1
0
Monday 26 Oct 2015 01:12

شہدائے منٰی کا پاکیرہ لہو آل سعود کی نابودی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا، عباس فخرالدین

شہدائے منٰی کا پاکیرہ لہو آل سعود کی نابودی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا، عباس فخرالدین
بلتستان کے نامور عالم دین، ڈاکٹر شیخ غلام محمد فخرالدین جو کہ سانحہ منٰی میں جام شہادت نوش فرما چکے ہیں، اسلام ٹائمز نے انکے فرزند ارشد محمد عباس فخرالدین سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: فرزند شہید ہونے کے ناطے سانحہ منٰی کے بعد آپکے جذبات و احساسات کیا تھے، بالخصوص خبر شہادت کے بعد آپ کن مشکلات سے گزرے۔؟
عباس فخرالدین:
فرزند شہید ہونے کے ناطے میں آج فخر کرتا ہوں کہ میرے والد بہترین مکان، بہترین زمان اور بدترین دشمن اسلام اور دشمن تشیع کے ہاتھوں شہید ہوئے، یہ میرے خانوادہ کے لیے بھی باعث فخر ہے۔ لیکن بحیثیت انسان والد کا غم سہنا یقیناً ایک مشکل امر ہے۔ انسان کے لئے موت اٹل ہے، اس سے کوئی نہیں بچ سکتا ہے اور کتنا سعادت مند ہے وہ انسان جسے شہادت کی موت نصیب ہو۔ فخر اس بات پر ہے کہ میرے بابا شہید ہوگئے ہیں کس مقام پر؟ یعنی منٰی میں، وہ بھی عرفات کے بعد اور عرفات کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ جو عرفات سے گزر کر آیا ہو، اس انسان کے لئے کہا جاتا ہے کہ "کماولدتہ امہ" گویا ابھی اپنی ماں کی کھوکھ سے جنم لیا ہو یعنی انکے تمام گناہان کبیرہ و صغیرہ بخشے جاتے ہیں۔ عرفات کی عبادتوں اور پاکیزگی کے بعد سرزمین امن الہٰی، سرزمین منٰی میں درجہ شہادت پر فائز ہوگئے ہیں اور واقعاً باعث فخر ہے، ہر چند یہ مصیبت ہمارے لئے سنگین ہے۔ دوسری بات یہ کہ شہادت کی خبر ہمیں بہت تاخیر سے ملی، سانحہ منٰی ذوالحج کے پہلے عشرہ کی تکمیل کے قریب اور عرب کے ٹائم کے مطابق دس بجے کے قریب پیش آیا، لیکن خبر شہادت بیس روز بعد یکم محرم کو ملی۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ خبر تاخیر سے ملنا بھی ہمارے لئے لطف الہٰی تھا۔ ماہ غم و الم میں ہم نے یہ خبر سنی اور اس عظیم غم حسین ؑ کے ہوتے ہوئے دنیا کے تمام غم و الم ہمارے لئے ہیچ ہیں، باقی سارے غموں کی کوئی حیثیت نہیں ہے غم حسین ؑ کی نسبت۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لئے یہ مصیبت قابل برداشت ہوگئی۔ سوم یہ نکتہ بھی عرض کرتا چلوں کہ انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ ان پاکیزہ شہداء کا لہو منٰی میں دفن نہیں ہوگا، عربستان کے ریگزاروں میں جذب ہو کر ختم نہیں ہوگا، سعودی عرب کی آنکھیں خیرہ کر دینے والے قمقموں کی روشنیوں میں انکی روشنی بجھ نہیں جائے گی اور عرب کی گرمی میں بھی اس کی تمازت ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ خون آل سعود کی یزیدی حکومت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ان شہادتوں کی وجہ سے ان کی حکومت کے سقوط کے لئے زمینہ فراہم ہوچکا ہے، خدا نے توفیق دی تو شہید کے مشن کو جاری رکھوں گا اور ثابت کرونگا انشاءاللہ شہید کبھی نہیں مرتا اور یہ بھی ثابت کر دونگا کہ اگر خدا کی نصرت شامل حال رہی تو کہ شہید جسکی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہے، وہ زیادہ دشمن کے لئے خطرہ کا باعث ہے، اس کی نسبت جب وہ خاکی تھے۔ اس سلسلے میں میری بھی آرزو ہے کہ میں بھی اسی راہ میں شہید ہو جاوں، جس راہ میں میرے بابا شہید ہوگئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شہید کی زندگی کے وہ پہلو جنہوں نے آپکو سب سے زیادہ متاثر کیا ہو، وہ کیا تھے۔؟
عباس فخرالدین:
شہید کی زندگی کے مختلف پہلو تھے، یہ صرف میری بات نہیں بلکہ انکے رفقاء کا بھی کہنا ہے کہ وہ علم، تقویٰ، مجاہدت، مبارزہ، خطابت، عبادت، ریاضت گویا ہر طرح سے وہ ایک کامل انسان تھے۔ لیکن جو پہلو برجستہ اور بارز تھے، جنہوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے، وہ شہید کی تواضع و انکساری تھی، یوں تو خدا سے راز و نیاز، عبادت میں خلوص، شب زندہ داری، تعلیمات اہلبیت میں مستغرق رہنا، معاملات کو درست رکھنا، وہ تو سارے دوست احباب اور تنظیمی جانتے ہیں، لیکن تواضع و انکساری کس حد تک انکے اندر موجود تھی، شاید مجھ سے بہتر کوئی نہ جانتا ہو۔ میں نے کبھی انکے اندر غرور نہیں دیکھا۔ ذرہ برابر غرور انکی ذات میں نہیں دیکھا گیا، ہر لحاظ سے عظیم ہونے کے باوجود ان میں غرور نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔

اسلام ٹائمز: شہادت یقیناً ایک عظیم نعمت خداوندی ہے، لیکن اس سانحے کے بعد سب سے زیادہ کس بات پہ آپکو دکھ پہنچا۔؟
عباس فخرالدین:
سانحہ منٰی یقیناً دلخراش، دردناک اور افسوسناک سانحہ تھا، صرف میرے نہیں بلکہ کم از آٹھ ہزار خانوادہ کے لئے۔ آیت اللہ خامنہ نے حادثہ کے دو روز بعد فرمایا کہ عید قربان اور عید غدیر کے درمیان کا وقفہ ملت کے لئے خوشی کا لمحہ تھا، ایک تو عید قربان عید اللہ اکبر اور دوسری عید سعید غدیر اور حاجیوں کی واپسی کے ایام تھے اور زیادہ تر شادیاں بھی اسی موسم میں ہوتی تھیں، لیکن آل سعود نے اس خوشی کو غم میں بدل دیا۔ اسی طرح میری بھی یہی بات ہے کہ آل سعود کی مجرمانہ غفلت بلکہ قوی احتمال ہے کہ سازشوں نے ہماری عید کو ماتم میں بدل دیا۔ آل سعود نے حرم الہٰی کی حرمت بھی ختم کر دی، خدا کے احکامات کے مطابق حالت احرام میں اگر ایک مچھر کو بھی مار دیا جائے تو کفارہ واجب ہوتا ہے، اس حرم میں آٹھ ہزار انسان مارے گئے۔ کتنے حجاج کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا۔ بعض تو حج پر جانے سے بھی کترانے لگے ہیں، آل سعود نے دین کے اس عظیم رکن حج کو گرانے کی کوشش کی۔ آل سعود کی جانب سے اس سانحے کے بعد ابدان مطہر شہداء کی جو توہین کی گئی ہے، وہ شہادت سے کئی درجہ دلخراش ہے۔ عینی شاہدین حجاج کی زبانی میں نے وہ افسوسناک واقعات سنے ہیں، جو حجاج کی بے احترامی کی گئی۔

انہوں نے اس سانحے کے بعد اپنے منحوس چہرے سے نقاب الٹتنے کے خوف سے دوسرے ممالک کی میڈیکل ٹیموں کو مدد کرنے کی اجازت نہیں دی اور اکثر زخمیوں کے شہادت پیاس کہ وجہ سے ہوئی اور سانحہ کے بعد بھی ہزاروں زندہ بے ہوشی کی حالت میں تھے۔ انہوں نے زخمی اور شہید ہونے والے تمام حجاج کو ملا کر کنٹینر میں ڈال دیا۔ ایرانی حج کے وزیر کے مطابق یعنی آقائے قاضی عسکری کا کہنا ہے کہ کنٹینر میں جس طرح تہہ کئے ہوئے قالین کو چڑھایا جاتا ہے، اسی طرح شہداء کی لاشیں تھیں۔ وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کی اس سانحے کی اصل وجہ اور اپنی ناکامی دنیا کے سامنے ظاہر ہونے دیں، کیونکہ اسی حج کے ذریعے وہ کروڑوں ڈالر کی کمائی کو خطرہ میں دیکھ کر اس سانحے کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہون نے کئی کئی روز تک کنٹینرز کو بند رکھا، شہداء کو بغیر اجازت کے اجماعی قبور میں دفنایا۔ ابدان مطہر شہداء کی بے احترامی کی کوئی حد نہیں ہے۔ انکے نزدیک شاید حج انتظامات درست کرنے سے زیادہ اہم یمن اور بحرین کے بے گناہوں پر بمباری کرنا ہے۔ یہ انکے زوال کی بین علامتیں ہیں، کیونکہ حج کے لئے ہر سال کم و بیش بیس لاکھ حجاج آتے ہیں، ان سے یہ تعداد نہیں سنبھل سکی، وہ بھی مکہ جیسی سرزمین میں۔ دوسری طرف کربلا میں ہونے والے اجتماعات کا اس سے موازنہ کریں تو یہ تعداد کچھ بھی نہیں۔ کربلا میں دو کروڑ کے قریب لوگ اربعین حسینی کے لئے کربلا پہنچ جاتے ہیں، جبکہ کربلا کی زمین تنگ بھی ہے، لیکن ایسا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آتا۔

اسلام ٹائمز: بعض افراد کا کہنا ہے کہ شہید کے جسد خاکی کو پاکستان لانے میں انکے رفقاء بالخصوص جس جماعت سے وہ وابستہ تھے، انہوں نے سستی کی، بلکہ انکی طرف سے یہ کام خیانت سے تعبیر کرتے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں یہ باتیں درست ہیں۔؟
عباس فخرالدین:
جو تاثر دیا جا رہا ہے وہ غلط ہے، شہید کی تدفین کے حوالے سے میں کہنا چاہوں گا کہ ایران کے دباو کے بعد آل سعود نے انکے ساتھ ہمکاری شروع کی اور ایران کے حجاج کے لواحقین پیکر مطہر کو ایران میں ہی دفنانا چاہتے تھے، جبکہ چند مراجعین کا بھی فرمانا تھا کہ شہداء کے جسد خاکی کو مکہ میں دفن ہونے دینا زیادہ مناسب ہے، کیونکہ اس زمین کی فضیلت بھی ہے۔ خیر لواحقین چاہتے تھے کہ ایران میں دفن کریں۔ میں فرزند شہید ہونے کے ناطے یہ برملا کہنا چاہوں گا کہ والد محترم چار پانچ سالوں سے دفتر رہبری کی جانب سے تبلیغ کے سلسلے میں حج پر تشریف لے جا رہے تھے، مبلغ کی حیثیت سے جاتے تھے۔ اس دوران ہم ایران سے بھی رابطے میں تھے، شہادت کی خبر کے بعد بھی رابطے ہوئے اور واضح کر دیا گیا کہ شہید کے جسد خاکی کو ایران بھی بھیجا جاسکتا ہے اور پاکستان بھی۔ ایسے میں، میں دوستان و برادارن سے مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ حجاز مقدس میں تدفین ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی، سرزمین نزول وحی میں دفن ہونا ہر کسی کو نصیب نہیں، لہٰذا اس پاکیزہ مقام کو چھوڑ کر پاکستان یا ایران لانا مناسب نہیں سمجھا۔ اس میں کسی کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر زیادتی ہے۔ دوسرا موارد یہ تھا کہ جسد خاکی کو پاکستان میں لانے کی صورت میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ شہید کی ماں زندہ ہیں، یعنی میری دادی جو کہ عمر رسید بھی ہیں اور بہت ناتوان بھی ہے۔ اگر لاش یہاں پہنچ جاتی اور وہ دیکھتیں، تو یقیناً شہید کی ماں کے لئے شاید ناقابل برداشت ہو جاتا۔ لہٰذا ہم نے یہی مناسب سمجھا کہ ان کی وہیں پر تدفین ہو۔

اسلام ٹائمز: سانحہ منٰی اور شہادت کی خبر کے درمیان کے بیس روزہ وقت میں آپ کن مسائل کا شکار تھے۔؟
عباس فخرالدین:
سانحہ منٰی سے شہادت کی خبر تک کے دورانیے کا وقفہ بیس روزہ تھا، اس دوران ہم سخت پریشانی سے دوچار تھے، میری فیملی کے چند افراد ایران میں، چند کراچی اور چند اسکردو میں تھے اور سب غم و حزن میں تھے۔ لیکن فرزند ارشد ہونے کے ناطے میری پریشانی کچھ زیادہ تھی، کیونکہ سانحے کے بعد لحظہ بہ لحظہ مکہ سے ارتباط میں تھا اور صحیح خبر کی تلاش میں تھا۔ امید یہ تھی کہ وہ سلامتی کے ساتھ واپس پہنچ جائیں گے، کیونکہ حرم امام علیؑ، حرم امام حسینؑ، حرم حضرت عباسؑ، حرم امام رضاؑ کے علاوہ اسکردو، بلتستان، پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرون ملک بھی انکے لئے بھی دعائیہ محفلیں برپا تھیں۔ جب انکے لاپتہ ہونے کی تصدیق ہوگئی تو میں میں نے شہید کی والدہ اور ایران میں اپنے بہن بھائیوں اور والدہ سے بھی پوشیدہ رکھا اور انہیں امید دلاتا رہا، لیکن میں ذہنی طور پر آمادہ بھی تھا کہ میرے والد شہید ہوسکتے ہیں۔ مشکل یہ تھی کہ میں ایران میں بہنوں اور بھائیوں کو اور اسکردو میں انکی والدہ اور دیگر افراد کو کیسے سنبھالوں اور انکے دیگر معاملات کو کیسے آگے لے چلوں۔ ان بیس دنوں میں جو ذہنی اذیتیں ملی ہیں، انکو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ان بیس دنوں کا ہر لحظہ میں میرے لئے صدیوں پر محیط تھا اور ہر لمحہ قیامت بن کر آرہا تھا۔

اسلام ٹائمز: اس سانحے کے بعد حکومت پاکستان کی کارکردگی کیا تھی اور کس حد تک وہ لواحقین کے مسائل حل کر رہے تھے، جسکا وہ دعویٰ بھی کر رہے تھے۔؟
عباس فخرالدین:
حکومت پاکستان نے صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ پوری دنیا کے سامنے واضح کر دیا کہ یہ حکومت آل سعود کی نوکر ہے، زر خرید غلام ہے۔ میں حکومت پاکستان کی حیثیت آپکے سامنے واضح کر دوں کہ وزیر حج حکومت کے خرچے پر سعودی عرب گئے اور نہ انکے پاس شہداء کی خبر تھی، نہ زخمیوں کی۔ حکومت پاکستان کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ جتنی اطلاعات حکومت پاکستان کے پاس تھیں، اس سے کہیں زیادہ اطلاعات میرے پاس تھیں، اور یہ معلومات میں نے شخصی اور ذاتی روابط کے ذریعے لی تھیں۔ اس قدر ہماری حکومت بے غیرت تھی اور آل سعود کی غلامی میں تھی۔ اس ننگ کے علاوہ ایک اور ننگ یہ ہے کہ پاکستان کے میڈیا نے حادثہ منٰی کی خبریں بھی روک دیں اور اس ڈر سے کہ آل سعود کا اصل چہرہ عوام کے سامنے نہ آئے، حکومت نے پابندی عائد کر دی اور چپ کا روزہ رکھ لیا، دنیا کو پاکستانی میڈیا کی اوقات کا بھی اندازہ ہوگیا۔ اسکے علاوہ جو چیز اہم ہے، وہ یہ کہ حکومت لواحقین کو جھوٹی تسلی اور دلاسہ دینے کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہی تھی اور یہ جرائت بھی نہ تھی کہ آل سعود سے کچھ پوچھیں۔

اسلام ٹائمز: اس انٹرویو کی وساطت سے عالم اسلام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
عباس فخرالدین:
فرزند شہید ہونے کے ناطے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ملت اسلامیہ کو اس عظیم ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے، بالخصوص ہر اسلامی ملک میں موجود آل سعود کے سفارت خانوں کے سامنے جا کر مظاہرے کریں، حج انتظامات ایک عالمی کمیٹی کی نگرانی میں دیئے جائیں، تاکہ حج کی حرمت باقی رہے اور آئندہ کے لئے انہیں یہ جرات نہ ہو کہ وہ حج کو بازیچہ اطفال سمجھیں اور اس عظیم حکم الہٰی کو انجام دینے والوں کو بے توقیر نہ کریں۔ احتجاجات کے ذریعے آل سعود کا منحوس چہرہ بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 493582
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
شہید کبھی نہیں مرتا، جو مشن باپ سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا، اسکا فرزند بھی اسی مشن پر چل پڑے۔۔۔
ہماری پیشکش