0
Friday 1 May 2015 00:13
حرمین شریفین کو نہیں بلکہ سعودی بادشاہت کو خطرہ ہے

پاکستان کو یمن تنازعے سے دور رہتے ہوئے اپنے گھر پر توجہ دینی چاہیئے، پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم

پاکستان کو یمن تنازعے سے دور رہتے ہوئے اپنے گھر پر توجہ دینی چاہیئے، پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئرپرسن ہیں، آپ شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے پچھلے چوبیس سالوں سے وابستہ ہیں، آپ 1989ء تا 1998ء بحیثیت لیکچرار، 1999ء تا 2005ء بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اور 2005ء سے تاحال بحیثیت پروفیسر جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہی ہیں، جامعہ کراچی کے علاوہ بھی دیگر نجی جامعات میں تدریسی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ آپ بین الاقوامی تعلقات سے متعلق موضوعات پر کئی کتابوں کی مصنف بھی ہیں اور مشرق وسطٰی سمیت عالمی ایشوز پر آپ گہری نگاہ رکھتی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم کے ساتھ یمن تنازعہ اور چینی صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے حوالے سے جامعہ کراچی میں انکے دفتر میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: چینی صدر کے دورہ پاکستان کے حوالے سے کیا کہیں گی؟ کیا آپ سے کامیاب دورہ تصور کرتی ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم:
چین کے صدر کا دورہ پاکستان کامیاب تھا، چاہے پاکستان سے چین نے چھیالیس ارب ڈالر کے معاہدے کئے ہوں یا چار ارب ڈالر کے، چین کے پاکستان کے ساتھ بہت ہی دیرینہ تعلقات ہیں، حالیہ چینی صدر کے دورے میں بہت ہی اہمیت کے حامل سیکٹرز میں معاہدے کئے گئے ہیں، خاص طور پر توانائی کے سیکٹر میں، دوسرا یہ کہ چینی صدر کا دورہ پاکستان بہت زیادہ پنجاب کی بنیاد
پر لگ رہا تھا، کافی حد تک نواز شریف فیملی سے تعلق پر مبنی لگ رہا تھا، چینی صدر کی ملاقاتیں بھی گھوم پھر کر شریف خاندان کے لوگوں سے ہو رہی تھیں، اس وجہ سے چینی صدر کا دورہ تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے لیکن اس کا فائدہ یقیناً پورے پاکستان کی اقتصادیات کو ہوگا۔

اسلام ٹائمز: اس دورے کے پاکستان سمیت پورے خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم:
میں اس دورے کو دوسری نگاہ سے دیکھتی ہوں کہ بظاہر تو چینی صدر کا دورہ پاکستان اقتصادی حوالے سے تھا، لیکن اب چین نے پاکستان کے ساتھ سوشل کلچرل تعلقات سے بڑھ کر ایک نئے تعلقات کا آغاز کیا ہے جو کہ اسٹراٹیجک پارٹنرشپ ہے یعنی policy collaboration بھی ہوگی، پالیسی کے حوالے coordination بھی ہوگی، جس کی زیادہ تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں، ایک طرح سے چین پاکستان کے ساتھ اب اس طرح کے تعلقات استوار کرنا چاہ رہا ہے کہ جیسے کبھی ماضی میں پاکستان امریکا کے درمیان ہوا کرتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ چینی صدر کا دورہ پاکستان کے یمن صورتحال پر بھی اثر انداز ہو، لیکن بظاہر دورے میں ایسی کوئی بات نہ تو کی گئی ہے، اور نہ ہی میڈیا میں آئی ہے، لہٰذا اس حوالے سے قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی۔

اسلام ٹائمز: آپکی نگاہ میں یمن پر سعودی عرب کے حملے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم:
یمن کی صورتحال میں سعودی عرب کی دلچسپی بنیادی طور پر ریاست کے تحفظ سے زیادہ سعودی بادشاہت کے تحفظ کیلئے ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت
خود سعودی عرب میں جو اندرونی مزاحمت موجود ہے، تو انکا یہ خیال ہے کہ اگر یمن میں اس قسم کی بغاوت کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ بلآخر سعودی سرحد عبور کریگی اور سعودی عرب میں شورش پیدا ہوگی، لہٰذا پہلی وجہ تو سعودی بادشاہت کا تحفظ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی قسم کی بغاوت اس خطے میں ہو، شام بہت دور تھا تو عراق سے انہیں کوئی اثر نہیں پڑا تھا لیکن جس طرح بحرین میں ہوا، جس طرح اب یمن میں ہو رہا ہے، تو سعودی بادشاہت کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے، دوسرا تیل کا بھی معاملہ ہے، وسائل کے کنٹرول کا بھی معاملہ ہے، سعودی عرب نہیں چاہتا کہ اس خطے میں ایران کا اثرونفوذ بڑھے، جیسا کہ یمن کے تنازعے کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: یمن کے ساحل کی اسٹریٹیجک اہمیت کے باعث امریکا اسرائیل سعودی عرب کی مدد سے یمن میں اپنی حامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں، اسی لئے یمن میں سعودی اسرائیلی مفادات ایک ہوچکے ہیں؟ اس تمام کے حوالے سے کیا حقیقت ہے؟ یا یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم:
سعودی عرب اور امریکا کی پالیسی ہے ”اسٹیٹس کو“ کی برقراری، موجودہ صورتحال یا موجودہ حیثیت کی برقراری، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ”اسٹیٹس کو“ متاثر ہوگا تو ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچے گی، اور یہی وہ نہیں چاہتے، یمن میں دیکھا جائے تو امریکی اور سعودی لائن بالکل ایک ہی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ”اسٹیٹس کو" واپس اسی جگہ پر آجائے، ”اسٹیٹس کو“ کا مطلب یہ ہے کہ باہر سے عوامی
بغاوت کی حمایت نہیں کی جانی چاہیئے، امریکا اور سعودی عرب چاہتے ہیں کہ یمن میں واپس وہی لوگ اقتدار میں آئیں جو ان کے مفادات کی حفاظت کر رہے تھے، یمن اور اسکا ساحل ایک بہت ہی اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل ہے، Red Sea کا جو باب المندب پورٹ ہے، آبنائے باب المندب ہے، اگر یہ حصہ کنٹرول میں آجائے تو سارے بحری راستے متاثر ہوجائیں گے، اس طرح سے ناصرف سعودی مفادات بلکہ امریکی اور اسکے سارے اتحادیوں کے مفادات بھی متاثر ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: یمن کے حوالے سے ایران کا نام بہت لیا جا رہا ہے، کیا کہیں گی اس حوالے سے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم:
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کا اثر و نفوذ آپ کو خطے میں مختلف جگہوں پر نظر آتا ہے، شام و لبنان میں بھی ہے، بحرین میں بھی تھا یا دیگر جگہوں پر، کہیں بھی عوامی مقاوت نظر آتی ہے وہاں ایرانی اثر و نفوذ نظر آتا ہے، بین الاقوامی تعلقات کی تھیوری کہہ لیں کہ کوئی بھی تحریک خود مختار نہیں ہوتی، باہر سے سپورٹ کے بغیر چل نہیں سکتی، اگر سول وار ہو رہی ہے تو اسے سیاسی اور عسکری دونوں طرح کی سپورٹ باہر سے ہونا ضروری ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ مشرق وسطٰی میں سعودی عرب اور ایران مختلف عناصر کو سپورٹ کر رہے ہیں، کبھی یہ سپورٹ حکومتوں کو ہوتی ہے اور کبھی حکومت مخالفین کو، اس قسم کی اقسام مختلف جگہوں پر نظر آتی ہیں، یمن میں سعودی عرب نے بہت زیادہ عسکری قوت استعمال کی، کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ ایرانی سپورٹ
سے عوامی بغاوت کامیاب ہوجائیگی۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں یمن کے حالیہ قضیئے میں پاکستان کا کیا کردار ہونا چاہیے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم:
دہشتگردی سے مصروف جنگ پاکستان کو یمن تنازعے سے اپنے آپ کو بہت دور رکھنا چاہیئے، کیونکہ یہ جنگ پاکستان کی نہیں ہے، اس وقت وہاں نہ تو کوئی جہاد ہے نہ کچھ اور، یمن میں تو مفادات کی جنگ ہے، یہ بادشاہت کی سپورٹ اور تحفظ کیلئے ہے، پاکستان ایسی جنگ میں اپنی افواج اور اپنے وسائل کو کیوں استعمال کرے، جس کا پاکستان سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہے، ایسے وقت میں کہ جب پاکستان خود اپنے اندر دہشتگردی کی جنگ لڑ رہا ہے، اپنی بقاء و سلامتی کی جنگ لڑ رہا ہے، پاکستان کی انڈیا اور افغانستان کیساتھ سرحدیں محفوظ نہیں ہیں، لہٰذا ایسے وقت میں ہمیں اپنے گھر پر توجہ دینی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: یمن مسئلہ پر پاکستان نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا، جسکے جواب میں یو اے ای اور سعودیہ کی جانب سے انتہائی سخت ردعمل سامنے آیا، سفارتی سطح پر اسکی کتنی گنجائش موجود ہے، اور پھر پاکستان نے اس پر کوئی ردعمل بھی نہیں دکھایا۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم:
پاکستان نے جواب دیا تھا، چوہدری نثار کا بیان آیا تھا، لیکن وہ تکنیکی طور پر غلط تھا، کیونکہ چوہدری نثار وزیر داخلہ کو اس پر نہیں بولنا چاہیئے تھا، بلکہ وزارت خارجہ، فارن آفس کو اس کی مذمت کرتے ہوئے بیان دینا چاہیئے تھا، جس طرح ماضی میں امریکی کانگریس کی کچھ قراردادوں
پر پاکستان نے سخت ایکشن لیا تھا، اسی طرح اس حوالے سے بھی پاکستانی حکومت کو سخت ایکشن لینا چاہیئے تھا، یہ تو حکومت کی سفارتی کمزوری نظر آتی ہے، بہرحال ماضی میں ایران عراق جنگ میں بھی پاکستان مصالحت اور ثالثی کیلئے اپنا کردار ادا کرچکا ہے، یمن کے حوالے سے ترکی نے بھی ثالثی کی کوششوں کا کہا تھا لیکن ایسا نظر نہیں آتا، پاکستان اگر ایران اور سعودی عرب کے درمیان یمن مسئلے کو لے کر کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنا ہوگا، لیکن آپ ایک جانب تو صرف سعودیوں سے مل بھی رہے ہیں، صرف سعودی عرب کے دورے بھی کر رہے ہیں، اور پھر آپ کہیں کہ آپ مصالحت کیلئے کردار ادا کر رہے ہیں تو دوسری پارٹی تو اسے قبول نہیں کریگی، لہٰذا مصالحت اور ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنا پڑیگا، جو کہ پاکستان نے ثابت نہیں کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک کے اندر تحفظ حرمین شریفین مہم جاری ہے، کیا حرمین شریفین خطرے میں ہیں یا پھر سعودی بادشاہت۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم:
اس کا جواب تو شاید میں پہلے دے چکی ہوں، اور ویسے بھی یمن کے حوثی قبائل کی طرف سے تو واضح طور پر بیان آچکا ہے کہ وہ حرمین شریفین کے تقدس کے پابند ہیں، اس کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، لیکن اگر سعودی جارحیت جاری رہی تو عوامی بغاوت پھیلے گی اور سعودی سرحد عبور کریگی، بہرحال حرمین شریفین کو نہیں بلکہ سعودی بادشاہت کو خطرہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 457640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش