1
0
Wednesday 28 Oct 2015 23:08
محرم ظالم کیخلاف مظلوم کے ڈٹ جانے کا نام ہے

گلگت بلتستان ایک عرصہ فرقہ واریت کی آگ میں جلتا رہا، جسے عوامی ایکشن کمیٹی نے ختم کیا، مولانا سلطان رئیس

گلگت بلتستان ایک عرصہ فرقہ واریت کی آگ میں جلتا رہا، جسے عوامی ایکشن کمیٹی نے ختم کیا، مولانا سلطان رئیس
مولانا سلطان رئیس کا تعلق گلگت سے ہے اور انجمن اہلسنت گلگت کے نائب خطیب اور مرکز اہلسنت کے ترجمان کی حیثیت سے دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد و اخوت کی فضا کو قائم کرنے کے سلسلے میں موصوف کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔ انہوں نے گذشتہ سال گلگت بلتستان میں گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف چلنے والی تحریک میں صف اول کا کردار ادا کیا۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ایک عرصے سے گلگت فرقہ وارانہ فسادات کا شکار رہا، لیکن کم و بیش دو سال سے اس پر قابو پا لیا گیا ہے، آپ بتانا پسند کریں گے کہ فرقہ وارایت کی وجہ کیا تھی اور اسکو ختم کرنے میں کن کا کردار سب سے اہم ہے۔؟
مولانا سلطان رئیس:
فرقہ واریت لازمی طور پر مذہبی جذبات کے ابھارنے کی وجہ سے پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے خطہ گلگت بلتستان ایک عرصہ آگ و خون میں جلتا رہا۔ فرقہ واریت کی ایک وجہ ماضی میں ہونے والے بدترین واقعات بھی تھے،
جو لوگ اپنے دلوں سے بھلا نہیں پا رہے تھے، جس کی وجہ سے یہ آگ بے قابو ہوتی جا رہی تھی۔ دیکھیں! ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک مثبت اور ایک منفی۔ ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ ہماری عوام منفی پہلو کو پہلے دیکھتی ہے اور مثبت پہلو کے بارے میں اس وقت سوچنا شروع کرتی ہے، جب خرابیاں سامنے آنا شروع ہو جائیں۔ اس بات سے آپ بخوبی واقف ہونگے کہ فرقہ واریت کے خاتمہ کا سب سے بڑا سبب آپس کے فاصلوں کو مٹا کر ملا اور یہ کام عوامی ایکشن کمیٹی نے کیا۔ چاہے اس کی وجہ گندم کی سبسڈی بنی یا آئینی حقوق، لیکن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے سے ایک دوسرے کو پہچاننے میں آسانی ہوئی اور سب ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھ گئے۔ جس کی بدولت گذشتہ دو سالوں سے امن و سکون ہے۔

اسلام ٹائمز: اس بات میں کس حد تک صداقت ہے کہ گلگت بلتستان کی اہلسنت برادری جی بی کو پاکستان کا آئینی حصہ نہیں دیکھنا چاہتی بلکہ کشمیر کا مکمل حصہ سمجھتی ہے، جبکہ آپ جانتے ہیں کہ کشمیری ریاست نے جی بی کیلئے ان ستر سالوں میں چار آنے کا کام نہیں کیا اور نہ ہی کہیں سے لگتا ہے کہ
جی بی کشمیر کا حصہ ہے۔؟
مولانا سلطان رئیس:
سب سے پہلے تو یہ بات اٹل ہے کہ خدا بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا جو اپنے لئے خود کچھ کرنا نہیں چاہتا۔ باقی یہ تمام باتیں اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے ہیں، کیونکہ کوئی بھی شخص جس گھر میں رہتا ہے، اس کے ہی بارے میں سوچتا اور اس کی بہتری کیلئے کام کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کی موجود نواز لیگی حکومت بالعموم اور وزیراعلٰی بالخصوص پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے فرقہ واریت کا سہارا لیکر الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور اس بات میں کس حد تک حقیقت ہے کہ یہ نعرہ سننے کو ملا کہ سنی وزیراعلٰی دیکھنا چاہتے ہو تو حفیظ کو ووٹ دو۔؟
مولانا سلطان رئیس:
اس حوالے سے تو حفیظ الرحمٰن صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے فرقہ کی بنیاد پر ووٹ لیا یا اپنی سیاسی کارکردگی کی بنیاد پر۔ وزیراعلٰی سنی ہو یا شیعہ اس کو وزیراعلٰی کے روپ میں ہی دیکھیں تو یہ علاقہ ترقی کرے گا، بجائے اس کے کہ ہم ہر چیز کو مسلک کے ترازو میں تولیں۔ یہ ہمارے اندر موجود بویا گیا وہ بیج ہے جو کسی نہ کسی طرح دوبارہ
سر اٹھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، براہ کرم ہر چیز کا مثبت پہلو سب سے پہلے دیکھا کریں تو نتیجہ بھی مثبت ہی نکلے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ نواز لیگ کی صوبائی حکومت کی مجموعی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ اگر نہیں تو خاموش کیوں ہیں۔؟
مولانا سلطان رئیس:
پاکستان مسلم لیگ نون نے گلگت بلتستان میں حکومت کی ابھی ابتداء کی ہے، اس کی کارکردگی پر خوش ہونا یا نا خوش ہونا قبل از وقت ہے۔

اسلام ٹائمز: محرم کا مقدس مہینہ ہے، اس مہینے میں آپ عالم اسلام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
مولانا سلطان رئیس:
محرم ظالم کے خلاف مظلوم کے ڈٹ جانے کا نام ہے، ہم ماضی کو موجودہ تناظر میں دیکھیں تو اس وقت بھی ہر جگہ کربلا ہی کربلا ہے۔ محرم کا پیغام واضح ہے، بس اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ منٰی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا، اسکا ذمہ دار کس کو قرار دیتے ہیں۔؟
مولانا سلطان رئیس:
اس مسئلے سے گلگت بلتستان کا تو کوئی تعلق بنتا ہی نہیں، یہ وہی ماضی کے تجربے ہیں، جن کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ بیرونی آگ کو اپنے گھر میں لانے کا کیا مقصد ہے۔
خبر کا کوڈ : 494333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت زیادہ مبہم جوابات ہیں اور جو جس طرح سمجھنا چاہے ہیں سمجھ سکتا ہے۔
ہماری پیشکش