0
Wednesday 30 Sep 2015 21:23

سعودی حکومت فراخدلی کا مظاہرہ کرکے حج و زیارات کا انتظام اسلامی ممالک کے حوالے کرے، شیخ یوسف حسین

سعودی حکومت فراخدلی کا مظاہرہ کرکے حج و زیارات کا انتظام اسلامی ممالک کے حوالے کرے، شیخ یوسف حسین
مولانا یوسف حسین جعفری کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے نستی کوٹ سے ہے۔ ایک خوش الحان اور شعلہ بیان مقرر کے طور پر علاقے میں کافی شہرت کے حامل ہیں۔ ایک عرصے تک محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے اور چند سال قبل محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہوگئے۔ علاقے میں سیاسی اور سماجی لحاظ سے کافی فعال ہیں۔ عید الفطر کے فوراً بعد مجلس علمائے اہلبیت میں باقاعدہ ووٹنگ کے ذریعے بھاری اکثریت سے نئے صدر کے طور پر انکا انتخاب عمل میں آیا۔ اسلام ٹائمز نے ان سے بعض علاقائی مسائل کے علاوہ منا حادثے پر بھی گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کرم ایجنسی میں حکومت کی جانب سے جنک میں متاثر ہونے والے زخمیوں اور شہداء کو دئے جانے والے معاوضے کے متعلق اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ 
شیخ یوسف حسین: مرکزی حکومت کے اس اقدام کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ تاہم کرم ایجنسی ہو یا کوئی بھی دوسرا قبائلی علاقہ، گزشتہ کئی سالوں سے دہشتگردی سے نہایت متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جاں بحق یا زخمی ہوگئے۔ گھر بار تباہ ہوگئے۔ یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں کی دہشتگردوں کے بارے میں نرم رویے کی وجہ سے ہوا۔ آجکل دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں اور متاثرین کو دئے جانے والے امداد کا تمام تر کریڈیٹ موجودہ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔ ہم انکی جرات خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آباد کاری کے حوالے سے حکومتی پالیسی سے آپ مطمئن ہیں کیا؟
شیخ یوسف حسین:
آبادکاری کے حوالے سے دیکھا جائے تو زیادہ تر زور اور اہمیت دوسرے قبائل کو دیا جاتا ہے۔ طوری بنگش قبائل کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا گیا۔ صدہ، جیلمئے، چاردیوال، سیدانو کلے، خیواص اور گوبزنہ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔ جبکہ شلوزان تنگی، باگزئی اور مخی زئی پر بہت زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔

اسلام ٹائمز: لنڈیوان کے مسئلے پر حکومت اور دوراوی سادات کے مابین ہونے والے تصفیے پر روشنی ڈالیں۔
شیخ یوسف حسین:
حکومت نے لنڈیوان کے مسئلے پر مری معاھدے کے مطابق عمل نہیں کیا۔ لنڈیوان کاغذات مال میں دوراوی سادات کی ملکیت ہے۔ جبکہ یہاں آباد منگل سادات کے باجگزار اور مزارعین (ہمسایہ) تھے۔ انکو دوبارہ لاکر بسانا جیسا کہ سادات کو اندیشہ ہے، مری معاھدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: مجلس کے صدر منتخب ہونے کے فورا بعد آپ نے دعوی اور وعدہ کیا تھا کہ کرم ایجنسی میں پائی جانیوالی نفرتوں کو ختم کرنے کی خاطر ہر طرح سے کوشش کرونگا۔ کیا آپ نے وہ وعدہ پورا کیا؟
شیخ یوسف حسین:
ہاں میں نے بالکل یہ بات کہی تھی۔ تو عرض یہ ہے کہ میں نے اس حوالے سے کئی کوششیں کی ہیں۔ بعض شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ تاہم بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ انکا فوری حل ممکن نہیں ہوتا انکے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ میں اپنی کوششیں جاری رکھوں گا۔

اسلام ٹائمز: اورکزئی کے صدر مقام کلایہ میں مدرسہ کے متعلق پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنے میں کس حد تک کامیابی حاصل کی؟
شیخ یوسف حسین:
میں نے مجلس کے ارکان کو ساتھ لیکر وہاں کے دورے کئے۔ لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ پھر وہاں سے وفود یہاں آئے۔ جس میں مولانا سید عابد حسینی کو بھی کردار ادا کرنا پڑا۔ ہم نے دونوں فریق کو ایک نکتے پر لانے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ انشاء اللہ مسئلے کا بہت جلد ایک پر امن حل نکل آئے گا۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب میں مینا کے مقام پر ہونے والے افسوسناک حادثے پر کس کو قصوروار تصور کرتے ہیں؟
شیخ یوسف حسین:
ہم خود تو مینا میں موجود نہیں تھے۔ لیکن جو کچھ میڈیا سے اور بعض حجاج کرام سے سننے میں آرہا ہے۔ تو اس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ کچھ غلطی افریقی باشندوں کی بد نظمی تھی۔ اور ساتھ ہی سعودی شہزادہ کے پروٹوکول کے لئے ایک یک طرفہ راستے کی بندش تھی۔ افریقی باشندوں پر اتنی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ ان بیچاروں کی تو شاید یہی ثقافت ہوگی۔ یعنی بدنظمی شاید انکے ثقافت کا حصہ ہو۔ مگر جہاں تک حج کا مسئلہ ہے، حج میں ہر شخص ایک ہی لباس میں ملبوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کی نظر میں سب برابر ہیں، لہذا سب کے ساتھ ایک ہی سلوک ہونا چاہئے۔ کسی کے لئے اضافی پروٹوکول فلسفہ حج کے منافی اقدام ہے۔ چانچہ اگر سعودی عرب نے ایسا کوئی اقدام کیا ہے۔ تو اس پر اسکو معافی طلب کرنا چاہئے نیز متاثرین کو اسلامی قانون اور سعودی عرب میں رائج قانون کے مطابق معاوضہ دینا چاہئے۔ جس کی مالیت آجکل کوئی اسی سے نوے لاکھ کے برابر ہے۔

اسلام ٹائمز: ایسے واقعات سے نمٹنے کے لئے کیا تجویز پیش کریں گے؟
شیخ یوسف حسین:
آئندہ ایسے واقعات سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب کو فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اور اسلامی ممالک کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس مطالبے کو قبول کرنا چاہئے جس میں کہا گیا ہے کہ حج اور تمام مقدس مقامات کے انتظامات کو اسلامی ممالک کے ایک مشترکہ کمیٹی کے حوالے کرنا چاہئے۔ 
خبر کا کوڈ : 488302
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش