0
Saturday 17 Oct 2015 15:19
مستقبل تشیع کا ہے

رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی بصیرت کیوجہ سے دشمن کو ہر محاذ پہ شکست کا سامنا ہے، علی مہدی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی بصیرت کیوجہ سے دشمن کو ہر محاذ پہ شکست کا سامنا ہے، علی مہدی
نئے تنظیمی سال کے لیے منتخب ہونے والے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر علی مہدی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ایم فل نفسیات کے طالب علم ہیں، مرکزی امامیہ چیف اسکاوٹ کی ذمہ داری سے پہلے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں مختلف ذمہ داریوں پہ کام کرتے رہے ہیں، جواں عزم اور حوصلے کیساتھ شعبہ جاتی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے تنظیم کو فعال بنانا چاہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز کیساتھ نو منتخب مرکزی صدر کی گفتگو قارئین کے پیش خدمت ہے۔
 
اسلام ٹائمز۔ آپ امامیہ نوجوانوں کےنئے میر کارواں منتخب ہوئے ہیں، نئے تنظیمی سال کو کس عنوان سے موسوم کریں۔؟
علی مہدی:
نئے تنظیمی سال کو "سال معرفت و بصیرت" کے عنوان سے منائیں گے، اس کی ضرورت اس سے لیے ہے کہ پوری تاریخ اسلام میں جس چیز نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ بے بصیرتی ہے، رہبر معظم نے بھی فرمایا ہے کہ دین میں اور دین کے دفاع کے لیے جو چیز سب سے زیادہ لازم ہے وہ بصیرت ہے۔ کربلا کے واقعہ سے متعلق بھی رہبر معظم فرماتے ہیں کہ ابن زیاد کے لشکر میں سب فاسق و فاجر لوگ ہی نہ تھے، بلکہ بہت سارے لوگ بے بصیرت تھے۔ اس سال ہم کوشش کریں گے کہ جو ہماری اقدار اور روایات ہیں، انکا بھی احیا کیا جائے اور ہمیں اس بات کا علم ہو کہ ہمارا دشمن کون ہے اور وہ کیا سازشیں کر رہا ہے، اس کا طریقہ کار کیا ہے، ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے، تاکہ ہمارا ہر قدم بصیرت کیساتھ ہو، رہبریت کی اطاعت میں ہو، خود تنظیمی عمل میں بصیرت کی ضرورت ہے، اس سے ہم ہدف تک جلد از جلد پہنچیں گے۔

اسلام ٹائمز: نئے سال میں آپ کی ترجیحات کیا ہوں گی اور کس طرح انہیں عملی جامہ پہنائیں گے؟
علی مہدی:
کوششں کریں گے کہ تمام شعبہ جات اچھے انداز میں فعال ہوں، خود توسیع تنظیم ایک ترجیح ہے، تعلیمی شعبہ ترجیح ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ انہیں مورد توجہ بنائیں۔ ان شعبہ جات کی اہمیت بھی ہے، خواہش ہے کہ مرکز کی سطح پر ایک دوست مسئول ہوں، انکے ساتھ نیچے ٹیم ہو جو عملی طور پر اس ذمہ داری کو انجام دے، کیرئیر گائیڈنس کے پروگرام کا سلسلہ شروع کیا جائے، آئی ایس او خود بھی اسکالر شپس دیتی ہے، لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ جو یونیورسٹیز کی طرف سے اسکالر شپس دی جاتی ہیں، ایک دوست ہو، جو ان سے متعلق ساری معلومات طلبہ کو بتائے اور انہیں آسانی ہو، تعلیمی حوالے سے بولڈ کام رہا ہے، اسے بھی بہتر بنائیں گے۔ دوسرا شعبہ ہے توسیع تنظیم کا، اس کام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، یونیورسٹیز اور کالجز، آئی ایس او طلبہ تنظیم ہے تو تعلیمی اداروں پر ہماری توجہ زیادہ ہونی چاہیئے۔ جن تعلیمی اداروں میں ہمارا اسٹرکچر ہے اسے مزید مضبوط بنائیں گے اور جہاں ہمارا ڈھانچہ نہیں ہے وہاں تنظیمی اسٹرکچر بنائیں گے، یونیورسٹیز اور کالجز میں توسیع تنظیم کے کام کے لیے الگ الگ معاون بنائیں گے، جو ڈپٹی جنرل سیکرٹری کے معاون کی حیثیت سے ہوں گے، صرف ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے لیے اکیلے یہ کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: گذشتہ سال ذکر کیا گیا تھا کہ تنظیم کے لیے طویل المدت بنیادوں پہ منصوبہ بندی کی جائے گی، آپ اس کام کو کیسے انجام دیں گے، جبکہ آئی ایس او میں مسئولین کی ذمہ داری صرف ایک سال کے لیے ہوتی ہے، طویل المدت منصوبوں کو تسلسل سے جاری رکھنا ممکن ہو گا؟
علی مہدی:
آئی ایس او کے منصوبے ایک سال تک ہی محدود ہوتے ہیں، ذمہ داریاں بھی ایک سال کے لیے ہوتی ہیں، لیکن مستقل بنیادوں پہ کام کرنے والے اداروں میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی بھی طویل المعیاد ہوتی ہے، صرف ایک سال کی منصوبہ بندی اس میں رکاوٹ رہتی ہے کہ منصوبے تسلسل کے ساتھ جاری رکھے جا سکیں، مختلف کاموں کے لیے مستقل ادارے تشکیل دیئے جا رہے ہیں تو طویل المعیاد منصوبہ بندی بھی ضروری ہے، اس پہ کام ہو رہا ہے اور اسے مجلس عاملہ سے بھی منظور کروائیں گے، ہم پانچ سالہ پلان بنائیں گے، پھر اس پانچ سالہ پلان کو سال بہ سال تقسیم کر کے بتدریج عملی طور پر مکمل کیا جائے گا، ہم نے کچھ عرصہ پہلے اپنے کچھ مستقل ادارے بنائے ہیں، تربیت کا ادارہ ہے، توسیع کا ادارہ ہے پیام عمل، اسی طرح امامیہ اسکاوٹس کے لیے اسکاوٹ کونسل پہلے سے ایک مستقل ادارے کے طور پر موجود ہے، لیکن ہمارے تنظیمی مسئولین بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ہم نے پہلے سے موجود مستقل اداروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے لیے طویل المعیاد منصوبے بنائیں، پھر یہ منصوبے نظارت کو پیش کیے جائیں گے، ایسا نہیں ہے کہ مستقل اداروں کو پلان دیا جائے گا، بلکہ وہ خود پلان بنائیں گے، تاکہ ان پہ وہ خود آسانی سے عمل درآمد کر سکیں، اس میں دو طرح سے لچک موجود رہے گی، ایک اس لیے کہ ہر سال تنظیم میں مسئولین تبدیل ہوتے ہیں، اگر وہ مستقل پلان میں اپنی تنظیمی ترجیحات کی روشنی میں چاہیں تو کچھ نہ کچھ تبدیلی کر سکیں، دوسرا ہے تجربے کے حوالے سے، چونکہ یہ آغاز ہو گا تو لازمی نہیں ہے کہ جو ہم پلان کریں عملی طور پر اسے انجام دیتے ہوئے تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ ہو، ہم اگر پانچ سالہ منصوبہ بناتے ہیں، تو پہلے سال میں ہمیں پتہ چلے گا کہ اس میں یہ مشکلات ہیں یا یہ خامیاں ہیں، جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے، یہ مناسب تبدلیاں پہلے سے موجود مستقل ادارے ہی کریں گے، نئے آنے والے مسئولین اپنی ترجیحات کے مطابق اس میں مناسب تبدیلیاں کر کے اس کو انجام دیتے رہیں گے، اس میں کچھ چیزیں جنرل ہوں، جیسے مثال کے طور پر ہم نے ہدف رکھا کہ ایک سال میں اعلٰی سطح کے پچاس اسکاوٹس تیار کرنے ہیں، ادارہ تربیت کے ذریعے ایک مخصوص تعداد میں نوجوانوں کو تربیتی عمل میں سے گذارنا ہے، یہ ایک جنرل ٹاسک ہے، یہ آنے والے مسئول کی ذمہ داری ہے، وہ مستقل اداروں کی معاونت سے اسے پورا کرتا رہے گا، اسی طرح ہم ایک ادارہ، تنظیم کی مالی مشکلات کو دور کرنے کے لیے بنا رہے ہیں، ناصران امامیہ فنڈ کے نام سے، جو اپنا کام شروع کر چکا ہے، یہ ابتدائی تجربہ ہو گا اس میں کچھ مشکلات بھی ہوں گی، لیکن کلی طور اچھی توقعات ہیں، انشاءاللہ اس سال اس کا آغاز ہو جائے گا، اسکا فوکس سابقین سے فنڈز کی جمع آوری ہو گا۔ 

اسلام ٹائمز: بعض دفعہ تنظیمی عمل عدم فعالیت کا شکار ہو جاتا ہے، آپ کی نظر میں اس کی کیا وجوہات ہیں اور انکا حل کیا ہے؟
علی مہدی:
جب تنظیمی غیر فعالیت کی بات کریں تو اسکے کئی عوامل ہوتے ہیں، ایک وجہ تنظیمی ذمہ داری کی ایک سالہ مدت ہے، جہاں اس کی خوبیاں ہیں وہاں خامیاں بھی ہیں، چونکہ اوپر سے نیچے تک سب لوگ ہر سال تبدیل ہوتے ہیں، تو کبھی ایسے دوست بھی آ جاتے ہیں جو زیادہ فعالیت نہیں کر پاتے، ہمارے ہاں کلی طور پر تربیت یا تنظیمی تربیت میں کچھ کمی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے فعالیت نہیں ہو پاتی، جب کسی ذمہ داری کے لیے کسی دوست کو انتخاب کیا جاتا ہے، تو کبھی انکی ذاتی مشکلات بھی حائل ہو جاتی ہیں، لیکن ایک سال کے لیے ذمہ داری دیئے جانے یا ملنے کے عمل میں یہ خوبی بھی ہے کہ اگر کوئی غیر فعال دوست آ جائے یا ذمہ داری کے دوران کسی وجہ سے فعال نہ رہ سکے تو وہ بھی صرف ایک سال کے لیے ذمہ داری پہ رہتا ہے، بعد میں اسکی جگہ دوسرا دوست آ جاتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مرکز کی سطح پہ اتنی اچھی نظارت ہو کہ ہمیں پتہ ہو کہ یونٹ کی سطح تک، موجودہ اور ممکنہ طور پر آئندہ سال کے لیے مسئولین کی صورتحال کیسی ہے، اس سال کے لیے کتنے دوست تیار ہیں، اگلے سال کے لیے کتنے دوست تیار ہیں، ہمارے سارے پروگرام جنرل نہیں ہونے چاہیئیں بلکہ آگے آنے والے اور اچھے دوستوں کے لیے مخصوص اور بہتر پروگرام بھی ترتیب دیئے جانے چاہیئیں۔
 
اسلام ٹائمز: جب یونیورسٹیز میں تنظیمی اسٹرکچر بنانے کی بات کرتے ہیں تو، آج کل پاکستان میں پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز بہت زیادہ ہیں، وہاں پہ کام نہیں ہوتا، کیا یہ تاثر درست ہے کہ وہاں کام کرنے میں انتظامی مشکلات بہت زیادہ ہیں، تنظیمی کام شروع کرنا یا جاری رکھنا ممکن نہیں؟
علی مہدی:
جہاں تک ان اداروں میں مشکلات کی بات ہے تو ایسا نہیں، چند ایک ادارے ایسے ہو سکتے ہیں جہاں مشکل ہو، وہاں کے رولز اتنے سخت ہوں، لیکن کلی طور پہ ایسا نہیں ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری توجہ نہ ہو، ہم نے کوشش نہ کی ہو۔ زیادہ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں ایسی مشکل نہیں۔ زیادہ تر ادارے ایسے ہیں جہاں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں، لیکن ہمارا اسٹرکچر وہاں موجود نہیں۔ شاید LUMS جیسے کسی ادارے میں ایسی رکاوٹ ہو، ورنہ زیادہ تر اداروں میں ایسا نہیں۔ وہ ادارے جہاں مشکلات ہیں انہیں دوسری ترجیح میں رکھیں گے اور جہاں یہ مشکلات نہیں ہیں وہ ہماری پہلی ترجیح ہیں۔ ہمارا ایسا تو کوئی پروگرام ہے نہیں جو نامناسب ہو، طلبہ کی تربیت ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیئے، یہ تربیتی کام یونیورسٹی کیساتھ ساتھ نزدیکی امام بارگاہ اور مساجد میں بھی ہو سکتا ہے، ہماری پہلی ترجیح وہی ادارے ہوں گے جہاں تھوڑی محنت کیساتھ زیادہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او پاکستان، ملت تشیع کی وحدت کی علامت ہے، لیکن کچھ عرصے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تنظیم فقط ایک ہی قومی جماعت کی طرف جھکاو رکھتی ہے، اس پہ کیا کہیں گے؟
علی مہدی:
آئی ایس او نے بہرحال مختلف تنظیموں کو جنم دیا ہے، دوسرا یہ کہ آئی ایس او ایک خط پر ہے، خط ولایت فقہیہ، خط امام خمینی، خط شہید حسینی، خط ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، جو بھی جماعت اس خط پہ ہو گی ہم اس کے ساتھ ہیں، ہاں، ہر تنظیم اور ہر ادارے کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، جو اس ادارے کے اندر موجود افراد یا ادارے بناتے ہیں، ہم اپنی پالیسی خود ترتیب دیتے ہیں، لیکن جہاں قومی مفاد کی بات ہو، وہاں دوسروں کیساتھ مل کے چلتے ہیں، یہ خواہ مخواہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم ایک قومی جماعت کا حصہ ہیں، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں، غیر جانبدارانہ طور پہ دیکھیں تو آئی ایس او نے اپنے ممبران کو کبھی نہیں کہا کہ وہ کسی خاص قومی جماعت کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے کام کریں، یا جا کے ان کا حصہ بنیں، آٰٗئی ایس او کسی دوسری جماعت کا حصہ نہیں ہے، آئی ایس او ایک مستقل تنظیم ہے، جسکا تمام تنظیموں کے بننے اور چلنے میں کردار ہے، آئی ایس او سے فارغ ہونے والے نوجوان ہمیں ہر تنظیم و ادارے میں بنیادی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: معذرت کیساتھ، اس تاثر سے یہ مراد نہیں لیا جاتا کہ آئی ایس او کسی قومی جماعت کا ونگ ہے، بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ جو افراد آئی ایس او کی مجلس نظارت میں ہیں، وہی معزز شخصیات چونکہ ایم ڈبلیو ایم کی شوٰری میں ہیں، جسکی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے، جبکہ کسی دوسرے قومی ادارے میں نظارت سے منسلک افراد کی کوئی تعداد موجود نہیں، بلکہ کسی ادارے کی طرف انہوں نے رخ بھی نہیں کیا۔۔
علی مہدی:
میں اس پہ پھر اسی بات کو دہراوں گا کہ ایسا نہیں ہے، یہ بھی درست نہیں کہ کسی مخصوص قومی سیٹ اپ سے آئی ایس او کی نظارت سے تعلق رکھنے والے افراد منسلک ہیں، بلکہ وہ علماء اور سینئرز جو خط ولایت فقہیہ، خط شہید حسینی، خط ڈاکٹر شہید پر کاربند ہیں اور آئی ایس او کے تشخص، اغراض و مقاصد، اور روش سے اتفاق رکھتے ہیں، نظارت کے رکن ہیں، اب وہ خود خواہ کسی ادارے یا قومی جماعت کے ممبر ہوں یا کسی ادارے کے سربراہ ہوں، ہمارا وہ حصہ ہیں، مثال کے طور پر آقائے مظہر کاظمی جو جامعہ بعثت کے سربراہ ہیں یا جامعۃ الرضا ہے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او کے لیے ممکن نہیں کہ دیگر قومی اداروں اور جماعتوں کے سربراہان کو مجلس نظارت میں شامل کریں ؟
علی مہدی:
جی ہاں ممکن ہے لیکن اس کے لیے کچھ چیزوں کو مدنظر رکھنا پڑے گا، خود تنظیم کے وجود، نصب العین اور اغراض و مقاصد اور آئی ایس او کی روش سے ان شخصیات کا متفق ہونا ضروری ہے۔ ایسے تمام افراد اور شخصیات آئی ایس او کا ساتھ دیتے ہیں، البتہ آئی ایس او اتحاد و وحدت کی خاطر ہر سیٹ اپ اور ادارے کے پاس گئی ہے اور جاتی رہے گی، کنونشن کے موقع پر شخصیات آئی بھی ہیں، ہم ہر موقع پر سب جگہوں پہ جاتے ہیں، بلاتے ہیں، دعوت دیتے ہیں، کہ آئین نمائندگی کریں، شامل ہوں، رہنمائی کریں، کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک سیٹ اپ کو نظر انداز کیا گیا ہو، اور کسی ایک سیٹ اپ کی طرف جھکاو رکھا گیا ہو۔ البتہ کوئی اختلاف نظر ہو سکتا ہے جسکی وجہ سے ہمارے بزرگان دور ہوں، لیکن ایسا بھی کوئی اختلاف نہیں جو قریب ہونے میں حائل ہو۔

اسلام ٹائمز: میڈیا کے دور میں آئی ایس او کا ایک ہی مجلہ ہے، افکار العارف، یہ رسالہ ملت تشیع میں آئی ایس او کی پہچان ہے، لیکن اس کی سرکولیشن افسوسناک حد تک کم ہے، اس پر توجہ نہیں دی جا رہی، آپ ترجیحات میں رکھیں گے؟ العارف کے لئے کیا کریں گے؟
علی مہدی:
باقی مستقل اداروں کی طرح العارف کے لیے بھی ایک دوست کو مستقل ذمہ داری دیں گے، جو اسکی ممبر شپ اور ترسیل کا ذمہ دار ہو گا، خود محرم کا بھی بہترین موقع ہے، پیغام پہنچانے کا۔ ڈویژنز بھی اس پر توجہ دیں گے، العارف کی سرکولیشن کو بہتر بنائیں گے، زیادہ سے زیادہ ممبر شپ بڑھائیں گے، یہ انشاءاللہ ہماری ترجیحات میں شامل ہو گا۔ 

اسلام ٹائمز: محبین کا شعبہ آئی ایس او کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتا ہے، کچھ سالوں سے اس پر توجہ نہیں دی جا رہی، کیا حالات بدل گئے ہیں، اس شعبہ پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی؟
علی مہدی:
آئی ایس او کے دو شعبے ایسے ہیں کہ جن میں سے جو لوگ نکلتے ہیں، وہ نظریاتی طور پر زیادہ پختہ ہوتے ہیں، اور زیادہ عرصے تک آئی ایس او کے ساتھ چلتے ہیں، ایک شعبہ اسکاوٹنگ ہے اور دوسرا شعبہ محبین ہے، میں خود محب بھی رہا ہوں اور اسکاوٹ بھی رہا ہوں۔ بطور محب آئی ایس او میں شامل ہوا تھا۔ محبین پر اگر آج ورکنگ کریں گے تو اسکی آوٹ پٹ کل ملے گی، البتہ اس کے لیے بہت زیادہ اور مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے، دوسرا یہ ہے یہ عمر کی ایسی اسٹیج ہوتی ہے کہ جو آپ دینا چاہیں، بچے قبول کرتے ہیں، پھر یہ ہے کہ اس عمر میں ہی بچے کو اچھی سمت مل جائے تو پوی زندگی اسی پہ چلتا ہے۔ اس سال کوشش کریں گے کہ شعبہ محبین پہ خاطر خواہ کام ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شعبہ تعلیم اور شعبہ اسکاوٹنگ کیساتھ ملا کر، ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا جائے،

اسلام ٹائمز: مشرق وسطٰی کے حالات، تشیع کے جہانی وجود سے براہ راست منسلک ہیں، یہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے، آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
علی مہدی:
ہمیں یہ حقیقت ہر وقت سامنے رکھنی چاہیئے کہ ہمارا دشمن ہر وقت آمادہ اور تیار ہے کہ وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے، اور تشیع کو جتنا کمزور سے کمزور کر سکتا ہے کرے، لیکن دوسری طرف ہمارے پاس ایک مضبوط نقطہ ہے، جو دنیا میں ہماری قوت کا محور و مرکز ہے، مرکزی نکتہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای ہیں، اور انکی عالم انسانیت، عالم اسلام اور مشرق وسطٰی کے متعلق واضح ترین پالیسیاں ہیں، یہ رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے بابصیرت اقدامات ہیں، جنکی وجہ سے دشمن کو ہر محاذ پہ شکست سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے، جس مرحلے پہ رہبر معظم نے جو کچھ کہا ویسا ہی ہوا، شام کے متعلق آپ نے فرمایا کہ بشار الاسد کو کوئی نہیں ہٹا سکتا، امریکہ اور استعماری طاقتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، لیکن وہ اس کو نہیں ہٹا سکے۔ اسی طرح عراق کی صورتحال کو دیکھیں، یہ افواہیں پھیل گئی تھیں کہ داعش عراق میں علاقوں پہ قابض ہو جائے گی، لیکن رہبر معظم کی رہبریت پہ ایمان رکھنے والے جب کھڑے ہوئے اور انہوں نے مضبوطی دکھائی تو داعش سکڑتی چلی گئی، انشاءاللہ ہماری آنکھیں دیکھیں گی کہ داعش اپنے انجام کو پہنچے گی، یمن کو دیکھیں، رہبر معظم نے فرمایا کہ ہم مظلوموں کیساتھ ہیں اور کسی مرحلہ پر مظلوموں کو نہیں چھوڑیں گے، اور یہی مظلوم کامیاب ہیں، یہ خود خدا کا کام ہے، یمن کے لوگوں نے صبر کا مظاہرہ کیا اور سعودی عرب کو شکست کا سامنا ہے، سعودیوں نے حرمین شریفین کا نام استعمال کرتے ہوئے جو سازش کی تھی، اب سانحہ منٰی کے بعد تو ثابت ہو گیا ہے کہ یہ نااہل ہیں، انہوں نے یمن میں اسکولوں پر اور انکی شادیوں کی تقریبات پر حملے کیے تھے، آج وہ لوگ جو حرمین شریفین کے نام کی وجہ سے انہیں اچھا سمجھتے تھے، وہ بھی ان سے بدظن ہو گئے ہیں، ان کے چہرے بےنقاب ہو رہے ہیں، یہ جو اپنے آپ کو خادم کہتے ہیں، انہوں نے مختلف علاقوں اور مسالک کے حاجیوں کے ساتھ کیسا ناروا سلوک روا رکھا ہے، آج یہ بھی معلوم نہیں کہ اللہ کے مہمان زندہ بھی ہیں یا نہیں، انکے عزیز انتہائی دکھ اور پریشانی کی حالت میں ہیں۔ اس ایشو پر بھی جنکا کھل کر موقف سامنے آیا ہے، وہ رہبریت ہے۔ جہاں پر بھی دشمن نے حالات اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں رہبر معظم کی بابصیرت رہبریت کی وجہ سے اسے منہ کی کھانی پڑی ہے، الحمدللہ عالم تشیع رہبر معظم کی بابصیرت ریبریت میں آگے کی طرف بڑھ رہا ہے، آپ ہی کی قیادت میں اگلا دور تشیع کا ہی ہے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کی مناسبت سے ملت تشیع اور تنظیمی کارکنوں کے نام کیا پیغام دیں گے؟
علی مہدی:
میں اس حوالے سے یہی پیغام دوں گا جو خود سید الشہداء علیہ السلام کا پیغام ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا پیغام یہی ہے کہ جب ظالم و جابر اور فاسق حکومت ہو، ایسی حکومت جو اسلامی حدود کو پار کر جائے، جو اسلامی احکامات کو پائمال کرے، تب آواز بلند کریں، یعنی احکامات میں سے اہم ترین حکم یہی ہے، یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دیا جائے، یعنی ظالم و جابر اور فاسق نظام کیخلاف آواز بلند کرنا۔ آئی ایس او کے کارکنوں سے کہوں گا کہ ہو سکتا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے امام علیہ السلام سے ارتباط میں مشکلات رہی ہوں، لیکن آج الحمدللہ، ہمارے امام علیہ السلام کے نائب برحق، ولی فقیہہ کے ذریعے ہمارا ارتباط اپنے امام علیہ السلام کے نظام کیساتھ بہت آسان ہے، رہبر معظم تمام ایشوز پر پالیسی بھی دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے، ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ رہبریت سے متمسک رہیں، رہبر معظم کی باتوں پر عمل کریں، انکی اطاعت کریں، یہ سب بصیرت کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے، ہر ہر قدم پہ بصیرت کی ضرورت ہے، کہ میرا یہ قدم انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر ملت تشیع یا ملت اسلامیہ کے مفادات کے منافی نہ ہو، نقصان دہ نہ ہو، یا دشمن کے لیے مضبوطی کا باعث نہ ہو، کربلا کا پیغام یہ ہے کہ ہمارا ہر قدم ضروری ہے کہ عالم اسلام کے لیے فخر کا باعث ہو اور عالم اسلام کی بقا کا ضامن ہو۔
خبر کا کوڈ : 491681
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش