1
1
Wednesday 13 May 2015 01:03

تمام مسلمان امام حسین (ع) کے نام پر قربان ہونے کو نجات اور خوشبختی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ڈاکٹر علامہ یعقوب بشوی

تمام مسلمان امام حسین (ع) کے نام پر قربان ہونے کو نجات اور خوشبختی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ڈاکٹر علامہ یعقوب بشوی
حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی 1972ء کو سکردو میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سکردو میں ہی بشو کے مقام پر حاصل کی۔ بعد ازاں  کچورا چلے گئے اور مزید تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا، پھر دینی تعلیم کے حصول کے لئے جامعۃ المنتظر لاہور میں داخل ہوئے۔ کچھ سال جامعۃ المنتظر میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد اعلٰی تعلیم کے لئے قم المقدس ایران پہنچے، جہاں انہوں نے متعدد علمی مدارج طے کئے۔ اپنی تعلیمی زندگی کے دوران اب تک ان کی تحقیقات و تصنیفات (اعم از کتاب و علمی تحقیقاتی مقالے) نیز تراجم کا ذخیرہ تقریباً ایک سو کے عدد سے تجاوز کرچکا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کو جامعۃ المصطفٰی العالمیہ کی طرف سے «محقق برتر» کی سند بھی دی گئی ہے۔ اسی طرح ابھی  تک کئی بین الاقوامی ایوارڈ ان کو ملے ہیں۔ اپنی محنتِ شاقہ کے باعث وہ بہت کم عرصے میں ہی ایک اچھے خطیب، نامور محقق، مصنف اور ایک باوقار عالمِ دین کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ گذشتہ دنوں آغا سیّد قمر عباس حسینی نے ان سے ایک انٹرویو لیا تھا جو کہ قارئین کے لئے پیشِ خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: آغا صاحب آپکے خیال میں موجودہ معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک دینی طالب علم کو سب سے زیادہ کون سی ابحاث پر خاص توجہ دینی چاہیے۔؟
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی:
طالب علم یونیورسٹی کا ہو یا دینی مدرسے کا، سب سے پہلے تو اسے اپنی ذات اور اپنے ہدف کی شناخت ہونی چاہیے۔ جب ایک طالب علم اپنی اور اپنے ہدف کی شناخت نہیں رکھتا تو وہ تواضع اور انکساری کے نام پر عقب نشینی اختیار کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر پاتا۔  اس کے ساتھ ساتھ جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اسلامی عقائد ہیں۔ ہمیں عقائد کو خود بھی تخصصی انداز میں سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا اہم نکتہ علوم اجتماعی کی طرف توجہ دینا ہے، جب تک ان دونوں علمی مراکز کے محصل، اجتماعی علوم میں مہارت حاصل نہیں کریں گے، معاشرتی ضرورت اور اس کے راه حل سے کماحقہ آگاه نہیں ہوسکیں گے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے یونیورسٹی  اور دینی مدرسے میں ایسے صاحب فکر و استعداد افراد پیدا ہوں جو معاشرتی مسائل کو سمجھ کر ملک و ملت کی ترقی کے لئے کوئی پروگرام  مرتب کرسکیں۔

اسلام ٹائمز: تخصصی انداز سے کیا مراد ہے۔؟
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی:
تخصصی انداز سے ہماری مراد یہ ہے کہ عقائد کی تعلیم کو تحقیق کے قالب میں مستند استادوں سے حاصل کیا جائے۔  تعلیم اور عقائد میں یہ فرق ہے کہ تعلیم آپ کافر سے بھی حاصل کرسکتے ہیں لیکن عقائد کسی کافر یا بدعقیدہ شخص سے نہیں لے سکتے۔ لہذا ہمیں عقائد کی تعلیم کو خاص اہمیت دینی چاہیے اور اپنے عقائد کو تحقیق کے ہمراہ ٹھوس دلائل، مستند کتابوں اور جیّد استادوں کے ساتھ مستحکم اور مضبوط کرنا چاہیے۔ جب تعلیمی قابلیت اعلٰی سطح تک پہنچ جائے تو پروتحقیقات کے ذریعے خالص دینی عقائد کو حاصل کرنا چاہیے۔ ہمارے تعلیمی مراکز میں تحقیقات کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ علمی مسائل میں بیس تقلیدی رنگ نظر آتے ہیں جو کہ ایک المیہ ہے اور اگر بعض تعلیمی مراکز میں تحقیقات کا عنصر ہے بھی تو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، جس کی سب سے اہم وجہ خود تحقیقی ماہرین کا فقدان ہے۔

اسلام ٹائمز: قبلہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہمارے ہاں دینی تنظیمیں اور پارٹیاں ایک دوسرے سے اتحاد نہیں کرتیں جس کا سارا فائدہ سیکولر تنظیمیں اٹھاتی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی:
اس سلسلے میں میرے پاس  ایک صاف اور سیدھا سا جواب ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ ہر دینی طالب علم تک ضرور پہنچنا چاہیے۔ جب کوئی شخص دینی طالب علم کہلائے اور اجتماعی و تنظیمی امور میں سرگرم ہوجائے لیکن اس کے اندر حُسنِ اخلاق، تحمل اور برداشت کی بجائے بداخلاقی اور بدمزاجی پائی جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی تعلیم اور عقائد پر نظرِثانی کرے۔ اسے ازسرِ نو دین کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں کتابوں کے دورے کرنے اور ڈگریاں لینے کو تو اہمیّت دی جاتی ہے لیکن عملی اور اجتماعی اخلاق پر توجہ نہیں دی جاتی، جس کے باعث میدانِ عمل اور اجتماعی امور میں اخلاقی اقدار پر بداخلاقی کا غلبہ  نظر آتا ہے۔ اخلاقی مریض صرف اپنے مفاد کو دیکھتا ہے، وہ اپنی چودھراہٹ کے لئے خود جس تنظیم میں ہوتا ہے اسے بھی کھوکھلا کرتا ہے اور دیگر تنظیموں کو بھی دیمک کی طرح چاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جب تک دینی تنظیموں میں اخلاقی بیمار موجود رہیں گے، نہ ہی تو دینی تنظیمیں خود مضبوط ہوسکتی ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے حقیقی معنوں میں اتحاد کرسکتی ہیں۔ ایک اور وجہ اجتماعی امور میں دینی و اجتماعی فلسفے سے آشنا نیز تربیت یافتہ افراد کی کمی ہے۔

اسلام ٹائمز: دینی تنظیموں کا ایک اہم ہدف نااہل لوگوں کو ہٹا کر اہل لوگوں کو آگے لانا ہے۔ کیا آپ کو  ہمارے ہاں کی دینی تنظیمیں اس ہدف کے حصول میں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی:
نااہل لوگوں کی بجائے اہل لوگوں کو آگے لانا یہ انبیاء کا مشن ہے۔ حقیقی دینی و اسلامی تنظیمیں انبیاء کے مشن کی علمبردار ہیں، لیکن ہمیں توجہ رکھنی چاہیے کہ اگر دینی تنظیموں کی بھاگ ڈور اخلاقی طور پر پست لوگوں کے ہاتھ میں آجائے تو ایسے لوگ اجتماعی پلیٹ فارموں سے اپنے شخصی مفادات پورے کرنے کی خاطر دشمنوں کے اہداف کے لئے کام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جب ایسی صورتحال ہوجائے تو متخصص افراد یا تو تنظیموں سے نکل جاتے ہیں یا فقط تنقید کرنے تک محدود ہوجاتے ہیں۔ پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دینی تنظیمیں نااہلوں کو ہٹا کر اہل اور متخصص افراد کو آگے لانے میں کامیاب ہوجائیں تو سب سے پہلے انہیں اس عمل کا آغاز اپنی ہی صفوں سے کرنا ہوگا۔ جب ہماری دینی تنظیموں کے اندر یہ تبدیلی رونما ہوگی تو معاشرے پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔

اسلام ٹائمز: آج کل ایک اہم مسئلہ تفتان کا چل رہا ہے۔ تفتان روٹ پر آئے روز کہیں مسافروں کو ڈاکووں کے بھیس میں لوٹ لیا جاتا ہے، کہیں ان سے سرکاری اہلکار رشوت بٹورتے ہیں اور کہیں انہیں دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس ساری صورتحال کا کسی بھی سطح پر نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ سرکاری حکام کو پرواہ ہی نہیں اور میڈیا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، آخر کیوں۔؟
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی:
جو بھی پاکستانی اور مسلمان ہیں یا منصف مزاج انسان ہیں، انہیں اس مسئلے کا درد محسوس کرنا چاہیے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج تک کسی نے اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر کوئی مہم نہیں چلائی۔ آج کے دور میں میڈیا نے اس روٹ کو فوکس ہی نہیں کیا۔ ہم نے خود بھی اس سلسلے میں کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا، مسئلہ تفتان کی وجہ سے جهاں پر اہل تشیع پریشان ہیں، وہیں ہماری قومی سلامتی بھی خطرے میں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اب امن و امان، ملکی و ملی سکیورٹی اور دفاع جیسے امور ہماری حکومت اور تنظیموں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔ حکومت کو چاہیے که تم تر مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اس مسئلہ کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرے۔

اسلام ٹائمز: آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔؟
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی:
دیکھیں سب سے پہلے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ سب کچھ ویسے ہی نہیں ہو رہا، بلکہ اس کے پیچھے ایک منظّم سازش ہے۔ جس میں ظاہری طور پر بعض دشت گرد تنظمیں بھی ملوث ہیں، جو بربریت اور وحشیانہ کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں، یه بھی عوام کو گمراه کرنے کا ایک حربہ ہے۔ دراصل یہ لوگ کسی اور کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس مسئلے کے پشت پرده وہی بین الاقوامی سازش کارفرما ہے جو اس وقت عراق، شام، بحرین، یمن  وغیره  میں چل رہی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے، شیعہ سنی باہمی محبت اور مذہبی راواداری کے ساتھ ره رہے ییں۔ اس سازش کو بےنقاب کرنا، حکومت اور انٹیلی جنس اداروں کا کام ہے۔ حکومت اور عوام  کو چاہیے کہ وہ ملکر اس منظّم سازش کا مقابلہ کریں۔

اسلام ٹائمز: منظّم سازش سے کیا مراد ہے۔؟
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی:
یعنی یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی اور پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے۔ ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کے دشمن اس ملک کو توڑنا چاہتے ہیں۔ دشمن یہ نہیں چاہتا کہ تنہا ایک اسلامی ملک کہ جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے وه مزید ترقی کرے اور ایک بااثر حثیت کا مالک بنے۔ لہذا عالم اسلام کو کمزور بنانے کا بهترین راه حل یہ ہے اس قدر اس ملک میں مذہبی قتل و غارت گری ہو کہ کسی نہ کسی طرح اس ملک میں بسنے والے افراد ایک دوسرے کو مارنے کے لئے اسلحہ اٹھائیں، تاکہ اس ملک میں خانہ جنگی ہو اور یہ ملک ٹوٹ جائے۔ دشمن اب اس ملک کے شیعوں کو اسلحہ اٹھانے پر اکسا رہا ہے۔ چنانچہ شیعوں کو ہر جگہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ لیکن الحمدللہ  یه شیعہ قوم کی بصیرت ہے کہ دشمن ہمیں اپنے ملک کے خلاف استعمال کرنے میں ہر جگہ ناکام ہوا ہے اور آئنده بھی وه ناکام ہی ہوگا۔ پاکستان کے دشمنوں نے ہماری مساجد، امامبارگاہوں، اجتماعات اور مسافر بسوں سمیت ہر جگہ شب خون مارنے کے بعد اب زائرینِ امام حسینؑ کا تعاقب شروع کیا ہے، جبکہ چوده سو سالہ تاریخ ِ اسلام گواه ہے کہ تمام مسلمان امام حسین (علیہ السلام) کے نام پر قربان ہونے کو نجات اور خوشبختی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ اہل تشیع کو مشتعل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے اور اس طرح کی حرکات کے ذریعے پاکستان کے شیعوں کو اسلحہ اٹھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، لیکن پاکستان کے شیعہ بہت باشعور ہیں، وہ اس سازش کو سمجھتے ہیں اب سرکاری اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اس سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔

اسلام ٹائمز: آپ کے نزدیک اس کا حل کیا ہے۔؟
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی:
ہم کبھی بھی اس ملک کی اصلاح اور تعمیر و ترقی سے مایوس نہیں ہوئے اور ہم آج بھی بہتری کی امید رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ "ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔" ہم جانتے ہیں کہ جس طرح ہمارے سرکاری اداروں میں سی آئی اے، را اور موساد کے ایجنٹ موجود ہیں جو یہ سب کچھ کروا رہے ہیں، اسی طرح نیک، محب وطن اور باکردار لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اسی طرح میڈیا میں بھی دیانتدار اور باایمان لوگ موجود ہیں۔ ہم ملک کو درپیش چیلنجز اور لاحق خطرات کے پیش نظر تمام مخلص اور دیانتدار پاکستانی قوم کے سیاسی نمائندوں  اور فوجی و سرکاری افسروں نیز اعلٰی حکام اور میڈیا کے محبّ الوطن کارکنوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم سب ملکر اس ملک عزیز کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں، تفتان روٹ کا زمینی سفر کرکے زائرین کو درپیش مشکلات کا جائزہ لیں اور انہیں حل کریں، سکیورٹی کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں اور رشوت خور سرکاری اہلکاروں کو قرارِ واقعی سزائیں دی جائیں۔ آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس ملک کو ہم نے شیعہ، سنّی، پنجابی، سندھی اور بلوچی و پٹھان سے بالاتر ہو کر بنایا تھا، ہمیں اس ملک کو بچانے کے لئے بھی ان سارے تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اور صرف ہمیں مسلمان اور پاکستانی بن کر سوچنا هوگا۔ اگر یہ مثبت سوچ ہم میں پیدا ہوجائے تو ہم ہر قسم کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے مقابلہ کرسکتے ہیں اور پاکستان کو ایک  معیاری اور ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 460344
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محمد
بهت عمده اور زبردست ماشاء الله
ہماری پیشکش