0
Friday 26 Jun 2015 01:19

گلگت بلتستان انتخابات کے نتائج خلاف توقع اور حیران کن تھے، علامہ حسن رضا ہمدانی

گلگت بلتستان انتخابات کے نتائج خلاف توقع اور حیران کن تھے، علامہ حسن رضا ہمدانی
علامہ حسن رضا ہمدانی مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی سیکرٹری تبلیغات ہیں۔ تعلق ضلع شیخو پورہ کی تحصیل فیروز والا سے ہے۔ ان کا شمار ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے فعال ترین رہنماوں میں ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ پنجاب حکومت کے ہاتھوں پابند سلاسل بھی رہ چکے ہیں۔ حزب اللہی فکر کے حامل نوجوان عالم دین ہیں۔ اسلام ٹائمز نے چند اہم موضوعات پر علامہ حسن رضا ہمدانی کا انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: اپنے بنیادی تعارف کے بارے میں کچھ بتائیں۔؟
علامہ سید حسن رضا ہمدانی:
سید حسن رضا ہمدانی بندہ حقیر کا نام ہے۔ ضلع شیخو پورہ کی تحصیل فیروز والا سے تعلق ہے۔ میٹرک تک وہیں سے تعلیم حاصل کی، بعد ازاں جامعہ امامیہ لاہور میں علامہ حسین بخش جاڑا اعلی اللہ مقامہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کئے۔ استاذ العلماء علامہ عبدالغفور جعفری صاحب کی خصوصی شفقت سے مقدمات سے جلد فراغت پاکر ادیب عربی اور فاضل عربی کے امتحانات درجہ اولٰی میں پاس کئے۔ حجۃ الاسلام علامہ نوید اصغر شمسی جو کہ وقف قزلباش کے زیر اہتمام ہر دو مدارس جامعہ امامیہ اور مدرسۃ الواعظین کے مسئول کی حیثیت سے قم المقدسہ سے تشریف لائے، بعد ازان جامع مسجد صاحب الزماں کی ذمہ داری قبول کرکے جامعہ امامیہ کی سرپرستی سے معذرت کر لی۔ یوں ہم بھی مدرسۃ الواعظین کے طالب العلم قرار پائے اور رسائل تک آقائے شمسی مدظلہ سے تدریس لی۔ مکاسب کے مباحثی نہ ہونے کے سبب تکمیل نہ ہوسکی۔ حال میں جامع مسجد ابوذر غفاری (رض) میں بطور امام جمعہ اور جامع قرآن ناطق لاہور میں تدریس کی خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ ایم ڈبلیو ایم میں بطور صوبائی سیکرٹری تبلیغات پنجاب کی ذمہ داری ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین کی کارکردگی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید حسن رضا ہمدانی:
گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کے نتائج خلاف توقع اور حیران کن تھے۔ 24 گھنٹے الیکشن نتائج میں تاخیر کرکے نتائج تبدیل کروانا نون لیگ کی پرانی چال ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت سے جو نتائج تبدیل کئے گئے۔ الحمدللہ ان سے مجلس وحدت مسلمین کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑا، بعض دوستوں کو شاید مایوسی ہوئی، مگر ہم بطور جماعت مطمئن ہیں کہ ہم نے گلگت بلتستان کے عوام میں بیداری اور اپنے آئینی حقوق کی حصول کی جدوجہد کی آرزو کو جہت اور سمت دی ہے۔ ہمارے منتخب نمائندے تعداد میں فقط دو ہیں، مگر ہم امید کرتے ہیں کہ جس طرح بلوچستان میں موجود اکلوتا نمائندہ حاج آغا سید رضا اپنے مومنین کے لئے ایک ارب چوراسی کروڑ کے فنڈز صرف کرکے تعلیم اور صحت جیسی اہم ضروریات کو دہلیز پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، یہ احباب بھی گلگت بلتستان کے مظلومین کی آواز بنیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم اور آئی ٹی پی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ نواز لیگ انہیں ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لئے میدان میں لائی، اس بارے کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید حسن رضا ہمدانی:
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ سالار وحدت علامہ ناصر عباس جعفری، آغا سید راحت الحسینی مدظلہ سے دلی عقیدت رکھتے ہیں اور آغا راحت حسین الحسینی مدظلہ بھی مجلس وحدت مسلمین کی خدمات کو تسلیم کرتے ہیں، جب ہی اپنے خطبہ جمعہ میں ہماری جماعت کی جانب سے نون لیگ کو دی جانے والی پیش کش کہ "اگر آئینی حقوق دیں تو وہ الیکشن سے دستبردار ہو جائیں گے’’ کو قبول کرنے کے لئے کہا۔ پھر ایک اور خطبہ میں فرمایا کہ آپ لوگ آزاد ہیں جسے چاہیں ووٹ دیں۔ مگر یہ ضرور دیکھیں کہ کون آپ کے دکھ درد میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ پھر آقای راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کا یہ فرمانا کہ اگر آقای راحت حسینی فرمائیں تو ہم اپنے تمام امیدوار دستبردار کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم سادہ کاغذ پر دستخط کر دیتے ہیں، جو آپ فیصلہ کریں ہمیں قبول ہوگا۔ میرا نہیں خیال کہ ان تمام باتوں کے بعد بھی کوئی چیز مبہم رہ گئی ہو کہ کن وجوہ سے آقای راحت کی کوشش ثمر آور نہیں ہوسکی۔ پی پی کی طرف سے ہی شور شرابہ اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ہے، میں صرف اپنی بات کروں گا، بھلا نواز لیگ ایم ڈبلیو ایم کو میدان میں کیسے لاسکتی ہے کہ جو ہمیشہ اس کی مخالفت کرتی آرہی ہے۔ اس کی حکومت گرانے میں ایک گرینڈ الائنس کا نہ صرف حصہ رہی بلکہ صف اول میں تین ماہ تک سڑک پر موجود رہی ہے۔ جس کی پاداش میں پنجاب کے عبیداللہ ابن زیاد کی حکومت نے کارکنوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ تاحال جاری رکھا ہوا ہے۔ عنقریب ایک دفعہ پھر ہم حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے، انشاءاللہ۔ علامہ راجہ ناصر نے کہہ دیا ہے کہ جو بھی گلگت بلتستان حکومت میں نواز لیگ کے ساتھ اتحاد کرے گا، ہم اس کے ساتھ الائنس نہیں بنائیں گے۔ عام انتخابات میں بیرونی دباو کے باوجود ہم نے پی پی کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ اپنے ملی مفاد میں فیصلے کئے تھے، تو اب بھلا ہم اپنے دشمن کے کہنے پر کیونکر میدان میں اترے۔

اسلام ٹائمز: یمن کی صورتحال دن بدن بگڑ رہی ہے، سعودی بمباری ایک دفعہ پھر جاری ہے، مسئلہ کا حل کیا ہوسکتا ہے۔؟
علامہ سید حسن رضا ہمدانی:
یمن کے مسئلہ کا واحد حل جیسا کہ سید مقاومت نے فرمایا کہ وہاں کی عوام کو اپنے حق میں خود فیصلہ کرنے کا قانونی و اخلاقی حق دینا چاہیے اور باہر سے دیگر تمام طاقتوں کی مداخلت بند ہونی چاہیے۔ انصاراللہ، یمن کی عوام کی آواز ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زیدی اور شافعی مسالک کے افراد کا ملکر سعودی عرب میں اپنے مقبوضہ علاقوں کی طرف پیش قدمی ہے، جبکہ سعودی عرب اور اس کے حواری ڈیری فارمز، سکولوں، ہسپتالوں اور آبادیوں پر حملہ آور ہیں۔ بہر حال یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، اس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے، جنگ اس مسئلے کا قطعاً حل نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: یمنی قوم کی تاریخ پر روشنی ڈالیں۔؟
علامہ سید حسن رضا ہمدانی:
آٹھویں صدی کے آخر پر زیدی سادات یمن آئے۔ سعدہ اور نجران میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہوگیا اور ابھی تک موجود ہے۔ یحییٰ ابن الحسین ان کے پہلے امام ہیں۔ جو مدینہ سے یہاں اہل یمن کے اصرار پر تشریف لائے۔ یہاں قاضی القضاۃ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ان کے سبب سے یہاں کی اکثریت جوق در جوق زیدی ہونے لگے اور جلد ہی زیدی مسلک کا رنگ عوام کے عقائد پر غالب آگیا۔ بیسوی صدی کے پہلے عشرے میں زیدی قبائل کے سربراہ اور مسلّم امام یحییٰ عماد الدین کی حکومت تھی۔ انہوں نے یمن سے عثمانیوں کے انخلأ کے بعد جنوب کے علاقوں کی طرف پیش قدمی کی اور انگریزوں کے زیر اثر عدن تک پہنچ گئے۔ اسی دوران انہوں نے اٹلی سے بھی مدد مانگ لی، جو خلافت عثمانیہ کے ہاتھوں شکوہ کناں تھے۔ اٹلی کی مدد پر انگریزوں کو بھی فکر لاحق ہوئی، انہوں نے ابن سعود اور تہامہ کے گورنر سے معاہدے کر لئے، لیکن یہ معاہدے زیدیوں کی پیش قدمی کو نہ روک سکے۔ ’’ادریسی‘‘ جو تہامہ، حدیدہ اور زبید کے حاکم تھے۔ انہوں نے زیدیوں کے خلاف پہلے سعودی عرب سے مدد مانگی، مگر جب آل سعود کی طرف سے مدد کی کوئی توقع نہ رہی تو انہوں نے زیدیوں کی حکومت کو قبول کر لیا۔ آل سعود خود جو پہلے زیدیوں کے خلاف انگریزوں اور ادریسیوں کو مدد دنیے کے حق میں تھے، وہ زیدیوں کے ساتھ خود بھی معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اب ہر طرف محاذ کو سرگرم رکھنا زیدیوں کے مفاد میں نہ تھا، جب ہی انہوں نے انگریزوں اور سعودیوں سے امن معاہدہ کر لیا۔ یوں 1934ء میں امام یحییٰ نے آل سعود سے تہامی اور انگریزوں سے عدن کے عوض چالیس سال تک کے لئے امن معاہدہ کیا۔ یمن کی تاریخ خاصی طویل ہے، جو انشاءاللہ قارئین کے استفادہ کے لئے تحریر کرونگا۔ انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 469076
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش