QR CodeQR Code

قائد شہید نے اپنی انکساری اور عوام سے ہمدردی کے بل بوتے پر لوگوں کے دلوں پر حکومت کی، علامہ عابد حسینی

30 Jul 2015 10:30

اسلام ٹائمز: علامہ عارف الحسینی کی برسی کے حوالے سے اسلام ٹائمز کے ساتھ اپنی خصوصی گفتگو کے دوران علامہ سید عابد حسینی کا کہنا تھا کہ شہید اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز سے نہایت عاجزی سے پیش آتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات بتا رہا ہوں جبکہ وہ عالم دین نہیں بلکہ ایک سرکاری سکول کے طالبعلم تھے۔ کبھی اپنا سامان کسی کو اٹھانے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہمیشہ دوسرے طلباء ساتھیوں کا سامان اٹھانے پر اصرار کرتے تھے، جبکہ دینی علوم کے حصول کے دوران تو ان کی انکساری میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ شہید میں دوسری اہم خوبی یہ تھی کہ ان میں ہمدردی کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔ کسی کو معمولی مشکل میں دیکھتے تھے تو اپنی بساط کے مطابق انکی کمک کرتے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے انہوں نے عوام کے دلوں پر قبضہ کرلیا۔


علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ 1968ء کو گورنمنٹ کالج پاراچنار سے ایف ایس سی کے بعد علوم دینی کے حصول کی غرض سے نجف اشرف اور اسکے بعد قم چلے گئے۔ انقلاب سے صرف ایک سال قبل پہلوی حکومت نے حکومت مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں انہیں ایران سے نکال دیا۔ جسکے بعد انہوں نے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں تدریس کا آغاز کیا۔ اسی زمانے میں قائد شہید بھی اسی مدرسے میں انکے ساتھ شامل تدریس تھے۔ 1980ء کے عشرے میں پاراچنار میں وقت کے مضبوط مرکزی نظام کی تکون کے ایک اہم عنصر تھے۔ پاراچنار میں مرکزی انجمن حسینیہ اور علمدار فیڈریشن کی بنیاد میں علامہ شہید عارف حسینی اور مرحوم شیخ علی مدد کے ہمراہ تھے۔ پاراچنار میں نماز جمعہ کی ابتداء سب سے پہلے 1982ء میں علامہ عابد الحسینی ہی نے کی اور 1990ء تک مرکزی جامع مسجد کے امام جمعہ کے فرائض بھی وہی انجام دیتے رہے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے قائد شہید کی شہادت اور انکی برسی کے حوالے سے علامہ عابد الحسینی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید علامہ عارف الحسینی کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار فرمائیں۔؟
علامہ عابد حسینی:
شہید لڑکپن سے ہی میرا دوست رہا تھا۔ ہائی سکول پاراچنار میں دوران تعلیم بھی ان سے قرپبی تعلق تھا۔ انکی اہم ترین خوبی انکساری اور انسان دوستی تھی۔ کبھی بھی ہم نے انہیں اپنی بڑائی کا اظہار کرتے نہیں پایا۔ اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز سے نہایت عاجزی سے پیش آتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات بتا رہا ہوں جبکہ یہ عالم دین نہیں بلکہ ایک سرکاری سکول کے طالبعلم تھے۔ کبھی اپنا سامان کسی کو اٹھانے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہمیشہ دوسرے طلباء ساتھیوں کا سامان اٹھانے پر اصرار کرتے تھے، جبکہ دینی علوم کے حصول کے دوران تو انکی انکساری میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ شہید میں دوسری اہم خوبی یہ تھی کہ ان میں ہمدردی کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔ کسی کو معمولی مشکل میں دیکھتے تھے تو اپنی بساط کے مطابق اسکی کمک کرتے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے انہوں نے عوام کے دلوں پر قبضہ کرلیا۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد کی برسی آپ لوگ ہر سال مناتے ہیں۔ آپکے علاوہ بھی یہ برسیاں تو ملک کے کونے کونے میں منائی جاتی ہیں۔ یہ بتائیں کہ یہ برسیاں منانے میں شہید یا اس قوم کیلئے کوئی فائدہ ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
بیشک پورے ملک بلکہ ملک سے باہر بھی جہاں کہیں پاکستانی شیعہ موجود ہیں۔ وہاں قائد شہید کی یاد میں انکی برسی منائی جاتی ہے، تو جب دوسرے علاقوں میں شہید کی قدر و منزلت یہ ہے کہ وہ انکی یاد مناتے ہیں تو ہمارا تو اخلاقی فرض بنتا ہے، کیونکہ شہید اس مٹی سے پلے بڑھے تھے۔ باقی رہی بات، برسی کے فائدہ کی، تو ہر مذھبی اور سیاسی اجتماع کے کچھ فوائد ضرور ہوتے ہیں۔ اس اجتماع میں شہید قائد کی روح کو ایصال ثواب کے لئے مجلس کا انعقاد ہوتا ہے، کھانا کھلایا جاتا ہے۔ جو یقیناً ثواب کا باعث ہے، جبکہ پروگرام کے کچھ سیاسی فوائد بھی ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر ہم یہ پروگرامات ترک کر دیں تو آہستہ آہستہ آنے والی نسلیں شہید قائد کی خدمات کو بھول جائیں گی۔ آئندہ نسلوں کو یہ پتہ تک نہ ہوگا کہ شہید قائد کون تھے؟ انہوں نے قوم اور ملک کی خاطر کوئی کام کیا یا کوئی کارنامہ انجام دیا تھا یا نہیں۔ اسکے علاوہ قومی اجتماعات سے خود قوموں کے اپنے مسائل اجاگر ہوتے ہیں۔ کرم ایجنسی میں تحریک حسینی کے پلیٹ فارم سے تین قومی اجتماعات ہوتے ہیں۔ یعنی یوم القدس، تین شعبان کا جلسہ ولادت امام حسین علیہ السلام اور قائد شہید کی برسی۔ ان تینوں پروگرامات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوتی ہے۔ اور ان پروگراموں میں بیشتر کرم کے مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ قوم کو مسائل سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اور انکے حل کے لئے جو اقدامات اٹھانے ہوتے ہیں یا اٹھائے جاچکے ہوتے ہیں، ان سے عوام کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام بیدار ہوجاتے ہیں۔ یہ پروگرامات نہ ہوں تو عوام بنیادی مسائل سے بھی غافل رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد کی شہادت تو 5 اگست کو ہوئی تھی، جبکہ آپ نے اس مرتبہ برسی 2 اگست کو رکھی ہے۔ یہ کیا فلسفہ ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
یہاں چونکہ عوام، خصوصاً پڑھے لکھے طبقے کی اکثریت ملازم پیشہ ہے۔ اسی طرح ایک بڑا طبقہ سکولوں اور کالجوں میں پڑھتا ہے۔ اسی وجہ سے عموماً ہر سال ہم برسی کا پروگرام پانچ اگست سے قریب ترین اتوار کے دن رکھتے ہیں، تاکہ پروگرام میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت ممکن ہو سکے اور قائد شہید کی سیرت نیز کرم کے مسائل سے زیادہ سے زیادہ لوگ آگاہ ہوں، جبکہ چھٹی کے علاوہ دیگر ایام میں خاص طبقے، تعلیم یافتہ طبقے کی شرکت مشکل ہوتی ہے، لہذا انہی کا خیال رکھ کر تحریک حسینی کے برادران نہ فقط اس سال بلکہ تقریباً ہر سال یہ پروگرام چھٹی کے دن ہی رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس مرتبہ آپکے پیش نظر کوئی خاص قومی ایشو یا مسئلہ ہے، جسے برسی میں ذکر کرنے کا ارادہ ہو؟
علامہ عابد حسینی:
ایک مسئلہ نہیں ان گنت مسائل موجود ہیں، بلکہ پاراچنار تو مسائلستان ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اہلیان کرم کو اپنے باہمی اختلافات میں الجھا دیا گیا ہے، انکو اہم قومی مسائل کا سرے سے علم ہی نہیں۔ بالش خیل، خیواص، پیواڑ اور شورکی وغیرہ میں شیعہ ملکیتی زمینوں پر بعض غیر قانونی آبادکاریاں، قیدیوں کے مسائل، کرم ملیشیاء کی جانب سے گاڑیاں ضبط کرنے وغیرہ جیسے سینکڑوں مسائل ہیں، جنہیں ہم برسی میں تفصیل سے ذکر کریں گے۔ ایک خاص مسئلہ داعش کی صورت میں دہشتگردوں کی مسلح ہوکر کھلم کھلا ہمارے علاقوں میں نقل و حرکت بھی ہے، جس کا ہم برسی میں ذکر کریں گے۔ اگرچہ ان مسائل میں سے اکثر پر تو تحریک حسینی کے رہنماوں اور حکومت کے مابین کافی حد تک پیشرفت ہوچکی ہے۔ اللہ تعالٰی سے قوی امید ہے کہ کافی مسائل تو برسی سے پہلے پہلے حل ہوجائیں گے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی عرض کروں کہ ان قومی پروگرامات کا یہ فائدہ اور اثر بھی ہے کہ عموماً ایسے پروگرامات سے پہلے پہلے حکومت ہمارے برادران سے فوری رابطہ کرتی ہے اور ان سے مسائل کے حل کا وعدہ کرلیتی ہے، بلکہ کچھ تو پروگرام سے پہلے پہلے حل کر لئے جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کرم میں داخلی اختلافات کی صورتحال کیا ہے۔ اس حوالے سے آپ کے تاثرات کیا ہیں۔؟
علامہ عابد حسینی:
میرے خیال میں اکثر کو اس حوالے سے علم ہوگا کہ یہ سارا کھیل بعض ایجنسیوں اور حکومت کا ہے، جنہوں نے ہمیں داخلی اختلافات میں الجھائے رکھا۔ دیکھیں، پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ ایران اور عراق میں ہمارا مذھبی مرکز ہے۔ وہاں بھی ووٹنگ کا عمل ہوتا ہے، لیکن نہ تو انتخابات کے دوران ایسی نفرتیں ہوتی ہیں، جن کا اظہار کرم میں ہوتا ہے اور اگر ووٹنگ کے دوران ایک آدھ ایسی کوئی بات ہو بھی جائے، تو انتخابات کے بعد یہ ساری چیزیں بھلا دی جاتی ہیں۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں، انتہائی اہم قومی مسائل حتی کہ مذہب اور عقیدے سے بھی زیادہ اہمیت انتخابات کو دی جاتی ہے۔ انتخابات کو گزرے دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے، لیکن تلخیاں آج تک برقرار ہیں۔ اگرچہ کافی حد تک اس میں کمی آچکی ہے، تاہم اب بھی یہ مسائل موجود ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے اہم مسئلہ قومی انجمن اور سیکرٹری کی تعیناتی کا ہے، انجمن کی تعیناتی کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہوا، پھر سیکرٹری کی تعیناتی کا مرحلہ آیا، اس پر کافی رنجشیں پیدا ہوئیں۔ ہمیں کسی نے پوچھا، نہ ہی ہم نے مداخلت کی ضرورت محسوس کی۔ تاہم اپنی تو یہ آرزو ہے کہ انجمن بشمول سیکرٹری انجمن حسینیہ کی پوری ٹیم ایسے خدا ترس اور ذمہ دار افراد پر مشتمل ہو، جو قومی مسائل کے حل میں بھرپور کردار ادا کرے۔

اسلام ٹائمز: اتحاد کے حوالے سے کیا پیغام دینا پسند کریں گے۔؟
علامہ عابد حسینی:
اتحاد کے لئے یہی کہیں گے کہ ہمارے قومی مسائل سب کے سامنے ہیں۔ ہر ایک کو اس بارے میں پوری طرح علم ہے۔ لہذا ہر ایک کو چاہئے کہ داخلی اختلافات کی بجائے مشترکہ مفادات اور مسائل کے لئے قیام کریں۔ داخلی مسائل کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں، جس کی وجہ سے ہمارے اتحاد کو نقصان پہنچے، اور ہم اپنے مشترکہ مسائل سے غافل ہوجائیں۔ اس بابت سب سے بڑا فرض علمائے کرام کا بنتا ہے، انکو چاہئے کہ قائد شہید کی سیرت کو مشعل بناتے ہوئے مجالس کے دوران اپنی تقریروں میں اتحاد کا درس دیں۔ قائد شہید تو دیگر مسالک کے پیروکاروں کے ساتھ اتحاد کے علمبردار تھے، ہمیں آج کیا ہوگیا کہ ہم اپنوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ اسی طرح اساتذہ کرام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ طلباء کو تدریس کے دوران اتحاد و یگانگت کا درس دیا کریں۔ دونوں طبقات کو چاہئے کہ وہ اپنے خطاب کے دوران اپنے مخاطبین کی توجہ اپنے مشترکہ مفادات کی جانب مبذول کرائیں۔ انہیں اپنے داخلی مسائل، خصوصاً طالبان یا داعش کی سرگرمیوں سے آگاہ کراتے ہوئے ہوشیار رہنے کی تلقین کریں۔


خبر کا کوڈ: 476862

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/476862/قائد-شہید-نے-اپنی-انکساری-اور-عوام-سے-ہمدردی-کے-بل-بوتے-پر-لوگوں-دلوں-حکومت-کی-علامہ-عابد-حسینی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org