0
Sunday 31 May 2015 21:23

بلوچستان اور کراچی کے حالیہ واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" ملوث ہے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم

بلوچستان اور کراچی کے حالیہ واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی "را" ملوث ہے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ جنرل عبدالقیوم اس وقت مسلم لیگ نون کے سینیٹر ہیں، اس کے علاوہ سینیٹ میں قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیدوار کے چیئرمین ہیں، حالیہ دنوں میں پاک فوج کی جانب سے دفاعی بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا، جس پر بعض حلقوں کی جانب سے سوالات کیے گئے، اس پر اسلام ٹائمز نے ان سے اہم انٹرویو کیا ہے اور دفاعی بجٹ سمیت کوئٹہ اور کراچی میں ہونے والی دہشتگردی پر سوالات کئے گئے ہیں۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب عسکری حلقوں کیطرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ آپ اس مطالبے کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
دفاعی بجٹ کا تعلق اس سوال سے ہے کہ ملک کی سلامتی کو کیا خطرات درپیش ہیں۔ اگر تو بہترین سفارتکاری کے ذریعے بیرونی خطرات کو ڈفیوز کرتے ہیں اور اندرونی خطرات کا بھی سیاسی طریقہ سے مقابلہ کریں تو پھر دفاعی بجٹ کم ہوسکتا ہے۔ اگر اندرونی اور بیرونی خطرات منڈلاتے رہیں گے تو پھر آپ کو اس پر سوچنا ہوگا کہ پونے دو لاکھ فوج جو اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں جنگ لڑ رہی ہے اور دہشت گردوں سے نمٹ رہی ہے، اس کے علاوہ آپ کا دشمن سینکڑوں ملین ڈالر روپے خرچ کر رہا ہے اور اس کے دفاع کا تعلق ہمارے بارڈر کیساتھ ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم دہشتگردوں کی مدد جاری رکھیں گے تو پھر فورسز کی ڈیمانڈ جائز ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر سکیورٹی فورسز کی ڈیمانڈ جائز ہیں تو پھر اعلٰی سیاسی اتھارٹی کو یہ اختیار کیوں نہیں دیا جاتا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں۔ اسکے علاوہ پارلیمنٹ میں دفاع سے متعلق فقط ایک لاین پیش کی جاتی ہے تو پھر اس کی تفصیل بھی پارلیمنٹ میں آنی چاہیئے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
دیکھیں چونکہ میں افواج پاکستان کا حصہ رہا اور بہت سارا بجٹ خود خرچ کرتا رہا، اس لئے وثوق سے کہتا ہوں کہ جتنا چیک ائنڈ بیلنس افواج میں ہوتا ہے، اتنا کسی اور ادارے میں نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں کوئی تخصیص نہیں ہوتی بلکہ جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں خرچ کرتے ہیں۔ بریگیڈئرز، جنرل سمیت تمام رینک کے افسران کے آڈٹ ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے ہیڈز کو ظاہر نہیں کرتے کہ ان ہیڈز پر کتنے پیسے خرچ ہوئے، یہی انڈیا کرتا ہے اور یہی دیگر ممالک کی افواج کرتی ہے۔ میں بطور چیئرمین دفاعی پیداوار ضرور آڈٹ کروں گا، چیزوں کو چیک کروں گا۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ ملک میں دفاع کا خرچہ جنوئن ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: دفاع کے حوالے سے کوئی مبالغہ آرائی یا ضرورت سے زائد ڈیمانڈ تو نہیں کی جاتی۔؟
لیفٹیینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
بلاضرورت کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوتی، میں کہتا ہوں کہ اگر کہیں کوئی کمزرویاں ہیں ان کو پکڑیں، کوئی شاہ خرچیاں نہیں ہوتیں۔ آپ نے سنگل کمانڈر کے لئے کوارٹرز بنانے ہیں، ان کیلئے کنٹونمنٹس بنانی ہیں تو ان کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے، یہ جو چھوٹے موٹے اخراجات ہوتے ہیں یہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اگر 7 ارب روپے کا دفاعی بجٹ ہے تو اس میں اہم چیز تو آلات پر خرچ ہے جو منگوایا جاتا ہے۔ جہاز کتنے ہیں، ہیلی کاپٹرز کتنے ہیں، کیا کچھ آپ اپنے ملک میں بنا رہے ہیں، کیا کچھ منگوا رہے ہیں۔ آپکو دشمن پر ایج کیسے ہوگا، اس کی اہلیت کیا ہے، جس کی بنیاد پر آپ نے مقابلہ کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: دفاع اور دفاعی پیداوار کے ادارے الگ الگ ہیں یا انکا بجٹ ایک ہی ہوتا۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
دفاعی پیداوار کا سیکٹر بہت مفید ہوسکتا ہے۔ دنیا کے اندر تقریباً پندرہ سو ارب ڈالر سالانہ دفاع کے شعبے میں خرچ ہوتا ہے۔ اس رقم میں آدھی رقم امریکہ اپنے دفاع پر خرچ کرتا ہے، باقی بھی ٹھیک ٹھاک خرچہ کرتے ہیں۔ امریکہ کے اندر بڑی بڑی فیکڑیاں ہیں، جو ایف 16 تک بناتی ہیں، وہ اس سے کماتے بھی ہیں، ہمیں بھی ریسرچ ائنڈ ڈیویلپمنٹ ڈیفنس پروڈکشن پر ضرور پیسہ خرچ کرنا چاہیئے۔ اس پر پیسے لگانے چاہیے، تاکہ اپنی چھ لاکھ فوج کی دفاعی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ تاکہ اپنے نارمل قومی بجٹ کو کم کیا جاسکے۔ یہاں تک اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ کمرشل مقاصد کیلئے سرپلس کیپسٹی کو استعمال کیا جائے اور دفاعی الات برآمد کئے جائیں۔ مثلاً مشاق جہاز، خالد ٹینک ہیں، اسی طرح دیگر دفاعی اشیاء ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ روز سیاسی اور ملڑی قیادت نے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا، ہم نے ماضی میں بھی دیکھا کہ اس طرح کے وزٹس ہوتے ہیں اور بریفنگ دی جاتی ہے لیکن اسکے باوجود دہشتگردی کی کارروائیاں ہوجاتی ہیں۔ ہم انکو روکنے میں کیوں ناکام ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
وزٹس دہشتگردی کو روکنے سے متعلق یا تاثر دینے سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ ملک کے چیف ایگزیکٹوز جاننا چاہتے ہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ ہماری انٹیلی جنس کے خطرات کیا ہیں، کاونٹر انٹیلی جنس کے پلان کیا ہیں تو ان کو سمجھا جاتا ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ جو کوشش ہو رہی ہے اس سے دہشتگردی کے واقعات میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے اور مزید کمی آئیگی، اِکا دُکا واقعات تو ہوتے ہیں لیکن کبھی بھی کلین چٹ نہیں دی جاسکتی، حتٰی یورپ میں بھی واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات کم ہونے پر اظہار کروں گا کہ اس کا کریڈ ہماری مسلح افواج کو جاتا ہے، انٹیلی جنس کو جاتا ہے، جنہوں نے قربانیاں دی ہیں، ہم رات کو سکون سے سوتے ہیں وہ جاگ کر اس ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ امن کے قیام کیلئے وہ جنگ میں داخل ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارتی وزیر دفاع اور داخلہ نے بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے دہشتگردوں کو سپورٹ کرینگے، لیکن ہماری طرف سے محض تشویش کا اظہار کیا گیا، آخر کیوں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
پبلک کے لئے سفارت کاری کی زبان میں یہی کہنا کافی ہے، لیکن ساتھ ساتھ ہم نے اپنے دفاع کی تیاری کرنی ہے، کاونٹر انٹیلی جنس کے شعبے کو مضبوط کرنا ہے، سفارتی سطح پر بھارت کے ان شیطانی عزائم کو سامنے لیکر آنا ہے۔ را کی صرف پاکستان میں مداخلت نہیں رہی، را کی بنگلہ دیشن میں مکتی باہنی کے سلسلے میں، را کی سری لنکا کے اندر تامل کے ذریعے مداخلت کرنا، اس کے علاوہ میانمار میں بھارت کی مداخلت تھی۔ بھارتی وزراء فرسٹیشن میں ایسے بیان دیتے ہیں۔ ہمارے افغانستان میں ہونے والے بریک تھرو سے بھارت کو شدید پریشانی ہے، کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر یہ لوگ افغانستان میں اپنے کونصل خانوں سے دہشتگردوں کو ہنڈل نہ کرسکے تو ان کیلئے پاکستان میں مداخلت کرنا مشکل ہوجائیگی اور پاکستان مستحکم ہوجائیگا۔ پال کینیڈی نے کہا تھا کہ پاکستان کلیدی ملک ہے، اس جملے کی اس نے تعریف کی تھی، اگر اسے مٹانے کی کوشش کی گئی تو پورا خطہ شعلوں کی لپیٹ میں آجائیگا، اور اگر مستحکم ہوگیا تو راکٹ کی طرح اوپر کی جانب جائیگا۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر اقتصادی راہداری کے منصوبے اپنی تکمیل کو پہنچ گئے اور گیس پائپ لائنز مکمل ہوگئی تو ان کیلئے مشکل ہوجائیگی، مستحکم پاکستان کبھی بھی انڈیا کو پسند نہیں آسکتا۔
خبر کا کوڈ : 464321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش