0
Friday 27 Nov 2015 19:39
نواز شریف کا لبرل ازم کے حوالے سے بیان آئین کی خلاف ورزی ہے

پاکستان میں داعش کا وجود ہے نہ مستقبل میں کوئی امکان ہے، جنرل (ر) اسلم بیگ

طالبان برملا کہتے ہیں امریکہ اور پاکستان نے انہیں دھوکہ دیا
پاکستان میں داعش کا وجود ہے نہ مستقبل میں کوئی امکان ہے، جنرل (ر) اسلم بیگ
مرزا اسلم بیگ سابق چیف آف آرمی سٹاف ہیں، ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، ایک جرنیل ہونے کیساتھ ساتھ بہترین تجزیہ نگار، دانشور اور محقق بھی ہیں۔ مختلف اخبارات میں کالم نویسی بھی کرتے ہیں۔ افغانستان میں نام نہاد "جہاد" کے حوالے سے بھی ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔ وزیراعظم کے لبرل ازم کے حوالے سے بیان، شام میں بیرونی مداخلت، بھارتی جنگی جنون اور افغانستان میں طالبان کی سر اُٹھاتی قوت کے حوالے سے گہرے تجزیئے کی ضرورت ہے، اور کیا شام میں بڑھتی ہوئی بیرونی مداخلت علاقائی عالمی جنگ کا پیش خیمہ تو نہیں، ان موضوعات پر ہم نے جنرل (ر) اسلم بیگ کیساتھ ایک نشست کی جس کا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے لبرل پاکستان کی بات کی جس پر مسلسل تنقید ہو رہی ہے، ایک اسلامی ریاست میں لبرل ازم کا قیام کیا حیثیت رکھتا ہے؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
میں خود حیرت میں مبتلا ہوں کہ وزیراعظم نے یہ بات کس طرح کہہ دی ہے۔ لبرل ازم سے نہ صرف نظریہ پاکستان کی نفی ہوتی ہے بلکہ یہ ہمارے آئین کے بھی خلاف ہے۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ یہاں نظام حکومت جمہوری ہو گا۔ جس کی بنیادیں قرآن و سنت کے اصولوں پر قائم ہوں گی۔ اگر ہم صرف جمہوریت کی بات کریں اور قرآن و سنت کو الگ رکھ دیں تو پاکستان کو ایک اسلامی مملکت کہنے کا حق باقی نہیں رہے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنے بیان کو درست کریں۔

اسلام ٹائمز: جمہوریت ہو یا آمریت، پچھلے 68 برسوں میں قومی تعمیر و ترقی کے معاملات میں بہتری نہیں آئی، آپ کے خیال میں پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ ایسا کون سا نظام ہے جس کو اپنا کر ہم اپنی نظریاتی اساس کی جانب لوٹ سکتے ہیں؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان کے اردگرد جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، ان کا ہمارے ملک پر کیا اثر ہوتا ہے۔ روس، چین اور ایران کی اس خطے میں اہمیت، امریکہ کا یہاں سے پسپا ہو کر ایشیائی پیسفک چلے جانا، پاکستان کی چین کیساتھ نئی حکمت عملی، بھارت کی بالادستی کا خواب چکنا چور ہونا، ایسی تبدیلیاں ہیں جن کے سبب ہمارے ملک کے اندر سیاسی افراتفری کنٹرول میں آجائے گی۔ ہم بے صبرے لوگ ہیں، تھوڑے دن جمہوریت کا تجربہ کرتے ہیں، پھر گھبرا کر اسے توڑ کر الگ کر دیتے ہیں اور فوجیوں کو لا بٹھاتے ہیں۔ یوں معاملہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔ اب فوج جمہوریت کے استحکام کیلئے جو کردار ادا کر رہی ہے اس سوچ اور روایت کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔

لبرل ازم کے حوالے سے یہ امر بھی قابل تشویش ہے کہ آج ہمارے سکولوں میں دین نہیں پڑھایا جا رہا ہے بلکہ صرف پاکستانیت پڑھائی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے بھی لبرل ازم کو شہہ ملی۔ بچوں کو دینی تعلیم دینے کی طرف دھیان نہیں، کہا جاتا ہے کہ بچوں کو آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ خود فیصلہ کر سکیں جبکہ ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ جب بچہ سمجھنے لگے تو اسے بتاؤ کہ تمہارے نظریات کیا ہیں۔ زندگی میں اسلام کا کیا مقام ہے۔ آج ہم نے اپنی پہچان چھوڑ دی ہے۔ نظام اسلام کو تو نافذ کرنا بہت بڑی بات ہے کم ازکم بچوں کو بنیادی چیزیں تو بتائی جائیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ہم ہیں کون۔ جب ہمیں اپنی پہچان ہی نہ رہی تو ہماری بنیادیں کمزور ہوں گی۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑا ٹکراؤ لبرل قوتوں اور اسلام نافذ کرنے والوں کی جدوجہد کرنیوالوں کے درمیان ہے، یہ تصادم تشویشناک ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا خطے میں امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹیجک پارٹنر شپ پاکستان کیلئے سود مند ہے؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
ایک تو اس سے مودی کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلم دشمن ہے، اور اس کی پالیسی بھی اس کی سوچ کے مطابق ہے، ہندو توا یا ہندو ازم کی بالادستی اس کا عین مقصد ہے۔ حالانکہ یہ پالیسی خود بھارت کیلئے نقصان دہ ہے۔ بھارت کی 5 ہزار سال کی تاریخ پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ جب بھی یہاں اس کی قسم کی سوچ پیدا ہوئی بھارت اندر سے ٹوٹا ہے۔ اب ردعمل شروع ہو گیا ہے۔ مودی بہار میں الیکشن ہار گیا ہے، لوگ جانتے ہیں کہ ایسی تنگ نظر ہندو ذہنیت اگر یہاں غالب آ گئی تو اندر سے ایسے اختلافات پیدا ہوں گے کہ بھارت کا ایک متحدہ ملک کے طور پر برقرار رہنا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ وہاں کے اہل فکر و دانش یہ جانتے ہیں کہ سیکولر ازم ہی بھارت کو ایک نقطے پر قائم رکھ سکتا ہے۔ لہذٰا بہت جلد تبدیلی آئے گی۔

امریکہ اور بھارت کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنر شپ 2005ء میں ہوئی جب امریکہ نے یہ اعلان کیا کہ وہ افغانستان سے بنگلہ دیش تک تمام ممالک کو بھارت کے تابع کرنا چاہتا ہے لیکن امریکہ اپنے اس مقصد میں ناکام ہوا، کیوں کہ اسے افغانستان میں اپنی شکست نظر آ گئی اور 2010ء میں اپنی اسٹریٹیجک پاور کو اٹھا کر ایشیائی پیسیفک کے علاقے میں لے گیا۔ بھارت کا بھی بوریا بستر گول ہو سکتا ہے، بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں رہ کر وہ پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کل ایک ہوں گے، ہمارے خلاف بھارت اور امریکہ کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ بدلے ہوئے حالات کے تحت اس خطے میں روس اور چین جس طرح سے آگے آ رہے ہیں وہ ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی ہے۔ یہاں ایک نئی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: شام میں روس کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے بعد کیا وہاں علاقائی عالمی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے، شام میں جاری تنازع کا حل کیا ہے؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ روس کی یہ بڑی دانشمندی ہے کہ وہ شام میں گیا ہے، آج وہ شام میں گیا ہے تو کل وہ عراق میں بھی جائے گا۔ دراصل امریکہ کی پالیسیوں کی وجہ سے شام اور عراق میں بدامنی ہے جبکہ روس نہیں چاہتا کہ ان علاقوں میں بدامنی ہو، اگر ان میں بدامنی ہوتی ہے تو لیبیا اور یمن کی طرح ایک بڑی افراتفری پیدا ہو سکتی ہے جس کے نتیجہ میں پورا مشرق وسطیٰ بکھر جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا شام میں روس کی مداخلت وہاں استحکام لائے گی؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
روس بشارالاسد کو اس طرح مضبوط کرنا چاہتا ہے جس سے علاقے میں شام کا ایک ریاست کے طور پر وجود قائم رہے۔ اس طرح وہ عراق بھی جائے گا۔ پھر وہ دونوں سے کہے گا کہ آپ دونوں مل کر داعش کیخلاف حرکت میں آو، اس میں باقی دنیا بھی ان کا ساتھ دے گی، کیوں کہ داعش سے سب کو خطرہ ہے۔ روس کی یہ پالیسی بڑی دور رس اثرات کی حامل ہے۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عالمی جنگ کی طرف جا رہا ہے حالانکہ ایسا کوئی ارادہ نہیں، وہ افغانستان کی طرح یہاں پھنسنا بھی نہیں چاہتا، اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بکھرتے ہوئے ممالک یعنی شام اور عراق کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دے اور پھر یہ پڑوسی ممالک اپنی طاقت استعمال کر کے داعش کو ختم کریں۔ دنیائے اسلام کے لئے ایک مثبت سوچ ہے، اور آنے والے وقتوں میں ایک واضح تبدیلی نظر آئے گی۔

اسلام ٹائمز: اطلاعات کے مطابق طالبان افغانستان کے 80 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں اور وہاں انہوں نے شرعی قوانین بھی نافذ کر دیئے ہیں، کیا طالبان اور امریکہ کے درمیان 15 سالہ طویل لڑائی فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
افغانستان کے حالات اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وہاں بڑی تبدیلی آئے گی جو 1990ء میں سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد آنیوالی تھی۔ افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد وہاں سازشوں کے نتیجہ میں وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کے سبب امن و امان قائم نہیں ہو سکا۔ پھر انہی کے اندر سے طالبان اٹھے اور انہوں نے تقریباً 90 فیصد افغانستان پر اپنی حکومت بنا لی تھی۔ لیکن امریکہ نے نائن الیون کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا، اس کے بعد طالبان اور مجاہدین نے فیصلہ کیا کہ وہ دونوں مل کر امریکی جارحیت کیخلاف جدوجہد کریں گے۔ یہ بڑی طویل جنگ تھی، جو تقریباً 15 سال جاری رہی۔ انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اور آج وہ اس مقام پر پہنچے ہیں کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کل افغانستان کے حکمران طالبان ہی ہوں گے۔ 1990ء میں روس نے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی لیکن امریکہ نے ابھی اپنی شکست تسلیم نہیں کی۔ وہ وہاں سے نکل جانے کے باوجود بھی اپنی ایک چھوٹی سی عسکری قوت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ آپ نے درست کہا کہ طالبان نے ایک حکمت عملی کے تحت آہستہ آہستہ افغانستان کے دیہی علاقوں تقریباً 80 فیصد علاقوں پر اپنا اثرورسوخ قائم کر لیا ہے۔ جہاں انہی کا نظام چلتا ہے۔ اب سردیوں کے موسم میں وہ اپنے اس تسلسل کو اور زیادہ بڑھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں اگلے سال افغانستان میں ایک بھرپور جنگ متوقع ہے؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
کچھ عرصہ پہلے طالبان نے کابل کے ریڈ زون میں حملہ کر کے اپنے 300 قیدی چھڑوا لئے تھے۔ اس سے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ وہ کہیں بھی حملہ کر کے قبضہ کر سکتے ہیں۔ پھر قندوز پر حملہ کر کے 500 قیدیوں کو چھڑا لیا گیا۔ جب دباؤ بڑھا تو طالبان پیچھے ہٹ گئے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصد یہ نہیں کہ شہروں پر قبضہ کر کے ایک بڑی جنگ کا سامان پیدا کریں۔ کیوں کہ ایسا کرنا ان کیلئے نقصان دہ ہے۔ آنیوالے وقتوں میں ان کی یہ حکمت عملی ہے، انشاءاللہ اگلے سال یہ صورتحال بدل چکی ہو گی اور پورے علاقے پر طالبان کا تسلط ہو گا۔ پھر یہ کہ اب نئی قیادت کی نئی سوچ ہے، یہ ویسی غلطیاں نہیں کریں گے جو 1990ء میں کی گئیں، اب وہ آپس میں نہیں لڑیں گے۔ دوسرا یہ کہ اس وقت کچھ لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں، اب ایسا نہیں ہو گا۔ جہاں تک ممکن ہے ہر ایک کو معافی دی جائے گی۔ جیسے قندوز میں انہوں نے اعلان عام کیا کہ کسی سے کوئی زیادتی نہیں ہو گی، نہ قتل عام ہو گا، اس کے بڑے اچھے اثرات پیدا ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب ان خبروں میں کس حد تک صداقت ہے کہ طالبان اب تاجکستان کی سرحد پر واقع شیر خان ڈرائی پورٹ پر قبضہ کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ امریکی فوج کی سپلائی لائن بلاک کر سکیں۔؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
ان کی موجودہ حکمت عملی یہ ہے کہ افغانستان حکومت کے زیراتنظام بڑے بڑے شہروں کا محاصرہ کیا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان مقامات کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ شیر خان ڈرائی پورٹ سے انہوں نے نیٹو کی سپلائی کے تقریباً 500 ٹرک پکڑے جس سے انہیں اپنے لوگوں کو مسلح کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کابل جانیوالے راستے میں بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی لیکن پھر پیچھے ہو گئے۔ ابھی وہ کھلم کھلا جنگ کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ روس کیخلاف افغانستان کی جنگ دراصل آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی مشترکہ جنگ تھی، کیا افغانستان کی قوم اور دنیا بھر سے آئے جہادیوں کا اس جنگ میں کوئی کردار نہیں تھا؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
میں نے کہا تھا کہ یہ جنگ امریکہ اور پاکستان نے محض اپنے انٹیلی جنس اداروں کے بل بوتے پر لڑی، ہماری فوج نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ ہمارے کسی سویلین ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔ سوائے افغان سیل کے، آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے روسیوں کے خلاف جنگ کی حکمت عملی بنائی اور اس پر عمل پیرا رہے۔ اس وقت ساتھ مجاہدین لیڈر تھے اور جب 1990ء میں روسی پسپا ہوئے تو سی آئی اے کی رپورٹ یہ ہے کہ 70 ممالک سے تقریباً 60 ہزار جہادی اپنے ملکوں میں واپس گئے۔ چنانچہ یہ کہنا درست نہیں کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے یہ ساری جنگ لڑی۔ ان اداروں نے مدد ضرور کی، لیکن اصل کام دوسرے ملکوں سے آئے مجاہدین نے کیا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان اور افغانستان میں داعش کا نیٹ ورک کون کنٹرول کر رہا ہے، اور وہ اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ پاکستان میں داعش کو کوئی خطرہ نہیں، افغانستان میں تو داعش اور افغان جہادیوں کے درمیان نظریاتی اختلافات ہیں۔ یہ محض دشمنوں کا پروپیگنڈہ ہے کہ پاکستان میں داعش مضبوط ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ ابوبکر البغدادی کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اس سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں کیا طالبان سیاسی اور عسکری اعتبار سے 90ء کی دہائی سے زیادہ میچور ہو چکے ہیں ؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
جی میں ان کی موجودہ قیادت میں بہت بڑی تبدیلی دیکھتا ہوں، اپنے ایک حالیہ مضمون میں، میں نے ملا جلال الدین حقانی کے بیان کا حوالہ دیا تھا کہ 2003ء میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد انہوں نے اپنی حکمت عملی بتائی کہ وہ کس طرح جنگ لڑیں گے اور کیسے ماضی کی غلطیوں سے بچتے ہوئے اپنے لوگوں کو متحد رکھ کر جدوجہد کریں گے۔ بالکل ایک ماڈل کے طور پر انہوں نے جنگ کی ہے۔ آج اس امر کے باجود کہ ملا منصور کیخلاف کچھ اور لوگ بھی کھڑے ہو گئے ہیں، ایسے لوگ جو پیسہ ملنے پر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی لیڈر ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت طالبان کی قیادت ملا منصور کے تحت متحد ہے۔ یہ صورتحال اس وقت نہیں تھی جب وہ سوویت یونین کیخلاف لڑے۔ ان 35 سال میں جو نئے طالبان آئے ہیں وہ اسی جنگ کے سائے میں پلے بڑھے ہیں۔ انہوں نے زندگی میں اور کچھ نہیں دیکھا سوائے جنگ کی بربادی اور تباہی کے۔ یہ بڑے سخت گیر ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ ان سے لڑنے کی جرات کسی میں نہیں۔ ان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرتا۔ چنانچہ بڑی طاقتوں کیساتھ لڑائی کے 35 سالہ تجربہ نے ان کو ایک مضبوط قوت بنا دیا ہے۔ ان کو پوری طرح احساس ہے کہ ان کو کس طرح دھوکہ دیا گیا ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں امریکہ اور پاکستان نے ہمیں دھوکہ دیا۔

اسلام ٹائمز: کیا ملا عمر کے بعد طالبان کی نئی قیادت کو پاکستان، چین یا کوئی اور ملک دوسرا ملک مذاکرات کی میز پر لا سکے گا؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
طالبان سے پاکستان کے تعلقات بہت مضبوط ہیں، انہوں نے خصوصاً ملا منصور نے احتراماً بات مان لی اور مری میں مذاکرات ہوئے۔ لیکن افغانستان میں فوری ری ایکشن ہوا، یہ ردعمل انہی نوجوانوں کی طرف سے آیا جو آج طالبان قیادت کا ہارڈ کور ہیں۔ انہوں نے ملا منصور کو کہا کہ آپ کو کس نے مذاکرات کا اختیار دیا ہے۔ جبکہ ملا عمر کا یہ اعلان تھا کہ اس وقت تک کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے جب تک قابض فوجوں کا آخری بندہ ہماری سرزمین سے نکل نہیں جاتا۔ دوسرا مطالبہ کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ختم کی جائے۔ ہم یہاں اسلامی نظام قائم کریں گے۔ اس پر ملا منصور نے فوراً یہ اعلان کیا کہ وہ اب کسی مذاکرتی عمل میں شریک نہیں ہوں گے جب تک یہ دو شرطیں پوری نہیں ہوں گی۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ درست ہے کہ قندوز پر حملہ امریکہ نے خود کرایا ہے تاکہ اسے افغانستان میں قیام کا مزید جواز مل سکے؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
جواز تو ان کے پاس موجود ہے۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے کہ قابض فوجیں اس وقت تک افغانستان میں رہیں گی جب تک ان کی مرضی کے مطابق حکومت مضبوط نہ ہو جائے لیکن اب ایسا امریکہ کے لئے ممکن نہیں۔ وہ خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، امریکی انتظامیہ کا حصہ رہیں گے؟ فیلڈ میں تو جائیں گے ہی نہیں، لڑے گی افغان قوم اور مسلمان مسلمان کا خون بہائے گا؟
جنرل (ر) اسلم بیگ:
روس نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست مان لی تھی اور چلا گیا تھا امریکہ کو آج سے 5 سال پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ شکست کھا چکا ہے لیکن وہ مختلف سازشوں کے ذریعے کوشش کر رہا ہے کہ یہاں طالبان کی حکومت نہ بنے۔ اب اس کے بہانے اور مفروضے کام نہیں آئیں گے۔ اور حالات بدلیں گے۔ طالبان بہت سوچ سمجھ کر اقدامات کر رہے ہیں، طالبان کی آئندہ حکمت عملی بڑی واضع ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ پہلے ہم نے شمالی اتحاد کیساتھ معاملات طے نہیں کئے تھے اب وہ غلطی نہیں دوہرائیں گے۔ اب ہم سب لوگوں کیساتھ بیٹھ کر ایک وسیع البنیاد حکومت بنائیں گے۔ ایک اتحادی حکومت تشکیل دیں گے جس میں ہر ایک کو اس کا حق ملے گا۔ امریکہ نے شمالی اتحاد کو لڑنے کیلئے بہت سے ہتھیار دیئے ہیں لیکن وہ اب نہیں لڑیں گے۔ پختون ہو یا غیر پختون ان کے اندر افغانی قومیت بڑی واضح ہے۔ پچھلے 35 سال میں اتنی افراتفری رہی ہے لیکن کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہاں کے تاجک جا کر تاجکستان سے مل جائیں یا پھر ازبک یہاں سے ازبکستان چلے جائیں۔ سب ایک قوم ہو کر رہنا چاہتے ہیں۔ یہ سوچ آنیوالی طالبان حکومت کیلئے بہت بڑی قوت ہے۔
خبر کا کوڈ : 500780
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش