، بجائے اس کے کہ حکومت اپنی نااہلی اور ناکامی کا اعتراف کرے وہ پرائیویٹ اداروں اور کمپنیوں پر ڈال رہی ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ جو ادارے گزشتہ چھ مہینوں سے غیرفعال ہوں اُن پر الزام عائد کرنا درست ہے کیا؟

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ حالات میں حکومت اور فوج کو ایک پیج پر دیکھتے ہیں؟

علامہ حامد سعید کاظمی: میں پاک فوج اور عوام کو ایک پیج پر سمجھتا ہوں حکومت کو نہیں، وفاقی اور پنجاب حکومت دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا عزم تو رکھتی ہیں لیکن ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے سے کتراتی ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دہشت گرد گروہ داعش کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے، کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک کانفرنس کے دوران ایک مسلک کے خلاف نفرت آمیز نعرے لگائے گئے اور فرقہ واریت کو ہوا دی گئی، لیکن حکومت اُن دہشت گردوں اور اُن کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کرنے سے کترا رہی ہے، جن کو مخصوص عرب ممالک فنڈنگ کر رہے ہیں اس سے حکومت کا ہی نقصان ہے۔ اب عوام ان حکمرانوں کو معاف نہیں کرے گی۔ کیونکہ اگر اس آگ کو یہیں نہ روکا گیا تو کل یہ ہمارے دروازے پر بھی آپہنچے گی۔ میں خود اس دہشت گردی کا شکار ہوا مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، پاکستان میں ایک مخصوص ذہنیت ہے جس سے کسی ایک مسلک کو نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کو خطرہ ہے۔

اسلام ٹائمز: جو مدارس دہشت گردوں کی آماجگاہیں ہیں حکومت ان مدارس کے خلاف کاروائی کرنا چاہتی ہے، آپ کا کیا موقف ہے؟
علامہ حامد سعید کاظمی: جماعت اہلسنت پُرامن تنظیم ہے اور ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے اور پاک فوج کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ جماعت اہلسنت کے مدارس اور مساجد میں ایک بھی دہشت گرد نہیں، ہم ان کو کسی بھی وقت چیک کرنے کا چیلنج دیتے ہیں لیکن یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بعض مدارس کی کڑیاں دہشت گردوں کے ساتھ ملتی ہیں جن مدارس میں فرقہ واریت، تکفیریت اور مسلمانوں کو کافر کہنے کی تعلیم دی جاتی ہے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ یہ ایک سابق فوجی کی باقیات ہیں جو کبھی اس ملک میں امیر المومنین بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ ان دہشتگرد عناصر کی آماجگاہوں کے خلاف جتنی جلدی ہوسکے آپریشن کیا جائے تا کہ جو پُرامن مدارس ہیں اُن کو بدنام نہ کیا جائے۔ جو مدارس اپنے آڈٹ کرانے سے ڈرتے ہیں اپنا ریکارڈ حکومت کے حوالے کرنے سے ڈرتے ہیں وہیں کچھ مسئلہ ہے۔ لہذا حکومت ان کالی بھیڑوں کو علماء کی صف سے نکال باہر کرے۔ یہاں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ سائونڈ سسٹم آرڈیننس کی آڑ میں جماعت اہلسنت کے علمائے کرام جو درودسلام پڑھتے ہیں کو بلاجواز گرفتار کر کے مقدمات بنائے جا رہے ہین جس کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کا سیاسی تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے، جنوبی پنجاب میں پی پی پی کو کہاں دیکھتے ہیں؟
علامہ حامد سعید کاظمی: پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما مخدوم شہاب الدین کو جنوبی پنجاب کی صدارت سے ہٹانا ورکرز کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا، اس فیصلے پر کارکنان کے تحفظات ہیں، قائدین کو چاہیے کہ وہ کارکنان کو اعتماد لے کر کوئی فیصلہ کریں۔ مخدوم شہاب الدین پُرانے سیاسی ورکر ہیں اور اُن کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ میرے خیال میں جنوبی پنجاب میں مخدوم شہاب الدین پاکستان پیپلزپارٹی کو مضبوط کرنے میں زیادہ کردار ادا کرتے۔ پارٹی کے اندر اتنے مسائل نہیں جتنے بیان کیے جا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں پاکستانی پیلزپارٹی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: لاہور میں عیسائی برادری کی عبادتگاہ پر حملے اور اُس کے ردعمل کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
علامہ حامد سعید کاظمی: لاہور میں عیسائی برادری کے دو چرچوں پر حملہ کرنے والے وہی ہیں جو پہلے اہل تشیع اور اہلسنت کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ پاکستان میں عیسائی برادری ہمیشہ خاموش رہی ہے لیکن لاہور میں ہونے والے حملوں کے بعد ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کے حالات خراب کیے گئے جس کے اثرات دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کو بھگتنے پڑیں گے۔ پہلے دہشتگرد کہتے تھے شیعہ اس لیے نشانہ بنتے ہیں وہ سرعام مجالس اور جلوس نکالتے ہیں، اہلسنت میلاد النبی (ص) کی ریلیاں نکالتے ہیں، اس لیے اُن پر حملہ کرتے ہیں اب ان عیسائیوں پر کیوں حملہ کیا گیا وہ تو اپنی چاردیواری میں رہ کر عبادت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تکفیریت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
علامہ حامد سعید کاظمی: پاکستان سمیت دنیا بھر سے تکفیریت کا خاتمہ شیعہ سنی اتحاد میں ہے، کیونکہ ہمارا اتحاد ہی ان دہشتگردوں کی شکست ہے۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرے لیکن خدا کا شکر ہے ہمارے علماء اور اکابرین کی محنت ہے، جس کی وجہ سے ہمارا اتحاد روز بروز مضبوط ہو رہا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ حقیقی اہلسنت کی تنظیمیں جن میں سنی اتحاد کونسل، پاکستان سنی تحریک، جمعیت علمائے پاکستان اور دیگر جماعتوں کے اہل تشیع کی نمائندہ جماعتوں کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات ہیں۔
خبر کا کوڈ : 448110
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش