0
Thursday 30 Apr 2015 13:31

یمن کے معاملے پر امام کعبہ پاکستانیوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، مفتی گلزار نعیمی

یمن کے معاملے پر امام کعبہ پاکستانیوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، مفتی گلزار نعیمی
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ انہوں نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلین کے حوالے سے اپنے نظریات کے لئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ آپ اہلسنت و الجماعت کی ملک گیر تنظیم کے مرکزی عہدہ دار بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے امام کعبہ کے دورہ پاکستان کے حوالے سے ایک جامعہ انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: امام کعبہ کے دورہ پاکستان کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اس اہم موضوع اور دورے پر اہم سوال کیا ہے۔ دیکھیں امام کعبہ کو پوری دنیا میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تین علماء ہیں جو امام کعبہ کے فرائض انجام دیتے ہیں، انہیں پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہ لوگ بیت اللہ میں نماز کی امامت کراتے ہیں۔ بلاطریق مسلک و سوچ سب امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، انہیں غیر متنازعہ امام کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلکی اختلافات کے باوجود لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے گھر کے امام ہیں۔ اس نسبت کی وجہ سے تمام مسالک اختلاف کے باوجود ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ میں نے یہ چیزیں ان کے روشن پہلو کے حوالے سے بیان کی ہیں، لیکن جو قابل افسوس اور سیاہ پہلو ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا گھر جو مرجع خلائق ہے، جو تمام مسالک کی عبادت کی سمت ہے، اسی کی طرف منہ کر نماز پڑھتے ہیں۔ اب آتا ہوں آپ کے سوال کی طرف کہ امام کعبہ پاکستان کے دورے پر ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایک خاص مسلک کے لوگوں سے مل رہے ہیں، ان کے دورے کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بخوبی اندازہ لگتا ہے کہ ان کا دورہ ایک خاص مسلک کے لوگوں کی حد تک محدود تھا اور ہے، جماعت اسلامی بھی اسی مسلک کی جماعت ہے، وہاں چلے گئے اور نماز پڑھائی۔ امام کعبہ کا غیر جانبدار نہ ہونا اور ایک خاص مسلک کے لوگوں کے پاس جانا اور باقی پورے پاکستانیوں کو اگنور کرنا ایک قابل افسوس مقام ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بہت تکلیف ہوئی ہے کہ امام کعبہ منصورہ اور جامعہ اشرفیہ تو تشریف لے گئے ہیں لیکن انہوں نے جامعہ نعیمیہ، جامعہ نظامیہ اور جامعۃ المنتظر کو اگنور کر دیا ہے۔

کیا یہ اچھی بات نہ ہوتی کہ وہ ان مدارس سمیت دیگر مسالک کے اہم دینی مراکز میں بھی جاتے، اس سے امت اسلامی اور وحدت کا پیغام جاتا۔ ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ عظیم بندے ہیں جن کے درمیان مسالک کا اختلاف بےمعنی ہے، جو مسالک کے اختلاف کو اہمیت نہیں دیتے، انہوں نے بالکل اس طرف توجہ نہیں دی۔ خصوصاً جب سعودی عرب یمن کے معاملے پر ایک کمپین کر رہا ہے، ایسی صورت میں جب انہیں پاکستان کے عوام اور ریاست کی مدد کی ضرورت ہے، اس وقت ان کا آنا معنی خیز ہے۔ میں عرض کروں کہ جو حقیقی اہل سنت ہیں، جنہیں بریلوی کے عنوان سے جانا جاتا ہے، یہ پاکستان میں 60 سے 70 فی صد موجود ہیں، جبکہ اہل تشیع 15 سے 20 فی صد موجود ہیں، اس پوری تعداد کو ملا لیں تو یہ تعداد 80 فی صد سے بڑھ جاتی ہے، آپ اس تعداد کو اگنور کرکے کیسے پورے پاکستان کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔؟ کیا آپ سعودی عرب سے فقط ان 15 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے آئے ہیں۔ اگر حمایت ہی حاصل کرنے آئے ہیں تو آپ کو ان لوگوں کیساتھ براہ راست مکالمہ کرنا چاہیے تھا جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں، جن میں اہل سنت و اہل تشیع شامل ہیں۔ جناب جن کی حمایت کیلئے آپ یہاں تشریف لائے ہیں، وہ تو آپ کی آمد سے قبل ہی آپ کیلئے تحفظ حرمین شریفین کے نام سے ریلیاں نکال رہے تھے۔ وہ سیمینار منعقد کر رہے تھے، ان کیساتھ ملنے جلنے کی ضرورت تو نہیں تھی۔ میرا خیال یہ ہے امام کعبہ پاکستانیوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: امام کعبہ کی آمد سے قبل کالعدم جماعتوں کی ریلیاں، سیمینار اور سعودی سفارتخانہ میں پیسے کی ریل پیل، جیسا کہ امت اخبار نے اس حوالے سے خبر بھی لگائی ہے، اس منظر نامے کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
دیکھیں، مجھے خود افسوس ہوا ہے اور میں ابھی اس پر سوچ رہا ہوں کہ وہ کالعدم تنظیمیں جنہوں نے پاکستان کو بےتحاشہ مسائل سے دوچار کیا ہے، ان کو اس طرح کھلے بندوں ایک ایشو کیلئے کھڑے کر دینا، ریلیاں نکالنا اور انہیں پرموٹ کرنا، یہ پاکستان کیلئے الارمنگ صورتحال ہے کہ ایک وہ چیز جس کے مقابلے میں ہم کھڑے ہیں، آپریشن ضرب عضب تو انہی کالعدم جماعوں کی طرف سے کھڑے کئے گئے مسائل کیخلاف ہے، تو انہی کالعدم جماعتوں کو اپنی حمایت کیلئے آگے لیکر آنا افسوس ناک صورتحال ہے۔ یہ ایک بہت ہی عجیب صورتحال ہے پاکستانی اسٹیٹ اور حکومت کیلئے۔

اسلام ٹائمز: اپنے ایک انٹرویو میں امام کعبہ نے فرمایا ہے کہ پاکستان کے عوام کچھ اور چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ کا فیصلہ کچھ اور ہے۔ اس بیان کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں، کیا یہ پاکستان کے داخلی معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میرے لئے امام کعبہ بہت عزیز شخصیت ہیں، اگر کوئی سیاسی شخصیت ہوتی تو میں کھلے بندوں اس بیان کی مذمت کرتا، یہ انتہائی قابل مذمت بیان تھا جو کسی صورت نہیں دینا چاہیے تھا۔ پارلیمنٹ پاکستان کے 18 کروڑ عوام کا نمائندہ ایوان ہے۔ عوام ہی انہی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں یمن کی صورتحال پر کئی روز مباحثہ کیا گیا اور متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی۔ امام کعبہ کا یہ کہنا عوام اور پارلیمنٹ کی رائے میں اتفاق نہیں ہے غلط بات ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام کعبہ نے عوام سے رابطہ ہی نہیں کیا، ایک خاص مسلک کے لوگوں کیساتھ مل رہے ہیں تو انہیں کیا معلوم کہ پاکستان کے عوام کیا چاہتے ہیں۔ ایک دو مدرسوں میں جاکر نقطہ نظر بنا لینا درست نہیں، چند جگہوں کا وزٹ کرکے پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑنا اچھی بات نہیں ہے، ہم اسے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت ہے اور پارلیمنٹ کی توہین ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف خود پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے باوجود یوٹرن لے رہے ہیں، اس پر کیا کہیں گے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میرے خیال میں جب پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد آگئی ہے تو اس کے بعد وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ وہ کسی قسم کا بیان نہ داغتے۔ اس قرارداد کی من و عن پیروی ہونی چاہیے، کیا اسی پارلیمنٹ نے وزیراعظم کو منتخب نہیں کیا۔؟ جب آپ ایسا کریں گے تو یہ بھی پارلیمنٹ کی توہین کے زمرے میں آئیگا۔

اسلام ٹائمز: حوثیوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم حرمین شریفین کیطرف میلی آنکھ سے دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، پھر بار بار امام کعبہ کیجانب سے یہ کہنا کہ وہ بیت اللہ کیلئے خطرہ ہیں، اس پر کیا کہیں گے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
دیکھیں جی حوثیوں کی یہ کیسے جرات کہ وہ بیت اللہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھیں، یہ جرات تو سعودی عرب میں بھی کسی کو نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی کو جرات ہوتی تو کب کا مسجد نبوی کا نقشہ تبدیل ہوچکا ہوتا۔ یہ حوثیوں کیخلاف پروپگینڈا کیا گیا ہے، اصل بات کچھ اور ہے، میرے خیال میں اصل بات منصور ہادی اور حوثیوں کے درمیان ہے، منصور ہادی اپنی رٹ کھوچکے ہیں، جسے بحال کرنے کیلئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ یہ نکتہ نظر تیار کیا گیا ہے، تاکہ امت مسلمہ کی حمایت حاصل کی جاسکے، جو بھی کلمہ رسول اللہ پڑھتا ہے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کعبۃ اللہ اور حرمین شریفین کو ڈھانے کی بات کرے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب مصر کی قانونی حکومت گرانے میں اہم رول ادا کرتا ہے، اسی طرح شام کی متنخب حکومت کو گرانے کی سازش کی جاتی ہے، لیکن یمن کے معاملے پر ان کا کردار الٹا ہوجاتا ہے۔ کبھی آپ نے داعش کیخلاف اس طرح کی کارروائی نہیں کی۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
عرب دنیا بہت تضادات کا شکار ہے، میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، سعودی عرب میں یہ تضاد نمایاں ہے۔ یہ لوگ بادشاہت کو قائم رکھنے کیلئے کسی کی حمایت میں جائے یا مخالفت میں جائے، اس کیخلاف عملی جدوجہد کرتے ہیں۔ لیکن جو چیزیں امت مسلمہ کیلئے ضروری ہیں وہ نہیں کی جا رہی، عرب ممالک میں استعماری قوتیں مکمل طور پر پنجے گاڑھ چکی ہیں کہ ان کی اپنی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ مرسی کی حکومت اس کے باوجود کہ وہ اخوان تھے لیکن اس لئے اس حکومت ختم کر دی گئی کہ سعودی عرب کے ماتحت نہیں تھی اور استعمار کیخلاف تھی، یہی اس حکومت کا قصور تھا۔
خبر کا کوڈ : 457522
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش