0
Saturday 25 Apr 2015 05:30
ممتاز قادری کو اگر کوئی تکلیف تھی تو اسے عدالت میں جانا چاہیئے تھا

دہشتگردوں کی سزاؤں پر عملدرآمد روکا گیا تو تشدد میں اضافہ ہوجائیگا، عبداللہ خان

سعودی عرب کو جمہوریت کے لحاظ سے دیکھنا عجیب ہوگا
دہشتگردوں کی سزاؤں پر عملدرآمد روکا گیا تو تشدد میں اضافہ ہوجائیگا، عبداللہ خان
عبداللہ خان پاک انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (PICSS) کے مینجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا ادارہ دہشتگردی اور سکیورٹی کے معاملات پر دقیق تحقیق کرتا ہے۔ پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ عبداللہ خان کانفلیکٹ مانیٹرنگ سنٹر کے بانی بھی ہیں۔ اسلام آباد میں قائم یہ ادارہ دہشتگردی کے واقعات اور اس میں ہونے والے نقصانات پر رپورٹس مرتب کرتا تھا، مگر بعد ازاں یہ ادارہ بھی انسٹی ٹیوٹ میں ضم کر لیا گیا۔ خطے میں دہشت گردی کے حوالے سے عبداللہ خان نے متعدد تحقیقی پیپر جاری کئے ہیں، جو متعدد اداروں نے اپنی سالانہ و دیگر رپورٹس میں شائع کئے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (PICSS) آکسفورڈ ریسرچ گروپ (برطانیہ) کا حصہ بھی ہے۔ پکس نے ڈرون حملوں سے متعلق بھی اپنی رپورٹس جاری کی ہیں۔ ان کی رپورٹس سے زیادہ تر سفارتی اور دفاعی معاملات سے منسلک ادارے استفادہ کرتے ہیں۔ عبداللہ خان نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی سکیورٹی ورکشاپس میں بھی شرکت کرچکے ہیں، جو کہ پارلیمنٹ کے ممبران، اعلٰی ماہرین کے لئے مخصوص ہوتی ہیں۔ عبداللہ خان نے اپنے قلمی، صحافتی اور تحقیقی کیریئر کا آغاز 1997ء میں روزنامہ اوصاف کے خصوصی نامہ نگار کی حیثیت سے مظفرآباد، آزاد کشمیر سے کیا۔ اس دوران بھارت کے خلاف لڑنے والے جہادی گروپوں کے خیالات کو پڑھنے سمجھنے میں انہیں مدد ملی۔ اس کے بعد وہ روزنامہ خبریں، روزنامہ پاکستان و پرنٹ میڈیا کے دیگر اداروں سے منسلک رہے۔ گذشتہ دس سالوں میں انہوں نے مختلف موضوعات پر جامع رپورٹس مرتب کیں۔ ان کے ادارے کے اہداف و ملک کے داخلی و خارجی معاملات سے متعلق اسلام ٹائمز نے عبداللہ خان کے ساتھ ایک مختصر انٹرویو کا اہتما م کیا، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: دہشتگردی سے متعلق ریکارڈ سازی کا خیال آپکے ذہن میں کیسے آیا، جو آپکے تھینک ٹینک کی تشکیل کا باعث بنا۔؟
عبداللہ خان:
2004ء میں جو تشدد شروع ہوا اور 2007ء میں انتہائی بڑھ گیا، تو اس جنگ میں ہونے والے نقصانات کی اجتماعی تصویر پیش کرنے کیلئے ہم نے ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا۔ بنیادی مقصد یہی تھا کہ ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ اس جنگ میں ہمارا کتنا نقصان ہوا ہے۔ آج بھی کوئی کہتا ہے کہ اس جنگ میں ہمارے ساٹھ ہزار افراد نشانہ بن چکے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ستر ہزار بن چکے ہیں۔ کسی ادارے کے پاس ہونے والے نقصانات کا ڈیٹا موجود نہیں تھا۔ ہمارا مقصد اس نقصان کو جاننا اور اس کو مختلف زایوں سے دیکھنا تھا۔ اس میں ریاستی دہشت گردی، فرقہ ورانہ دہشت گردی، قومیت کے نام پر ہونے ولا تشدد سب شامل ہیں۔ پہلے ہم نے کانفلیکٹ مانیٹرنگ سنٹر بنایا۔ پھر 2014ء میں (PICSS) کے نام سے ادارہ بنایا۔ ہمارا مقصد یہی تھا کہ جنگ سے متعلق یہ ایک ایسا ادارہ بن جائے کہ تحقیق و تجزیہ کرنے والوں، گورنمنٹ کے داروں کو ایک ہی پوائنٹ سے جنگ سے متعلق تمام تر معلومات مل جائیں۔ ڈرون سے متعلق بھی ہم نے ڈیٹا تیار کیا ہے ۔قبائل تک ہماری رسائی ہے۔ 2001ء سے اب تک کتنے ڈرون حملے ہوئے ہیں۔ ان میں کتنے لوگ مارے گئے۔ لال مسجد آپریشن سے اب تک کتنے فوجی آپریشن ہوئے۔ بلوچستان میں دس سال میں کیا کیا ہوا۔ اس حوالے سے ہم نے بہت آگے تک چیزیں اکٹھی کرلی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ نے اپنی تحقیق کا دائرہ اعداد و شمار تک محدود رکھا یا واقعات کے محرکات پر بھی کچھ غور کیا، اور کیا فوجی آپریشنز کے نتائج کے بارے میں بھی کوئی رپورٹس تیار کی ہیں۔؟
عبداللہ خان:
جی ہاں، بنیادی چیزیں ہم نے ابتدا ہی میں تیار کیں۔ فی الحال ہمارا کام اعداد و شمار تک ہے۔ محرکات، اثرات انہی رپورٹس کی روشنی میں ماہرین سے لیکر شامل کی جائیں گی۔ کافی ساری چیزیں انہی اعداد و شمار سے بھی سامنے آجاتی ہیں۔ جیسے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہونے، سزائے موت بحال کرنے اور دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے بعد ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح ضرب عضب آپریشن کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا میں تشدد پھچلے چھ سال کے دوران سب سے کم ترین سطح پر آگیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہونے والے اقدامات میں نتائج کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کے نتائج سب سے اچھے سامنے آرہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک تاثر یہ پایا جا رہا ہے کہ دہشتگردوں کی پھانسیوں کا عمل روک دیا گیا ہے، جبکہ انفرادی کیسز میں ملوث مجرموں کو سزائیں دی جارہی ہیں، اس میں کتنی صداقت ہے۔؟
عبداللہ خان:
اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سزاؤں پر عملدرآمد جاری ہے۔ سزاؤں پر عملدرآمد بھی دہشتگردوں سے ہی شروع ہوا ہے۔ سزا یافتہ مجرموں کو سزائیں دی جا رہی ہیں۔ البتہ یہ کہ فوجی عدالتوں نے جن کو سزائیں سنائی ہیں، سپریم کورٹ نے ان سزاؤں کو معطل کیا۔ یہ ایک الگ مسئلہ اور بحث ہے۔ ویسے جن لوگوں کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا بھی گیا ہے، انہیں بھی لوکل عدالتوں نے پھانسی نہیں دی تھی، بلکہ خصوصی عدالتوں نے سزائیں سنائی تھیں۔ ان سزاؤں پر عملدرآمد سے یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو کافی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ دراصل یورپی ملکوں کا مسئلہ الگ ہے۔ وہاں تعلیم کا معیار بہتر ہے۔ نظام بہتر ہے۔ پاکستان میں اگر دہشت گردوں کی سزاؤں پر عملدرآمد روکا گیا، تو تشدد میں ایکدم اضافہ ہوجائے گا۔ ویسے بھی سزائے موت کا قانون اسلام اور قرآن کا قانون ہے۔ یہ اسلامی ملک ہے، چنانچہ اس حوالے سے مغرب کا دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: نیشنل ایکشن پلان کیا بلاتفریق تمام دہشتگردوں، شدت پسندوں کے خلاف ہے یا اس میں کوئی تفریق برتی گئی ہے۔؟
عبداللہ خان:
بس اس میں یہ تھا کہ مذہب کا لفظ شامل کیا گیا تھا، جس پر مذہبی حلقوں کی جانب سے احتجاج کی صورت میں بہت دباؤ سامنے آرہا تھا، جو کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے آپریشن سے کافی کم ہوا ہے۔ ویسے بھی میرے خیال میں مذہب کا لفظ شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ تشدد، تشدد ہے، چاہے وہ قومیت کے نام پر ہو، زبان کے نام پر، مذہب، مسلک کے نام پر یا انفرادی طور پر، سب کے ساتھ ایک سا سلوک ہونا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: جس طرح آپ سزاؤں پر عملدرآمد اور یکساں سلوک کی بات کر رہے ہیں تو گورنر پنجاب کے قاتل کیلئے بھی یہی قانون ہونا چاہیے یا اس میں کوئی لچک ہونی چاہیے۔؟
عبداللہ خان:
قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔ ریاست اس وقت مضبوط ہوگی، جب لوگ قانون کا احترام کرتے ہوئے ارتکاب جرم نہیں کریں گے۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ یہاں کسی پر قانون لاگو ہوتا ہے، کسی پر لاگو نہیں ہوتا، حالانکہ یہ دوغلی پالیسی ہے۔ ممتاز قادری کو اگر کوئی تکلیف تھی تو اسے عدالت میں جانا چاہیے تھا، کسی کو قتل کرنے کی اجازت یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت تو ہرگز نہیں دی جاسکتی۔

اسلام ٹائمز: شدت پسند، دہشتگرد تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا لیکن وہ نئے ناموں سے متحرک ہیں، وجوہات کیا ہیں۔؟
عبداللہ خان:
بات یہ ہے کہ اپنے داخلی معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے جن تنظیموں پر پابندی لگائی، وہ کالعدم ہی ہیں اور اپنی اسی شناخت کے ساتھ کارروائیوں میں مصروف ہیں، جبکہ کچھ تنظیموں اور اداروں پر بیرونی دباؤ پر پابندیاں لگائی گئیں، حالانکہ انہیں عوامی سپورٹ حاصل تھی اور ان میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی قابلیت بھی موجود تھی، چنانچہ ان پر پابندی نقصان دہ ثابت ہوئی۔ لشکر جھنگوی کو کالعدم قرار دیا گیا، تحریک طالبان کو کالعدم قرار دیا گیا۔ وہ کسی نئے نام سے متحرک نہیں ہیں، کیونکہ ان پر پابندی داخلی مسائل کو مدنظر رکھ کے خود لگائی گئی تھی۔ لشکر طیبہ پر پابندی بھارت کے دباؤ کے باعث عائد کی گئی۔ بیرونی دباؤ کے نتیجے میں کالعدم ہونے والی تنظیموں نے عدالت میں جاکر اپنا دفاع کیا۔ اب نئے ناموں سے خود کو آرگنائز کرلیا۔

اسلام ٹائمز: یمن کے حالات پاکستان پر بھی اثرانداز ہوں گے اور سعودی عرب کے ان حملوں کا مقصد کیا تھا۔؟
عبداللہ خان:
یمن کا معاملہ پاکستان میں انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آپ مختلف تنظیموں کے رہنماؤں، اینکرز، صحافیوں، اسکالرز وغیرہ سے گفتگو کریں تو آپ کو فوراً ہی اندازہ ہوجائے گا کہ کس کو کہاں سے کتنا فنڈ آرہا ہے۔ کون کس کے خلاف ہے اور کس کے ساتھ ہے۔ کہنا بے جا نہ ہوگا، یمن کا ایشو ایک پیمانہ بن چکا ہے۔ کسی ایک کی تائید یا مخالفت میں آنا، ایک جذباتی رویہ بن چکا ہے۔ خیر اب تو سعودی عرب نے آپریشن ہی بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یمن کے معاملے پر یہاں فرقہ ورانہ تفریق کی کوشش بھی ہوئی، تاہم اس کو فرقہ ورانہ انداز میں لینا صحیح نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد میں یمن میں غیر جانبدار رہنے اور سعودی عرب پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا، بنیادی چیزیں ہیں۔ حوثی قبائل کی سعودی عرب کے ساتھ پہلے بھی ٹینشن تھی۔ جہاں تک یمن میں قانونی حکومت کی بحالی کی بات ہے تو سعودی عرب کو جمہوریت کے لحاظ سے دیکھنا بہت عجیب ہوگا۔ امریکہ جو جمہوریت کا چمپئن بنتا ہے، کہیں کہیں وہ ڈکٹیٹر شپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں بادشاہت ہے۔ وہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔ مصر میں مرسی کی حکومت آئی تو اس سے سعودی عرب کو خطرہ محسوس ہوا کہ اخوان المسلمون کا انقلاب سعودی عرب میں لایا جائے گا۔ چنانچہ اس کی حکومت کو ختم کرایا۔

اسلام ٹائمز: کیا یمن میں کوئی مداخلت پاکستان میں فرقہ واریت کو گہرا کرے گی،جبکہ پاکستان میں پہلے ہی ایک خاص مسلک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔؟
عبداللہ خان:
ابھی بھی ہمارے اندر، ہمارے درمیان بہت اچھی باتیں، چیزیں موجود ہیں۔ یہاں پر فرقہ واریت کا رنگ گہرا نہیں ہے۔ مسلک کی بنیاد پر تفریق زیادہ نہیں ہے۔ آپ پاکستان کے سربراہان کو ہی دیکھ لیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کون تھے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وہ شیعہ تھے۔ سابق صدر زرداری شیعہ تھے۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب میں لکھا میں آدھا شیعہ آدھا سنی ہوں۔ بے نظیر کو دیکھ لیں۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فرقہ ورانہ تفریق ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بیرونی چیز ہے جو ہمارے اندر داخل کی جا رہی ہے۔ باہر ہونے والے مسائل کی وجہ سے ہمارے ہاں جو انتشار پیدا ہو رہا ہے، ہمیں اس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا معاشرہ انتہائی معتدل قسم کا ہے۔ جس میں دین بھی ہے اور دنیا بھی ہے، معاشرے کو دو چیزوں نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ ایک شدت پسندی مذہبی ہے، جو ہر بات ہر عمل کو دین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، دوسری بیرونی مغربی سوچ و فکر ہے۔ ان دونوں کی شدت میں اعتدال پسند سوسائٹی مسلسل دباؤ میں ہے۔ اپنے اسی معتدل چہرے کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دشمن ہماری کمزوریوں کو سمجھتا ہے۔ لہذا وہ فرقہ وارنہ اختلافات کو ہوا دیتا ہے۔ ہمیں اور اسلام کو اصل خطرہ اسی سے ہے، جو اسلام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ میں کسی ملک کا نام نہیں لینا چاہتا، آپ خود بہتر سمجھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 456387
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش