0
Tuesday 23 Jun 2015 21:14

تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی ملت تشیع کیلئے کوئی بہتری نہیں آئی، علامہ سبطین الحسینی

تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی ملت تشیع کیلئے کوئی بہتری نہیں آئی، علامہ سبطین الحسینی
علامہ سید محمد سبطین حسین الحسینی کا بنیادی تعلق سرزمین شہداء پاراچنار سے ہے، وہ زمانہ طالب علمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ رہے، اس وقت وہ مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، علاوہ ازیں ٹیکسلہ میں وہ شہداء کے بچوں کی تعلیم، تربیت اور کفالت کی غرض سے زینبیہ اکیڈمی کے نام سے فلاحی ادارہ بھی چلا رہے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ سید سبطین الحسینی کیساتھ صوبہ خیبر پختونخوا کی صورتحال کے حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا بالخصوص پشاور میں امن و امان کے حوالے سے مجلس وحدت مسلمین صوبائی حکومت کی کارکردگی کو کیسے دیکھ رہی ہے۔؟
علامہ سبطین الحسینی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ حقیقت یہ ہے کہ سابقہ ادوار میں ہونے والے خودکش دھماکے اور دہشتگردی وہ تو اب نہیں ہے، تاہم تشیع کے حوالے سے وہی صورتحال ہے جو پہلے تھی، جو حالات سابقہ حکومتوں کے ادوار میں تھے وہی اب بھی ہیں، مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ اگر تشیع کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو اس حکومت کے دور میں ہمیں کوئی ایسی صورتحال نظر نہیں آئی، صورتحال بدترین ہے۔ سابقہ حکومتوں کے وزراء ہمارے پاس آتے تھے، عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت ہو یا حتٰی کہ متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت کو دیکھ لیں، ان کے نمائندے ہمارے مراکز میں آتے تھے، لیکن اب یہ صورتحال نہیں ہے۔ اس حکومت سے ہمیں ایسی کوئی خیر کی توقع بھی نہیں ہے، یہ صرف وعدے کرتے ہیں، تاہم آج تک کسی وعدے کو انہوں نے نہیں نبھایا، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے حوالے سے کوئی بہتری آئی ہے اور نہ ہی کسی بہتری کا امکان ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ امامیہ مسجد پشاور کے بعد صوبائی حکومت کیساتھ مذاکرات ہوئے تھے، حکومت نے ملت تشیع کے کن کن مطالبات پر عملدرآمد کیا۔؟
علامہ سبطین الحسینی:
اس سانحہ کے ایک ہفتہ کے اندر اندر ملت تشیع کے ایک نمائندہ وفد نے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا سے ملاقات کی تھی، اس موقع پر انہوں نے کئی احکامات بروقت جاری کئے تھے، لیکن کسی ایک مطالبہ پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ سانحہ امامیہ مسجد سے ڈیڑھ سال پہلے وزیراعلٰی نے سکیورٹی کے حوالے سے اہلکار دینے کی یقین دہانی کرائی تھی، جب ہماری وزیراعلٰی سے ملاقات ہوئی تو وہ اس صورتحال پر اپنے افسران پر بھی برہم ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ آج تک میرے احکامات کی تعمیل کیوں نہیں ہوسکی۔؟ لیکن اس کے باوجود بھی کوئی عمل نہیں ہوا، ہم نے تحریک انصاف کے بڑوں سے بھی بارہا رابطے کئے، اور ان سے مطالبہ کیا کہ ان سے ہماری ملاقات کرا دیں، تاکہ ازالہ ہوسکے، لیکن کوئی عمل نہیں ہوا۔ ہماری ملت ان سے نالاں ہے، کوہاٹ کے علاقہ کے ڈی اے میں، جہاں ہر مکتبہ فکر کی مساجد ہیں لیکن انہوں نے وہاں بھی ہمارے لئے مشکلات کھڑی کی ہیں، اللہ سے بہتری کی دعا ہے، لیکن اس حکومت سے بہتری کی کوئی امید نہیں۔

اسلام ٹائمز: بلدیاتی الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کو کس حد تک کامیابی ملی، دھاندلی کے الزامات بھی لگے، کیا کہیں گے۔؟
علامہ سبطین الحسینی
:
بلدیاتی الیکشن میں مسئلہ یہ تھا کہ ہم نے الیکشن سے قبل ہر ضلع کی کمیٹیاں بنائیں، تاکہ ضلع ہی بہتر تشخیص دے، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور ہنگو پر ہم نے فوکس کیا، مقامی سطح پر شیعہ عمائدین سے بارہا رابطوں کے بعد طے یہ ہوا کہ ہم اپنے نام سے الیکشن نہیں لڑیں گے، چونکہ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ ملت تشیع کا ہر فرد دلی طور پر مجلس وحدت کا خواہاں اور چاہنے والا ہے، ہم نے دیکھا کہ اگر ہم کسی ایک کو ٹکٹ دیں تو ہمیں کافی ناراضگیاں مول لینا پڑیں گی، تنظیم کا اس کو نقصان ہوگا اور فائدہ کوئی نہ ہوگا، ایک بات یہ تھی کہ ہمارے اضلاع کی یہی تشخیص تھی۔ اس کے علاوہ مرکزی قیادت کی تمام تر توجہ اور توانائیاں گلگت بلتستان میں خرچ ہونا تھیں، اس حوالے سے ہمارے پاس وسائل کی کمی تو دور کی بات بلکہ فقدان تھا، اسی وجہ سے ہم بلدیاتی الیکشن میں بھرپور حصہ نہ لے سکے، ہماری مقامی قیادت نے زمینی حقائق کا بخوبی جائزہ لیا تھا، اور ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے اپنے نام سے الیکشن میں حصہ لیا تو اہل تشیع میں اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں، مومنین چونکہ مجلس وحدت کے خواہاں ہیں اور ہم کسی مومن کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں شدید گرمی سے ایک ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، اسے آفت الٰہی سمجھا جائے یا سندھ و مرکزی حکومت کی نااہلی۔؟
علامہ سبطین الحسینی:
کراچی وہ شہر ہے جس کو منی پاکستان کہا جاتا ہے، یہ روشنیوں کا شہر اور ملکی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس شہر کے کئی مسائل ہیں، تاہم حکمرانوں کی نگاہ میں مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کو ملکی مفادات کی بجائے پارٹی مفادات اور گروہی مفادات زیادہ عزیز ہیں، سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر پر توجہ نہ دینا اور مصلحتوں سے کام لینا اس شہر کے لئے وبال جان ہے، ان مسائل کے ہوتے ہوئے پھر لوڈشیڈنگ کے مسائل آجاتے ہیں، جو واقعی حکومتوں کی نااہلی ہے، کیونکہ جس طرح میں نے پہلے عرض کیا ان کو ملکی مفادات سے زیادہ پارٹی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ اللہ کرے کہ ہمیں کوئی ایسے حکمران نصیب ہوں، جو ذاتی اور پارٹی مفادات سے ہٹ کر ملکی مفادات کے بارے میں سوچیں۔ انشاءاللہ امید ہے کہ خدا اس حوالے سے لطف و کرم فرمائے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ آپریشن ضرب عضب کی اب تک کی کامیابیوں کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سبطین الحسینی:
پاک فوج کی ملک کے امن و امان کیلئے بڑی قربانیاں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ہزاروں شہداء اور سینکڑوں جانباز ہیں، آپریشن ضرب عضب سے شہروں میں صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے، سب کچھ دنیا کے سامنے ہے کہ ملکی حالات میں کافی بہتری آئی ہے، لیکن اس آپریشن کو مزید طول دینے اور نئے عزائم کیساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے، اور اس کیساتھ ساتھ ان عوامل کا سدباب بھی ضروری ہے، جو دہشتگردی کو جنم دیتے ہیں اور دہشتگردی کا سبب بنتے ہیں۔ اگر فاٹا کے علاقوں کو ترقی ملتی ہے اور ان کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے کوششیں ہوتی ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوششیں کافی موثر ثابت ہوں گی، البتہ پاک فوج سے ہمیں یہی توقع ہے کہ جہاں تک انہوں نے بندوق سے کام لیا، وہاں ان علاقوں کیلئے وہ قلم سے کام لیں اور ایسے عوام جو دہشتگردی کو پروان چڑھاتے ہیں اور ایسے عناصر جو ملک دشمن ہیں، ان کا قلع قمع کر دیں، ہماری دعائیں بھی پاک فوج کیساتھ اور توانائیاں بھی پاک فوج کیساتھ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 468648
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش