0
Sunday 17 May 2015 17:24
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا

اگر گوادر روٹ تبدیل ہوا تو بلوچ اور پشتون ملکر اس منصوبے کو خاک میں ملا دینگے، اسفندیار ولی

حکومت نے اصل دہشتگردوں کو کالعدم تنظیموں کی لسٹ میں شامل نہیں کیا
اگر گوادر روٹ تبدیل ہوا تو بلوچ اور پشتون ملکر اس منصوبے کو خاک میں ملا دینگے، اسفندیار ولی
اسفند یار ولی خان عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اور خان عبدالولی خان کے بیٹے ہے۔ وہ 19 فروری 1949ء کو خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی تعلیم اسلامیہ اسکول اور اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی۔ بی اے کی ڈگری یونیورسٹی آف پشاور سے حاصل کی۔ آپ طالبعلمی کے زمانے سے سیاسی سرگرمیوں سے وابستہ رہے۔ 1975ء میں‌ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں انہیں جیل میں قید رکھا گیا۔ 1978ء میں جیل سے باہر نکلنے کے بعد 1990ء تک آپ سیاست سے دور رہے۔ بعدازاں پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ بعدازاں 1997ء کو بھی وہ قومی اسمبلی میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ 1999ء میں پہلی مرتبہ انہیں عوامی نیشنل پارٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ 2008ء میں آپکو سینیٹ کمیٹی برائے بین الاقوامی روابط کا چیئرمین بھی منتخب کیا گیا۔ اسی سال ان پر خودکش حملہ بھی کیا گیا، جس میں وہ محفوظ رہے۔ گذشتہ روز کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں گوادر کاشغر روٹ کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ایک مرتبہ پھر آپ نے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ طالبان تو اب بھی آپکے پیچھے پڑے ہیں اور خاص طور پر بلوچستان میں تو ویسے ہی حالات خراب ہیں، کیا آپکو ڈر نہیں لگتا۔؟
اسفند یار ولی: طالبان تو ہر جگہ موجود ہیں، ان سے کیا ڈرنا۔ آج کے پروگرام میں بھی آپ نے دیکھا کہ عوام کس قدر جوش و خروش سے شرکت کرنے آئی تھی۔ ہمیں تو دنیا کو یہی پیغام دینا ہے کہ ہم ایک پرامن اور ترقی پسند قوم ہیں۔ خاص طور پر پختونوں کے بارے میں جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ انتہا پسند ہیں، تو ہمیں اسکی ہر حال میں نفی کرنی ہے۔

اسلام ٹائمز: اب تو مرکز میں میاں نواز شریف اور خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت ہے، لیکن اب بھی طالبان آپکے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں۔؟

اسفند یار ولی: اگر آپ ایک مکان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، تو کیا آپ مالک مکان کیساتھ لڑینگے یا چوکیدار کیساتھ۔؟ دیکھئے یہ لڑائی افراد کے درمیان نہیں، نہ ہی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہے بلکہ یہ مائنڈ سیٹس کی جنگ ہے۔ جو مائنڈ سیٹ انکی سوچ کے خلاف ہوگا، دہشتگرد انہیں نشانہ بنائینگے۔ یہاں پر بہت سی لبرل ڈیموکریٹک اور بھی جماعتیں موجود ہیں اور یہ طالبان ان سب کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ حکومت پاکستان کے اس دعوے پر یقین رکھتے ہے کہ انہوں نے اچھے اور برے طالبان میں فرق ختم کر دیا ہے۔؟
اسفند یار ولی:
میں تو اپنے جلسوں میں‌ یہی مطالبہ کرتا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوگئیں۔ اتنے مہینے گزرنے کے بعد آج ہمیں کیوں اس حوالے سے اعتماد میں نہیں‌ لیا جا رہا کہ اُن بیس نکات پر کس حد تک عملدرآمد ہوا ہے۔؟ مجھے اس لئے اطمینان نہیں، کیونکہ وزارت داخلہ کیجانب سے کالعدم تنظیموں کی جو لسٹ دی گئی تھی، وہ سراسر غلط ہے، ان میں ایسی بہت سی تنظیمیں ہیں جو اب وجود ہی نہیں رکھتی، جبکہ بہت سی ایسی کالعدم تنظیمیں ہیں جنکو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اسی طرح بعض ایسے افراد کو ان کالعدم تنظیموں کا سربراہ بنایا ہوا ہے، جنکا سرے سے اس تنظیم سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اصل دہشتگردوں کو چھوٹ دے دی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پشاور اسکول حملے کے بعد پہلی مرتبہ ایسی یکجہتی نظر آئی، لیکن اس پر عملدرآمد میں حکومت حزب اختلاف اور قوم کو کیوں اعتماد میں نہیں لے رہی۔ اگر میں‌ کوئی بات چھپاؤنگا تو یقیناً عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات تو جنم لینگے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت ملک میں حکومت میاں محمد نواز شریف صاحب کی ہے یا کسی اور کی۔؟ اسفند یار ولی:
یہ تو آپ کہہ سکتے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا، لیکن جمہوری لحاظ سے تو اس وقت وہ بالکل وزیراعظم ہیں۔ انہی کے زیر صدارت یہ اے پی سی بلائی گئی اور انہی کے زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان بنا اور میں آج بھی یہی سوال کرتا ہوں کہ وزیراعظم صاحب سے کہ کونسے نکات پر کتنا کتنا عمل ہوا ہے آج تک۔ کچھ عرصہ قبل میں حکومت کے اس بیان سے حیران تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ پنجاب میں نہ کوئی کالعدم تنظیم ہے اور نہ ہی ایسا کوئی مدرسہ ہے جسے باہر سے پیسے ملتے ہوں۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات کہی گئی، جو کسی سے پوشیدہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: کبھی آپکو امریکی ایجنٹ کہا جاتا ہے تو کبھی بھارتی ایجنٹ، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
اسفند یار ولی:
جب ہم کہہ رہے تھے کہ یہ لڑائی ہماری لڑائی ہے، تو کوئی ہمیں امریکی ایجنٹ قرار دے رہا تھا تو کوئی انڈین ایجنٹ۔ ایسے طاقتور بھی آئے جنہوں نے ہمیں اسلام کا دشمن قرار دے دیا، لیکن آج وہی تمام لوگ ہماری جگہ پر آکھڑے ہوئے ہیں، اب میں خوشی بھی نہیں منا سکتا، کیونکہ بہت بڑی قیمت اس قوم نے یہاں تک پہنچنے میں‌ ادا کی ہے۔ صرف اس لئے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات آجائے کہ دہشتگردوں کیخلاف یہ جنگ، ہماری جنگ ہے، جیسا کہ میں نے کانفرنس میں بھی کہا کہ ہم تو ہمیشہ پیدائشی کسی نہ کسی کے ایجنٹ‌ ہوتے رہے ہیں، معلوم نہیں‌ کب ہمیں پاکستانی تصور کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: میرا مطلب یہ تھا کہ اب آپکی جماعت پاک چین دوستی کیخلاف میدان میں اتر آئی ہے، حکومت کہتی ہے کہ گوادر پروجیکٹ کو خراب کرنیوالے ملک کے دشمن ہے تو کیا اس حوالے سے کوئی بیرونی ملک آپکو فنڈنگ کر رہا ہے۔؟
اسفند یار ولی:
گذشتہ مہینے جو اے پی سی منعقد ہوئی تھی، وہاں پر بھی میں نے کہا تھا اور آج کوئٹہ میں بھی میں نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے کہ ہم کسی بھی قیمت پر اس منصوبے کیخلاف نہیں ہیں، پاکستان کی ترقی کیلئے گوادر لازمی ہے، ہماری لڑائی اس وجہ سے ہے کہ پلاننگ کمیشن کیجانب سے جو پہلا روٹ بنایا گیا تھا، اس روٹ کو تبدیل کیا جا رہا ہے، ہمیں اس راہداری کی تبدیلی سے اختلاف ہے۔

اسلام ٹائمز: لیکن احسن اقبال صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ جو روٹ پہلے سے طے تھا، اسی پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔؟
اسفند یار ولی:
نقشہ ہماری جماعت نے نہیں بنایا بلکہ پلاننگ کمیشن کیجانب سے بنایا گیا تھا۔ یہ نقشہ 2013ء میں زرداری صاحب کی حکومت میں‌ پلاننگ کمیشن کیجانب سے جاری کیا گیا تھا۔ آج حکومت جس نقشے کا بتا رہی ہے، آپ اسے پرانے نقشے کیساتھ ملائیں تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس میں دو ایشوز انتہائی اہم ہیں، ایک تو اس میں ایک عجیب مسئلہ یہ ہے کہ قراقرم تو موٹر وے نہیں ہے، جی ٹی روڈ ہے، تو قراقرم سے یہ جی ٹی روڈ پر آسکتے ہیں تو انڈس سے کیوں نہیں جاسکتے۔؟ دوسرا یہ کہ ہری پور کو اس سے کیوں باہر کر دیا گیا۔؟ میں احسن اقبال صاحب سے یہی پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو اکنامک زونز انہوں نے تجویز کئے ہیں، حکومت کو چاہیئے کہ ان علاقوں کیجانب زیادہ توجہ دے، جہاں احساس محرومی زیادہ ہو۔ حکومتی نیک نیتی کا اندازہ تب ہی لگایا جاسکتا ہے، جب وہ عملی اقدامات اُٹھائے، لیکن اسے آپ پیچھے چھوڑ رہے ہوں، جبکہ جو پہلے سے ترقی یافتہ علاقے ہیں، آپ مزید انہیں سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لیکن پہلے راستے میں تو امن و امان کی حالت خراب ہے، چین اس شورش زدہ علاقے میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کیسے کرسکتا ہے۔؟
اسفند یار ولی:
اگر ایک گاؤں میں ڈاکو ہو تو اس ڈاکو کی وجہ سے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں پورے گاؤں کو نہ پانی دونگا، نہ گیس، نہ بجلی۔ سارے کا سارا گاؤں بھاڑ میں جائے، یہ تو نہیں ہوسکتا۔ جتنا ایک علاقہ پسماندہ رہے گا، وہاں پر اتنی ہی زیادہ انتہا پسند ذہنیت بنتی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: اگر حکومت پرانے روٹ پر عملدرآمد نہیں کرتی، تو آپکی سرگرمیاں صرف سیمینارز کی حد تک رہیں گی یا اس سے آگے بھی جائینگے۔؟
اسفند یار ولی:
پہلے تو ہمیں امید ہے کہ حکومت اپنی ضد چھوڑ کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے پسماندہ علاقوں سے یہ راستہ گزارے گی، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پشتون اور بلوچ ملکر اس منصوبے کو خاک میں ملا دینگے۔
خبر کا کوڈ : 461403
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش