0
Monday 30 Mar 2015 19:52
شام مغربی طاقتوں کا قبرستان ثابت ہوا

عرب دنیا یمن کیساتھ جنگ کرکے امریکہ کو خطے میں رہنے کا جواز نہ دیں، عبداللہ گل

عرب دنیا یمن کیساتھ جنگ کرکے امریکہ کو خطے میں رہنے کا جواز نہ دیں، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبد اللہ گل اس وقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اس کے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقائی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جس کا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبداللہ گل کے مطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اس کے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جس کا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اس وقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر ان کے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے یمن کی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: یمن کی صورتحال پر وزیراعظم ہاوس میں ہونے والی ہنگامی میٹنگ اور سعودی درخواست پر کیا جانے والا فیصلہ، اس پر کیا کہیں گے؟۔
عبداللہ گل: دیکھیں مشرق وسطیٰ میں کافی عرصے سے ایک کشمکش جاری تھی، اس ساری صورتحال میں قطر اپنے آپ کو کچھ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ بھی اسلامی دنیا میں کچھ ہے۔ قطر کے موجود امیر تمیمی کے والد شیخ حمد صاحب اپنے آپ کو منوایا بھی، آپ دیکھیں کہ الجزیرہ کو ایسے وقت میں لانچ کیا گیا جب مشرق سطیٰ میں جنگ اپنے عروج پر تھی، عراق میں جنگ شروع ہو گئی تھی، امریکی فورسز عراق میں گھسنے والی تھیں، اس دوران الجزیرہ نے بہترین رپورٹنگ کی، حتیٰ الجزیرہ نے دیگر ملکوں میں بھی زبردست رپورٹنگ کی۔ الجزیرہ امریکن بیسڈ ہے، اس دوران قطر نے اپنے آپ کو ثابت کیا کہ وہ بھی مشرق وسطیٰ میں ایک اہم ملک ہے، پیسے کیساتھ ان میں ویژن بھی آگیا، بیگم شیخ آموزہ نے ایک ایجوکیشن سٹی قائم کردیا، اس سے اندازہ لگائیں کہ 2022ء میں فٹ بال المپکس قطر میں ہونی ہے۔ دوسری طرف آپ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ قطر کے امیر نے اچانک تبدیلیاں شروع کردیں، الجزیرہ میں تبدیلی کرڈالی، قطر سعودی عرب کو چیلنج کر رہا تھا، اچانک پرانی ڈگر پر آگیا، شیخ حمد نے اچانک اقتدار اپنے صاحزادے شیخ تمیم کو سونپ دیا۔ 

23 مارچ کی اگلی صبح یعنی 24 مارچ کو امیر قطر شیخ تمیم اچانک پاکستان کے دورے پر پہنچ گئے اور وزیراعظم نواز شریف نے خود ان کا استقبال کیا۔ حالانکہ اگر انہوں نے آنا تھا تو وہ پریڈ والے دن آتے تاکہ انہیں مہمان کے طور پریڈ میں شامل کیا جاتا۔ یہاں قطر کا کوئی سفیر بھی نہیں ہے، ڈپٹی ایمبسیڈر کی موجودگی میں امیر قطر کا پاکستان میں آنا یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آئی، میرے خیال میں یہ جلدی میں پلان ہوا ہے اور اس میں کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ کچھ قیاس آرائیاں ہیں کہ امیر قطر عرب دنیا کا پیغام پر لے کر آئےکہ پاکستان ہمارے پلان کو جوائن کرے۔ اس سے پہلے مارچ کے اولائل میں میاں صاحب خود اچانک سعودی عرب دورے پر چلے گئے اور وہاں انہیں بہت پروٹو کول دیا گیا اور خود شاہ سلمان انہیں ائیرپورٹ پر لینے آئے۔ ترک صدر جو سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہے اور قطر جو اپنی طاقت شو کررہا تھا انہوں نے سعودی عرب کو بڑا بھائی تسلیم کرلیا ہے۔ پاکستان کیلئے یہاں ہونا ضرور ی تھا۔ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار دیا جائے، جس طرح پاکستان دہشتگردی کیخلاف فرنٹ لائن اتحادی بنا اسی طرح وہ اسے ایک کردار دینا چاہتے ہیں۔

اب ایک طرف ایران کا بارڈر ہے، دوسرا شام میں ایران کو ایک بہت بڑی کامیابی ملی، یہ بات بھی درست ہے کہ بشار الاسد نے بھی شام کے اندر اپنے عوام پر بہت مظالم ڈھائے، حقیقت یہ ہے کہ شام مغربی طاقتوں کیلئے قبرستان ثابت ہوا، شام کے اندر مغربی ممالک کی شکست سے ایران کو بہت تقویت ملی، بالخصوص قدس فورس کے کمانڈر جنرل سلیمانی کے بارے میں مغربی میڈیا میں شیڈو کمانڈر اور اچھے اچھے آرٹیکل لکھے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ ایران مغرب کیساتھ اپنی شرائط پر معاملات سیدھے کر رہا ہے۔ اب جان کیری کہتے ہیں کہ ہم شام کیساتھ بات چیت کریں گے۔ عرب سنہ اور شام کے معاملات نے فرقہ واریت کا ہوا دی ہے، اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب داعش کے تین تین کلو میٹر عراق میں کاروان چلتے ہیں اس وقت امریکہ کے ڈرون کہاں سو جاتے ہیں، اس وقت انہیں کیوں نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اس وقت سیٹلائٹ تصویریں کیوں نہیں لیتیں، جب وہ فلوجہ سے نکلے تو پیچھے دو بلین ڈالر وہاں بینک چھوڑ دیئے گئے، اسلحہ ہے تو وہ بھی داعش کے پاس پہنچ گیا۔ اسی دوران آئل ٹریڈ بھی ہوتا رہا۔ امریکہ کو نہیں معلوم تھا کہ داعش آئل کا ٹریڈ کر رہی ہے، اس کے علاوہ کیا امریکہ نہیں جانتا کہ داعش کس کو تیل دیکر ریونیو بڑھا رہی ہے۔ یہ ساری باتیں ہیں، ہم کوئی بچے تھوڑی ہیں کہ ہمیں کچھ معلو م نہیں۔ ادھرے مہدی ملیشیا نے بھرپور کردار ادا کیا اور داعش کو چلینج کردیا ہے۔ یہ آگ پورے خطے کو اپنی لیپٹ رہی ہے۔ ایک وقت میں جب نیتن یاہو ہار رہا تھا وہ براہ راست امریکہ جاتا ہے اور وہاں ون ٹو ون چیلنج کر دیتا ہے۔ اب دونوں ایک دوسرے سامنے آگئے ہیں۔ اب اگر اوباما یہ کہہ دے کہ ہمیں نیوکلئیر فری مشرق سطیٰ چاہیے تو پھر اسرائیل کا کیا بنے۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں ایسا کچھ ہوگا۔ تکریت پر اگر داعش کیخلاف کامیابی ملتی ہے تو پھر موصل کا شہر بچتا ہے،، تکریت داعش کی فرنٹ لائن ہے۔ اس وقت اسرائیل کی ایک سازش چل رہی ہے کہ مڈل ایسٹ کے اندر لسانی اور فرقہ واریت کی بنیادوں پر تقسیم ڈالے تاکہ وہ محفوظ رہ سکے۔

اسلام ٹائمزـ : سعودی عرب عالم اسلام کا اہم ملک ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ شام اور عراق میں بھی عوام مخالف اقدامات میں ملوث رہا ہے اور مصر میں بھی اخوان المسلمون کی حکومت کا ختم کرا دیتا ہے۔ داعش کے معاملے پر سعودی عرب نے کوئی کارروائی نہیں کی اور عرب دنیا کا اتحاد قائم کیا، آپ کی نظر میں یہ ہو کیا رہا ہے؟۔
عبداللہ گل: دیکھیں سعودی عرب کے یمن کیساتھ اٹھارہ سو کلومیٹر لمبا بارڈر ہے، سعودی عرب کے یمن سے آج سے نہیں پرانے تعلقات ہیں۔ وہاں سے شادیاں ہوتی ہیں، رشتہ داریاں ہوتی ہیں، قبائلی نظام ہے۔ انیس سو نوے سے لیکر دو ہزار گیارہ تک عبداللہ صالح کی حکومت رہی، اس کے بعد ان کے ہادی جب اقتدار آیا تو معاملات خراب ہوگئے، حوثی یہی تو کہتے تھے کہ آپ نے اکیس سال تک حکومت کی، اس کے بعد آپ نے یمن کے چھے حصے کر ڈالےچار حصہ سنی کے اور دو حصے شیعہ کے کر ڈالے وہ انہیں قبول نہیں تھے۔ مغرب کے فارملے یمن میں قبول نہیں تھے، یہ جانتے ہوئے کہ وہاں پر القاعدہ مضوط ہے دیگر قبائل مضبوط ہیں۔ جہادی گروپ تب تقویت پکڑتے ہیں جب انہیں پتہ چلے یہاں شیعہ سنی کا مسئلہ درپیش ہے۔ خود ہادی صاحب نکل کر سعودی عرب پہنچ گئے ہیں، اس عمل سے انہیں وہاں یمن میں سرکاری سطح پر ہونے والی سپورٹ بھی ختم ہو جائیگی۔ وہ کہیں گے کہ انہوں نے کوئی ڈیل کرلی ہے، قبائل میں ان چیزوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں نہ او آئی سی کا اجلا س بلایا گیا، نہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا، نہ ہی گلف ممالک کا اجلاس ہوا، اچانک دس ممالک کا اتحاد سامنے آتا ہے اور سو سو جہاز یمن پر بمباری شروع کردیتے ہیں۔ یہ معاملات آگ کی طرف لے جارہے ہیں۔ یہ ممالک نہیں جانتے کہ امریکہ اس خطے سے جانا چاہتا ہے لیکن اسرائیل اسے پھنسانہ چاہتا ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب سے تھوڑا سا ہاتھ کیچھ لینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو اس صورتحال میں کیا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ آیا اس جنگ کا حصہ بن جائے یا مصالحتی کردار ادا کرے؟۔
عبداللہ گل: اس سے پہلے آپ زرا ترکی کے صدر کا بیان پڑھیں جس نے کہا ہے کہ ایران اپنی حدود پھلانگ رہا ہے اسے لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین کے نمائندے فیڈرک نے کہا ہے کہ ان مماملات میں حوصلے سے کام لینا چاہیئے، فضائی کارروائی سے سوائے خون خرابے کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہونگے۔ اب پاکستان کا کردار اس لئے بھی بنتا ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف ایک اعلٰی و عرفہ کردار اداکیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستان کو اپنے معاملات نمٹانے چاہیئے، پاکستانی فوج اس وقت فاٹا میں بڑی جنگ لڑ رہی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ انڈیا کے باڈر پر ٹیشن ہے، کشمیر میں صورتحال خراب ہے، کراچی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں حالات خراب ہیں، اس کے علاوہ فوج ملک کے اندر جو شہر شہر میں فرائض انجام دے رہی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کو سعودی جنگ میں کودنا چاہیئے۔ میں اس عمل کی شدید مخالفت کر رہا ہوں۔ وہاں کے معاملات ان ممالک کی مرضی کے مطابق حل ہونے چاہیے۔ میں ایران سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ کئی محاذ نہ کھولے وہ پہلے ہی عراق اور شام کے اندر مماملات سے نمٹ رہے ہیں۔ مجھے ان معاملات میں بھی امریکہ نظر آتا ہے، امریکہ کے ایران کے ساتھ نیو کلئیر ڈیل پر معاملات چل رہے ہیں اور ایران بہتر پوزیشن پر ہے اس لئے امریکہ نے نیا محاذ کھلاوا کر ایران کو اپنی مرضی کے مطابق یعنی کچھ دے اور کچھ لے کی پالیسی پر لانا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران کہتا ہے کہ یمن میں مذاکرات سے مسائل حل ہونے چاہیئے، جنگ سے خون خراب ہوگا معاملات حل نہیں ہونگے۔
عبداللہ گل: میں نے تو کہا نا کہ اس سے القاعدہ کو تقویت ملے گی۔ اور پھر وہاں سے جہادی اُمڈ اُمڈ کر آپ کی طرف آئیں گے۔ اگر داعش تکریت سے شکست کھا کر بھاگے گی تو کہاں جائیگی یقیناً یمن میں جائیگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان دیکھ بھال کر قدم اٹھاے، ابھی سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدیں پائمال نہیں ہوئیں، آپ تیل دیکھیں اور اس کی دھار دیکھیں۔ صبر سے کام لیں۔ اتنی جلدی پر کوئی فیصلہ نہ کریں، یہی امریکہ جب ہمارے ملک میں ڈرون حملے کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری سالمیت پر حملہ ہے آج ہم وہاں پر ایسا کریں تو کیا پیغام جائیگا۔ وہ تو ڈرون حملے تھے یہ آپ ڈیڑ ھ لاکھ فوج کے ساتھ مکمل جنگ کرنے جا رہے ہیں۔ ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہیئے کہ امریکی فورسز اور نیٹو فورسز کو اس خطے میں رہنے کا کوئی جواز مل سکے۔ اگر امریکہ ایک طرف یمن میں بیٹھ گیا اور دوسری اسرائیل تو وہ پوری عرب دنیا کو ختم کرکے رکھ دیں گے۔

اسلام ٹائمز:کہا جارہا ہے کہ سعودی سلامتی کو خطر ہ درپیش ہے تو کیا یمن کی سلامتی پامال نہیں ہو رہی جس پر مسلسل حملے جاری ہیں۔
عبداللہ گل: سلامتی تو ہر ملک کی ہے، افغانستان کی بھی سلامتی ہے اور اسطرح دیگر ممالک، اگر ہمارا عقیدت کا رشتہ سعودی عرب کیساتھ جڑا ہوا ہے تو دنیا بھر کے اہل تشیع کا ایران کیساتھ بھی عقیدت کا سلسلہ جڑا ہوا ہے۔ ان سارے معاملات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 450767
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش