0
Wednesday 27 May 2015 00:19
سعودی بادشاہت کی بقاء یمن تنازعے سے جڑی ہوئی ہے

یمن تنازعے سے سعودی عرب عدم استحکام سے دوچار اور بہت نقصان اٹھائے گا، ڈاکٹر ہما بقائی

یمن پر سعودی جارحیت کو امریکی و اسرائیلی پشت پناہی حاصل ہے
یمن تنازعے سے سعودی عرب عدم استحکام سے دوچار اور بہت نقصان اٹھائے گا، ڈاکٹر ہما بقائی
ڈاکٹر ہما بقائی معروف درسگاہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کے شعبہ سوشل سائنسز کی چیئرپرسن اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، آپ ایئر وار کالج کراچی سے بھی وابستہ ہیں، اس سے قبل آپ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی دس سال سے زائد عرصہ تک تدریسی خدمات سرانجام دے چکی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ ملکی و عالمی امور کی ماہر اور معروف سیاسی و خارجہ پالیسی تجزیہ کار ہیں، کئی سال آپ بحیثیت تجزیہ کار اور اینکر پرسن پاکستان ٹیلی ویژن اور کئی نجی ٹی وی چینلز کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں، اور حالات حاضرہ کے حوالے سے کئی پروگرامات کی میزبانی کرچکی ہیں، آج کل بھی ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اکثر و بیشتر فورمز اور ٹاک شوز میں بحیثیت تجزیہ کار اپنی ماہرانہ رائے پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے ڈاکٹر ہما بقائی کے ساتھ یمن پر سعودی جارحیت، پاک چین معاہدے، ایران بھارت معاہدے اور چین بھارت معاہدے کے حوالے سے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی میں ان کے دفتر میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: یمن جنگ میں سعودی عرب اگر اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو اسکے سعودی بادشاہت کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
ڈاکٹر ہما بقائی:
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون کامیاب ہوگا، کیونکہ جو یمنی مزاحمت ہے وہ اس سے بہت زیادہ طاقتور ثابت ہوئی ہے، جس کی امید کی جا رہی تھی، خیال یہ تھا کہ فضائی بمباری سے صورتحال قابو میں آجائے گی، لیکن 26 مارچ سے شروع ہونے والی فضائی بمباری کو آج تقریباً دو مہینے ہوچکے ہیں، لیکن جو امید کی جا رہی تھی وہ وہ پوری نہیں ہوسکی، اور اب یہ کہا جا رہا ہے، کم از کم مغربی پروپیگنڈا تو یہ ہے کہ یمن میں جو پانچ روزہ جنگ بندی ہوئی تھی اس کی حوثیوں کی جانب سے خلاف ورزی ہوئی ہے، یہ ایک ایسا تنازع بنتا جا رہا ہے کہ مشرق وسطٰی و دیگر اردگرد کے ممالک بھی نہ چاہتے ہوئے اس میں گھسیٹے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران، جس وقت یہ تنازع شروع ہوا، اس وقت ایران کی صورتحال کافی پیچیدہ تھی، وہ امریکا سمیت عالمی قوتوں کے ساتھ جوہری پابندیوں پر مذاکرات میں مصروف تھا، جو کامیابی کی طرف بڑھے تھے، ایسے وقت میں یمن تنازع کا ہونا، اور ایران کا اس کا حصہ بنا، ایک بہت مشکل فیصلہ تھا، لیکن اب نہ چاہتے ہوئے بھی ایران اس تنازعے کا حصہ ہے، مغربی ممالک بھی اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ جیسا کہ آپ کا سوال ہے کہ اگر سعودی عرب ہار جاتا ہے، سعودی عرب انتہائی کوشش کرے گا کہ وہ غلبہ حاصل کرلے، کیونکہ جو سعودی بادشاہت ہے اس کی اپنی بقا کسی حد تک یمن تنازعے سے جڑی ہوئی ہے، اس وقت سعودی بادشاہت بہت زیادہ فعال ہے، کیونکہ جو کچھ اس کے اردگرد کے ممالک میں ہو رہا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ یہ سب سعودی عرب کے اندر بھی ہو، لہٰذا سعودی بادشاہت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔

جو ایک اور اہم ڈویلپمنٹ ہوئی سعودی عرب میں، جسے دیکھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ اس یمن جنگ کے دوران سعودی محل کا پورا تنظیمی ڈھانچہ یا نظام تبدیل ہوا، نئی اور نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والوں میں سے ایک سعودی ولی عہد بنا، یہ انگریزی بولتے ہیں، انہوں نے امریکی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کی، ان میں سے ایک امریکا میں سفیر بھی رہے، انکا مؤقف بھی امریکا سے انتہائی قریب ہے۔ بہرحال یمن پر سعودی جارحیت کو امریکی و اسرائیلی پشت پناہی حاصل ہے، یہ کہہ دینا کہ یہ تنازع اتنی جلدی ختم ہو جائے گا، یا اس میں کون ہارے گا، کون جیتے گا، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس یمن تنازعے سے پورا سعودی عرب عدم استحکام سے دوچار ہوگا، سعودی عرب کو بہت نقصان ہوگا، جنگی خرچے بہت بڑھ جائیں گے، جو کہ پہلے ہی بڑھ چکے ہیں، اور اس کا فائدہ peripheral states کو ہوگا، میرا خیال ہے کہ چین وہ ملک ہے جو اس یمن سعودی تنازعے سے فائدہ اٹھائے گا، کیونکہ وہ اس تنازع والے خطے کو بائی پاس کرکے اپنی اقتصادی ترقی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، اسی لئے وہ یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف بھی ہے، مجھے لگتا ہے کہ عالمی سماجی نظام (world social order) بدلے گا، اس میں آپ اس تنازعے کی وجہ سے شاید روس اور چین کو طاقتور دیکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: یمن، بحرین اور عراق کا ہاتھ سے نکلنا، وہاں ایرانی اثرونفوذ میں اضافہ ہونا، سعودی بادشاہت کا خاتمہ یا کمزور ہونا، اس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے، اسی لئے بڑے حلقوں کی رائے ہے کہ یمن میں سعودی اسرائیلی مفادات ایک ہوچکے ہیں؟ کیا کہیں گی اس حوالے سے۔؟
ڈاکٹر ہما بقائی:
یہ بات بالکل صحیح ہے، اس وقت جو قوتیں سعودی عرب کو سپورٹ کر رہی ہیں، ان میں اسرائیل اور امریکا شامل ہیں، امریکا نے نہ صرف اپنا پورا وزن سعودی حصے میں ڈالا ہوا ہے، بلکہ وہ یمن پر سعودی جارحیت کا حصہ بھی ہے، اس کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں عرب دنیا میں ہو رہی ہیں، انہیں بغور دیکھنے کی ضرورت ہے، مصر میں کیا ہو رہا ہے، وہاں اخوان المسلمین کی حکومت کے صدر مرسی سمیت دیگر رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی ہے، مصر میں جو آمریت ہے اس کے پیچھے بھی امریکا ہے، مصر میں آمریت کے اوپر سے امریکا نے عسکری پابندیاں ہٹائی ہیں، مصر کو فوجی امداد کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ خود ایک بڑی عسکری طاقت ہے، پھر بھی امریکا جب مصر پر سے فوجی پابندیاں ہٹاتا ہے تو وہ عرب دنیا کو ایک پیغام دیتا ہے کہ مصر میں جو آمریت آئی ہے، جس نے مصر کی منتخب حکومت کو کسی بھی وجہ سے ہٹایا ہے، مصر میں آمریت جس قسم کے فیصلے دے رہی ہے کہ جسے پوری دنیا انسانی حقوق کے برخلاف کہہ رہی ہے، مصری میں آمریت کے ان فیصلوں کو بھی امریکا سپورٹ کر رہا ہے، دیکھنا چاہئے کہ امریکا ان فیصلوں کو کیوں سپورٹ کر رہا ہے، امریکا کس کی پشت پناہی کر رہا ہے، کیونکہ یہاں امریکی مفادات ہیں، امریکا چاہتا ہے کہ عرب دنیا میں ایسی حکومتیں ہوں جو جمہوریت کے برخلاف ہوں، جو عوامی جذبات کے برخلاف ہوں، جو آمریت ہوں، جو اپنے فیصلے عوامی جذبات پر مسلط کرسکیں، اس سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے، اس میں آپ کے سوال کا جواب ہے۔

یہاں پر میں یہ بھی واضح کر دوں کہ امریکا کو اسرائیلی سلامتی عزیز ہے، امریکا میں صہیونی لابی انتہائی مضبوط ہے، اور اب جو 2016ء کے امریکی صدارتی انتخاب کیلئے نئی ڈیموکریٹک امیدوار جن کا نام آ رہا ہے ہلری کلنٹن، اگر آپ انکی ایک کتاب ہارڈ چوائسز (hard choices) پڑھیں، اس میں جو چیپٹر ہے اسرائیل کے حوالے سے، اس میں ان کی واضح سپورٹ اسرائیل کیلئے نظر آتی ہے، اگر ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن امریکی صدارتی انتخاب جیت جاتی ہیں تو یہ امریکی تاریخ میں منفرد ہوگا دو وجوہات کی بنا پر، پہلی وجہ تو یہ کہ عورت حکمران آئے گی، پہلے ایک سیاہ فام آئے تھے، اور دوسری یہ ڈیمو کریٹس تیسری بار جیتے گی، لیکن ڈیموکریٹس تیسری بار صرف اس وقت جیت سکتے ہیں کہ جب ہیلری کلنٹن باور کرا دیں صہیونی لابی کو کہ وہ ڈیموکریٹس تو ہیں لیکن وہ باراک اوبامہ سے مختلف ہیں اور صہیونی لابی کے مفادات ان کیلئے اہم ہیں، اور اس بات پر ہیلری کلنٹن نے اپنی کتاب میں بارہا باور کرایا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران بھارت تجارتی معاہدوں خصوصاً چاہ بہار پر نئے آپریشنز سے پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے اور پاک چین پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ یا اس سے پاک چائنا پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔؟
ڈاکٹر ہما بقائی:
بھارت میں ایک ناریٹو (narrative) ہے اس وقت، وہ یہ کہ پاکستان نے پہلی بار اپنی خارجہ پالیسی میں دو بہت بڑی اور اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس میں ایک بڑی اہم کامیابی یہ حاصل کی ہے کہ اس نے کسی حد تک اپنے آپ کو سعودی اور امریکی اثر و رسوخ سے آزاد کیا ہے، چین کی سپورٹ کی وجہ سے، اور جو چین کی یقین دہانیاں آئی ہیں، اس نے پہلی بار پاکستان کو یہ maneuvering space دی ہیں، موقع دیا ہے کہ وہ ایک ایسا فیصلہ کرسکے کہ جو امریکا اور سعودی عرب کی ڈکٹیشن کے خلاف جاتا ہے، اور وہ فیصلہ تھا کہ یمن میں سعودی جنگ کا حصہ نہ بننا۔ یہ چھوٹا فیصلہ ہے لیکن اس کا ایک اہم پیغام ہے جو پوری دنیا کو گیا ہے، اور یہ فیصلہ صرف اسی وقت ممکن ہوا کہ جب چینی امداد اور یقین دہانیاں پاکستان کو آئیں، لہٰذا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی آزادی کو بھارت بہت شکوک و شبہات (skepticism) سے دیکھتا ہے، دوسری اہم بات جو ہوئی ہے وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں جو استحکام آیا ہے، اشرف غنی کے حکومت میں آنے کے بعد، اور یہ جو ابھی حالیہ معاہدہ ہوا ہے کہ پاک افغان انٹیلی جنس ایجنسیاں مشترکہ طور پر کام کرینگی، دونوں ممالک میں امن کیلئے، میں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر اس معاہدے میں پیشرفت ہوتی ہے، تو یہ تاریخی ثابت ہوگا، اسی لئے بھارت کو اس بات پر خاصی تشویش ہے کہ افغانستان اس کے دائرہ اثر سے باہر نکلتا جا رہا ہے۔

پھر ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ چین کی نظریں کن کے اوپر ہے، چین کی نظر ہے افغانستان کی معدنیات پر، ایران کی توانائی پر اور پاکستان کے روٹس پر، تو چین خطے میں کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ تمام ممالک سے اچھے تعلقات چاہتا ہے، چین کا One Belt, One Road اور چین کا Revival of Old Silk Route ہے، اس میں یہ تمام مالک شامل ہیں، اس میں آگے جا کر بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، انڈیا وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں، چین کے مفادات میں یہ ہے کہ خطے کے ممالک علاقائی توجہ کو مرکز بناتے ہوئے آزادانہ طور پر خارجہ پالیسی مرتب کریں، اس میں سب سے بڑا کردار پاکستان کا ہے، اور پاکستان کیلئے اس لئے بہترین ہے کہ یہ پاکستان کو پہلی دفعہ آزاد خارجہ پالیسی دیتا ہے، اور پاکستان کا امن بھی اس سے جڑا ہے، اگر افغانستان سے تعلقات بہتر ہوتے ہیں، بلوچستان میں شورش پر قابو پا لیا جاتا ہے، تو اس سے جو امن میں بہتری ہوگی، اس سے اقتصادی و معاشی حالات میں بہتری آئے گی۔ اب دنیا جیوپالیٹیکس سے آگے بڑھ گئی ہے، اب جیو اکنامکس کا زمانہ ہے، دیکھیں کسی بھی ملک کے تعلقات کسی بھی ملک سے اچھے ہوں، انڈیا کے تعلقات افغانستان سے ضرور اچھے ہوں، لیکن پاکستان کا مؤقف صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ انڈیا افغانستان تعلقات اگر بہتر ہوتے ہیں تو اس کی قیمت پاکستان کو نہ دینی پڑے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ سمجھ لیں کہ زندگی بھر کیلئے ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں پاکستان کا بہترین فائدہ ہے، اس معاہدے میں پاکستان اور چین کے درمیان مفادات اور دلچسپی کا زبردست تبادلہ ہوا ہے، چین پاکستان کے بغیر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا، اور پاکستان کے پاس بہت عرصے بعد ایک بہترین موقع آیا ہے کہ اپنی معاشیات اور اقتصادیات کو بہتر بناسکے، کیونکہ پاکستان کی معاشی بدحالی بہت سی کمزوریوں میں تبدیل ہو رہی ہے، اور یہ بات ہر ایک کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے سے ایرانی معاشی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے؟
ڈاکٹر ہما بقائی:
جیسے چین اور امریکا کے درمیان پاکستان نے پل (bridge) کا کردار ادا کیا تھا، تو اب چین ایران اور پاکستان کے درمیان وہ پل (bridge) بن سکتا ہے، جو اس وقت اعتماد کی کمی ہے پاکستان اور ایران کے درمیان، کیونکہ ایران سمجھتا ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر اور سنجیدگی کے ساتھ سعودی لابی میں بیٹھا ہے، امریکی لابی میں بیٹھا ہے، اور وہ اپنی خارجہ پالیسی کے فیصلے ان کے حوالے سے کرتا ہے، اگر پاکستان کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں مزید استحکام آتا ہے، اور پاکستان سعودی عرب اور امریکا سے دوستی تو رکھتا ہے، لیکن اگر آزاد خارجہ پالیسی کے حوالے سے اقدامات کرتا ہے، تو ایران اور پاکستان کے درمیان چین پل (bridge) بن سکتا ہے، ایران خطے کا اہم ملک ہے، ایران سے ہماری سرحد ملتی ہے، افغانستان اور بلوچستان کا امن ایران کے ساتھ بہتر تعلقات سے جڑا ہوا ہے، پاکستان جن مسائل کی وجہ سے ایران سے دور ہوا تھا، ایک بار پھر موقع ہے پاکستان کے پاس کہ امریکا اور سعودی عرب سے تعلقات خراب کئے بغیر ایران سے تعلقات بہتر کر لے، امریکا بھی یہی کر رہا ہے، وہ نیوکلیئر ڈیل میں گیا ہے، ایران بھی عالمی تنہائی سے باہر نکل کر عالمی مرکزی دھارے میں آنا چاہتا ہے، اگر پاکستان اور چین ملکر ساتھ ہوتے ہیں اور ایران اس معاشی پیراڈائم (economic paradigm) کا حصہ بنتا ہے، تو پرانی چپقلش کو بھلا کر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک چائنا تجارتی معاہدے، انڈیا چائنا معاہدے، ایران بھارت معاہدے، یورو ایشین یونین، کیا یہ معاہدے عالمی سرمایہ دارانہ نظام یا اسوقت امریکی سربراہی میں عالمی معاشی قوتوں کی مونوپولی کے خاتمے اور ان کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں؟
ڈاکٹر ہما بقائی:
بالکل بن سکتے ہیں، اور اس حوالے سے امریکا کی سوچ میں کوئی ابہام بھی نہیں ہے، ابھی جاپانی وزیراعظم امریکا گئے ہوئے تھے، اور وہاں وائٹ ہاوس میں ان کی بہت ہی اہم ملاقات امریکی صدر اوبامہ کے ساتھ، اور اس ملاقات کے بعد جو امریکی صدر اوبامہ نے بیان دیا، اسے ہم سب کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ کیوں آیا، اوبامہ نے یہ بیان دیا کہ اگر اس خطے میں یعنی ہمارے خطے میں ساوتھ ایسٹ ایشیا (southeast asia) اور ساوتھ ایشیا (south asia) میں معاشی قوانین اور ریگولوشن (economic rules and regulation) ہم نے نہیں لکھے تو وہ چین لکھے گا، یعنی ان کے ذہن میں یہ سوچ موجود ہے کہ چین ایک ابھرتی ہوئی عالمی قوت ہے، جو صرف امریکا کو چیلنج ہی نہیں کریگی، بلکہ خطے میں ہر جگہ اثر و نفوذ بڑھائے گی، اور عالمی امور پر نظر رکھنے والے جو سنجیدہ حلقے ہیں وہ دیکھتے ہیں چین کس طرح تقریباً ہر میدان میں نا صرف امریکا کا مقابلہ کر رہا ہے، بلکہ آگے نکل رہا ہے، وہ خاموش سفارتکاری پر یقین رکھتے ہوئے اپنے مفادات کی بہت تیزی کے ساتھ حفاظت کر رہا ہے، چین کی معاشی ترقی پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، پورا خطہ چین کی معاشی ترقی کا حصہ بن رہا ہے، امریکا اس سب پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، اچھا پھر سب جانتے ہیں کہ چین جب امداد دیتا ہے تو اس کے بدلے میں بہت کچھ نہیں چاہتا، جیسے کہ امریکا کیلئے ہے کہ اگر وہ امداد دیتا ہے تو اس کے بدلے میں بہت کچھ چاہتا ہے، یوں چین کو امریکا کے مقابلے میں بہت بڑا فائدہ حاصل ہے کہ اس لئے ممالک چین کے ساتھ ملنے میں کسی تردد کا شکار نہیں ہوتے۔

اسلام ٹائمز: خطے میں ہونیوالے معاشی و تجارتی معاہدوں کی روشنی میں پاکستان کا کردار کیا ہونا چاہیئے؟
ڈاکٹر ہما بقائی:
پاکستان کا کردار صرف ایک ہی ہونا چاہیئے، بہت عرصہ ہوا ہم نے یہ کردار ادا نہیں کیا، وہ یہ کہ ہم ہر فیصلہ یہ سوچ کر کریں کہ اس میں پاکستان کا مفاد کیا ہے۔ پاکستان میں بہت سارے ایسے فیصلے ہوئے جس میں پاکستان کے کچھ لوگوں کا مفاد جڑا ہوا ہے، اگر آپ کو شروع کی ڈپلومیسی یاد ہو کہ جب یمن تنازع شروع ہوا تھا، تو وہی لوگ جن کا مفاد پاکستان کے یمن جنگ میں کودنے میں جڑا ہوا تھا، انہوں نے کوشش کی کہ ایسا ہو، لیکن یہ تو میں کھلے الفاظ میں کہنے کو تیار ہوں کہ یہ تو ہماری عسکری قوتوں کی سنجیدگی ہے، جس نے ان لوگوں کے ذاتی مفادات پر ضرب لگائی اور یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان میں اس جنگ میں کودنے کی سکت نہیں ہے کہ جس کے بعد میں پاکستان پر بھیانک اثرات مرتب ہوں، کیونکہ ہم نے جس بھی بیرونی جنگ میں حصہ لیا، اس کے بھیانک بتائج ہم نے بھگتے، اور آج تک بھگت رہے ہیں، افغان جنگ کے نتائج سے پاکستان آج تک نہیں نکل پایا ہے۔
خبر کا کوڈ : 463339
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش