0
Thursday 25 Jun 2015 17:15
سعودی عرب یمن میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے

خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کے خاتمے کیلئے سعودی اسرائیلی مفادات ایک ہوگئے ہیں، پروفیسر شمیم اختر

سعودی عرب بھی اسرائیل کی طرح امریکی کیمپ سے باہر نہیں آسکتا
خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کے خاتمے کیلئے سعودی اسرائیلی مفادات ایک ہوگئے ہیں، پروفیسر شمیم اختر
پروفیسر شمیم اختر ملکی و عالمی امور کے ماہر اور معروف سیاسی و خارجہ پالیسی تجزیہ کار ہیں، وہ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی (انڈیا) سے پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں، اس کے بعد انہوں نے اسکالرشپ حاصل کرنے کے بعد امریکا سے بھی بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، امریکا سے ہی انہوں نے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔ پاکستان واپس آکر انہوں نے اسلامک ریسرچ سینٹر میں بحیثیت پبلک ریلیشن آفیسر دو سال کام کیا، وہ 1964ء میں جامعہ کراچی سے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہوئے، جہاں سے وہ 1991ء کو ریٹائرڈ ہوئے۔ اسی دوران وہ شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین اور ایریا اسٹڈی سینٹر فار یورپ (جامعہ کراچی) کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ آج کل وہ جامعہ کراچی کے ماسٹرز ایوننگ پروگرام پڑھا رہے ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلز میں ٹاک شوز پر بحیثیت تجزیہ کار ملکی و عالمی امور اپنی ماہرانہ رائے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر شمیم اختر کے ساتھ یمن پر سعودی جارحیت سمیت دیگر موضوعات کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: یمن پر سعودی جارحیت کے حوالے سے کیا کہیں گے، نیز سعودی عرب یمن میں کتنے اہداف کے حصول میں کامیاب رہا ہے۔؟
پروفیسر شمیم اختر:
یمن میں انصاراللہ اور حوثی قبائل نے روز اول سے مفاہمت کیلئے اور وسیع البنیاد قومی حکومت کیلئے دروازے کھلے رکھے تھے، لیکن سعودی عرب نے یمن پر منصور ہادی کی آمریت کو مسلط کرنے کیلئے بمباری شروع کر دی، جسے اب تقریباً تین مہینے ہونے والے ہیں، سعودی عرب نے یمن کی عوام پر اندھا دھند بمباری کی ہے، یہاں تک کہ کلسٹر بم بھی برسائے، جس کے ثبوت پر مبنی ڈاکیومنٹریز ہیومن رائٹس واچ نے جاری بھی کی ہیں، سعودی جارحیت سے یمن کا نہ صرف انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے، بلکہ وہاں عوام کیلئے کوئی محفوظ پناہ گاہ تک نہیں بچی۔ اقوام متحدہ کی ذرائع کی مستند خبر کے مطابق اب تک پانچ لاکھ عوام بے گھر ہوچکی ہے، سینکڑوں بچوں سمیت ہزاروں عوام سعودی جارحیت کا شکار ہوچکے ہیں، یمن پر سعودی حملے بالکل اسی طرز پر کئے جا رہے ہیں کہ جیسے اسرائیل کی جانب سے غزہ سمیت فلسطین پر کئے جا رہے ہیں، جیسے 2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملے کئے تھے۔ یمن پر سعودی حملے اور غزہ پر اسرائیلی حملوں میں مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن ان سب کے باوجود یمن کی عوام کے حوصلے بلند ہیں، کوریا کی جنگ ہو یا ویت نام کی، غزہ اور لبنان پر اسرائیلی حملے ہوں یا اب یمن پر سعودی جارحیت، سب کی ایک ہی کہانی ہے کہ عوام اگر متحد ہے، کسی بیرونی جارحیت کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتی، تو اس قوم پر کتنی ہی وحشیانہ بمباری اور جارحیت نہ کی جائے، نسل کشی کے اسلحے ہی کیوں نہ استعمال کئے جائیں، لیکن اس کے عزم میں لرزش نہیں آتی۔ سعودی عرب نے صرف فضائی بمباری ہی کی، لیکن زمینی حملہ کرکے اب تک یمن کے کسی بھی حصے پر قبضہ نہیں کرسکا، نہ ہی منصور ہادی کی حکومت دوبارہ مسلط کرسکا، لہٰذا سعودی عرب یمن میں اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب طاقت اور بمباری کے بل بوتے پر یمن پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا۔

اسلام ٹائمز: خود سعودی بادشاہت پر یمن میں ناکامی پر کیا اثرت مرتب ہونگے۔؟
پروفیسر شمیم اختر:
جیسا کہ سعودی عرب نے یمن پر جن اہداف کے حصول کیلئے جارحیت کی، وہ ان میں ناکام رہا ہے، لہٰذا اس کے سعودی شاہی خاندان اور بادشاہت پر حتماً منفی اثرات مرتب ہونگے، شاہ سلمان سے پہلے والے سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ یمن پر حملے کے مخالف تھے، سعودی خاندان میں یمن پر حملے کے حوالے سے شدید اختلاف تھا، اکثریت حملے کی مخالف تھی، برطرف وزیر خارجہ بھی یمن پر حملے کے مخالف تھے، اسی وجہ سے نئے سعودی بادشاہ نے آتے ہی بہت بڑے پیمانے پر برطرفیاں کیں، اپنے ہم فکر افراد کو شاہی عہدوں پر لائے، تاکہ یمن پر جارحیت کی راہ ہموار کی جاسکے، مگر اس وقت بھی سعودی شاہی خاندان کے اندر یمن پر حملے کے حوالے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں، اس لئے اس جنگ کے سعودی بادشاہت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ سمیت خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ سے جہاں سعودی عرب پریشان ہے، وہاں اسرائیل کو بھی اپنی سلامتی خطرے میں نظر آتی ہے، کیا ایران مخالفت میں سعودی اسرائیلی مفادات ایک ہوگئے ہیں، خصوصاً یمن جارحیت کے حوالے سے۔؟
پروفیسر شمیم اختر:
میں سمجھتا ہوں کہ خطے میں سعودی اسرائیلی مفادات ایک ہوگئے ہیں، جب غزہ پر اسرائیل نے حملہ کیا تو سعودی عرب نے اسرائیل کے بجائے حماس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے دہشتگرد تنظیم قرار دیا، مصر میں بھی امریکا اسرائیل نواز آمر حسنی مبارک کی حمایت کی اور اخوان المسلمین کو دہشتگرد قرار دیا، یعنی جہاں اسرائیل نے حماس، اخوان المسلمین، حزب اللہ کو دہشتگرد قرار دیا ہے، وہیں سعودی عرب نے بھی حماس، اخوان المسلمین اور حزب اللہ کو دہشتگرد قرار دیا ہے۔ اب یمن پر سعودی جارحت کے بعد امریکا اور مغرب کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے بھی سعودی عرب کی حمایت کی ہے اور سعودی عرب کو ہر قسم کے تعاون کی پیش کش بھی کی ہے۔ ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں خصوصاً یمن میں سعودی اسرائیل مفادات ایک ہیں، دونوں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بڑے حلقوں کی رائے ہے کہ مضبوط اسلامی بلاک بنانے کیلئے سعودی عرب کا امریکی کیمپ سے باہر آنا ضروری ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
پروفیسر شمیم اختر:
سعودی عرب بے چارے کے ساتھ کچھ مجبوریاں ہیں، ایک تو وہاں پر شہنشاہیت ہے، پھر اس کے تیل کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے یا امریکا کے اتحادی ممالک ہیں، جس طرح اسرائیل امریکا کے کیمپ سے باہر نہیں آسکتا، اسی طرح سعودی عرب بھی امریکی کیمپ سے باہر نہیں آسکتا۔ سعودی عرب امریکی کیمپ سے اس وقت باہر آئے گا، جب وہاں شہنشاہیت کا خاتمہ ہوگا۔ یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ سعودی عرب اگر امریکا سے بدظن ہوا تو وہ ایران کی وجہ سے ہوگا، جتنا ایران امریکا تعلقات معمول پر آئیں گے، سعودی عرب امریکا تعلقات میں کھنچاؤ پیدا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا ضروری نہیں ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری کیلئے اسلامی ممالک کوششیں کریں۔؟
پروفیسر شمیم اختر:
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر بنانے کا کام پاکستان اور ترکی کرسکتے ہیں، ان دونوں ممالک کو یہ کام کرنا چاہیئے، لیکن یہ بات بھی واضح کر دوں کہ جب سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر بنانے کیلئے کوششیں شروع ہونگی، یہ عالم اسلام کی بقاء کیلئے تو بہت اچھا ہوگا، لیکن امریکی بقاء کیلئے زہر قاتل ثابت ہوگا، اسی لئے اس پر امریکا بہت برا ردعمل ظاہر کریگا، امریکا پوری کوشش کریگا پاکستان اور ترکی کی حکومتوں کو الٹنے کی، جو سعودی ایران تعلقات بہتر بنانے کیلئے کوششیں کریں گی۔ لہٰذا امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ سعودی ایران تعلقات بہتر ہوں، امریکی ردعمل کا توڑ یہ ہے کہ سعودی ایران تعلقات بہتر بنانے کیلئے چین اور روس سے بھی مدد لی جائے، ان کو بھی ساتھ ملا لیا جائے، تو امریکا نقصان نہیں پہنچا پائے گا، کیونکہ چین اور روس بھی چاہتے ہیں کہ سعودی ایران تعلقات بہتر ہوں اور ایران کی طرح سعودی عرب بھی امریکی کیمپ سے باہر آجائے۔ پھر چین خود بھی خطے میں استحکام چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں آپ سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ مسلم لیگ (ن) پر سعودی نواز ہونے کے الزامات ہیں، کیا پاکستان میں سعودی نواز حکومت کے ہوتے ہوئے امریکی سعودی دباؤ سے آزاد خارجہ پالیسی کا قیام اور پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کی بروقت تکمیل ممکن ہے۔؟
پروفیسر شمیم اختر:
میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، میں فوجی آمریت کے حق میں نہیں ہوں، لیکن میں حقائق سے انکار نہیں کرسکتا، پاکستان میں صحیح معنوں میں کوئی ایسا ادارہ ہے، جس کو پاکستانی کی سالمیت اور خودمختاری عزیز ہے، وہ صرف افواج پاکستان ہے، ٹھیک ہے ان سے غلطیاں ہوتی ہیں، اس کے اندر مشرف جیسے غلط آدمی پہنچ جاتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر ادارہ یہی ہے، پاکستان میں اصل اقتدار فوج کا ہے، امریکا کو بھی پتہ ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا سرچشمہ کس ادارے میں ہے، وہ ظاہر ہے کہ فوج ہے، سویلین حکومت کی طاقت صرف پولیس ہوتی ہے، لیکن ملک میں دہشتگردی کے بحران پر قابو پانے کیلئے بھی نواز حکومت کو فوج پر تکیہ کرنا پڑا، یہاں تک نواز حکومت کے آئین میں ترمیم بھی کرنا پڑیں، جو کہ ہمارے اعتبار سے ناخوشگوار تبدیلی تھی۔ چین ہو یا روس، یا امریکا، انہوں نے ملک میں کس سے بات کی، تینوں بڑی عالمی قوتیں کس کو حکمراں سمجھتی ہیں، لہٰذا فوج چاہے تو آزاد خارجہ پالیسی بھی بن سکتی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھی۔
خبر کا کوڈ : 469191
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش