0
Saturday 28 Mar 2015 23:03

بھائی میجر گلفام حسین نے سجدہ کی حالت میں جام شہادت نوش کیا، شجاعت پر فخر ہے، کاشف حسین

بھائی میجر گلفام حسین نے سجدہ کی حالت میں جام شہادت نوش کیا، شجاعت پر فخر ہے، کاشف حسین
میجر گلفام حسین طوری کا بنیادی تعلق سرزمین شہداء پاراچنار کے علاقہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے تھا، آپ گذشتہ ہفتہ خیبر ایجنسی کے علاقہ تیراہ میں ملک و اسلام دشمن طالبان دہشتگردوں کیخلاف فوجی کارروائی کے دوران جام شہادت نوش کرگئے، میجر گلفام حسین طوری ایک نڈر، دیندار اور محب وطن فوجی آفیسر تھے، آپ نے پسماندگان میں چھ ماہ کا ایک بیٹا چھوڑا ہے، آپ کے ایک بھائی ایس ایس جی کمانڈو بھی ہیں، جبکہ دوسرے بھائی کاشف حسین طوری طالب علم ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ملک و قوم کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے میجر گلفام حسین طوری شہید کے بھائی کاشف حسین طوری کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے، واضح رہے کہ کاشف حسین پاراچنار کے نوجوانوں کی ایک تنظیم یوتھ آف پاراچنار کے چیئرمین بھی ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ لوگوں کو گلفام حسین کی شہادت کی اطلاع کب پہنچی اور اس موقع پر خاندان کے افراد کے کیا جذبات تھے۔؟
کاشف حسین طوری:
جب مجھے اطلاع ملی تو ہم نے امی ابو کو پاراچنار جانے کی درخواست کی، اور میں نے کہا کہ میں پشاور جاتا ہوں، تاکہ وہاں سے ان کی میت وصول کریں اور پھر وہاں سے پاراچنار پہنچیں۔ امی ابو کو تو اس وقت کچھ نہیں معلوم تھا، وہ گھبرا گئے تھے، ابو مریض بھی ہیں، تاہم انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ کچھ نک کچھ گڑبڑ ہے، پھر میرے ماموں نے مجھے کال کی کہ سب پشاور آجائیں کیونکہ ابھی کنفرم نہیں ہوا تھا کہ ان کی شہادت ہوگئی ہے، پھر ہم سی ایم ایچ پشاور پہنچے اور وہاں سے کنفرم کرنے کی کوشش کی، سی ایم ایچ والوں نے کہا کہ ہمیں ابھی ایسی کوئی نیوز نہیں ملی کہ آیا ان کی شہادت ہوئی ہے یا نہیں تاہم اتنا ہم بتاسکتے ہیں کہ وہ زخمی ہیں۔ اسی صورتحال میں رات گزر گئی، صبح بھی ہمیں معلوم نہیں ہوسکا، سہ پہر 4 بجے کے قریب مجھے ایک دوست نے فون کیا کہ گلفام بھائی کی شہادت ہوگئی ہے، وہاں پر شدید لڑائی جاری ہے، ان کی باڈی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ پہنچا دیا جائے گا۔ اس کے بعد ابو اور امی کو شہادت کا پتہ چلا، ظاہر سی بات ہے کہ یہ لمحہ تکلیف دہ ہوتا ہے، 32 سال کا جوان بیٹا شہید ہو تو یہ ماں باپ کیلئے ناقابل برداشت ہوتا ہے، گلفام بھائی ابو کے بہت قریبی دوست تھے، وہ ان کے ساتھ ہر بات شیئر کرتے تھے، اور ابو بھی ان کو ہر بات بتاتے تھے، جو بھی تکلیف کی بات ہوتی تھی وہ امی کو بھی بتاتے تھے، اور امی بھی ان سے باتیں کرتی تھیں۔ انہوں نے کبھی بھی اونچی آواز میں کسی سے بات نہیں کی، رات نو بجے کے قریب ہمیں بتایا گیا کہ ان  کی میت سی ایم ایچ پہنچ گئی ہے، پھر ان کی میت کو پاراچنار پہنچایا گیا۔

اسلام ٹائمز: شہید گلفام حسین کو بحیثیت بھائی آپ نے کیسا پایا، وہ پاک فوج کے آفیسر بھی تھے، اس حوالے سے ان کا قومی جذبہ کیساتھ تھا۔؟
کاشف حسین طوری:
ہم ماشاء اللہ چھ بھائی اور ایک بہن ہیں، ہم سب کا مذہب سے اس قدر لگاو ہے کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے، ہماری امی نے ہمیں شہادت کا درس دیا ہے، ہر مجلس میں جانا، ہر مذہبی پروگرام میں شرکت کرنا، یہ سلسلہ شروع سے ہی تھا۔ گلفام بھائی کی شروع دن سے ہی خواہش تھی کہ میں نے آرمی آفیسر بننا ہے، جب ان کی پاسنگ آوٹ پریڈ ہوئی تو پورا خاندان وہ دیکھنے گیا، وہ باکسنگ میں بھی گولڈ میڈلسٹ ہیں، ان کی پوسٹنگ سیالکوٹ کی طرف ہوئی، اس کے بعد پاراچنار کی طرف آئے، 2007ء میں جب پاراچنار میں طالبان کیساتھ لڑائی ہوئی تو وہ اس میں زخمی ہوگئے تھے، اس کے بعد انہیں وانا شفٹ کیا گیا، وانا میں یہ جی او سی کیساتھ تھے۔ جب بھی کہیں آپریشن ہوتا تھا تو یہ جنرل کیساتھ ہیلی کاپٹر میں جاتے تھے، اور واپس آکر رپورٹ بناتے تھے، ان کی ذمہ داری یہ تھی۔ ایک دن جیسے ہی جنرل نے کہا کہ تیار ہوجاو ہم نے یہ دیکھنے جانا ہے کہ واقعی آپریشن اچھا ہوا۔؟ جیسے ہی یہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھے تو کرنل آیا اور کہا کہ بیٹا آج آپ نہ جاو میں جاتا ہوں۔ وہ پھر نہیں گئے، جب وہ ہیلی کاپٹر اڑتا ہے تو اسے حادثہ پیش آجاتا ہے اور اس ہیلی کاپٹر میں موجود جنرل، کرنل اور پائلٹ شہید ہوجاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک علاقہ ہے جسے ہم طور درہ کہتے ہیں، وہاں پر انہوں نے تن تنہا پورا مورچہ سنبھالا تھا، وہاں انہوں نے چار روز تک لڑائی کی اور زخمی بھی ہوئے، وہ اب بی اکثر بیان کرتے تھے کہ اس مورچے کو میں نے اکیلے سنبھالا ہوا تھا، وہاں طالبان بار بار حملہ کرتے تھے۔ جب بھی ان سے کوئی بات کرتا تھا تو یہ کہتے تھے کہ خدا خیر کرے گا، جب کبھی مجھے دوست کال کرتے تھے کہ آپ کا بھائی میجر ہے اور یہ کام کروانا ہے، میں انہیں کہتا تھا کہ یہ نمبر لو اور بات کرلو۔ پھر دوست تھوڑی دیر بعد کال کرتے تھے کہ میرا کام ہوگیا ہے، ان (گلفام حسین) کی طرف سے مجھے کال نہیں آتی تھی۔ جب یہ شہید ہوئے تو ان کیساتھ ان کے یونٹ کے دوست بھی تھے، ان کا کہنا تھا کہ یہ آفیسر کم اور دوست زیادہ تھے، حال ہی میں شادی کے ساڑھے چھ سال بعد ان کا بیٹا پیدا ہوا تھا، صرف دو راتیں بیٹے کیساتھ گذاریں اور پھر آپریشن پر چلے گئے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی والدہ اور بھابھی نے اس صدمہ کو کس طریقہ سے برداشت کیا، اور ان کے جذبات کیسے ہیں۔؟
کاشف حسین طوری:
ایک غم اور صدمہ ہے، وہ برداشت تو نہیں کر پارہیں، میں خاندان کے تاثرات بتا رہا ہوں، مجھ سے چھوٹا بھائی ایس ایس جی کمانڈو ہے، ہم تینوں میں یہ بات ہوتی تھی کہ اس ملک اور دین کی خاطر ہم میں سب سے پہلے کون شہید ہوگا، گلفام بھائی پہلے شہید ہوگئے اور اب ہم باقی ہیں۔ بھابھی نے کہا کہ میرے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ میں شہید کی بیوی ہوں۔ جس جگہ بھائی کی شہادت ہوئی وہ افغانستان کے بارڈر پر واقع علاقہ ہے، وہ وائرلس پر یہ چیلنج دیتے تھے کہ پاک آرمی ہم سے یہ علاقہ حاصل نہیں کرسکتی، باقی افیسرز نے کہا کہ جب تک فضائی حملہ نہ ہو ہم اس علاقہ کو کلیئر نہیں کرسکتے، لیکن بھائی نے کہا کہ میں کرتا ہوں، تین سو کے لگ بھگ نفری جس میں کرنل اور کیپٹن بھی شامل تھے، لیکر انہوں نے پہلے پوائنٹ کو حاصل کیا، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بارودی سرنگیں ناکارہ بنائیں، منگل باغ کے طالبان نے دوسرے پوائنٹ کو چھوڑ دیا او سرنگوں میں داخل ہوگئے تاکہ جب وہ دوسرے پوائنٹ کی طرف آئیں اور یہ سوچیں کہ وہ یہاں سے چلے گئے ہیں۔ اور جب یہ یہاں آئیں گے تو ہم ان پر حملہ کردیں گے۔ بھائی دوسرے پوائنٹ کی طرف چلے گئے اور دیکھا کہ یہاں کوئی دہشتگرد نہیں ہے، جب بھائی تیسرے پوائنٹ کی طرف جانے لگے تو طالبان دوسرے پوائنٹ کی طرف آگئے اور چاروں طرف سے انہیں گھیر لیا۔

بھائی نے تیسرے پوائنٹ پر پہنچ کر جھنڈا لگا دیا اور جنرل کو پیغام دیدیا کہ ہم نے یہ علاقہ طالبان کے قبضہ سے چھین لیا ہے، ہم پر شیلنگ ہورہی ہے آپ پہلے پوائنٹ کی طرف پیش قدمی کریں، چار دن تک بھائی اسی پوائنٹ پر لڑتے رہے، ان کے پاس اسلحہ بھی ختم ہوگیا تھا، ان کو سنائپر کیساتھ سینے پر گولی لگی، انہوں نے پہلے زمین پر ہاتھ رکھے، پھر گھٹنے رکھے، اور پھر سجدے کی شکل میں قبلہ کی طرف منہ کیا، جیسے یہ سجدہ بجالائے تو اس وقت ان کیساتھ موجود ایک سپاہی کہتا ہے کہ جب میں رینگتے ہوئے ان تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ مجھے ایک ہستی نظر آرہی، اور وہ مجھے بار بار بلا رہی ہے، اور میں اس کے پاس جارہا ہوں۔ وہ سپاہی کہتا ہے کہ پھر میں رینگتا ہوا پہلے پوائنٹ کی طرف آیا، پھر جب بعد میں ہم تیسرے پوائنٹ پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ بھائی کیساتھ موجود سپاہیوں کے سر قلم کردیئے گئے تھے، 20 مارچ کو صبح چھ بجے بھائی کی شہادت ہوئی تھی، اور جب سپاہی 22 مارچ کی صبح بھائی کے پاس پہنچے تو وہ اسی طرح سجدے کی صورت میں موجود تھے، وہ کہتے ہیں کہ جب بھائی کو سیدھا کیا تو ان کے سینے سے تازہ خون رس رہا تھا، جیسے انہیں ابھی گولی لگی ہو۔

اسلام ٹائمز: ایک شہید کے بھائی کی حیثیت سے ہمارے توسط سے قوم کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔؟
کاشف حسین طوری:
مجھے فخر ہے کہ میرے بھائی نے ایک عظیم مشن کی خاطر سجدہ میں جام شہادت نوش کیا، وہ امام علی (ع) کی سیرت پر چلے اور اگر شہادت پائی تو امام حسین (ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سجدے میں۔ طالبان دشمن ان کی شہادت کے بعد بھی ان سے خوف کھا رہے تھے، قوم کو میں یہ کہوں گا کہ شہادت ہماری میراث ہے، اور اسے ہماری ماوں نے دودھ میں پلایا ہے، ملک، قوم اور دین کی خاطر اگر ہم باقی بھائیوں کی جانیں بھی چلی جائیں تو ہمیں کوئی پروا نہیں، گلفام بھائی نے تو اپنا منصب پالیا، اب ہماری باری ہے، وقت آنے پر ہم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، اور ملک و قوم اور دین کی خاطر ہماری جان حاضر ہے، ہم دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹے رہیں گے، یہ طالبان اور تکفیری خوارج ہیں، ہم ان کا مقابلہ کریں گے اور ملک سے ان کا صفایا کرکے دم لیں گے۔ اس ملک کو امن اور محبت کا گہوارہ بنائیں گے تاکہ کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کے لاشے پر نہ روے۔
خبر کا کوڈ : 450465
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش