0
Sunday 23 Aug 2015 00:22

تمام وفاق المدارس کو دہشتگردی کیخلاف ملکی اداروں کیساتھ تعاون کرنا چاہیئے، مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ

تمام وفاق المدارس کو دہشتگردی کیخلاف ملکی اداروں کیساتھ تعاون کرنا چاہیئے، مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ
حجت الاسلام و المسلمین مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ کا تعلق کراچی سے ہے، انہوں نے 1990ء میں کراچی کے سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا، اس کے بعد ہاؤس جاب کرکے حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران تشریف لے گئے، وہاں انہوں نے 13 سال دینی تعلیم حاصل کی، فلسفہ اور کلام میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی، اسکے بعد وہ پاکستان واپس تشریف لے آئے، آج کل آپ المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی (ایران) کے کراچی چیپٹر کے سربراہ ہیں، زمانہ طالب علمی میں وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں فعال رہے، آئی ایس کراچی کی ڈویژنل کابینہ کا حصہ اور رکن ذیلی نظارت بھی رہ چکے ہیں، آج کل وہ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی مجلس نظارت کے رکن ہیں، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ساتھ بھی دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے شیعہ مدارس کے موضوع پر مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ کے ساتھ ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان بھر میں شیعہ مدارس کی موجودہ صورتحال کیا ہے۔؟
مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ اگر ہم پچھلے بیس سال سے موازنہ کریں، تو ہمیں نظر آئے گا کہ کچھ مثبت چیزیں بھی ہیں، اور کچھ کمی بھی رہ گئی ہے، مثبت چیزیں یہ ہیں کہ قم المقدسہ سے فارغ التحصیل ہو کر، جو لوگ پڑھ کر آئے ہیں، ان میں بہت سارے وہ لوگ ہیں جو پہلے یونیورسٹیز سے پڑھے ہوئے تھے، آج وہ مدارس کو سنبھالے ہوئے ہیں، اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا کر رہے ہیں، صوبوں کے لحاظ سے دیکھیں تو سندھ کی صورتحال دیگر صوبوں کی نسبت مدارس کے حوالے سے زیادہ بہتر ہے، پنجاب میں مدارس رو بہ زوال ہیں، سننے کو ملتا کہ بہت سارے مدارس بند ہوچکے ہیں یا صرف خالی عمارتیں باقی رہ گئی ہیں، بہت سارے مدارس وہاں اسکولوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، پنجاب کی صورتحال مدارس کے حوالے سے کافی مشکلات کا شکار ہے، گلگت بلتستان میں صورتحال بہتر نہیں ہے تو خراب بھی نہیں ہے، وہاں نئے مدارس بھی کھل رہے ہیں، مجموعی طور پر پاکستان میں مدارس کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: دینی، معاشرتی، ثقافتی، انفرادی، اجتماعی و دیگر حوالوں معاشرے میں مدارس کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، یعنی کوئی کردار ادا کر رہے ہیں یا ناکام ہیں؟ ناکام ہیں تو مدارس اپنا بہتر کردار کیسے ادا کرسکتے ہیں۔؟
مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ:
معاشرے کی مختلف ضروریات ہوتی ہیں، انہیں میں سے ایک روحانی ضرورت ہے، جس طرح ایک معاشرے میں جسم کو ڈاکٹرز دیکھتے ہیں، اسی طرح روح کی ارتقاء کیلئے مدارس اپنا کردار ادا کرتے ہیں، دین جاننے والے اپنا کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ دین فقط صوم و صلاة کی ادائیگی کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل نظام کا نام ہے، دین کا کردار معاشرے کی اقتصاد میں بھی ہے، ثقافت میں بھی ہے، اجتماعیات میں میں بھی ہے، لہٰذا جب اس نگاہ سے دین کو دیکھتے ہیں تو یہاں پر مدارس کی اہمیت بہت زیادہ ہوجاتی ہے، جتنی بھی سوشل سائنسز ہیں، جسے ہیومینٹیز کہا جاتا ہے، اس میں دین کا اپنا ایک نکتہ نظر ہے، اگر معاشرے کو کامیاب رہنا ہے تو انہیں ان اصولوں پر کاربند رہنا پڑے گا، یہ اصول دین شناس لوگ بتائیں گے، جو مدارس میں دن کو بہتر طور پر پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں اور معاشرے میں ان کی عکاسی کرتے ہیں۔ لہذا معاشرے کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دینی مدارس کا اہم اور بنیادی ترین کردار ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں یہ کردار کیوں ادا نہیں ہو رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خود مدارس بھی اپنا کردار اس طریقے سے ادا نہیں کر پا رہے ہیں، جو انہیں کرنا چاہیئے اور دوسری طرف ہمارے عوام الناس، مخیر حضرات، پروفیشنل افراد کی طرف سے مدارس کے ساتھ جو تعاون ہونا چاہیئے، وہ اس طریقے سے نظر نہیں آتا، مثلاً مخیر حضرات دیگر پروجیکٹس میں تو تعاون کرتے ہیں لیکن مدارس کو اتنی اہمیت نہیں دیتے، پروفیسر حضرات یا دیگر پروفیشنل حضرات بھی یہ نہیں سوچتے کہ جو ہم نے سیکھا ہے، وہ ہم مدارس کے ساتھ شیئر کریں، ان کو سکھائیں، مدارس کے حوالے صرف ایک طرفہ ذمہ داری نہیں بلکہ دو طرفہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مدارس کے مسئولین، اساتذہ، طلاب ان کی ایک ذمہ داری بنتی ہے، تو دوسری طرف عوام الناس، مخیر حضرات، پروفیشنل افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ مدارس پر توجہ دیں، اہمیت دیں، تعاون کریں، تاکہ ہماری آئندہ نسلوں کی روحانی ارتقاء کی ضمانت دی جاسکے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے شیعہ قوم مدارس سے بہت دور نظر آتی ہے، قوم کے اندر مدارس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔؟
مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ:
یہ بات ڈھکی چھپ نہیں ہے کہ شیعہ قوم میں مدارس کی اہمیت زیادہ نظر نہیں آتی، اس کی کلی وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ کیونکہ ہر معاشرہ دنیا داری کی طرف مائل ہے، اسے اپنے پیٹ کی فکر ہوتی ہے، اپنی جسمانی ضروریات کی فکر ہوتی ہے، لیکن روحانی ضروریات کی فکر ہوتی نظر نہیں آتی، اور اس دنیا داری کے نظریئے کی وجہ سے وہ ان مدارس کو اہمیت نہیں دے رہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر مدارس میں بھی وہ جاذبیت نظر نہیں آتی جو ہونی چاہیئے تھی، وہ اب نہیں رہی، پھر مستقبل کی ضمانت جس طریقے سے ہر ادارہ دیتا ہے، اگر میں کسی بھی کالج، یونیورسٹی میں جاتا ہوں، تو وہ مجھے ضمانت دیتا ہے کہ اگر آپ یہاں سے ڈگری لیکر جائیں گے تو ملازمت و ترقی کے یہ یہ مواقع ہونگے، لیکن ہمارے مدارس میں اس کا کوئی سسٹم نہیں ہے، لہٰذا ہر طالب علم یہ سوچتا ہے کہ اگر میں مدرسے میں گیا تو ضائع ہو جانا ہے، میرا کوئی مستقبل نہیں ہوگا، اور جب یہ سوچ ہوتی ہے تو ہمارے ذہین افراد اس طرف نہیں آتے، صرف وہی لوگ آتے ہیں، جنہیں کہیں کوئی جگہ نہیں ملتی۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے یعنی انقلاب اسلامی ایران کے آنے سے پہلے یہ صورتحال ہوگئی تھی کہ مدارس میں وہی لوگ جاتے تھے جن کیلئے معاشرے میں کوئی بھی جگہ نہیں بچتی تھی، اب ظاہر سے بات ہے کہ جس طرح کا input ہوگا، output بھی ویسا ہی ہوگا، لہٰذا جب ایسے لوگ فارغ التحصل ہوتے تھے، تو وہ معاشرے میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے تھے، اسی وجہ سے مدارس ناکام نظر آرہے تھے، لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد ذہین لوگوں کی کثر تعداد کہ جنہیں پتہ چلا کہ اسلام کا ایک سیاسی و اجتماعی نکتہ نظر بھی ہے، اور اسلام میں یہ اہلیت پائی جاتی ہے کہ وہ حکومت کرسکے، معاشرے کی باگ دوڑ سنبھال سکے، لہٰذا بہت سارے ذہین افراد مدارس و دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے، انہوں نے دینی علوم حاصل کئے، اب وہ بہت سے جگہوں پر مدارس کی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، اس وقت بھی صورتحال ناکافی تھی، اسے زیادہ ہونا چاہیئے تھا، اور اب یہ گراف دوبارہ سے نیچے کی طرف آ رہا ہے، لہٰذا یہ صورتحال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے، ہمیں مدارس کی بحالی کیلئے بہت بڑی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: مدارس میں آموزش زبان فارسی و عربی کے کورسز نہیں کرائے جاتے اور نہ ہی جز وقتی دینی کورسز، جبکہ ایک بڑی تعداد خصوصاً ملازمت پیشہ اور طلباء کی اس حوالے سے دلچسپی رکھتی ہے، اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ:
ایسا نہیں ہے کہ مدارس میں زبان فارسی و عربی کی کلاسز اور دیگر شارٹ کورسز بالکل نہیں ہوتے، خود ہمارے مدرسے میں فارسی لینگویج کورس ہوتا ہے، اور بھی کئی مدارس میں اساتذہ فارسی عربی پڑھاتے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے وہ لوگ جو کل وقتی دینی تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، وہ جز وقتی دینی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، بالکل صحیح بات ہے کہ ان لوگوں کیلئے کام کرنا چاہئے، ہم خود اپنے مدرسے میں کوشش کر رہے ہیں کہ شام کی کلاسز کا سلسلہ شروع کریں، لیکن معمولاً دونوں طرف مسائل دیکھے گئے ہیں کہ جب بھی ہم لوگ اس طرح کی کلاسز رکھتے ہیں، جو جز وقتی ہوتی ہیں، تو لوگ ایک مہینہ دو مہینہ آجاتے ہیں، لیکن مستقل کلاسز نہیں لیتے، جس وجہ سے وہ کلاسز ختم ہوجاتی ہیں، دوسری جانب مدارس نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی، چاہے وہ عربی فارسی لینگویج کلاسز ہوں یا جز وقتی دینی کورسز۔ بالکل صحیح بات ہے کہ مدارس کو اس جانب توجہ دینی چاہیئے، اور ہم یہ کرسکتے ہیں۔ دراصل ایک مشکل یہ ہے کہ مدارس اپنی اہمیت اور صلاحیت کو ہی نہیں جانتے کہ وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں، یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ مدارس اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہے ہیں۔ لہٰذا خود مدارس کو اپنی اہمیت اور طاقت کو درک کرنا کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں شیعہ مدارس کے اسٹرکچر کی مضبوطی اور معاشرے میں بہترین مثبت فعالیت کیلئے کن اقدام کی ضرورت ہے، اور یہ کون کریگا۔؟
مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ:
اس حوالے سے کئی اہم اقدامات اٹھانے ہونگے، مثلاً مدارس کو اسپیشلائزیشن کی طرف جانا ہوگا، ہمارے پاس مدارس اور انفرااسٹرکچر کی کمی نہیں ہے، عمارتوں کی کمی نہیں ہے، ضرورت ہے کہ چھوٹے چھوٹے مدارس آپس میں مربوط ہوں، میری نظر میں ایک راہ حل یہ ہے کہ جس طرح سے اسکولز اور کالجز میں ہوتا ہے کہ کچھ اسکولز پرائمری ہوتے ہیں، کچھ سیکنڈری ہوتے ہیں، پھر کالجز ہوتے ہیں، پھر یونیورسٹیز ہوتی ہیں، ایک ہی سیٹ اپ آپ کو کے جی سے یونیورسٹی تک نہیں پڑھاتا، لیکن ہمارے مدارس میں یہ ہے کہ اسی مدرسے میں صرف سادہ بھی پڑھائی جا رہی ہوتی ہے اور پھر کفایہ کا بھی درس وہاں ہو رہا ہوتا ہے، اگر ہم ان مدارس کو تقسیم کر دیں، جو مدارس ابتدائی تعلیم میں بہت زیادہ ماہر ہیں، ان کو صرف ابتدائی تعلیم کے حوالے سے کام دے دیا جائے، سیکنڈری کورسز اور ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے ہمارے پاس کچھ مدارس ہیں، جن میں ہم باہر سے بھی بڑے اساتذہ بلا سکتے ہیں، ان کو بلا کر ان سے استفادہ کرسکتے ہیں، یہ درجہ بندی اور تقسیم ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: جس طرح پاکستان میں خواص تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں، بالکل اسی طرح مدارس بھی تقسیم یا گروہ بندی کا شکار نظر آتے ہیں؟ اگر یہ حقیقت ہے تو صورتحال کی بہتری کیسے ممکن ہے۔؟
مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ:
یہ بہت اہم سوال ہے، بلکہ آپ کے سوالات میں اہم ترین سوال ہوگا، مدارس بھی آپ کے معاشرے کا ایک حصہ ہوتے ہیں، جو چیزیں معاشرے میں بھی چل رہی ہوتی ہیں، وہ مدارس میں بھی منعکس ہوتی ہیں، اگر ہمارا معاشرہ، ہمارے خواص اور تنظیمیں تقسیم کا شکار ہیں تو یہ مدارس میں بھی ضرور نظر آئے گا، لیکن اگر کوئی کہے کہ ہمارے مدارس پوری طرح سے دو یا چند دھڑوں میں تقسیم ہیں، تو ایسا نہیں ہے، مدارس آپس میں مربوط بھی ہیں، رابطے ہیں، آنا جانا بھی ہے، بہت بڑی تقسیم ہو، ایسا نہیں ہے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی تقسیم بھی نہیں ہے، ہاں ایک بات اہم جو میں کہنا چاہوں گا کہ مدارس کا ایک بہت بڑا اور اہم کردار ہے، معاشرے میں اس تقسیم بندی اور گروہ بندی کو ختم کرنے میں، ان مدارس کا جوانوں پر، اپنے معاشرے پر ایک اثر و رسوخ ہوتا ہے، اور انہی کو دیکھ کر لوگ دھڑے بندی کا شکار ہوتے ہیں، اگر مدارس اپنا بھرپور کردار ادا کریں، اس تقسیم کو اور گروہ بندی کو ختم کرنے کیلئے، تو میں سمجھتا ہوں کہ اس چیز کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپریشن ضرب عضب کا دائرہ کار مدارس پر بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے، اس حوالے سے شیعہ مدارس کے کیا تحفظات ہیں؟ آیا شیعہ مدارس کسی بھی قسم کے سرچ آپریشن، رجسٹریشن وغیرہ کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھیں گے یا مزاحمت کرینگے۔؟
مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ:
سب سے پہلے تو میں وضاحت کر دوں کہ اس بات کو نافقط ہم بلکہ ہمارے مخالفین اقرار کرتے ہیں کہ شیعہ مدارس کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی یا دہشتگردی میں ملوث نہیں ہیں، اور انہوں نے شروع سے اپنے آپ کو مہد علمی کے طور پر رکھا ہے، اور معاشرے کی علمی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے، اس کو ہر خاص و عام جانتا ہے، اس کو کہیں ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں تک شیعہ مدارس میں سرچ آپریشن یا دیگر کی بات ہے، تو ہماری ملکی ایجنسیوں کا حق بنتا ہے کہ وہ معلومات رکھیں کہ کون سے مدارس ہیں، کون سے طلاب ہیں، آیا غیر ملکی طلاب مدارس میں ہیں یا نہیں ہیں، لیکن اس کا انہوں نے خود ہی ایک سیٹ اپ بنایا ہے وفاق المدارس کا، پانچ اور چھ وفاق المدارس ہیں، اسی طرح وفاق المدارس شیعہ پاکستان بھی ہے، تمام شیعہ مدارس جو ہیں وہ وفاق المدارس کے انڈر میں آتے ہیں، اور وہ ان سے رابطے میں رہتے ہیں، اور ان مدارس کا سارا ڈیٹا ان کے پاس ہوتا ہے، ان کے امتحانات وہ لوگ لیتے ہیں، اگر تمام وفاق المدارس اپنا اپنا کردار صحیح ادا کریں تو میرا خیال ہے کہ اس آپریشن میں انہیں بہت آسانی مل سکتی ہے، اور بہت آسانی سے وہ معلوم کرسکتے ہیں کہ کون سے مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں، اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ مدارس ہیں جو دہشتگردی میں ملوث ہیں، اور اسے کنٹرول کرنا ضروری ہے، لیکن وفاق المدارس کے تحت ملکی ایجنسیوں کو مدارس میں آپریشن کرنے چاہئیں، اور جہاں جہاں کی ان ایجنسیوں کے پاس کنفرم معلومات ہیں کہ وہ ان چیزوں میں ملوث ہیں، ان کا قلع قمع ہونا چاہیئے، حتیٰ ان مدارس کو بند ہونا چاہیئے، اور تمام وفاق المدارس کو دہشتگردی میں ملوث مدارس کیخلاف کارروائی میں ملکی اداروں کیساتھ تعاون کرنا چاہیئے، اب پاکستان اس چیز کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا، ہم بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں، اے کاش کہ ہماری آنکھیں بہت پہلے کھل جاتیں، ہمارے علماء، ہمارے قائدین، ہماری تنظیمیں بہت عرصے سے اس بات کی طرف متوجہ کر رہی تھیں کہ اگر ہم نے اس وقت نہیں روکا تو آگ خود ہمارے گھروں میں لگ جائے گی، اور وہ اب لگ چکی ہے، اب ہمیں سب کو مل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے، اس آگ کو بجھانا ہوگا، اس حوالے سے سخت اقدامات کرنے ہونگے، دہشتگرد عناصر کو اپنے سے الگ کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 481396
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش