0
Friday 20 Nov 2015 21:30
پیپلز پارٹی اگر چند یونین کونسلز کیلئے کسی کالعدم تنظیم کو پنپنے کا موقع دے رہی ہے تو یہ اسکی بہت بڑی غلطی ہوگی

کالعدم تنظیموں کو سیاسی فعالیت کی اجازت دینا ملکی بقاء و سالمیت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا، مولانا قاضی احمد نورانی

پاک فوج اپنا کام کر رہی ہے، حکومت اس کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالے
کالعدم تنظیموں کو سیاسی فعالیت کی اجازت دینا ملکی بقاء و سالمیت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا، مولانا قاضی احمد نورانی
معروف اہلسنت عالم دین مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان سے ہے اور اس وقت جے یو پی کراچی کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں۔ اس کے ساتھ آپ مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان اور اسکی بعض ذیلی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں اور رابطے کے حوالے سے ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی پاکستان میں مسئلہ فلسطین کیلئے آواز بلند کرنے والے ادارے فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان (PLF Pakistan) کے مرکزی ادارے ’سرپرست کونسل‘ کے مرکزی رکن بھی ہیں۔ آپ ہمیشہ اتحاد امت و وحدت اسلامی اور مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور ان حوالوں سے پاکستان بھر میں اور ایران، شام، لبنان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کے ساتھ پاکستان میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے نام بدل کر حصہ لینے کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ سے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کراچی سمیت ملک بھر میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں کالعدم دہشتگرد جماعتوں کیجانب سے نام بدل کر حصہ لینے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ پاکستان کا آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی بھی نظریہ پاکستان اور ملکی سالمیت کے خلاف بات کرے، وہ کالعدم دہشتگرد تنظیمیں جو مختلف ادوار میں نظریہ پاکستان اور ملکی بقاء و سالمیت کے خلاف کام کرتی رہیں، جہاد کے نام پر فساد برپا کرتی رہیں، مسلمانوں کا گلا کاٹنے کو جنت کا حقدار کہتی رہیں، اور پاکستان کی عوام کو مسلسل ذہنی، جسمانی، مالی، جانی اذیت کا نشانہ بنایا، ان لوگوں کو کچلنے کیلئے، نیست و نابود کرنے کیلئے جب ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے، ایسے موقع پر کسی بھی کالعدم دہشتگرد تنظیم کا نام بدل کر کام کرنا، بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر سیاسی فعالیت کرنا حکمرانوں کیلئے چیلنج ہے، وزیراعظم پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، گورنر صاحبان، وزرائے اعلیٰ، ریاستی اداروں کیلئے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ آخر کہاں ہیں، الیکشن کمیشن اتنا معصوم کیوں بنا ہوا ہے کہ کوئی بھی دہشتگرد کسی ایک نام سے جا کر رجسٹریشن کروا لے، اور انتخابی نشان لیکر اپنا کام شروع کر دے، اور پھر انتخابی عمل کو سبوتاژ کرے، اس لئے ان سب کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی کالعدم دہشتگرد تنظیم کو نام بدل کر کام نہیں کرنے دے، سیاسی فعالیت کی اجازت نہ دے، ناصرف کالعدم تنظیم پر بلکہ پابندی ان تمام افراد پر ہوتی ہے جو ان کالعدم تنظیموں کے اندر رہ کر دہشتگردی کے مرتکب ہوئے ہیں، تو وہ یا ان کی ’بی‘ ٹیم، یا ان کی ’سی‘ ٹیم اگر شہروں میں آئے گی، انتخابی سیاسی عمل کا حصہ بنے گی، تو ایک بار پھر دہشتگردی میں اضافہ ہوگا، فرقہ واریت پھیلانے کی سازش ہوگی، لہٰذا کالعدم تنظیموں اور ان کے عہدیداروں اور کارکنوں پر پابندی لگا کر روکا جانا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کالعدم سپاہ صحابہ جو کہ نام بدل کر اہلسنت والجماعت کے نام سے فعال ہے، اب اس نے پاکستان راہ حق پارٹی کے نام سے دوبارہ سیاسی فعالیت کا آغاز کیا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
سپاہ صحابہ سمیت کسی بھی کالعدم تنظیم کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، ان کا ایجنڈا صرف دہشتگردی ہے، یہ غیر ملکی سرمائے پر پلنے والے دہشتگرد عناصر ہیں، پاکستانی عوام ان کے مکروہ چہرے جانتے، پہچانتے ہیں، الیکشن کمیشن فوراً ایسی تمام جماعتوں کو نوٹس جاری کرے، جو ان دہشتگرد عناصر کو اپنی چھتری تلے پناہ دیتے ہیں، یا یہ کالعدم تنظیمیں کسی دوسرے نام سے رجسٹرڈ ہوتی ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرے، ورنہ پاکستان میں سیاسی عمل متاثر ہوگا، اور ایک بار پھر دہشتگردی اور افراتفری پھیلے گی۔

اسلام ٹائمز: کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی سیاسی میدان میں فعالیت سے دہشتگردی کیخلاف نیشنل ایکشن پلان پر کیا اثر پڑیگا۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
کالعدم دہشتگرد تنظیمیں اگر عسکری فعالیت کے بعد سیاسی طور پر بھی فعال ہوئیں، تو دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر جو کثیر سرمایہ خرچ ہوا ہے، افواج پاکستان کے جوانوں نے جو قربانیاں دیں، ہماری پولیس، رینجرز، ایف سی، لیویز سمیت تمام سیکورٹی اداروں نے دہشتگردی کے خلاف ملک کے طول و عرض میں اپنے لہو کے نذرانے پیش کئے ہیں، کالعدم دہشتگرد تنظیمیں اگر عسکری فعالیت کے بعد سیاسی طور پر بھی فعال ہوئیں، اور ان تمام کالعدم تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی، تو دہشتگردی کے خلاف ساری قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی، خرچ کیا گیا ملکی سرمایہ ضائع ہو جائے گا، لہٰذا فوری طور پر ایسی تمام تر عصبیتی، لسانی، گروہی، علاقائی انتہاپسند تنظیموں پر، جن کا ماضی میں دہشتگردوں سے تعلق رہا، جو کفر و شرک کے فتوے لگاتے رہے، عوام کے گلے کاٹتے رہے، دہشتگردی و افراتفری پھیلاتے رہے، جنکی قیادت باقاعدہ طور پر بم دھماکوں، لاشیں گرانے، مذہبی جلوسوں پرحملہ کرنے، مساجد، امام بارگاہوں، مزاروں، خانقاہوں، آستانوں پر بم دھماکوں میں شامل رہی، ان کالعدم تنظیموں کے دہشتگردوں کو پاکستانی عدالتوں نے سزائے موت دیں، ایسے دہشتگرد عناصر اور کالعدم تنظیموں کو پاکستان کے سیاسی عمل میں شامل ہونے کا موقع دینا، ملکی سیاسی عمل کو تباہ کرنے کا باعث اور ملکی بقاء و سالمیت کیلئے نقصاندہ ہوگا، افراتفری، دہشتگردی پھیلے گی، اگر یہ دہشتگرد عناصر عوام کی آنکھوں می دھول جھونک کر، یا وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے، ڈرا دھمکا کر کسی حکومتی عہدوں پر پہنچ گئے، تو وہ ان عہدوں کے ذریعے مزید دہشتگردی و انتشار پھیلائیں گے، پاکستان کی بقاء و سالمیت کو نقصان پہنچائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپکا تعلق کراچی سے ہے، دیکھا گیا ہے کہ کراچی میں حکمراں جماعت پیپلز پارٹی سمیت کچھ دیگر سیاسی جماعتوں نے کالعدم دہشتگرد جماعتوں کیساتھ مشترکہ بلدیاتی امیدوار کھڑے کئے ہیں، اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
پچھلے مہینے کچھ کالعدم جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کرتے ہوئے کچھ مطالبات پیش کئے تھے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ کالعدم جماعتوں نے اپنے مکر و فریب کے ذریعے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو اپنی اہمیت باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، شاید سندھ حکومت اندرون سندھ میں بعض مقامات پر اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتی ہے، چونکہ اس وقت محرم الحرام کا آغاز تھا، تو شاید سندھ حکومت نے یہ سوچا ہو کہ اگر ان کالعدم تنظیموں کے بعض مطالبات فوری رد کر دیئے، تو محرم میں کوئی سانحہ برپا نہ کر دیں، ہو سکتا ہے کہ ان کے سامنے یہ بات ہو، لیکن یہ کوئی درست طرز عمل نہیں ہے، حکومت کو اپنی تمام تر سرکاری مشینری استعمال کرنی چاہیئے، فوج سے مدد لیں، اور کالعدم تنظیموں پنپنے کا بالکل بھی کوئی موقع نہ دیں، پیپلز پارٹی کی قیادت آصف زرداری صاحب، بلاول بھٹو صاحب، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ صاحب فوری طور اس صورتحال کا جائزہ لیں کہ وہ کون کون سی یونین کونسلز ہیں، وہ کون کون سے اضلاع ہیں، ڈی آر اوز، آر اوز کیا کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کیا کر رہا ہے، وہاں کے پولیس حکام کیا کر رہے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کے افراد سیاسی دھارے میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں، فوری طور پر کالعدم تنظیموں کے افراد کی نامزدگیاں منسوخ کرکے انکے انتخابات میں حصہ لینے پابندی عائد کی جائے، اگر کوئی دہشتگرد کسی یونین کونسل کی نشست لینے میں کامیاب ہوگیا ہے تو اس کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی کامیابی کو کالعدم قرار دیا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ایک قومی المیہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: سندھ حکومت کیسے نوٹس لے سکتی ہے کہ جب بعض اضلاع میں پیپلز پارٹی اور کالعدم تنظیموں نے مشترکہ امیدوار کھڑے کئے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
پیپلز پارٹی کو اپنی پوزیشن حقیقی طور پر واضح کرنی چاہئے، صرف بیان دے دینا کافی نہیں ہے کہ ہم نے کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ سیاسی اتحاد نہیں کیا، کیونکہ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور صوبائی وزیر رانا ثنااللہ پر الزامات لگتے رہے اور بعض جگہ شواہد بھی سامنے آئے کہ وہ کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں، اور آپ نے دیکھا کہ جب پنجاب میں رانا ثناءاللہ کی جگہ شجاع خانزادہ شہید نے وزارت داخلہ کو سنبھالا اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا، اور انہوں نے اسی جدوجہد میں جام شہادت نوش کیا، تو اس کے باوجود بھی اگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت معصوم بن رہی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غفلت ہے، اگر پیپلز پارٹی چند علاقوں میں چند یونین کونسلز کیلئے اگر کسی کالعدم تنظیم کو پنپنے کا موقع دے رہی ہے تو یہ پیپلز پارٹی کی بہت بڑی غلطی ہوگی، ان کے پاس سیاسی افراد موجود ہیں، اگر وہ اہل تشیع افراد کو نمائندگی دینا چاہتی ہے تو وہ پیپلز پارٹی کے اندر موجود اہل تشیع افراد کو آگے لائے، پھر اہل تشیع مکتب فکر میں مجلس وحدت مسلمین موجود ہے، اگر وہ دیوبند مکتب کو نمائندگی دینا چاہتی ہے تو ان کے جمعیت علمائے اسلام سے اچھے تعلقات ہیں، خود پیپلز پارٹی کے اندر مفتی فیروز ہزاروی سمیت کافی دیوبندی علماءموجود ہیں، اس سے پہلے تھانوی صاحب کا خانوادہ انکے ساتھ شریک ہوتا رہا، اور اہلسنت تو پیپلز پارٹی میں بہت بڑی اکثریت میں ہیں، پیپلز پارٹی کو اگر کسی مسلکی سطح پر جا کر تمام ملک میں بسنے والے افراد کو خوش کرنا چاہتی ہے، تو ان کے پاس اہلسنت، اہل تشیع، دیوبند کے علماء، عوام و خواص موجود ہیں، تو پیپلز پارٹی کیوں کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی طرف جا رہی ہے، اگر اسکا مقصد سندھ میں بھائی چارہ قائم کرنا ہے تو اس کے پاس بے شمار افراد موجود ہیں، جو مختلف مسالک کے ہیں، لیکن سیاسی طور پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، تو وہ اپنے ان سیاسی افراد کو نوازے، ناکہ وہ کسی کالعدم دہشتگرد تنظیم کو نواز کر افراتفری پیدا کرے، یہ تو بہت بڑی بے عقلی کی بات ہوگی، اور یہ خود پیپلز پارٹی کیلئے بھی کلنک کا ٹیکہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آخر میں یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان واقعاً ناکامی کی طرف جا رہا ہے کہ جسکی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیرِ صدارت ہونیوالی کور کمانڈرز کانفرنس نے نشاندہی کی۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف پیشہ وارانہ مہارت، انکا اپنا خاندانی وقار، اور انکے ساتھ جو کور کمانڈرز کی ٹیم ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی خوش بختی ہے کہ اس کے پاس اس قدر پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والی، واطن عزیز کے دفاع کیلئے سب کچھ قربان کرنے والی ٹیم موجود ہے، اور ہم دیکھ رہے ہیں، اور میں خود ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوں، میں ملک میں سیاسی عمل کے جاری رہنے کا حامی ہوں، میں جمہوریت کا حامی ہوں، لیکن ہم ملکی بقاء و سالمیت کیلئے پاک فوج کے اہم کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں جہاں سیاسی عمل میں ناکام ہو رہی ہے، وہاں عوام میں پاک فوج کو پزیرائی مل رہی ہے، اس شہر کراچی میں بھی رینجرز سے عوام خوش ہے، تو ایسے میں حکومت کی جانب سے دہشتگردی مخالف نیشنل ایکشن پلان میں رکاوٹ ڈالنا یا اپنے مفادات کیلئے دہشتگردی مخالف کسی آپریشن کو روکنا بہت بڑی غفلت اور نااہلی ہوگی، ہم سمجھتے ہیں کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا، بلکہ تنبیہ کی گئی ہے، اس تنبیہ پر حکمرانوں کر غور کرنا چاہیئے کہ ایسا نہ ہو کہ حکمرانوں کی وقتی مصلحت پسندی سے یا خود غرضی سے ایکبار پھر جمہوریت کو نقصان پہنچے، لہٰذا پاک فوج اپنا کام کر رہی ہے، حکومت اس کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ حکمرانوں کو غور کرنا چاہیئے کہ ایسا موقع کیوں آیا کہ فوج جیسے ادارے کو انہیں تنبیہ کرنا پڑی، لہٰذا اس تنبیہ پر غور کرنا چاہیئے، صرف اسے سیاسی بحث کا شکار نہیں کرنا چاہیئے، بلکہ حکومت کو خامیاں تلاش کرکے انہیں دور کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 499139
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش