0
Friday 3 Apr 2015 22:39

امریکہ یمن میں ایران اور سعودی عرب کو لڑانا چاہتا ہے، سراج الحق

استعمار کی نظر میں کوئی شیعہ ہے نہ سنی، وہ سب کو اپنا دشمن ہی تصور کرتا ہے
امریکہ یمن میں ایران اور سعودی عرب کو لڑانا چاہتا ہے، سراج الحق
سراج الحق جماعت اسلامی کی امیر ہیں، 5 ستمبر 1962 کو ضلع لوئر دیر کے گاؤں ثمرباغ میں پیدا ہوئے، پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں، صوبہ خیبر پختونخوا میں سینئر وزیر بھی رہ چکے ہیں، اس وقت سینیٹر ہیں۔ پشاور یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹیکل سائنس میں کیا۔ اقرا پبلک سکول لوئردیر کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ 1988 سے 1991 تک اسلامی جمعیت طلبا کے ناظم بھی رہے ہیں۔ متعدد بار حلقہ پی کے 95 سے ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔ اتحاد امت کے خواہاں ہیں، پاکسان میں غربت، بے روز گاری اور کرپشن کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے اپنے تائیں جدوجہد میں بھی مصروف ہیں۔ امت مسلمہ کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں، سادہ مزاج ہیں، قاضی حسین احمد کے بعد جماعت اسلامی کے وسیع القلب امیر ثابت ہوئے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے لاہور میں ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز:سعودی عرب اور یمن کے درمیان حالیہ کشیدگی کے حوالے سے کہا کہیں گے، کشیدگی بڑھانے میں کس کا ہاتھ ہے؟
سراج الحق:صہیونی قوتیں ایک بار پھر عالم اسلام کو میدان جنگ بنانا چاہتی ہیں، سرزمین حرمین شریفین کی حفاظت صرف سعودی عرب ہی نہیں پوری امت کی ذمہ داری ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے روحانی مرکز کے تحفظ کیلئے کٹ مرنے کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں، لیکن اس مسئلے کے حل کیلئے انتہائی احتیاط اور باہم گفت وشنید کی ضرورت ہے۔ عراق ایران جنگ کی طرح اب امریکہ ایران اور سعودی عرب کو لڑانا چاہتا ہے۔ عالمی طاقتیں عالم اسلام کو باہم دست و گربیاں کر کے اپنا اسلحہ بیچنا اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ دشمن کے ان ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس آگ کو ٹھنڈا کرے، عالم اسلام کو اپنے مسائل مل بیٹھ کر باہمی گفت وشنید ہی سے حل کرنے چاہیں۔ عالم اسلام کو چاہیے کہ وہ عالم کفر کو ایسا موقع ہی نہ دے جس سے وہ مسلمانوں کے درمیان جنگ وجدل کی آگ لگا سکے اور اس آگ سے پھر اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ امریکہ اور اسرائیل عالم اسلام کو کمزور کرنے کیلئے اور اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے عرب ممالک میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے مکروہ منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ایران کا نقصان ہوتا ہے تو بھی امت مسلمہ کا نقصان ہے، سعودی عرب کا نقصان ہوتا ہےتو بھی امت مسلمہ کا نقصان ہے۔ یہ شیعہ اور سنی کی تقسیم تو ہماری ہے، دشمن کی نظر میں ہم مسلمان ہیں اور وہ ہم سب سے خائف ہے۔ لہذا ہمیں شیعہ سنی کے حصار سے نکل کر امت مسلمہ کی بقا کےلئے سوچنا ہو گا۔ اس حوالے سے پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے، وہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لائے اور اپنا کردار ایک ثالث کے طور پر ادا کرے۔

اسلام ٹائمز:یمن نے ایسی کوئی دھمکی نہیں دی، لیکن کیا سعودی عرب امت مسلمہ کو گمراہ نہیں کر رہا ہے کہ حرمین شریفین پر حملہ ہو رہا ہے؟
سراج الحق:کوئی مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ حرمین شریفین پر حملہ کرے، اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے، جب سعودی عرب یمن کے علاقوں میں بمباری کر رہا ہے تو جواب میں یمن والوں نے پھولوں کے ہار تو پہنانے نہیں، وہ بھی جوابی کارروائی تو کریں گے تو اس میں خدشہ ہو سکتا ہے کہ حرمین شریفین کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، اس خدشے کے پیش نظر ہی سعودی عرب نے پاکستان سے فوج کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم حکومت سے کہیں گے کہ وہ فوج بھجوانے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔ اپنے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر فوج کو استعمال نہ کیا جائے۔ فوج واحد ادارہ ہے جس کی جگہ عوام کے دلوں میں ہے۔ عوام پاک فوج سے عشق کرتے ہیں اور حالیہ جنگ میں قوم کو پاک فوج سے بہت سے امیدیں وابستہ ہیں۔

اسلام ٹائمز:کیا فوج کو سعودی عرب بھجوانا، آپریشن ضرب عضب ناکام بنانے کی سازش تو نہیں؟

سراج الحق:بالکل ایسا ہو سکتا ہے، کیوں استعماری قوتیں نہیں چاہتی پاکستان میں امن قائم ہو، پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو رہا ہے، حکومت، قوم اور فوج پہلی بار ایک پیج پر ہیں، اور پوری قوم پُرعزم ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو مکمل ختم کر دیا جائے۔ اس حوالے سے یہ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ کیوں کہ ہماری فوج کی اپنے ملک میں بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔ جنہیں ادھورا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی اکثریت بھی اس حق میں نہیں کہ فوج کو بھیجا جائے، پاکستان وہاں فریق بننے کے بجائے ثالث کا کردار ادا کر کے اور علاقے میں قیام امن کے لئے کوششیں کرے۔ کیوں کہ اگر یہ لڑائی طول پکڑتی ہے تو اس سے اسرائیل کو فائدہ پہنچے گا اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سے پاکستان میں مہنگائی بڑھے گی اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز:پاکستان میں خوشحالی کا خواب کیسے پورا ہو گا؟

سراج الحق:یہ ملک ظالم ٹھیکیداروں اور جاگیرداروں کے لئے نہیں حاصل کیا گیا تھا، ہم ایک ناقابل تسخیر قوم ہیں، پوری قوم ترقی چاہتی ہے، اس کے لئے ذاتی و پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کام کرنے کی ضرورت ہے، خوشحال پاکستان کے لئے کراچی سے خیبر تک عوام کو متحد ہونا ہو گا۔ ہم نے کرپشن کو ختم کر کے پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر ملک بنانا ہے، پاکستان کی مالی کمزوریوں میں بدعنوانی کا بڑا ہاتھ ہے، ہم نے مل کر اسے ختم کرنا ہے، ملک سے لوٹے گئے اربوں روپے سوئس بنکوں میں پڑے ہیں، اگلا الیکشن کرپٹ لوگوں کیخلاف ہو گا، اگر جماعت اسلامی اقتدار میں تو پورے ملک میں نتیجہ خیز تبدیلیاں لانے کے لئے نرسری سے لے کر میٹرک تک تمام پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم رائج کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: نائن زیرو آپریشن کے بعد سیاسی جماعتوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کرنے کی بحث چل رہی ہے، اگر ضرورت پڑی تو جماعت اسلامی بھی اپنا عسکری ونگ ختم کر دے گی؟
سراج الحق:اسلام مسلح جدوجہد کی اجازت نہیں دیتا، جماعت اسلامی میں کوئی عسکری ونگ نہیں، اگر ہمارا کوئی عسکری ونگ ہوتا تو مغربی میڈیا اور مغربی ممالک شور مچا دیتے۔ مسلح تنظیموں کی ملک میں کوئی ضرورت نہیں، اور اگر ملک میں کوئی مسلح تنظیم ہے تو وہ فوج ہے، جماعت اسلامی پرامن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، ہمیں آئین کا ساتھ دینا چاہئے، ہم جمہوری انداز میں اپنی منزل کی طرف پہنچ سکتے ہیں۔ سیاست کرنا ٹھیکیداروں کا کام نہیں، یہ دھوکہ دینے والوں، جاہلوں، سمگلروں کا کام نہیں، یہ ایک مقدس اور پاک فریضہ ہے، یہ انبیا کا کام ہے، جو ان کے راستے پر چلیں، یہ ان کا کام ہے۔ پاکستان میں مسلح دہشت گردی بھی ہے، معاشی دہشت گردی بھی ہے اور سیاسی دہشت گردی بھی ہے۔ جب تک ایک عام آدمی کا ضمیر بیدار نہیں ہو گا، تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہمارے چوک چوراہے خون رنگ ہیں، پاکستان میں بہت خون بہہ چکا ہے، جس سے عوام خوفزدہ ہیں اور نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ عوام کو آٹا اور سبزی خریدنے کے لئے بھی ایک چوکیدار کی ضرورت رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں پولنگ سٹیشن آزاد نہیں۔ ہر امیدوار 15 سے 20 کروڑ روپے الیکشن پر خرچ کرتا ہے، عام آدمی کی پارٹی جماعت اسلامی ان کا کیسے مقابلہ کر سکتی ہے۔ جو سیاسی لیڈر کے پارٹی کےاندر جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے وہ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ غریب آدمی غربت سے نجات چاہتا ہے، مہنگائی اور بے روز گاری سے چھٹکارہ چاہتا ہے۔ لوگوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں، لیکن انہیں یہ پتہ نہیں کہ ملازمت ملے گی یا نہیں۔ عام آدمی کے مسائل اور ہیں، بڑے آدمیوں کے مسائل اور ہیں۔ لینڈ کروزر والے کو سائیکل والے کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں، بلوچستان میں غریب کے لئے سکول بند ہیں کہ وہاں کسی جاگیر دار کا بیٹا نہیں پڑھتا، ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے غربت، مہنگائی، بے روز گاری کے خاتمے کےلئے جدوجہد کرنا ہو گی۔ قبائلی علاقوں میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز ہیں نہ یونیورسٹیز، حالانکہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ دیگر علاقوں کی طرح قبائلی علاقوں میں بھی تعلیمی ادارے کھولے۔

اسلام ٹائمز:آپ مسلح جدوجہد کی مخالفت کر رہے ہیں، جبکہ آپ کے پیشرو امیر نے لاہور میں ہی کھڑے ہو کر جہاد و قتال کی بات کی تھی؟
سراج الحق: جی انہوں نے اسلام کے فلسفہ جہاد کی بات کی تھی، اس کو غلط رنگ دے دیا گیا، مسلح جدوجہد اور چیز ہے اور جہاد اور چیز ہے، جہاد کیلئے ریاست حکم دیتی ہے اور اس کے کچھ لوازمات ہوتے ہیں ان کو پورا کرنا پڑتا ہے، اس لئے جماعت اسلامی کے نظریہ کو غلط رنگ دے کر میڈیا میں ایک طوفان اٹھا دیا گیا۔ یہ جماعت اسلامی کے ساتھ شروع سے ہی ہو رہا ہے، اس لئے ہمیں اس تنقید کی کوئی پرواہ نہیں جو صرف تضحیک کے لئے کی جا رہی ہو۔

اسلام ٹائمز:حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آپ نے ثالثی کا کردار اداکیا، جو موثر رہا، مستقبل میں الطاف حسین نے ثالثی کی پیشکش کردی تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا اور کراچی آپریشن کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
سراج الحق:حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تنازعات کے خاتمہ کے لئے بروقت کردار ادا کرنا اشد ضروری تھا، کیوں کہ دھرنا سیاست سے ملک میں جمہوریت کو شدید خطرات لاحق تھے، جماعت اسلامی نے جمہوریت کی مضبوطی کیلئے قابل تحسین کردار ادا کیا ہے، جو سب کے سامنے ہے۔ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہم آصف علی زراری اور نوازشریف کی سپورٹ کر رہے ہیں، ہمارا مقصد جمہوری نظام کو بچانا ہے، کراچی کئی عشروں سے بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے، ہزاروں لوگ ٹارگٹ کلنگ، اور بھتہ خوری کا شکار ہو چکے ہیں۔ حالیہ آپریشن میں پکڑے گئے مجروں کے بیانات سے بھی واضح اشارے ملے ہیں کہ اس میں کراچی کی لسانی تنظیم ملوث ہے اور اس کے ذمہ داروں کے ایما پر کئی سرکاری افسران اور بااثر لوگ قتل کئے گئے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مجرم گورنر ہاؤس میں پناہ لیتے ہیں اور انہیں وہاں تحفظ ملک ملتا ہے۔ جب اسلحہ کی بنیاد پر کوئی بات کرے گا تو وہ ہار جائے گا۔ ایم کیو ایم دہشت گردی چھوڑ دے، اسلحہ زمین پر رکھ دے، قاتلوں کو قانون کے حوالے کر دے تو ہم ثالثی کیلئے تیار ہیں۔ الطاف حسین کو بھی چاہیے کہ وہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے، ان چیزوں کو چھوڑنے کا اعلان کریں۔ کچھ بیرونی طاقتیں کراچی کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ آپریش میں گرفتار ہونے والے افراد کے ساتھ نرمی برتی جائے اگر حکومت اور فوج سنجیدہ ہے اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو انہیں بے لاگ انصاف کرنا ہو گا اور مجرموں کے ساتھ سختی سے نمٹنا ہو گا، کوئی دباؤ قبول کیا گیا اور مجرموں کو رعایت دی گئی تو اس کے سنگین اور دور رس نتائج برآمد ہوں گے، کراچی میں فیکٹری جلا کر 250 لوگوں کو ہلاک کرنے میں ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کی رپورٹ آئی ہے۔ اسی دن ان کی حکومت میں شامل کرنے کی دعوت دی گئی، کیا یہ سیاست ہے؟ کراچی میں بوری بند لاشیں، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی سیاست کو ختم کے لئے کراچی کے عوام کو گھروں سے باہر آنا ہو گا اور محب وطن اور دیانت دار قیادت کا انتخاب کرنا ہو گا۔

اسلام ٹائمز:2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے پی ٹی آئی مسلسل شور مچا رہی ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے، کیا واقعی دھاندلی ہوئی ہے؟
سراج الحق:پاکستان میں ووٹر اور پولنگ سٹیشن آزاد نہیں ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی اس لئے جماعت اسلامی نے کراچی کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ہمارے پاس بے شمار ثبوت موجود ہیں، ہم ثبوت لے کر جوڈیشل کمیشن میں جائیں گے۔ تاہم پنجاب میں مسلم لیگ نون، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو بھی الیکشن میں دھاندلی کی شکایات ہیں۔ اگر دھاندلی نہیں ہوئی تو جوڈیشل کمیشن بنانے میں کیا اعتراض ہے۔ اب جوڈیشل کمیشن بنانے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ سیاست کرنا ٹھیکیداروں، دھوکہ دینے والوں کا کام نہیں۔ الیکشن میں اربوں روپے کے اشتہارات دے کر رائے عامہ کو اپنے حق میں کیا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی اتنے پیسے کہاں سے لائے، الیکشن کمیشن کا چاہیے کہ وہ میڈیا میں تمام پارٹیوں کو یکساں کوریج کا اہتمام کرے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ پہلے جماعتی انتخابات کرائیں اور الیکشن کمیشن اس کی پابندی کرائے۔ جماعت مڈل کلاس افراد کی جماعت ہے، ہم فرد کی ترقی اور معاشرے کی ترقی چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ورکروں سے کہتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کو سپورٹ کریں، ہمیں بھی ایک موقع حکومت کرنے کا ملنا چاہیے، ہم عوامی رابطہ مہم شروع کر رہے ہیں، گھر گھر جا کر عوام کو بیدار کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 451728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش