0
Wednesday 14 Oct 2015 23:15
اتنے بڑے سانحے، ہزاروں حجاج کی شہادت اور گمشدگی کے باوجود مسلم حکمرانوں کی خاموشی باعث حیرت ہے

عالم اسلام کو حرمین شریفین آل سعود کے غاضبانہ قبضے سے آزاد کرانا ہوگا، مفتی بشیر القادری نورانی

تمام مسلم ممالک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے انتظامات کیلئے عالمی کونسل تشکیل دیں
عالم اسلام کو حرمین شریفین آل سعود کے غاضبانہ قبضے سے آزاد کرانا ہوگا، مفتی بشیر القادری نورانی
مفتی محمد بشیر القادری نورانی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان سے ہے اور وہ اس وقت جمعیت علمائے پاکستان کراچی کے جنرل سیکریٹری ہونے کے ساتھ ساتھ علماء رابطہ کونسل کے رکن بھی ہیں۔ آپ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کے ساتھ بھی تنظیمی حوالے سے فعال رہے، وہ گذشتہ 30 سالوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں، خطابت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، وہ کراچی میں قائم دارالعلوم منہاج الفرقان کے بانی بھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف اہلسنت اداروں کے ساتھ بھی وابستہ ہیں۔ وہ 55 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں، عربی، فارسی، سندھی، اردو فاضل ہیں، اسلامیات میں ماسٹرز کرچکے ہیں، آجکل وہ جامع مسجد سبحانی اورنگی ٹاؤن کراچی میں خطیب و پیش امام کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مفتی محمد بشیر القادری نورانی کے ساتھ ”سانحہ منٰی“ کے حوالے سے جامع مسجد سبحانی میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان سے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کرین حادثہ جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، اسکے بعد سانحہ منٰی کا رونما ہونا، کیا اس حوالے سے سعودی بادشاہت کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہوں گا کہ اتنے بڑے سانحے، ہزاروں حجاج کرام کی شہادت اور گمشدگی کے باوجود مسلم حکمرانوں کی خاموشی باعث حیرت ہے، پھر مہذب دنیا کا اصول ہے کہ جب کوئی بڑا سانحہ رونما ہو جائے یا حادثہ پیش آجائے، تو ان ممالک میں اس واقعے سے متعلقہ وزیر استعفٰی دے دیتا ہے اور حادثے کے اسباب و علل تلاش کئے جاتے ہیں، لیکن افسوس کہ اتنے بڑے سانحے کے باوجود، نہ کسی نے ذمہ داری قبول کی، نہ کسی نے استعفٰی دیا، اور نہ ہی سانحے کے اصل محرکات منظر عام پر لائے گئے، جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو حج کے دوران ہونے والا کرین حادثہ سعودی بادشاہت اور حکام کی نااہلی، غفلت، بے حسی ہے۔ ان کو انسانیت سے، عابدین سے، اللہ تعالٰی کے مہمان حاجیوں سے کوئی سروکار نہیں، کوئی تعلق نہیں، کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ بھی ہے، دنیا بھر سے آئے ہوئے اللہ کے مہمانوں کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے، اہمیت اگر ہے تو شاہی خاندان کیلئے، سعودی شہزادوں کیلئے، جیسا کہ اس سال بھی حج کے موقع پر دنیا نے دیکھا کہ ایک سعودی شہزادے کی تعظیم و پروٹوکول کیلئے طواف کعبہ روک دیا جاتا ہے، ایک دم لاکھوں حاجیوں کو روک دیا جاتا ہے، حج پر آنے والی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، مرد، بوڑھے، جوان ان سب کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے، سعودی بادشاہت کو اس بات کی بالکل کوئی پرواہ نہیں۔ اس سال سانحہ منٰی میں جو ہوا ہے، اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

حج کے دوران ایک سعودی شہزادہ آتا ہے، اس کی تعظیم اور پروٹوکول کے چکر میں لاکھوں حاجیوں کے ریلے کو روکنے کی کوشش کی گئی، اور اس سعودی شہزادے کو گزارا گیا، اس سعودی شہزادے کا عالم یہ کہ وہ اپنی لگژری گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی شیطان کو کنکریاں مار رہا ہے، دوسروں پر شرک و بدعت کے فتوے لگانے والے سعودی وہابی نجدی مفتی بتائیں کہ یہ عمل کس شریعت کی رو سے جائز ہے، عبادت کیلئے سب برابر ہوتے ہیں۔ سعودی شہزادے کو پروٹوکول دینے جیسی حرکتیں نہ ہوتیں، تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس جگہ سانحہ ہو جائے۔ لیکن کیا کریں کہ مسلم ممالک میں موجود حکومتیں خاموش ہیں، کیونکہ وہ سعودی ریالوں پر پلتی ہیں، سعودی بادشاہت سے کروڑوں اربوں ریال رشوتیں لیکر ان سانحات پر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں، حقائق سے مسلم امہ کو آگاہ نہیں کرتیں، لیکن ان سعود نواز حکومتوں کو ان سانحات کی کیا پروا۔ جس طرح حج جیسے عظیم اور مقدس اسلامی اجتماع کو دنیا کے سامنے مذاق بنایا گیا، اس کی بے حرمتی کی گئی، لہٰذا اب سعودی بادشاہت اور انکے جرائم پر پردہ ڈالنے والی وہابیت اور نجدیت کا سدباب ضروری اور ناگزیر ہو چکا ہے، یہ دونوں مل کر عالم اسلام کے مرکز حرمین شریفین، مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ پر قابض ہیں، اسے اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں۔

یہاں آنے والے حاجیوں، زائرین، عابدین، مسلمین کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، ان کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرتے ہیں، اپنی مرضی کے مطابق شرک و بدعت کے فتوے لگا کر عبادت کے حق سے روکتے ہیں۔ آپ جنت البقیع جائیں، جہاں اہل بیت اطہارؑ اور صحابہ کرامؓ کے مزارات تھے، جنہیں ان سعودی وہابی نجدوں نے شرک و بدعت قرار دیکر شہید کر دیا تھا، آج بھی وہاں ہر جگہ قبور پر حارجی، وہابی، نجدی، جہنمی کتے کھڑے ہوتے ہیں، ان میں پاکستان کے دہشتگرد گروہوں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، جماعة الدعوة، دعوت و الارشاد وغیرہ کے خارجی دہشتگرد بھی شامل ہوتے ہیں، وہ جہنمی کتے وہاں کھڑے ہو کر آنے والے زائرین پر شرک و بدعت کے فتوے لگاتے ہوئے بھونکتے رہتے ہیں، یہاں اپنے ناپاک بدعقیدے کی حفاظت کیلئے اتنے سخت انتظامات اور بیت اللہ شریف خانہ کعبہ اور حج کیلئے انتظامات میں سنگین غفلت اور کوتاہیاں کہ ہزاروں حجاج شہید ہوگئے۔ یہ سعودی بادشاہت آل سعود اور وہابی نجدی ٹولہ نہ تو چہروں سے مسلمان نظر آتے ہیں اور نہ ہی عمل سے، نہ انہیں سنت سے غرض ہے اور نہ ہی فرض کی پرواہ، یہ دراصل ڈاکو ہیں، یہ آل سعود قابض ہیں، حرمین شریفین بیت اللہ اور مسجد نبوی پر، جو مسلمانوں کے مراکز ہیں، لہٰذا عالم اسلام کو آل سعود کے قبضے سے حرمین شریفین کو چھڑانے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ضیاءالحق کے دور میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم نے مطالبہ کیا تھا، کہ یہ جو حرمین شریفین ہے، مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کو آزاد شہر بنا دیا جائے، اور یہاں کا انتظام و انصرام مسلم ممالک کے نمائندوں کے ہاتھ ہو، یہ مطالبہ مولانا شاہ احمد نورانی نے 1986ء میں کیا تھا، جسکے بعد مولانا پر سعودی عرب نے پابندی عائد کر دی تھی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حج کا انتظام و انصرام سعودی بادشاہت سے لیکر کسی بڑے مسلم معتبر ادارہ کے سپرد کر دیا جانا چاہیئے، تاکہ حج جیسے اہم اور عظیم اجتماع کے دوران پیش آنیوالے ایسے سانحات کی روک تھام ہوسکے۔؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی:
یہ مطالبہ صرف قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کا ہی نہیں بلکہ ہر ایک مسلمان کی دل کی آواز ہے، اور ویسے بھی عالم اسلام کے مراکز حرمین شریفین کسی بھی ایک فرقے کی جاگیر نہیں ہونی چاہیئے، اور اگر یہ کسی ایک کی ذاتی جاگیر بن جائیں گے تو سانحہ منٰی کی طرح سانحات ہونگے، یہ سچ ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کو یہ سزا ملی حق کی آواز بلند کرنے پر کہ ان پر سعودی عرب کی جانب سے پابندی لگا دی گئی، جیسا کہ آپ کا سوال ہے تو میں اس سے بالکل متفق ہوں، اور کہنا چاہوں گا کہ بیت اللہ شریف کعبہ امن کی جگہ ہے اور کعبہ کا اختیار، مسجد نبوی کا اختیار آل سعود کی ظالم بادشاہت کے ناپاک ہاتھوں میں کسی صورت گرفتار نہیں ہونا چاہیے، آج ان وہابی نجدی آل سعود کے ہاتھوں حرمین شریفین کی حرمت اور تقدس خطرے سے دوچار ہے، اب وقت ضائع کئے بغیر عالم اسلام کو سنجیدہ کوششوں کے ساتھ حرمین شریفین کو آل سعود کے غاصبانہ قبضہ اور چنگل سے آزاد کرانا ہوگا، جنہوں نے حرمین شریفین کو تجارت کا ذریعہ بنا رکھا ہے، لہٰذا حرمین شریفین کے انتظامات کے حوالے سے عالم اسلام کا نمائندہ اجلاس ہونا چاہیئے، اس میں بحث ہونی چاہیئے، اور تمام اسلامی ممالک سے نمائندے لئے جائیں، اور ان نمائندوں پر مشتمل کمیٹی یا کونسل حرمین شریفین خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے انتظامات ناصرف حج و عمرے کے دوران بلکہ پورے سال کیلئے ان کے سپرد کر دیئے جائیں، یعنی تمام مسلم ممالک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے انتظامات کیلئے عالمی کونسل تشکیل دیں۔

اسلام ٹائمز: کیونکہ آپ خود مفتی اور شیخ الحدیث ہیں، اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے کہ سعودی عرب کے سرکاری مفتی عبدالعزیز آل شیخ نے فتویٰ دیا ہے کہ سعودی بادشاہت سانحہ منٰی کی ذمہ دار نہیں، بلکہ یہ واقعہ مشیت الہٰی کا نتیجہ ہے، آپ اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی:
اگر کوئی شخص کسی کو گولی مار کر قتل کر دے اور کہے کہ یہ مشیت الٰہی ہے، تو اس طرح مجرموں کو کون پکڑے گا، پھر قرآن و سنت کے احکامات کا کیا ہوگا، سزا و جزا کے اسلامی احکامات کا کیا ہوگا، یہ سعودی وہابی نجدی نام نہاد مفتی صرف اور صرف آل سعود کی خوشنودی کیلئے مختلف قسم کی تاویلات گھڑتے رہتے ہیں، سانحہ منٰی پر اس قسم کی تاویل پیش کرنا صرف اور صرف اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے کا ایک بہانہ ہے، اپنی سنگین کوتاہی، غفلت اور جرم پر پردہ ڈالنا ہے، یہ جان چھڑانے کا طریقہ ہے، لیکن آل سعود سانحہ منٰی کے ذمہ دار ہیں، جس سے وہ جان نہیں چھڑا سکتے۔ جہاں تک بات ہے وہابی نجدی نام نہاد مفتیوں کی، تو انہوں نے تو آزادی فلسطین کیلئے حقیقی جدوجہد کرنے والوں کیخلاف بھی فتویٰ دے رکھا ہے، ان سعودی مفتیوں نے تو فلسطین کے خلاف اسرائیل کے حق میں بھی فتوے دیئے تھے، آل سعود کے خوشامدی وہابی نجدی نام نہاد مفتیوں کے فتووں کے باعث فلسطین تباہ ہوا، یمن تباہ ہوا، شام تباہ ہوا، عراق تباہ ہوا، لیبیا تباہ ہوا، عالم اسلام آج تباہی اور دہشتگردی کا شکار ہوچکا ہے، انہیں آل سعود اور ان کے نمک خوار وہابی نجدی مفتیوں کے بلاواطہ یا بلواسطہ طالبان، القاعدہ، داعش اور ان جیسی دیگر خارجی دہشتگرد تنظیموں سے تعلقات ہیں، یہ ان کو ریال دیتے ہیں، ان کے حق میں فتاویٰ دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سانحہ منٰی کے بعد حجاج کرام کے جسد خاکی کی بے حرمتی کی گئی، تاحال کئی ہزار شہید حجاج کی لاشیں کنٹینروں میں بند ہیں، کیا کہیں گے اس افسوسناک سلوک پر۔؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی:
ہر غیرت مند مسلمان کا دل خون روتا ہے کہ کس طرح سے سانحہ منٰی میں شہید ہونے والے اللہ تبارک و تعالٰی کے مہمان حجاج مرد و خواتین کی میتوں کی بے حرمتی کی گئی، کس طرح سے شہید حجاج مرد و خواتین کی نیم برہنہ لاشوں کو ایک کے اوپر ایک ڈالا گیا، بلڈوزروں سے لاشے اٹھائے گئے، یہ آل سعود، یہ سعودی بادشاہت انسان نہیں بلکہ درندے ہیں، انہیں انسانیت کی قدر نہیں ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ یہ حرمین شریفین پر قابض ڈاکو آل سعود مہمانان اللہ تبارک و تعالٰی کو انسان نہیں سمجھتے، یہ جو اپنے آپ کو شریعت و توحید کے چیمپئن سمجھتے ہیں، یہ انہوں نے کس آیت و حدیث میں سیکھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی کے مہمانوں کی، حاجیوں کی جو منٰی میں فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران شہید ہوگئے، کیا شہید حجاج کی لاشوں کی اتنی بے حرمتی انہیں بلڈوزروں اور کرینوں سے اٹھایا گیا، کیا مرد کیا خواتین، سب کی اکٹھی برہنہ، نیم برہنہ لاشوں کو ایک کے اوپر ایک رکھا گیا، آج تک ہزاروں لاشیں کنٹینروں میں بند ہیں، مسخ ہو رہی ہیں، زخمیوں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا گیا، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، اس طرح کا سلوک تو کسی جانور کے ساتھ بھی کوئی نہیں کرتا، کہ جس طرح آل سعود نے مہمانان خدا کے ساتھ کیا، ایسا سلوک تو کوئی کافر بھی مسلمان کے ساتھ کرنے کا نہیں سوچ سکتا، لیکن ان آل سعود نے عالم کفر کو بتانا تھا کہ ہم نے عین حج جیسی عظیم عبادت کے وقت مسلمانوں کی کیا حالت کی ہے، اسلام کا کیسا مذاق اڑایا ہے، یہ آل سعود تو عرب کے لٹیرے بدو ہیں، یہ قرآن کو ٹانگ پر رکھ کر پڑھنے والے، قرآن کو تکیہ بنا کر اس پر سر رکھ کر سو جانے والے وہابی نجدی سعودیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف تو سانحہ منٰی میں شہید و لاپتہ ہونیوالے پاکستانیوں کے خاندان انتہائی بے بسی و پریشانی کا شکار ہیں، تو دوسری جانب پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بجائے باز پرس کرنے کے وہ سعودی بادشاہ کے انتہائی شکرگزار نظر آتے ہیں کہ وہ زخمیوں کی احوال پرسی کیلئے اسپتال تشریف لے گئے، اس صورتحال پر کیا کہیں گے۔؟
مفتی محمد بشیر القادری نورانی:
نواز حکومت تو آل سعود کے ریالوں پر پلنے والے پالتو کتے ہیں، اب اس نواز شریف نے تو آل سعود کو بیٹی کا رشتہ دیکر مزید اپنا رشتہ ان کے ساتھ بڑھا لیا ہے، اب یہ نواز شریف باز برس تو دور کی بات معمولی سی شکایت بھی نہیں کرسکتا سعودی بادشاہت سے، کہ شہزادے ناراض ہو جائیں گے، ان کے آل سعود کے ساتھ معاملات ختم ہوجائیں گے، رشتے ختم ہوجائیں گے، جو زبان و رویہ سعودی بادشاہت کا ہے، وہی رویہ نواز حکومت کا ہے۔ بس بہت ہوگیا، اب عالم اسلام کے ضمیر فروش نہیں بلکہ باضمیر لوگوں کو اب جاگ جانا چاہیئے، اب حرمین شریفین پر سے آل سعود کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیئے، وہابی نجدی ڈاکووں سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو آزاد کرانا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 491192
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش