0
Tuesday 30 Jun 2015 00:21
دوسروں کی جنگوں کا حصہ بن کر پاکستان نے ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے

یمن پر سعودی حملے نے اسلامی دنیا کو کمزور کیا ہے، پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث

سعودی عرب اور ایران آپس کی تلخیوں کو ختم کریں
یمن پر سعودی حملے نے اسلامی دنیا کو کمزور کیا ہے، پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث
سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر پاکستان (نان پروفٹ ریسرچ تھنک ٹینک) کی مینجنگ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث سماجی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی و عالمی امور کی ماہر اور معروف سیاسی و تجزیہ کار ہیں، آپ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئرپرسن اور وومن اسٹڈی سینٹر کی ڈائریکٹر بھی رہ چکی ہیں۔ آپ نے جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں، اس کے بعد آپ نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری امریکا سے حاصل کی، آپ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں 33 سال سے زائد عرصہ تدریسی خدمات سرانجام دے چکی ہیں، آپ اکثر و بیشتر ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلزمیں فورمز اور ٹاک شوز پر بحیثیت تجزیہ کار ملکی و عالمی امور پر اپنی ماہرانہ رائے پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث کے ساتھ یمن تنازعہ، عالم اسلام کی موجودہ صورتحال و دیگر موضوعات کے حوالے سے ان کے دفتر میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: یمن کے قضیے کے حوالے سے کیا کہیں گی کہ جہاں منصور ہادی حکومت ری اسٹور کرنے کیلئے کی گئی سعودی جارحیت اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث:
یمن پر سعودی حملے نے اسلامی دنیا کو کمزور کیا ہے، خود سعودی عرب میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، بہت سی وزارتیں بھی تبدیل ہوئی ہیں، شاہی عہدوں پر بھی تبدیلیاں کی گئیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یمن حملے کے اہداف کے حوالے سے جو سوچا گیا تھا وہ حاصل نہیں کیا جا سکا، پھر یمن پر سعودی جارحیت سے ناصرف یمن میں رباہی پھیلی، انسانی جانیں ضائع ہوئیں، بلکہ اس تنازعے نے یمن سمیت پورے خطے کو غیر مستحکم کیا، بدامنی پھیلائی، اور آنے والے کئی سالوں میں بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یمن سمیت خطے میں استحکام آ پائے گا، بلکہ اس یمن تنازعے سے امن مزید خطرات سے دوچار ہوگا۔ میں نہیں سمجھتی کہ یمن میں منصور ہادی کی حکومت واپس اقتدار میں آسکتی ہے کہ جس کیلئے سعودی عرب کیجانب سے حملہ کیا گیا، اس سے نہ تو علاقائی و عالمی امن قائم ہو سکے گا اور نہ ہی مسلم ممالک میں امن و امان کا قیام ممکن ہو سکے گا، بلکہ اس کے برعکس یمن سعودی عرب تنازعے سے مسلم ممالک کے درمیان اختلافات اور دوریاں پیدا ہو گئی ہیں اور اس کے باعث مسلم ممالک کو بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے۔ یمن تنازعے میں سعودی عرب اہداف کے حصول میں ناکام رہا ہے، یمن نے سعودی حملے کے مقابلے میں جو مزاحمت دکھائی ہے، وہ بہت زیادہ ہے، انہوں نے سعودی حملے کو چیلنج کر دا ہے، لہٰذا انہیں سعودی عرب کی جانب نہیں بڑھنا چاہئے، پیشرفت نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ یہ نہ تو یمن کیلئے بہتر ہوگا اور نہ سعودی عرب کیلئے، بلکہ اس میں مسلم دنیا کا نقصان ہے۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ سمیت خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ سے جہاں سعودی عرب پریشان ہے وہاں اسرائیل کو بھی اپنی سلامتی خطرے میں نظر آتی ہے، کیا ایران مخالفت میں سعودی اسرائیلی مفادات ایک ہو گئے ہیں، خصوصاً یمن جارحیت کے حوالے سے؟
پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث:
میں سمجھتی ہوں کہ یہ نہیں ہو سکتا، اور سعودی اسرائیلی مفادات ایک ہونے بھی نہیں چاہیئے۔ دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ جیسا آپ نے سوال میں بیان کیا، مگر اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو، ہم ایسا سمجھنا بھی نہیں چاہتے اور انشاءاللہ ایسا ہوگا بھی نہیں۔ ہمیں خطے میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار نظر آتی ہے،جو کہ مسلم دنیا کیلئے کس طور بہتر نہیں ہے، اسکی وجہ سے مسلم ممالک تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں، کمزور پڑ رہے ہیں، لہٰذا وقت ضائع کئے بغیر مسلم ممالک کو ہوشمندی کے ساتھ اس حوالے سے اپنا انتہائی مثبت کردار ادا کرنا چاہیئے، خصوصاً فرقہ وارانہ کشیدگی کے خاتمے کیلئے، کیونکہ عالم اسلام کسی طور پر بھی فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اسلام ٹائمز: مسلم ممالک کے دہشتگردی کے شکار ہونے کس نگاہ سے یکھتی ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث:
حالیہ چند سالوں میں جہاں جہاں عرب اسپرنگ آئی، وہاں پر مذہب کے نام پر انتہا پسند دہشتگرد گروہ نکل کر آئے ہیں، انہوں نے مغرب مخالفت کا نعرہ بلند کیا، کیونکہ مغرب مسلسل مسلم معاشروں کے ساتھ چھیڑ خوانی کر رہا ہے، جو کہ اسے روک دینی چاہیئے، کیونکہ مسلم معاشرہ اگراپنی تبدیل کرنا چاہ رہا ہے تو اسے شوق سے کرنے دینا چاہیئے، کیونکہ یہ معاشروں کا اپنا حق ہوتا ہے، مغربی یا کسی اور دوسرے معاشرے کو حق نہیں ہے کہ وہ مسلم معاشروں کے اندر جا کر وہاں اپنی مرضی کی تبدیلی پیدا کرے، اگر مغرب نے اپنی یہ منفی روش نہ روکی تو انتہاپسند گرہووں کیلئے جواز پیدا ہوتا رہے گا، اور مسلم ممالک دہشتگردی کا شکار رہیں گے۔ پھر اسلامی معاشرے جس پستگی میں پہنچ گئے ہیں، اور جتنے پیچھے رہ گئے ہیں، اس کے ذمہ دار اسلامی ممالک کے حکمران ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا عالم اسلام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے سعودی ایران تعلقات میں بہتری سب سے زیادہ ضروری ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث:
سعودی عرب مغرب نواز سمجھا جاتا ہے، سعودی عرب کی اتنی انویسٹمنٹ مغرب کے اندر ہے کہ وہ چاہے یا نہ چاہے لیکن مغرب کے اوپر انحصار کرتا ہے، اسکا مغرب کی طرف جھکاو¿ بہت زیادہ ہے، انکا وہاں آنا جانا بھی بہت زیادہ ہے، اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو مغرب و امریکا کے ساتھ رکھا ہے، ایران اسلامی انقلاب آنے کے بعد سے تنہائی کا شکار رہا ہے، مگر اب ایران کی صورتحال بھی تبدیل ہو رہی ہے، کیونکہ مغرب ڈپلومیسی کا استعمال کر رہا ہے، لہٰذا آنے والے وقت میں ہم ایران کے ساتھ تبدیلی دیکھیں گے، اور پھر جب مغرب ایران اور سعودی عرب کے ساتھ ڈپلومیسی کا استعمال کر سکتا ہے اپنے مفادات کیلئے، تو ایران اور سعودی عرب آپس میں تعلقات بہتر بنانے کیلئے اور مشترکہ مفادات کے حصول کیلئے ڈپلومیسی کا استعمال کیوں نہیں کر سکتے۔ پھر گلف تعاون کونسل، عرب لیگ وغیرہ بھی غیر جانبدارانہ کردار ادا نہیں کر رہے ہیں، جب تک یہ جانبدار کردار ادا کرتے رہیں گے، مسلم ممالک تقسیم کا شکار رہیں گے، لہٰذا مسلم ممالک کو آپس میں بہتر تعلقات کیلئے ڈپلومیسی کا استعمال کرنا چاہیئے، انہیں مغرب سے مغربیت سیکھنے کے بجائے ڈپلومیسی کے استعمال اور کامیاب مذاکرات کی صلاحیت سیکھنا چاہیئے۔ سب سے پہلے سعودی عرب اور ایران کو اپنے اندر جو تلخی ہے، کم از کم اسے بڑھنے سے روک دینا چاہیئے، اگر دوستانہ تعلقات نہ بھی پیدا ہو سکیں تو کم از کم ایک دوسرے کی جگہ لینے کی کوشش نہ کریں، مگر بہتر ہے کہ دونوں اپنے درمیان موجود تلخیوں کو ختم کریں، جو کہ یہ کر سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ضروری نہیں ہے کہ عرب و اسلامی ممالک بیرونی ممالک کی ڈکٹیشن قبول کرنے کے بجائے مضبوط اسلامی بلاک بنانے کیلئے کوششیں کریں؟
پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث:
ڈکٹیشن اس لئے قبول کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک اپنے درمیان کسی ایک یا زائد ملک کی نشاندہی نہیں کرتے کہ جو اختلافات و مسائل کے حل کیلئے مصالحت کا کردار اد کرے، کیونکہ اسلامی ممالک کے درمیان بھی تو اختلافات ہونگے نا کہ جنہیں کوئی غیر جانبدار اسلامی ملک اپنے مصالحانہ کردار کے ذریعے حل کرے، مثلاً یمن تنازعے کے حل کیلئے ترکی نے کوشش کی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیا کہ وہ مصالحانہ کردار ادا کرے، پاکستان نے بھی کوشش کی، اچھا پھر پاکستان سے عرب ممالک ناراض بھی ہوگئے کہ پاک فوج یمن نہیں بھیجی گئی۔ بہرحال اسلامی ممالک کو سوچنا چاہئے انہیں کسی نہ کسی اسلامی ملک یا ایک سے زائد اسلامی ممالک کو مصالحانہ کردار ادا کرنے کا اختیار دینا ہو اجازت دینا ہوگی۔ اس حوالے سے ترکی کو ایک چانس دینا چاہیئے۔ اگر کسی اسلامی ملک کو موقع نہیں دے سکتے تو کسی ریجنل مسلم آرگنائزیشن کو موقع دے دیں، ورنہ یہ بات مان لیجئے کہ مسلمانوں کی ساری ریجنل آرگنائزیشن بیکار ہیں، او آئی سی، عرب لیگ یا گلف تعاون کونسل یہ سب بھی بیکار ہیں۔ اچھا پھر مسلم اور عرب حکمرانوں کی زندگیوں میں بہت زیادہ مغربیت آگئی ہے، یہ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے سمیت دیگر chinese issuranes کی وجہ سے پاکستان آزاد خارجہ پالیسی بنانے جا رہا ہے، اور یمن جنگ میں سعودی دباو¿ کے باوجود پاکستان کا اس جنگ کا حصہ نہ بننا اس بات کی واضح علامت ہے، کیا کہنا چاہیں گی اس حوالے سے؟
پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث:
میرا خیال ہے کہ صرف یہ وجہ نہیں ہے یمن جنگ کا حصہ نہ بننے کی، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے اور پارلیمنٹ سے بہت بڑی آواز اٹھی تھی کہ اب ہمیں بیرونی جنگ اور فساد کا حصہ نہیں بننا، سب نے یک آواز ہو کر کہا تھا کہ ہمیں اب کسی بیرونی جنگ کا حصہ نہیں بننا ہے، کیونکہ دوسروں کی جنگوں کا حصہ بن کر پاکستان نے ہی نقصان اٹھایا، خمازہ بھگتا، پھر ہم خود اندرونی مشکلات کا شکار ہیں، دہشتگردو کے خلاف ملک کے اندر جنگ جاری ہے، لہذا ہمارے ماضی کے جو تلخ تجربات ہیں اس کی بنیاد پر سب نے ملک کر فیصلہ کا کہ ہم ہرگز دوسروں کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، اور یہ بہت اچھا اور اصول فیصلہ ہے کہ پاکستان کو کسی دوسرے کی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیئے، اس اچھے اور اصول فیصلے کو ہمیشہ برقرار رکھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستان نے آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی جانب قدم اٹھانا شروع کر دیا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث:
جہاں تک بات ہے آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی تو یہ آزاد ہو یا نہ ہو، یا کتنی آزاد ہوگی کتنی نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ حکمرانوں نے یہ سبق ضرور سیکھ لیا ہے کہ کسی ایک ملک پر انحصار کرکے خارجہ پالیسی بنانے کی وجہ سے پاکستان نقصان بہت زیادہ اٹھا چکے ہیں، سارے ممالک سے تعلقات ہونا چاہیئے، خصوصاً اہم ممالک کے ساتھ، روس بہت اہم ملک ہے، روس کے ساتھ ابھی بھی ہم انصاف نہیں کر رہے ہیں، روس کے ساتھ اور زیادہ بہتر تعلقات استوار کرنا چاہیئے، پھر آپ دیکھیں گے کہ امریکا ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کی طرف بڑھے گا، اور اگر ہم روس کیساتھ تعلقات بہتر نہیں بنائیں گے تو امریکا ہمیشہ ہمارے رسی کھنچتا رہے گا، لہٰذا روس کے ساتھ برابری کے تعلقات بنا کر ہمں اور آگے بڑھنا چاہیئے، پھر چین کے ساتھ بھی ہمیں صرف پاک چین دوست والے تعلقات تک محدود نہیں رہنا چاہیئے، بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری والے تعلقات اور اس سے بھی مزید بہتر، چین سے دوستانہ تعلقات کیساتھ ساتھ تجارت بہتر کرنی چاہیئے، اقتصادی و معاشی تعلقات کو بہتر بناناچاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 470230
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش