0
Saturday 31 Oct 2015 20:05
عراق کی بات ہو یا شام کی بات، ایران نے اپنا لوہا منوایا ہے

روس، چین اور ایران ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں، عبداللہ گل

شام میں روس کا آنا بہت اچھی خبر ہے اور اس سے بہت بہتری آئے گی
روس، چین اور ایران ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل مرحوم کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبد اللہ گل اس وقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اس کے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جس کا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبد اللہ گل کے مطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اس کے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جس کا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اس وقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر ان کے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عنداللہ گل سے ملکی اور عالمی صورتحال پر خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: آپکے والد کی رحلت کے بعد بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے، یہاں تک کہا گیا کہ وہ آخری دنوں میں سعودی عرب کی نسبت ایران کے زیادہ قریب تھے، ہر بندے کی سوچ اپنی میچورٹی اور وقت کیساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے، یہ بتائیں کہ زندگی کے آخری ایام میں جنرل صاحب کی سوچ کیا تھی اور وہ پاکستان سمیت دنیا کے حوالے سے کیا رائے رکھتے تھے۔؟
عبداللہ گل:
جنرل صاحب اتحاد امت کے داعی تھے، چاہے وہ پاکستان کی سطح پر ہو یا عالمی سطح پر۔ یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اس وقت جو نئی شیرازہ بندی ہو رہی ہے، وہ دراصل استعماری طاقتوں کیخلاف ہو رہی ہے۔ جب ملکوں پر بابندی لگنے کی بات آتی ہے کہ تو ممالک تھرتھرانے لگ جاتے ہیں، جنرل صاحب پر اقوام متحدہ کی سطح پر بھی پابندی عائد تھی، لیکن جنرل صاحب نہیں جھکے، وہ کہتے تھے کہ اگر دلائل ہیں تو بات کریں، اگر دلائل نہ ہوتے تو وہ کسی کی حیثیت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ افغانستان میں جہادیوں کا اکٹھے ہوجانا کوئی معمولی بات نہ تھی، صلاح الدین ایوبی کے بعد دوبارہ جہاد کا تازہ ہو جانا، روس کا خطے سے چلے جانا، یہ سب کریڈٹ ان کو جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جنرل صاحب زیادہ عرصے تک ڈی جی آئی ایس آئی رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب سے کم عرصے کیلئے ڈی جی آئی ایس
آئی بنے، یعنی دو سال اور دو ماہ انہوں نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی کے خدمات انجام دیں۔ یہ جتنی کاوشیں ہیں اسی عرصے میں ہوئیں۔ کشمیر میں جدوجہد اور افغانستان سے روس کا انخلا اسی عرصے میں ہوا، جنرل صاحب کا 6 اسلامی ریاستوں میں نمازہ جنازہ پڑھایا گیا، یہ کہہ کر پڑھایا گیا کہ اس شخص کی وجہ سے ہمیں آزادی نصیب ہوئی۔ چین کے قومی دن کے موقع پر مجھے تاجکستان کے اتاشی ملے، جب انہیں پتہ چلا کہ جنرل صاحب اس دنیا میں نہیں رہے تو وہ دھاڑیں مار کر رونے لگے کہ میرا باپ فوت ہوگیا۔ جنرل صاحب کو لوگ استعمار دشمنی کی وجہ سے جانتے تھے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ جنرل صاحب نئی شیرازہ بندی کو دیکھ رہے تھے، اس نئی شیرازہ بندی کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔؟
عبداللہ گل:
وہ چاہتے تھے کہ جس طرح سے مذہب اور فرقہ کے نام پر سعودی عرب اور ایران میں اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کے درمیان اتحاد ہوسکے اور یہ مشترکہ دشمن کیخلاف ایک ہو جائیں، دونوں ممالک ایک حقیقت ہیں، ایک شیعہ کی اور دوسرا سنیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کو اللہ تعالٰی نے بےپناہ وسائل سے نوازا ہے، دور حاضر میں دیکھا جائے تو ایران کے اندر بہت سی فتوحات سامنے آئیں، چاہے وہ عراق کی بات ہو یا شام کی بات کریں، ایران نے اپنا لوہا منوایا ہے اور یہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ تنہائی قوموں کو مضبوط بنا دیتی ہے۔ اسی طرح جس طرح شعب ابی طالب میں اسلام کو بند کیا گیا تو اسلام مضبوط ہوا، اس کی روشنی پھوٹتی چلی گئی، جنرل صاحب چاہتے تھے کہ دشمن کے مقابلے میں آپ کے اختلافات ختم ہو جائیں اور آپ ایک قوم بن جائیں، یہ ان کی خواہش تھی، ان کی خواہش تھی کہ افغانستان، پاکستان، ایران اور ترکی ایک ایسا بلاک بن جائے، جو ناصرف نہ معاشی طور پر بلکہ دفاعی طور پر ایک قلعہ کے طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان بحیثیت نیو کلئیر، افغانستان جہاد کے طور پر، یہاں پر ایک چیز واضح کروں کہ جہاد اور دہشتگردی میں فرق ہے، دہشتگردوں اور استعماری طاقتوں کے خلاف جو لوگ جہاد کر رہے ہیں، انہیں دہشتگرد نہیں کہا جاسکتا۔ وہ اپنے ملک سے بیرونی قوتوں کو نکالنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں آزادی کی جنگ لڑی جا رہی ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت آزادی کے متوالے کہلاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی نگاہ میں جنرل صاحب اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔؟
عبداللہ گل:
جنرل صاحب ان ممالک میں بہت حد تک
کامیاب ہوئے۔ دونوں طرف یعنی ایران اور سعودی عرب کی طرف انہیں کافی حد تک کامیابی ہوئی، افغانستان کے معاملے پر یہ مل بیٹھے، آپ نے دیکھا کہ ملا عمر کی وفات کی خبر آئی تو طالبان میں داخلی سطح پر اختلافات کی خبریں زبان زدعام ہوئیں، ان اختلافات کو ختم کرنے میں بھی جنرل صاحب کا بہت حد تک کردار ہے، جنرل صاحب نے اپنی وفات سے پندرہ روز پہلے یہ کردار ادا کیا، جنرل صاحب ہمیشہ مل بٹھاتے تھے، چاہے وہ دفاع پاکستان ہو یا شیعہ سنی معاملہ۔ آپ کے علم میں ہے کہ جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی کا معاملہ ہوا تو آگلے سال جنرل صاحب نے دونوں گروپوں میں معاہدہ کرایا۔ جس کے بعد جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں امن قائم ہوا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ جنرل صاحب اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ہمیں مسلکوں، رنگوں، نسلوں اور قوم و قبیلوں سے بالاتر ہوکر اللہ اور اس کے رسول کی بات کرنی چاہیئے، تفرقہ بازی سے گریز کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی وفات کے معاملے پر آخری وقت تک شش و پنج میں رہے کہ آیا وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ اس کی کیا وجہ تھی۔؟
عبداللہ گل:
دیکھیں یہ بات یوں ہے کہ جن لوگوں نے اسامہ بن لادن کی نمازہ جنازہ پڑھائی تھی، انہوں نے جنرل صاحب کو بتایا تھا کہ اسامہ بن لادن وفات پا چکے ہیں، یہ 2004ء کی بات ہے۔ نائن الیون کا واقعہ جان بوجھ کر اسامہ پر ڈالا گیا، سی این این نے واقعے کے تین منٹ بعد کہنا شروع کردیا تھا کہ یہ واقعہ اسامہ اور القاعدہ نے کرایا ہے۔ جبکہ 400 ملین ڈالر جس ڈسک پر خرچ کئے گئے تھے، جو افغانستان کے امور کو دیکھتا تھا، اس ڈسک کو یہ خبر نہیں ہوئی تھی کہ آیا اس میں القاعدہ ملوث ہے یا نہیں، لیکن اسامہ اور القاعدہ پر یہ الزام عائد کر دیا گیا اور یوں اس خطے پر جنگ مسلط کر دی گئی۔ یہ سی این این کا کمال تھا کہ جس نے تین منٹ میں فیصلہ سنا دیا۔ واقعہ کی تحقیقات نہیں ہوئیں، لیکن انہوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت کہ الزام دھر دیا تھا۔ نائن الیون ایک بہانے سے شروع ہوا، اس کا اختتام بھی ایک بہانے سے ہونا تھا، انہوں نے افغانستان میں کئی آپریشنز کئے، لیکن سوائے حزیمت کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ طالبان آج بھی ایک حقیقت کے طور پر سامنے ہیں۔ آج اشرف غنی کی حکومت کی حالت سب کے سامنے ہے۔ جس افغان فورس پر 65 بلین ڈالر خرچ کئے گئے وہ بھاگ گئی ہے، وہ طالبان
کا مقابلہ نہیں کرسکی، بھائی یہ تھی آپ کی ٹرینگ۔؟ اسامہ کے حوالے سے اتنا کہوں گا کہ اگر امریکہ اسے مارنے کے حوالے سے اتنا ہی سچا ہے تو اس کی لاش تو دکھاتے، بتاتے دنیا والوں کہ ہم نے اپنے دشمن کے ساتھ کا کیا انجام کیا ہے، لیکن خبر ملی کہ اسے ہم نے سمندر برد کر دیا ہے، یہ تاریخ کا سب بڑا ڈرامہ کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: ٹونی بلئیر اپنے کئے پر معافی مانگ رہا ہے اسکو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
ٹونی بلیئر کو جوتے مارنے چاہیئے، اس کی معافی کس کھاتے میں ہے، کیوں معافی دی جانی چاہیئے۔؟ یہ اس قوم کیلئے ذلت کا مقام ہے، دس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلے تھے کہ عراق میں اپنی فوجیں مت اتارو، آج ٹونی لوگوں سے معافیاں مانگ رہا ہے، ایک ملین سے زائد لوگوں کو لقمہ اجل بن دیا گیا، معافی کس بات کی۔؟ اس لئے معافی مانگ رہا ہے کہ اسے پتہ ہے کہ اس جنگ سے متعلق آنے والی رپورٹ اس کیخلاف آرہی ہے، اس کو عوام کے سامنے پھانسی پر لٹکایا جانا چاہیئے۔ یہ لوگ داعش کا ایک نیا سلسلہ کھڑا کرکے جا رہے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ فتح کو شکست کے جبڑوں سے نکال لیا جائے۔ ایسا ممکن نہیں ہے، ایسا عراق کے اندر ہوگا نہ ہی ایسا شام کے اندر ہوگا۔ ان لوگوں نے عراق کو تین ٹکروں میں تقسیم کر دیا۔ اب یہ ترکی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، آزاد کردستان کی بات کرتے ہیں، کوئی کرنل رالف پیٹر کے نقشے کی بات نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کا احتساب کرنا ہوگا۔ میں برطانیہ کے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ انہوں نے جو جنرل کروم ویل کے ساتھ حال کیا، وہی ٹونی بلئیر کے ساتھ کریں، کروم ول کو قبر سے نکال کر لٹکایا گیا۔ بدمعاش ٹونی بلیئر جھوٹ بولتا ہے۔ سابق صدر امریکی بش کو بھی پھانسی پر لٹکایا جانا چاہیئے۔ یہ خونخوار درندے ہیں۔

اسلام ٹائمز: روس کے شام میں آنے پر کیا کہتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
جی میں کہتا ہوں کہ نئی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔ جو کل کے ساتھی تھے، وہ آج دشمن بن گئے اور جو کل دشمن تھے، آج ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ چین نے اپنے آپ کو ثابت کیا ہے، اصل میں یہ ڈالر کی قدر میں کمی چاہتے ہیں، اس کیلئے بینک بھی قائم کر دیا ہے، روس کے قدرتی وسائل ہیں، ایک وسیع فوج موجود ہے اور پیوٹن جیسا عظیم اور بابصیرت صدر موجود ہے، جس نے روس کو گوربا چوف کے پیرس ٹرائیک سے ہٹا کر اپنے قدموں پر کھڑا کیا ہے۔ وہ یقین کر رہا ہے کہ غیرت قوموں
کو جگا دیتی ہے، روس، چین اور ایران ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں، شام میں روس کا آنا بہت اچھی خبر ہے اور اس سے بہت بہتری آئے گی، بشارالاسد آج نہیں تو کل اس پر گفتگو ہوگی، میرے خیال میں اس ٹائم پر بشارالاسد کا جانا مناسب نہیں ہوگا، اس سے جغرفیائی صورتحال پر شام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں پاکستان کو کہاں کھڑا ہونا چاہیئے۔؟
عبداللہ گل:
آپ نے ایک بہت ہی زبردست سوال کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ سے چند دن قبل امریکہ نے افغانستان کے حوالے سے ایک نئی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے، اس کے تین مقاصد تھے، ایک پاکستان کو پریشر میں لانا، تاکہ نیو کلیئر ڈیل پر پاکستان گھٹنے ٹیکے، دوسرا پاکستان کے طالبان کے ساتھ اشرف غنی کے مذاکرات کو ڈیل پر آمادہ کیا جاسکے، جو ممکن نہیں ہوگا، شام کے اندر پاکستان کا پرانا موقف ہے، جہاں پاکستان کے پائلٹس کو ہیرو گردانتے ہیں، اس موقف پر دباو ڈالنا جس کا مقصد یہ ہے کہ کہیں پاکستان روس اور چین کے کلب میں نہ چلا جائے بلکہ اقوام متحدہ کے ساتھ جڑا رہے، یہ ادارہ اب آخری سانسیں لے رہا ہے، بوسینا کا معاملہ ہو یا کشمیر ایشو اس ادارے نے ہمیشہ مسلمانوں کے معاملے پر چپ سادھی ہے۔ یہ لوگ جرائم پیشہ ہیں۔

اسلام ٹائمز:اس صورتحال میں پاکستان کو کیا موقف اختیار کرنا چاہیئے۔؟
عبداللہ گل:
پاکستان کو اپنے ہمسائیوں کی طرف دیکھنا چاہیئے، اب مشرق کی پالیسی اخیتار کرنا ہوگی، ہم چین کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرکے روس کے ساتھ اچھے تعلقات بنا سکتے، ہمیں اپنے ساتھ ایران کو لیکر چلنا پڑے گا، سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد صاحب کی زبانی کہ ہم تین برسوں میں دوطرفہ تجارت کو 42 بلین تک لے جاسکتے ہیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب ایران پر پابندی عائد تھی، پاکستان جغرافیائی طور ایسی جگہ پر موجود ہے، جہاں ہیومن ریسورسز آف ساﺅتھ ایشیاء، نیچرل ریسورسز آف سنٹرل ایشیاء اور آئل اینڈ گیس ریسورسز آف گلف کے سنگم پر موجود ہیں، پاکستان ہی تو وہ ملک ہے، جس میں صرف اور صرف امید ہے اور پاکستان انشاءاللہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے، لیکن اگر ہم اپنے پتے صحیح طور پر نہیں کھیل پائے اور ہم استعمار کے خلاف متحد نہ ہوئے تو پھر یقینی طور پر پاکستان کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اس وقت پاک فوج سے عوام کو بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ جنرل راحیل شریف صاحب کے لئے میرا یہ درد
مندانہ مشورہ ہے کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو قانون کو نہ دیکھیں، ہمارا قانون ایسا ہے جو چوروں، ڈکیتوں، بدمعاشوں اور لٹیروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور غریب کو مارتا ہے۔ جب آپ چوروں پر ہاتھ ڈالیں گے تو قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ رانا ثناءاللہ پر جو حالیہ الزامات لگے ہیں، اب یہ صورتحال پنجاب کی طرف آرہی ہے، آپ کو بلاول ہاﺅس کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا اور رائیونڈ کی کرپشن کو بھی روکنا پڑے گا، ایم کیو ایم کی جو بنیاد خراب ہے، الطاف حسین صاحب انکو بھی آپکو پکڑنا پڑے گا۔ اگر ایسا کریں گے تو پاک فوج بڑا نام بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

اسلام ٹائمز: اسرائیل کیجانب سے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
عبداللہ گل:
اسرائیل ہمیشہ ایک غنڈے کا کردار ادا کرتا ہے اور مغربی و استعماری قوتیں اسے تحفظ فراہم کرتی ہیں، اقوام متحدہ اس معاملے پر آنکھ موند لیتا ہے اور اسرائیل کو اسکی غنڈہ گردی کرنے دیتے ہیں، میں ایرانی قوم کو مبارک باد پیش کروں گا کہ انہوں نے خارجہ پالیسی کے لئے فلسطین کو پہلے نمبر پر رکھا ہوا ہے، پاکستان کو بھی یہ کام کرنا چاہیئے کہ جس کے بانی نے یہ کہا تھا کہ یہ اسرائیل حرامی ریاست ہے، پاکستان کا بچہ بچہ اس سے ٹکڑا جائے گا، حتی کہ اسرائیل پاش پاش ہوجائے گا۔ قائد اعظم کی پالیسی ہمیں بھی اپنا لینی چاہیئے، فسطین پر ظلم ہو رہا ہے، بربریت کا بازار گرم ہے اور اس سے قبل بھی ظلم ہوا، پاکستان اور اسرائیل تاریخ میں ایک ہی وقت میں معرض وجود میں آئے تھے، ان میں سے ایک ہی کو رہنا ہے اور وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔ ان کو ہم سے خطرہ ہے، کیونکہ ہم دنیا کی نیوکلیئر اسلامی طاقت ہیں۔

اسلام ٹائمز: اصل مشکل تو عرب ممالک کی بادشاہتیں ہیں، جو اسرائیل کے مظالم پر خاموش ہیں۔؟
عبداللہ گل:
یہ بادشاہتیں جن کی ایک خاص قسم کی سوچ ہے، انہیں سمجھنا چاہیئے کہ اسرائیل انہیں بھی نہیں چھوڑے گا، اسرائیل ایک آکاس بیل ہے جو آپکو بھی کھا جائے گا، اسرائیلی جس پلیٹ میں کھاتے ہیں، اس میں ہی چھید کرتے ہیں، کوئی بھی چیز ظلم پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی، اسرائیل دیکھ رہا ہے کہ مشرق وسطٰی میں مسلمان آپس میں ٹکراﺅ کی صورتحال میں ہیں اور اسرائیل اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ نتیجہ میں فسلطین کو سزا بھگتنا پڑ رہی ہے، تمام عالم اسلام کی گردن پر فلسطنیوں کا خون ہے۔
خبر کا کوڈ : 494867
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش