0
Tuesday 10 Nov 2015 08:19
انتفاضہ فلسطین کے آغاز میں فلسطینیوں نے پرامن احتجاج، سول نافرمانی اور غاصب اسرائیل سے برات کا اظہار کیا

تیسری تحریک انتفاضہ صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ یہ عالم اسلام اور مسلم امہ کی تحریک ہے، صابر کربلائی

تیسری تحریک انتفاضہ صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ یہ عالم اسلام اور مسلم امہ کی تحریک ہے، صابر کربلائی
صابر کربلائی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ وہ فلسطین فانڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں اور ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے یکجہتی فلسطین (APSP) اور گلوبل کمپین ٹو ریٹرن ٹو فلسطین (GCRP) کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں۔ 2012ء میں عالمی مارچ برائے آزادی القدس (GMJ) کے پاکستان میں بنیادی آرگنائزر بھی ہیں۔ صابر کربلائی کا نام پاکستان کے ان چیدہ چیدہ افراد میں سرفہرست آتا ہے کہ جنہوں نے ماضی یا حال میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جدوجہد کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ صابر کربلائی ایک مایہ ناز ریسرچ اسکالر بھی ہیں اور کالم نویسی بھی کرتے ہیں، ان کے درجنوں کالم پاکستان کے معروف اخبار روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوچکے ہیں، وہ غرب ایشیا (مشرق وسطٰی) اور فلسطین کے حوالے سے خصوصی کالم نویسی انجام دیتے ہیں۔ دور حاضر میں فلسطین فانڈیشن پاکستان ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم ہے کہ جس سے پاکستان کی ہر سیاسی و مذہبی جماعت سمیت حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اچھی طرح سے واقفیت رکھتی ہیں، گذشتہ دنوں ہی فلسطین پر غاصب اسرائیلی تسلط کے عنوان سے دنیا بھر میں یوم نکبہ مہم کا آغاز کیا گیا تو پاکستان واحد ملک تھا کہ جہاں فلسطین فانڈیشن پاکستان کی سرگرمیاں عرب ممالک کی نسبت زیادہ سراہی گئیں۔ گذشتہ چالیس روز سے صیہونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور ان چالیس دنوں میں اسی سے زائد شہادتیں اور سینکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اسلام ٹائمز نے ان کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: تحریک انتفاضہ کیا ہے۔؟
صابر کربلائی:
غاصب اسرائیل کے وجود کے دن سے ہی سرزمین انبیاء علیہم السلام پر بسنے والے فلسطینی غاصب اسرائیل اور صیہونیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا شروع ہوئے، حتیٰ کہ وہ وقت بھی آن پہنچا، جب نہ صرف صیہونیوں نے فلسطینیوں کے قتل عام پر اکتفا کیا بلکہ ان کو اپنی ہی سرزمین اور وطن اور گھروں سے بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ آزادیٔ فلسطین کے لئے کئی ایک جنگیں بھی لڑی گئیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عربوں کی بڑی طاقت ہونے کے باوجود بھی عرب ممالک اسرائیل کو شکست دینے میں ناکام رہے اور الٹا اپنے ہی ممالک کی سرزمینیں اسرائیل کے قبضے میں دے بیٹھے، جو آج تک اسرائیل کے غاصبانہ قبضے میں ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں سینا کا علاقہ، شام میں گولان کی پہاڑیاں، اسی طرح جنوبی لبنان کا بڑا حصہ جسے بعد میں2000ء میں حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی شکنجے سے آزاد کروایا تھا۔ آزادی فلسطین کے لئے جہاں یہ جنگیں لڑی گئیں، وہاں فلسطینی عوام نے بھی اپنے حقوق کے غصب کئے جانے پر خاموشی اختیار نہیں کی، بلکہ فلسطینیوں نے جس جدوجہد کا آغاز کیا اسے "انتفاضہ" کہا جاتا ہے۔ "انتفاضہ" یعنی عوامی تحریک۔ فلسطین کی آزادی کی تحریکوں میں انتفاضہ فلسطین کی تحریک انتہائی مقبول ترین اور کارگر ثابت ہوئی۔ اس انتفاضہ کی مختصر تاریخ کچھ اس طرح ہے کہ

پہلی تحریک انتفاضہ: تحریک آزادی فلسطین کی تاریخ میں پہلا انتفاضہ 1987ء میں شروع ہوا اور 1993ء میں اختتام پذیر ہوا۔ یہ فلسطینی عوام کی ایک ایسی انقلابی تحریک تھی، جو تاریخ میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی نابودی کے ایک پیش خیمہ کے طور پر یاد کی جائے گی۔ اس تحریک کا آغاز جبالیہ کے ایک مہاجر کیمپ سے ہوا اور پھر یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے غزہ، مغربی کناری اور مشرقی قدس سمیت پورے فلسطین میں پھیل گئی۔ انتفاضہ فلسطین کے آغاز میں فلسطینیوں نے پرامن احتجاج، سول نافرمانی اور غاصب اسرائیل سے برات کے اظہار کے ساتھ کیا۔ فلسطینی عوام کے انتفاضہ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ فلسطینی عوام اتحاد کے ساتھ ایک مقصد کے لئے جدوجہد کر رہے تھے اور آپس میں متحد تھے۔ پہلے انتفاضہ میں فلسطینیوں نے ہڑتالوں اور پرامن احتجاجوں کے ذریعے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ فلسطینی عوام نے عہد کر لیا کہ وہ غاصب اسرائیل کو ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ تحریک آزادیٔ فلسطین کے پہلے انتفاضہ کو کچلنے کے لئے غاصب اسرائیل نے فوج اور اسلحے سمیت بھاری گولہ بارود کا سہارا لیا، لیکن فلسطینیوں نے اس کے جواب میں "پتھر" سے مزاحمت کی۔ فلسطینیوں نے انتفاضہ کے دوران جو سب سے زیادہ ہتھیار کا استعمال کیا وہ صرف "پتھر" تھا۔ یقیناً آپ نے بھی ایسی تصاویر دیکھی ہوں گی، جن میں فلسطینی بچے، جوان اور خواتین اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے تن و تنہا کھڑے ہیں اور پتھر کی مدد سے اپنا دفاع کر رہے ہیں۔

تحریک آزادی ٔ فلسطین کے پہلے انتفاضہ کے دوران غاصب اسرائیل نے 1500 کے قریب فلسطینیوں کو قتل کر دیا، جبکہ جواب میں فلسطینیوں نے 200 سے زائد اسرائیلی فوجیوں پر حملے کئے اور ان کو جہنم رسید کیا۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے انتفاضہ کے 6 سالوں کے دوران ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ اس سے قبل1982ء میں غاصب اسرائیل نے لبنان پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور وہاں پر موجود فلسطینی مہاجرین پر صبرا اور شتیلا کے مقامات پر انسانیت سوز مظالم کی انتہا کی تھی اور اسی طرح فلسطینیوں کی تنظیم پی ایل او کی اعلٰی قیادت کو فلسطین سے جلاوطن ہو کر تیونس میں پناہ لینا پڑی تھی۔ بہرحال یہ فلسطینی عوام کی پہلی ناقابل فراموش تحریک تھی، جو خود فلسطین کے اندر سے جنم لے کر اٹھی اور اسرائیلی سفاکیت کے سامنے سینہ سپر ہوگئی۔ اسی تحریک کے دوران 1988ء کو 19 اپریل کے روز ایک فلسطینی رہنما ابو جہاد کو تیونس میں قتل کیا گیا۔ دوسری جانب انتفاضہ فلسطین نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ غاصب صیہونی اسرائیل کے خلاف مجرمانہ خاموشی ختم کرے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔ فلسطینی انتفاضہ کے نتیجے میں ہی 1988ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی بڑی تعداد نے اسرائیل کی زبردست مذمت کی اور اس کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ بالآخر 1993ء میں فلسطینی عوام کا پہلا انتفاضہ اختتام پذیر ہوا۔

دوسری تحریک انتفاضہ: تحریک آزادی فلسطین کی تاریخ کا دوسرا انتفاضہ اس وقت شروع ہوا جب کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات نے امریکی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرا انتفاضہ 29 ستمبر 2000ء میں شروع ہو اور 2005ء میں اختتام پذیر ہوا۔ دوسرے انتفاضہ کا آغاز اس دن سے ہوا، جس دن جمعہ کے روز اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے بیت المقدس کا دورہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد جمعہ کے روز فلسطینیوں نے مسجد اقصٰی میں پہنچ کر زبردست احتجاج کیا اور حتیٰ المقدور کوشش کی کہ صیہونی وزیراعظم کو مسجد اقصٰی میں داخلے سے روکا جائے۔ اس جدوجہد میں پولیس اور اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے چار فلسطینی شہید ہوئے۔ فلسطینی عوام کے اس دوسرے انتفاضہ کو "اقصٰی انتفاضہ" بھی کہا جاتا ہے۔ اسی روز غاصب صیہونی افواج کی فائرنگ سے 200 سے زیادہ فلسطینی مسجد اقصٰی (قبلہ اول بیت المقدس) کے دفاع کے لئے زخمی ہوئے تھے۔ اسی روز ہی ایک اور واقعہ میں ایک پرانے شہر میں تین مزید فلسطین بھی اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ اس دن کے خاتمے پر کل 7 فلسطینی شہید اور 300 سے زائد زخمی ہوچکے تھے جبکہ فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 70 سے زائد اسرائیلی فوجی بھی زخمی ہوئے۔ دوسرے ہی روز غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کا سمندر سڑکوں پر نکل آیا اور غاصب اسرائیل کی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا۔ اس احتجاج کو روکنے کے لئے صیہونی فورسز نے فلسطینیوں پر براہ راست فائرنگ کی اور ربڑ کی گولیاں بھی استعمال کیں۔ ان مظاہروں کے آغاز کے پانچویں دن تک 50 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جبکہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

مظاہروں کے دروان ایک کیمرہ مین نے ایک فلسطینی نوجوان محمد الدرہ کی وہ فوٹیج بنائی، جب وہ اپنے والد کے ساتھ تھا اور اس کو اسرائیلی فوجیوں نے براہ راست فائرنگ کرکے شہید کر دیا تھا۔ اسی دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوسرے انتفاضہ کے پہلے ایک ماہ میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کا بدترین قتل عام کیا ہے۔ یہ انتفاضہ کی تحریک چلتی رہی اور اسی طرح 2005ء میں اختتام پذیر ہوگئی۔ اس انتفاضہ کے اختتام کے بارے میں مبصرین کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ چند مبصرین کا کہنا کہ تحریک آزادی ٔ فلسطین کا دوسرا انتفاضہ نومبر 2004ء میں اس وقت اختتام پذیر ہوا، جب فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات انتقال کر گئے، جس کے بعد فلسطینی عوام اپنے عالمی حمایت یافتہ قائد سے محروم ہوگئے تھے۔ اسی طرح بعض مبصرین کی رائے ہے کہ فلسطینیوں کا دوسرا انتفاضہ اس وقت کمزور ہو کر اختتام پذیر ہوا، جب یاسر عرفات کی وفات کے بعد حماس اور الفتح کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ بعض مبصرین کی رائے میں فلسطینیوں کا دوسرا انتفاضہ اس وقت اختتام پذیر ہوا، جب یاسر عرفات کی وفات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے نئے صدر محمود عباس نے 2005ء میں شرم الشیخ کانفرنس میں شرکت کی۔ بہرحال آزادیٔ فلسطین کی تحریک کے دوسرے انتفاضہ کا اختتام تقریباً پانچ ہزار فلسطینیوں کے قتل کے بعد ہوا، جبکہ اس انتفاضہ میں اسرائیل کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور 1200 سے زائد اسرائیلی فوجی اس انتفاضہ میں واصل جہنم ہوئے۔

تیسری تحریک انتفاضہ: دوسرے انتفاضہ کے اختتام کے بعد 2006ء میں فلسطین کے اندر ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے الفتح کے ساتھ مقابلے میں 45 کے مقابلے میں 74 نشستیں حاصل کرکے واضح برتری حاصل کی، جبکہ 13 نشستیں دیگر آزاد امیدواروں کو حاصل ہوئیں۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی کامیابی کے ساتھ ہی امریکہ اور یورپی یونین کو بہت بڑا دھچکا لگا کہ جنہوں نے پہلے ہی حماس کو دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا، تاکہ فلسطین کے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا جاسکے۔ تاہم عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کے حواری یورپی یونین نے فلسطین کو دی جانے والی امداد یہ کہہ کر بند کر دی کہ حماس کو امداد نہیں دی جاسکتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ اور ہورپی یونین نے انتخابات کے نتائج کو ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ اسی روز سے آج تک امریکہ اور یورپی یونین نے حماس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ البتہ جہاں تک بات تیسرے انتفاضہ کی ہے تو میرا خیال ہے کہ تیسرا انتفاضہ شروع ہوچکا ہے، جو اسرائیل کی مکمل نابودی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔ حماس کی انتخابات میں کامیابی ہی فلسطینیوں کے تیسرے انتفاضہ کا آغاز تھا جبکہ اسی طرح بعد میں حماس نے غاصب صیہونی اسرائیل کے حملے کا مقابلہ کیا اور 22 روز تک بھرپور جنگ کے بعد اسرائیل کو بدترین شکست سے رسوا کرتے ہوئے غزہ سے باہر نکال دیا۔ اسی طرح حماس نے اسرائیلی کمانڈر گیلاد شالیط کو پانچ سال تک اپنے قبضے میں رکھنے کے بعد ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی صیہونی جیلوں سے رہا کروایا۔ دوسری طرف لبنان میں حزب اللہ لبنان نے فلسطینیوں کے پہلے انتفاضہ کے اختتام کے بعد 2000ء میں لبنان سے اسرائیل کو نکال باہر کیا، پھر اسی طرح دوسرے انتفاضہ کے اختتام کے ساتھ ہی جب اسرائیل نے 2006ء میں لبنان پر حملہ کیا تو حزب اللہ نے 33 روز تک غاصب اسرائیل کا مقابلہ کیا اور اسرائیل کو جانی و مالی نقصان سے ہمکنار کرتے ہوئے پسپائی کا شکار کیا۔ اب حالیہ دنوں میں اس تیسری تحریک انتفاضہ نے مزید زور پکڑ لیا ہے اور اس میں فلسطینیوں نے قبلہ اول بیت المقدس کے دفاع کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا ہے اور اس دوران پورے فلسطین میں یہ تحریک پھیلتی چلی جا رہی ہے، جو یقیناً فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی میں نمایاں اثرات مرتب کرے گی۔

اسلام ٹائمز: تیسری تحریک انتفاضہ کا آغاز کب ہوا؟ اور اب تک اس میں کتنے فلسطینی شہید ہوچکے ہیں؟
صابر کربلائی:
جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ 2006ء میں غزہ میں حماس کی انتخابات میں کامیابی ہی فلسطینیوں کے تیسرے انتفاضہ کا آغاز تھا، تاہم یہ سلسلہ مسلسل آگے بڑھتا رہا اور اس کے نتیجے میں فلسطینیوں نے 2008ء میں اور 2012ء کے بعد 2014ء میں مسلسل اسرائیلی جنگوں کا مقابلہ بھی کیا، میں ان تمام واقعات کو تیسری تحریک انتفاضہ کا آغاز یا نقطہ آغاز قرار دیتا ہوں، جبکہ باقاعدہ اس تحریک نے جو جان پکڑی ہے وہ تو یقیناً یکم اکتوبر 2015ء ہی سے ہے کہ جب غاصب صیہونیوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر یلغار کی تو جواب میں مغربی کنارے کے بسنے والے چند فلسطینیوں نے صیہونیوں کے سامنے مقابلہ کیا اور پھر اس طرح یہ سلسلہ چل پڑا ہے، یوں کہا جا سکتا ہے کہ تیسری تحریک انتفاضہ نے یکم اکتوبر 2015ء سے باقاعدہ ایک جہت میں شکل اختیار کر لی ہے اور اس کی بنیادی وجہ قبلہ اول مسجد اقصٰی کا دفاع کرنا ہے، تاکہ صیہونیوں کی شر انگیزیوں اور مسجد اقصٰی کے خلاف جاری سازشوں کا بھی قلع قمع کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں نے اس انتفاضہ کو "انتفاضۃ القدس" کا عنوان دیا ہے۔ جہاں تک اس تحریک میں فلسطینیوں کی شہادت کی بات ہے تو آج کے دن تک موصولہ اطلاعات کے مطابق 80 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جبکہ 31 اکتوبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق شہید ہونے والوں میں 54 مرد، 15 بچے اور 2 خواتین شامل تھیں، اسی طرح صیہونی افواج کی جانب سے فلسطینیوں کے انتفاضہ کی تحریک کو کچلنے کے لئے صیہونی حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 6730 تھی، جس میں 6561 معصوم کم سن بچے شامل ہیں جبکہ 82 شدید ترین زخمیوں میں شمار ہیں۔ دوسری جانب غاصب اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں 46 صحافی گرفتار کئے گئے اور 1231 فلسطینیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا، جس میں 419 معصوم بچے شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کے گھروں پر صیہونی آباد کاروں کی جانب سے اسی دوران 265 حملے کئے گئے، جس کے نتیجے میں 22 فلسطینی گھروں کو مکمل تباہ کر دیا گیا۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں کہ جو یکم اکتوبر سے 31 اکتوبر تک سامنے آئے ہیں، اس دوران فلسطینی جوانوں کی جانب سے اسرائیلی افواج کے خلاف سخت مزاحمت کا عمل جاری رہا، لیکن یہ مزاحمت پتھروں، خنجروں اور اسکرو ڈرائیور کے ساتھ کی گئی، فلسطینیوں کی جانب سے جاری مزاحمت میں 11 صیہونی واصل جہنم ہوئے جبکہ 250 صیہونی فوجی خنجر کے حملوں میں زخمی بھی ہوئے۔ یہاں ایک بات ذہن میں رہنی چاہئیے کہ فلسطینیوں نے اس تحریک انتفاضہ میں اپنا ہتھیار پتھر اور غلیل کے ساتھ ساتھ خنجر رکھا ہے اور نوجوانوں نے گھات لگا لگا کر صیہونی غاصب فوجیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس کے باعث اسرائیل شدید پریشانی سے دوچار ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انتفاضۃ القدس کی قیادت کون سی جماعت کر رہی ہے؟
صابر کربلائی:
فلسطینیوں کے تیسرے انتفاضہ کا آغاز چونکہ مسجد اقصٰی کے دفاع کے سلسلے میں شروع ہوا ہے، تاہم مغربی کنارے میں بسنے والے تمام فلسطینی نوجوان اور مرد و زن اس تحریک میں بھرپور طریقے سے وارد ہیں، پہلے مرحلے میں انہوں نے سڑکوں پر نکل کر بھرپور احتجاجی مظاہرے کئے تھے، تاہم اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصٰی پر پے در پے حملوں کے بعد فلسطینیوں نے صیہونی غاصب اسرائیلی فوجیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی، جس میں خنجر کو نمایاں ہتھیار قرار دیا تھا، شروع کر دی تھی اور تاحال یہ تحریک جاری و ساری ہے۔ جہاں تک اس تحریک کی قیادت کی بات ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ فلسطین میں بسنے والے تمام باضمیر اور حریت پسند اس تحریک کی قیادت کے حق دار ہیں اور یقیناً ایسی تحریکیں حریت پسندوں کی قیادت میں ہی پنپتی ہیں، تاہم واضح طور پر کوئی خاص جماعت یا گروہ اس کی قیادت نہیں کر رہا ہے، کیونکہ انتفاضہ کے معنی ہی عوامی جدوجہد کے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فلسطینیوں کی اس تحریک انتفاضہ میں اور کون کون سے ممالک شامل ہیں؟
صابر کربلائی: دراصل فلسطینیوں کی یہ تحریک خالص فلسطینیوں کی تحریک ہے اور اس میں کوئی ملک شامل نہیں ہے اور شاید ہو بھی نہیں سکتا، جبکہ اگر شاید کسی ملک کے شامل ہونے کے چانسز بھی ہوتے تو میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین کے پڑوسی ممالک کہ جن میں آپ جانتے ہیں کہ ایک سرحد پر غزہ کے ساتھ مصر ہے، دوسری طرف شام، لبنان اور اسی طرح اردن کا حصہ ہے، ان تمام ممالک کی صورتحال آپ کے سامنے ہے، تاہم فلسطینیوں کی اس تحریک انتفاضہ میں کسی بھی ملک کا کوئی کردار نہیں ہے، یہ پڑوسی ممالک فلسطینیوں کی مدد کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے ماضی قریب میں بھی اچھے حالات میں بھی سرکاری حمایت یا مدد نہیں کی تو اب کس طرح کریں گے؟ دوسری طرف عرب مسلم ممالک ہیں، جو اسی خطے میں موجود ہیں اور فلسطین کی تمام تر صورتحال اور واقعات سے بخوبی واقف بھی ہیں، تاہم ان کی جانب سے انتفاضہ میں شمولیت تو دور کی بات ہے، اس انتفاضہ کی حمایت کا اعلان بھی ہو جائے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہئیے اور یہ یقیناً ایک انقلاب سے کم نہ ہوگا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ فلسطینی عوام آج صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور عالم انسانیت کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہوں نے کسی بھی مسلمان ملک سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ ان کی تحریک آزادی میں کوئی ملک آکر ان کا ساتھ دے، تاہم یہ تمام مسلمان ممالک اور ان کے حکمرانوں کی اخلاقی اور سیاسی فریضہ ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کی اس جدوجہد کی حمایت کا اعلان کریں، اگرچہ فلسطینیوں نے ان سے اس حمایت کا بھی مطالبہ نہیں کیا، لیکن یہ مسلم امہ کی برابر ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد اقصٰی جو کہ قبلہ اول ہے اور اس کے دفاع کے لئے فلسطینیوں کی جدوجہد میں شانہ بہ شانہ کھڑی ہو، بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پوری دنیا خاموش اور مجرمانہ انداز میں تماشائی بنی ہوئی ہے اور مظلوم ملت فلسطین کو غاصب اسرائیل نے کشت و خون میں نہلا رکھا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا فلسطینی حکومت اس تحریک کا حصہ ہے؟
صابر کربلائی:
میری معلومات کے مطابق انتفاضہ ایک عوامی فلسطینی جدوجہد ہے جبکہ فلسطین کے مغربی کنارے میں قائم حکومت جسے فلسطینی اتھارٹی کہا جاتا ہے اور محمود عباس اس کے صدر ہیں، ان کا کردار ہمیشہ سے پوری دنیا اور خاص طور پر فلسطینیوں کے سامنے ہے، حتیٰ عباس ملیشیا نامی فورس نے متعدد موقعوں پر اسرائیلی افواج کے لئے کام انجام دیئے ہیں، تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ تحریک انتفاضہ میں وہی شامل ہوسکتا ہے، جو حریت پسندی پر مکمل یقین رکھتا ہو اور اسرائیل کو ایک غاصب نسل پرست ریاست تصور کرتا ہو، جو کہ حقیقت میں پوری دنیا کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انتفاضہ میں حزب اللہ کا کردار کیا ہے۔؟

صابر کربلائی:
دیکھیں میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ یہ عالم اسلام اور مسلم امہ کی تحریک ہے، کیونکہ اس کا مقصد قبلہ اول بیت المقدس کو صیہونی غاصبانہ تسلط سے نجات دلوانا ہے، میں افسوس کے ساتھ پھر کہتا ہوں کہ پوری مسلم دنیا سے جس طرح فلسطینیوں کی اس تحریک کی حمایت کی جانی چاہئیے تھی، اس طرح نہیں کی گئی بلکہ اس تحریک کے لئے کسی نے آواز تک نہیں اٹھائی ہے، البتہ اس حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ کا کردار قابل تحسین ہے، حال ہی میں تہران میں ایک بین الاقوامی قدس کانفرنس منعقد کی گئی ہے، جس میں فلسطینیوں کی تحریک کی بھرپور حمایت کا اعلان اور فلسطین کو فلسطینیوں کا وطن قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے فلسطینیوں کی اس تحریک کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے پوری مسلم دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کی بھرپور حمایت کریں، انہوں نے بہت واضح انداز میں بیان کیا ہے کہ حزب اللہ فلسطینیوں کی تحریک کی مکمل حمایت کرتی ہے اور ہر ممکنہ مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھے گی۔ میں یہاں پر سید حسن نصر اللہ کی جانب سے 2000ء میں کی جانے والی ایک تقریر کا حوالہ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جس میں حزب اللہ کے سربراہ نے فلسطینی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے صیہونی مظالم کے جواب میں فلسطینیوں کو ایک حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیا، جس میں سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ فلسطینی نوجوانوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے پاس ایک خنجر رکھیں اور جیسے ہی کسی اسرائیلی فوجی کے قریب پہنچے یا کوئی اسرائیلی غاصب فوجی ان کے قریب آکر نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو اس پر خنجر سے حملہ کریں، آج 2015ء میں یہ حکمت عملی واضح طور پر عمل پذیر ہوتی نظر آ رہی ہے اور فلسطینیوں نے اپنی اس تحریک میں جو نمایاں ہتھیار قرار دیا ہے، وہ خنجر ہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حزب اللہ کا فلسطینیوں کی مدد کرنے سمیت ان کو مسلح کرنے اور ان کی ہر ممکنہ مدد میں بھرپور کردار شامل ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انتفاضہ کے حوالے سے فلسطین فائونڈیشن پاکستان اور پاکستانیوں کا کیا کردار ہے۔؟
صابر کربلائی:
فلسطین فائونڈیشن پاکستان نے روز اول سے ہی فلسطینیوں کی اس تحریک انتفاضہ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا اور آج ایک مرتبہ پھر اعلان کرتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی اور بالخصوص قبلہ اول کے دفاع کے لئے جاری تیسری تحریک انتفاضہ کی بھرپور اور مکمل حمایت کرتے ہیں، اس حوالے سے فلسطین فائونڈیشن پاکستان نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور غاصب اسرائیلی حکومت کے جنگی جرائم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ہیں، جبکہ کراچی میں ایک آل پارٹیز پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور رہنمائوں نے شرکت کی اور فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کی حمایت کا اعلان کیا، اسی طرح فلسطین فائونڈیشن پاکستان کی جانب سے پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی قیادت کو ٹیلی فون اور ایمیل کے ذریعے فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کی گئی، جبکہ طلبہ تنظیموں سے روابط کئے گئے، تاکہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں اور مظاہرے کئے جائیں۔ اس حوالے سے لاہور، اسلام آباد، میں مختلف طلباء تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے طالب علموں نے احتجاجی مظاہروں سمیت دستخطی مہم بعنوان "I Stand with Palestine" کا انعقاد بھی کیا گیا، جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس عنوان سے بھرپور مہم کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ میں آخر میں ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ جب تک ہمارے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے اور ہماری سانس باقی ہے، فلسطینیوں کو کسی میدان میں تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہر سطح پر سیاسی و اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے اور اس راستے میں اگر موت بھی نصیب ہوتی ہوئی تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑی سعادت شاید کوئی نہیں ہوسکتی، کیونکہ آج اگر پیغمبر اکرم حضرت محمد (ص) زندہ ہوتے تو کیا کرتے۔؟ اگر امام حسین (ع) ہمارے درمیان ہوتے تو کیا کرتے۔؟ یقیناً میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین کے لئے قیام کرتے اور مظلومین جہاں کو ظالمین جہاں سے نجات دلواتے۔
خبر کا کوڈ : 496661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش