0
Saturday 1 Aug 2015 00:19
ایران پر مسلط مصنوعی تنہائی کے باعث خطے میں داعش جیسی دہشتگرد تنظیموں کو پنپنے کا موقع ملا

عالمی طاقتوں سے نیوکلیئر معاہدہ ایران کی سفارتی و سیاسی فتح ہے، پروفیسر ڈاکٹر مطاہر احمد

ایران کی عالمی تنہائی ٹوٹنے سے سب سے زیادہ مسئلہ اسرائیل کیلئے پیدا ہوگا، اسی لئے وہ مخالفت کر رہا ہے
عالمی طاقتوں سے نیوکلیئر معاہدہ ایران کی سفارتی و سیاسی فتح ہے، پروفیسر ڈاکٹر مطاہر احمد
پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد پاکستان کی معروف درسگاہ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین ہیں۔ وہ 1995ء میں بحیثیت لیکچرر جامعہ کراچی سے وابستہ ہوئے تھے۔ اس سے قبل وہ 1988ء سے لیکر 1995ء تک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں تدریسی و تحقیقی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات سے متعلق موضوعات پر کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور مشرق وسطٰی سمیت عالمی ایشوز پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد کے ساتھ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین نیوکلیئر معاہدے سمیت دیگر موضوعات کے حوالے سے جامعہ کراچی میں انکے دفتر میں تفصیلی خصوصی نشست کی، اس موقع پر ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ایران اور ای تھری پلس تھری (E3/Eu+3) کے مابین نیوکلیئر معاہدہ کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ نیز کیا یہ بات درست ہے کہ عالمی طاقتوں کا ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ دراصل ایران کی کامیابی ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد:
سب سے اہم بات تو اس میں یہ ہے کہ پُرامن مقاصد کیلئے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے ایران کے اصولی مؤقف کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے، ایران کا اصولی مؤقف کیا ہے، اصولی مؤقف یہ ہے کہ جب پانچ نیوکلیئر طاقتیں نیوکلیئر اسلحہ استعمال کرتی ہیں، اپنے پاس نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی اجازت رکھتی ہیں، اور پھر وہ یہ کہتی ہیں کہ دوسرا کوئی ملک نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کریگا، تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اخلاقی اور اصولی طور پر یہ بات غلط ہے، کہ یہ پانچ ممالک کون ہوتے ہیں اجارہ داری رکھنے والے، جو این پی ٹی کا سہارا لیکر یہ کہیں کہ ہمارے علاوہ کسی کو اس کا حق نہیں ہے، اور اسی کی مخالفت پاکستان نے کی، بعد میں بھارت نے بھی مخالفت کی، اور اس وقت کہا جاتا ہے کہ دنیا میں پچیس سے تیس ممالک ایسے ہیں جو اپنی نیوکلیئر پالیسی چلا رہے ہیں، اب رہا معاملہ ایران کا، ایران نے بھی اسی اصول کے تحت بات آگے بڑھائی، لیکن ایران نے ہمیشہ ایک بات کہی، وہ یہ کہ ہمارا جو نیوکلیئر پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہوگا، یہ توانائی کے حصول کیلئے ہوگا، اس کے عزائم کہیں سے بھی توسیع پسندانہ نہیں ہونگے، یا کسی دوسرے ملک پر جارحیت کیلئے استعمال نہیں کیا جائیگا، دوسرا اس میں ایک مذہبی عنصر بھی ہے، جو آیت اللہ صاحبان کے زمانے سے آ رہا ہے، وہ یہ کہ مذہب میں بھی یہ بات جائز نہیں ہے کہ وسیع تر تباہی و بربادی پھیلانے والے ہتھیار اگر شہری آبادی پر برسائے جاتے ہیں تو اخلاقی، مذہبی اور اصولی طور بھی غلط ہے، یہ وہ مؤقف ہے ایران کا جو 1979ء سے اب تک قائم ہے، لہٰذ اس مؤقف سے ایران کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔

تو اک تو سب سے بڑی کامیابی میرے خیال میں یہ بنتی ہے کہ یہ بین الاقوامی سطح پر یا بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اس اصول سے ایران کبھی پیچھے نہیں ہٹا، ان کا وہ اصول ابھی بھی قائم ہے کہ انکا نیوکلیئر پروگرام پُرامن ہوگا، یہ ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہوگا، یہ اپنی حدود سے باہر نہیں جائیگا، یہ کسی بھی پڑوسی ممالک یا کسی اور ممالک کیلئے خطرے کا باعث نہیں ہوگا، یہ تو ایک پہلو ہوگیا، جسے میں خطراتی نقطہ نظر یا اصول و مؤقف کہہ سکتے ہیں، اب ہم دوسری طرف آتے ہیں، جو اقتصادی پابندیوں کے حوالے سے، سب جانتے ہیں کہ ایران پر انقلاب کے بعد اقتصادی پابندیاں لگیں، اقتصادی پابندیاں جو پوری دنیا میں لگی ہوئی تھیں، وہ ختم ہوئیں، اور جو ایک ایران کی تنہائی جو مصنوعی انداز سے ایران پر قائم کی گئی تھی وہ ختم ہوئی، اسکے اربوں ڈالرز منجمد کئے گئے تھے، وہ اب بحال ہو رہے ہیں، پھر ایران کا جو جیو اسٹراٹیجک محل وقوع ہے، ترکی اس کے برابر میں ہے، افغانستان ہے، پاکستان ہے، پھر اسکی رسائی مغربی ممالک میں ہے، ابھی یہ اطلاع آئی ہے کہ اس وقت ایران میں سب سے زیادہ جرمنی کی سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے، تو ایران کی جو تنہائی مغرب کے حوالے سے تھی وہ ختم ہوئی ہے، پھر سیاسی حوالے سے جو تاثر ایران کا عالمی سطح پر بنا ہوا تھا کہ وہاں پر ملاؤں کی حکومت ہے، جو کہ بڑی کٹّر اور قدامت پسند ہے، اس کی نفی ہوئی۔ مختصر یہ معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے وہ معاہدے ہوئے، جس میں خطے میں امن و سلامتی ہو، لوگوں کی سلامتی ہو، اور اس حوالے سے چیزوں کو آگے بڑھایا جائے، بہرحال اس میں win win situation ہوئی، اب دنیا جس انداز سے آگے چل رہی ہے، ان تقاضوں اور چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے دونوں ممالک آگے کی طرف بڑھیں۔

اسلام ٹائمز: عالمی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ایران کے مقابل ممالک کے مذاکرات کاروں میں سفارت کاری کی وہ اہلیت نہیں تھی جو ایرانی مذاکرات کاروں میں تھی، اسی لئے ایران اپنی مرضی کی نیوکلیئر ڈیل کرنے میں کامیاب ہوگیا، اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد:
یہ بات تو بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ دنیا میں دو ایسے ممالک ہیں کہ جن کے سفارت کار اپنی سفارت کاری میں ماہر سمجھے جاتے ہیں، اور ان سے مذاکرات کی میز پر کوئی آدمی نہیں جیت سکتا، وہ دو ممالک چین اور ایران ہیں، اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ دو ایسے ممالک ہیں، جن کی ایک تہذیبی تاریخ ہے، دونوں کی بلاتعطل تہذیبیں (uninterrupted civilization) ہیں، دنیا میں کوئی ایسی تہذیب آپ کو نہیں ملے گی، جو بلاتعطل نہ ہو، ان دونوں ممالک کی تہذیبی اقدار ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی کی عکاسی چین اور ایران دونوں کی قیادتوں میں نظر آتی ہے۔ ان ممالک کی تہذیبی اقدار ہے، جب آپ ایک پروسس سے گزرتے ہیں، اور وہ بھی ہزاروں سال کا پروسس، وہ پھر جھلکتا ہے، آپ کی قوم کی شکل میں، اور اسی قوم سے پھر قیادت بنتی ہے۔ امریکیوں کا کیا مسئلہ ہے، امریکی ریاست تو کوئی ریاست ہی نہیں ہے، یہ تو تارکین وطن کی ریاست ہے، ان کی تو کوئی تہذیبی اقدار ہی نہیں ہے، یہ تو بھگوڑے تھے، جو یورپ سے بھاگ کر وہاں گئے، امریکا دریافت ہوا ہے، یہ کوئی ملک نہیں تھا، ریڈ انڈینز جو اصل تھے، ان کو تو انہوں نے مار بھگایا، ان امریکیوں کی تہذیبی اقدار ہے چھ سات سو سال کی، جبکہ ان کا مقابلہ ہے چینیوں اور ایرانیوں سے، اسی وجہ سے آپ دیکھیں کہ یہ چینی اور ایرانی انتہائی سخت سفارت کار نکلتے ہیں، نہ چینی پیچھے ہٹتے ہیں اور نہ ہی ایرانی، جبکہ امریکیوں کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ یہ سفارت کاری میں ایک حد تک جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ پیچھے ہٹتے ہیں، اور وہی آپ کو نیوکلیئر معاہدے میں بھی نظر آیا، کہ وہ تمام چیزیں جو ایران ایک زمانے سے کہہ رہا ہے، آج آپ کو تسلم کرتے نظر آئیں گے امریکی۔ دنیا جانتی ہے کہ ایران کو امریکا نے دہشتگرد ملک قرار دیا تھا، لیکن آج اسی ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل بھی کی، اب ٹیرر سیاست (terror poltics) کہاں گئی، اس تناظر میں ہزیمت تو امریکا کو اٹھانی پڑی، کیونکہ اس نے ایران کو دہشتگرد ملک قرار دیا تھا، آج امریکا تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے، لہٰذا آپ اس بات کا اظہار کرسکتے ہیں کہ عالمی طاقتوں سے نیوکلیئر معاہدہ ایران کی سفارتی و سیاسی فتح ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگ اس معاہدے کو ایران کی پسپائی قرار دے رہے ہیں، اس حوالے سے آپکی کیا رائے ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد:
انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ نیوکلیئر ڈیل میں ایران کو کسی قسم کی پسپائی ہوئی ہے، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گذشتہ دنوں سینیٹ کا ایک چھوٹا سا اجلاس کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ سینیٹ اس کی توثیق کریگی، کیونکہ اگر یہ نہیں کریگی تو امریکا کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، توثیق نہیں کی گئی تو یہ امریکی مفاد کیلئے بڑا مسئلہ ہوگا۔ لہٰذا اہم بات اس میں یہ ہے کہ ایران کو کسی قسم کی پسپائی نہیں ہوئی، کیونکہ ایران کے جن اصولی مؤقف کا میں نے آپ سے پہلے اظہار کیا تھا، وہ تو تمام کے تمام تسلیم کر لئے گئے ہیں۔ پسپائی تو ان لوگوں ک ہوئی، جنہوں نے دنیا بھر میں ایران مخالف پروپیگنڈا پھیلا رکھا تھا کہ یہ دہشتگرد ملک ہے، جو کبھی بھی چڑھ دوڑے گا، اپنے کسی بھی پڑوسی یا دشمن ملک پر، اور یہی وہ ایک خیال (perception) تھا جو پھیلایا ہوا تھا 1979ء سے، لہٰذا اصل میں تو اس خیال (perception) کی پسپائی ہوئی ہے کہ جو ایران کے خلاف تھا۔

اسلام ٹائمز: دنیا بھر نے ایٹمی معاہدے کی کامیابی کو سراہا ہے، مگر عمومی رائے کے مطابق صرف اسرائیل اور سعودی عرب اس ڈیل کی مخالفت کر رہے ہیں؟ کیوں؟
پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد:
افسوس ہوتا ہے کہ مسلم امہ میں تقسیم نظر آتی ہے، یہ مسلم امہ سے زیادہ ریاست کے مفادات کا معاملہ ہے، اب چاہے وہ سعودی عرب ہو یا دوسری عرب ریاستیں ہوں، وہ یہ سمجھتی ہیں، ان کا یہ خیال ہے کہ مشرق وسطٰی پر جو عربوں کی اجارہ داری ہے، اگر ایران کی عالمی تنہائی ٹوٹتی ہے تو یہ اجارہ داری ختم ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، اچھا پھر ان عرب ریاستوں میں جمہوریت تو ہے نہیں، یا تو یہ بادشاہتوں کے تابع ہیں یا پھر یہاں آمرانہ نظام ہیں، یہ جو ایٹمی معاہدہ ہوا ہے، جس میں ایران کی تنہائی ٹوٹی، اور جب اقتصادی اعتبار سے ایران کو طاقت ملے گی تو انہیں یہ خدشات ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مشرق وسطٰی میں ہمارے لئے مسئلہ بنے، یہ ایک بڑی وجہ ہے۔ اب رہا معاملہ اسرائیل کا، اسرائیل کو سمجھنا ضروری ہے، اسرائیل ایک مصنوعی ریاست ہے، ایک ایسی ریاست ہے کہ جو ایک عجیب و غریب قسم کی سازش کے ذریعے سے وجود میں آئی، جس کی اس سرزمین پر نہ تو جڑیں ہیں اور نہ ہی کوئی تہذیبی اقدار ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل کو نظریاتی یا کسی اور دوسرے اعتبار سے اگر حقیقی خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف ایران سے ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ایران کے خلاف انہوں نے ایک پورا محاذ بنایا ہوا ہے، اسرائیل کو یقین ہے کہ ایران کی عالمی تنہائی ٹوٹنے سے اقتصادی معاملات بہتر ہونگے تو سب سے زیادہ مسئلہ اسرائیل کیلئے پیدا ہوگا، اسی لئے اسرائیل کی جانب سے انتہائی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: جوہری معاہدہ کے خطے پر کیا اثرات دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد:
اس بات کی ضرورت ہے کہ امن، سلامتی، اقتصادی ترقی اس خطے میں ہو، لہٰذا خطے میں اس لحاظ سے اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے کہ مصنوعی تنہائی میں ایران کو رکھا گیا تھا، اس سے ایران باہر نکلا، ایران چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں، خود پاکستان پر اس کے بہت زیادہ اثرات ہیں، فارسی، تہذیبی حوالے سے بڑے اثرات ہیں، افغانستان پر ایران کے بڑے اثرات ہیں، سینٹرل ایشیا میں ترکمانستان، تاجکستان وغیرہ میں فارسی دان ہیں، افغانستان میں ہیں، حتٰی کہ چینی صوبے زنجیانگ میں بھی ایران اور ترکی کے اثرات نظر آتے ہیں، تو ایران کا اثرورسوخ تہذیبی اقدار سے بہت زیادہ ہے، اتنے عرصے سے جو مصنوعی انداز میں ایران کی تنہائی رکھی گئی، اس کی وجہ سے ایک مصنوعی رکاوٹ بنی ہوئی تھی، وہ ٹوٹی، اس کے مزید ٹوٹنے سے اس پورے خطے میں اسکا اثر بہت زیادہ مثبت پڑے گا، ایران پر مسلط مصنوعی تنہائی کے باعث اس خطے میں داعش جیسی دہشتگرد تنظیموں کو پنپنے کا موقع ملا، جنہوں نے یہاں دہشتگردی کا وہ بازار گرم کیا، جو نہ تو خطے کے کسی ملک کیلئے بہتر ہے اور نہ بین الاقوامی سطح پر اس کی کوئی پذیرائی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران جوہری معاہدہ کی کامیابی کے تناظر میں پاک ایران تعلقات اور گیس پائپ لائن کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد:
پاکستان کیلئے بڑا چیلنج ہے، کیونکہ پاکستان روائتی طور پر عرب دنیا کے ساتھ بہت رہا ہے، اور اس کی وجہ سے بھی پاکستان کی کچھ دوریاں رہیں ایران کے ساتھ، جو اب بھی ہیں، گو کہ یہ دوریاں نہیں ہونی چاہیئے، کیونکہ بین الاقوامی سطح پر پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پڑوسیوں سے اگر اچھے تعلقات ہیں تو یہ بہترین سفارت کاری ہے، یہ بدقسمتی سے ہماری نہیں ہے، دوسرا بڑا مسئلہ بلوچستان کا ہے، وہاں جو ایک بغاوت ہے، جس کی چالیس پچاس سالہ تاریخ ہے، وہ کسی حد تک کنٹرول ہوئی ہے، لیکن ختم نہیں ہوئی، جب تک پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کی عوام اور قیادت کو اعتماد میں لے کر اس مسئلے کا ایک سیاسی حل تلاش نہیں کرتی، اس وقت تک پاک ایران گیس پائپ لائن کا آگے کی طرف جانا مشکل ہوجائے گا، کیونکہ ظاہر ہے کہ گزرے گی بلوچستان سے، پھر پاکستان کیلئے بڑا مسئلہ بنے گا، آپ ایک حد تک آپریشن کرسکتے ہیں، لیکن جب تک آپ کوئی سیاسی پیکج ایسا نہیں دیں، جو وہاں کے لوگوں کو مطمئن نہ کرسکے، اور خاص طور پر بلوچوں کو، اس وقت تک یہ بڑا مسئلہ ہوگا، یہ بڑا چیلنج ہوگا۔ دوسرا بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ کالعدم دہشتگرد تنظیموں کا ہے، جو بری طرح سے وہاں موجود ہیں، آپ نے ہزارہ برادری کے واقعات دیکھے، کس طرح انہیں بدترین دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا، ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا گیا، یہ بلوچ ثقافت میں کبھی بھی نہیں تھا، اس کو باقاعدہ وہاں ڈالنے کی کوشش کی گئی، جو کہ بلوچستان کیلئے بھی بہتر نہیں ہے، پاکستان کیلئے بھی بہتر نہیں ہے، اور پاک ایران تعلقات کیلئے بھی بہتر نہیں ہے، لہٰذا پاکستان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اس طرف بھی نظر رکھنی پڑے گی، کہ یہ جو فرقہ وارانہ کالعدم دہشتگرد تنظیمیں ہیں، جن کے تانے بانے کہیں باہر سے ملتے ہیں، ان کی فنڈنگ کو روکا جائے، کیونکہ ان کی جڑیں اس معاشرے میں اس لئے نہیں ہیں، کیونکہ وہ معاشرہ اس قسم کا ہے ہی نہیں، یہ ایک مصنوعی چیز پیدا کی گئی ہے، جس کی وجہ سے بلوچستان میں بہت زیادہ مسائل بڑھے ہیں فرقہ وارانہ حوالے سے۔ یہ دونوں مسائل اگر ہم نے کنٹرول کرلئے تو پاک ایران تعلقات اور گیس پائپ لائن کیلئے امکانات بہت بہتر ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان نے حکومتی سطح پر خلیجی معاملات میں غیر جانبدار رہنے کی پالیسی اختیار کرکے اور چین کیساتھ اقتصادی راہداری کے عظیم معاہدے پر دستخط کرکے اپنی مستقبل کی پالیسی کے خدوخال واضح کر دیئے ہیں، اس ڈرامائی تبدیلی کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر شیخ مطاہر احمد:
آپ نے بالکل صحیح بات کی کہ ایک بہت بڑی ڈرامائی تبدیلی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں آئی ہے کہ پہلی بار پاکستان نے باوجود اس کے کہ اس پر اتنا دباؤ تھا سعودی عرب کا، مگر پاکستان نے پہلی بار غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یمن کے معاملے میں نہیں الجھا، اسے دو ریاستوں کا معاملہ ہی رکھا، گو کہ پاکستان کے سعودی عرب سے روایتی تعلقات ہم سب کے سامنے ہیں، ایک تو یہ سب سے اچھی بات ہوئی کہ اس سے اچھا پیغام گیا، ایران کو بھی گیا، خطے کو بھی گیا، بین الاقوامی سطح پر بھی گیا، وہ یہ کہ پاکستانی ریاست، پاکستانی فوج اپنے اندرونی حدود کے اندر، ماضی میں چاہے جو بھی تھا وہ اپنی جگہ، اس وقت اندرونی حدود کے اندر اپنی سلامتی کے تقاضے پورا کر رہا ہے، ایک تو یہ اچھی بات ہوئی۔ لہٰذا غیر جانبداری سب سے اہم بات ہے، پڑوسیوں سے اچھے تعلقات دوسری اہم بات، اور اقتصادی ترقی تیسری اہم بات ہے، اب جو خطے میں تبدیلیاں آ رہی ہیں، ضروری ہے کہ ہم انہی چیزوں کو آگے بڑھائیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ اس وقت ہماری اچھی پیشرفت ہوئی ہے، خاص طور پر یمن کے مسئلے میں، ہم نے اپنے عرب دوستوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں جو کچھ کیا وہ کیا، اب اس خطے کے تقاضے یہ ہیں کہ پاکستان سے وہ چیزیں آپ نہ مانگیں جو وہ آپ کو دے نہ سکے، یہ ہم نے واضح پیغام اپنے عرب دوستوں کو دے دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 477200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش