0
Saturday 19 Dec 2015 18:17

رہبر معظم کے خطوط نے مسلمانوں کی عزت بچائی اور انکا دفاع کیا، مولانا غلام محمد گلزار

رہبر معظم کے خطوط نے مسلمانوں کی عزت بچائی اور انکا دفاع کیا، مولانا غلام محمد گلزار
مولانا غلام محمد گلزار کا تعلق وسطی کشمیر شالنہ پانپور سے ہے، ابتدائی تعلیم مقبوضہ کشمیر ہی میں حاصل کی، پھر اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کیلئے 1992ء ہندوستان، اور پھر جنوری 1998ء میں اسلامی جمہوری ایران کا رخ کیا، 15 سال تک وہاں زیر تعلیم رہ کر تقریباً درس خارج تک محصل رہے، یہاں تک کہ اکتوبر 2012ء میں سرزمین انقلاب (قم) سے بعنوان مسئول دینی و تربیتی پیام ایجوکیشنل اکیڈمی شالنہ پانپور کشمیر واپس لوٹ آئے اور آجکل وہیں مصروف خدمت ہیں، اسکے علاوہ علماء کشمیر کے واحد پلیٹ فارم ’’مجمع اسلامی کشمیر‘‘ کے روح رواں بھی ہیں، مجمع اسلامی کشمیر، کشمیری طلباء کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے، جس کے ساتھ کشمیر سے لے کر قم المقدس تک کم و بیش 150 علماء کشمیر وابستہ ہیں، اس تنظیم کی بنیاد 2007ء میں ایران میں زیر تعلیم طلباء کی بےانتہا جدوجہد کے بعد پڑی، جسکے بعد سے مجمع اسلامی کشمیر نے اپنی دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کو بنحوہ احسن انجام دیتے ہوئے قوم کی رہنمائی اور مثالی معاشرہ کی ترویج کیلئے مختلف میدانوں میں بہت سارے مفید قدم اُٹھائے، مولانا غلام محمد گلزار جموں و کشمیر کے علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اہم ترین رول نبھائے ہوئے ہیں، اسلام ٹائمز نے مجمع اسلامی کے روح رواں غلام محمد گلزار سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: یمن جو کہ سالہا سال سے سعودی مظالم و جارحیت کا شکار ہے، اس حوالے سے آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
دراصل سعودی عرب یمن میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے، دنیا میں بدلتے ہوئے حالات خاص طور پر مشرق وسطٰی میں انقلاب اسلامی ایران کے اثرات کے سبب سعودی حکمرانوں کو اپنے تخت و تاج ہلتے نظر آنے لگے، تو دنیا خاص طور پر عالم اسلام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر مختلف بہانوں سے اپنے گھر کی جنگ کو یمن لے گیا، تاکہ اپنی زعم باطل میں اپنے تخت و تاج کی در و دیواروں کو استحکام بخشے، ورنہ کیا وجہ ہے یہی سعودی عرب سوریہ میں دہشت گروں کی مالی و اسلحہ جاتی مدد اس لئے کر رہا ہے کہ وہ آزادی خواہ ہیں، لیکن یمن میں حوثی شیعہ جو ایک ایسی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، جس کی کوئی نہ قانونی حیثیت ہے نہ اخلاقی، تو انہیں باغی قرار دے کر چھ مہینوں سے ہزارہا بم گرا کر ہزاروں معصوم انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا، آخر یہ دہرا معیار کیوں اور کس لئے ہے۔

اسلام ٹائمز: شام و عراق میں داعش کی پسپائی کیا جلد ممکن ہے یا یہ فتنہ مزید طول پکڑ لے گا۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
میری نظر میں داعش کی پسپائی زیادہ جلدی نظر نہیں آرہی ہے چونکہ مغربی و عربی ممالک داعش کے خلاف فوجی کارروائی کا اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعہ بس ایک ڈھونگ رچا رہے ہیں، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہی داعش کے موجد و بانی ہیں اور آج بھی کمک کار ہیں، میرے خیال میں یہ ممالک داعش کے خلاف کارروائی کے بہانے داعش کی مالی، اطلاعاتی، اسلحہ جاتی مدد کر رہے ہیں، داعش کے تیل کے اصلی خریدار بھی یہی ممالک ہیں، چونکہ ان ممالک کے مفادات داعش کی بقاء میں ہیں، اس لئے فی الحال داعش کی پسپائی کے آثار مستقبل قریب میں نظر نہیں آتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: میلاد النبی (ص) یا ہفتہ وحدت کی مناسبت اور اس موقعہ پر جاننا چاہیں گے کہ اتحاد اسلامی کے مواقع کس قدر اس مناسبت پر مہیا ہوجاتے ہیں۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
چونکہ تمام مسلمانوں کے معنوی اور روحانی مرکز آنحضور (ص) ہی ہیں اور سب مسلمان خود کو آنحضرت (ص) کے ہی امتی اور پیروکار مانتے ہیں تو میلاد النبی (ص) مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے سے نزدیک آنے اور باہمی اختلاف کو دور کرنے کے لئے ایک بہترین فرصت ہے، نیز امام راحل (رہ) کے ذریعہ اتحاد اسلامی کے لئے قرار دیا گیا ’’ہفتہ وحدت‘‘ بھی اخوت و بھائی چارگی بین المسلمین کے لئے ایک استثنائی فرصت ہے، میلاد النبی (ص) کے یہ ایام وحدت مسلمین کے حوالہ سے آنحضرت (ص) کی سیرت طیبہ اور اتحاد اسلامی کے بارے میں تعلیمات قران کا مطالعہ کرنے کے لئے بھی نہایت موزون ہیں، جو اتحاد امت کو تشکیل پانے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایسے سنگین و تشویشناک حالات میں مسلمانوں کے تمام نظریوں میں اتحاد اسلامی اور اخوت و ہمدلی کی کس قدر ضرورت ہے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
موجودہ پُرتلاطم دور میں (جہاں پیکر اسلام کے ہر عضو سے خون ٹپکتا ہے) ہر دور سے زیادہ اتحاد امت کی ضرورت سب پر عیاں ہے، آج عالم استکبار خود چین و سکون کی زندگی بسر کر ریا ہے اور ان کے ممالک آباد و مزید ترقی کی راہ پر رواں دواں ہیں، مگر اس کے برعکس آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں مسلمان حکومتیں تو کہیں انفرادی دہشت گردی کا شکار ہیں، دشمنوں کی سازشوں کے نتیجہ میں آج مسلمان بھائی بھائی کا دشمن بن بیٹھا ہے، نیز اکثر اسلامی ممالک جمود کے شکار ہیں اور بہت سارے اسلامی ممالک من جملہ یمن، سوریہ، لیبیا، عراق، مصر، فلسطین وغیرہ کی بنیادی ساخت و ساز اور ڈھانچہ (اسٹرکچر) مٹی کے ڈھیروں میں تبدیل ہوچکا ہے، جن کو بھرنے میں صدیاں لگ سکتی ہیں، تو ایسے حالات میں مزید تباہی سے بچنے اور درپیش پس ماندگیوں سے باہر آنے کا راز صرف اور صرف اتحاد اسلامی و اخوت اور برادری ہی میں مضمر ہے۔

اسلام ٹائمز: رہبر معظم کا مغرب اور یورپ کے نوجوانوں کو دوسرا کھلا خط بھی ارسال ہوا، اس خط کی اہمیت و افادیت جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
اللہ یعلم حیث یجعل رسالتہ... یعنی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کسے اپنی رسالت یعنی ذمہ داری دے، رہبر معظم نے نہایت اور بے حد حساس حالات جب اس چیز کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی، اس خط کو یورپی جوانوں کے نام لکھا، چونکہ خود استعماری طاقتوں کے ذریعے سادہ لوح انسانوں اور فسطائی سوچ افراد کے ذریعے کرائے گئے، یورپ ہو یا عالم اسلام ان دہشت گردانہ حملوں سے اسلام و مسلمان پوری دنیا میں بدنام ہو رہے تھے اور مسلمان اور دہشت گردی ہم پلہ اور مترادف لفظ تصور کئے جانے لگے تھے، ایسے میں اسلامی دنیا سے ایسی غلط سوچ کا سدباب اور ازالہ نیز دنیا باالخصوص یورپی عوام کے لئے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے لئے کسی با اثر اور روحانی شخصیت کا میدان میں آنا بے حد ضروری تھا، تو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس روحانی و معنوی اور الٰہی انسان نے بروقت میدان میں آکر اسلام و مسلمانوں کی عزت بچائی اور جانانہ اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کیا، یہ رہبر معظم کے خطوط کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا کا ذی شعور انسان اسلام اور دہشت گردی کو الگ الگ دو چیزیں سمجھتا ہے اور تمام انسان یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے، جس کا دہشت گردی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ سب رہبر معظم کے خطوط کا ہی اثر ہے۔

اسلام ٹائمز: نائجیریا میں اہل تشیع پر ہو رہی جارحیت پر آپکا تجزیہ کیا ہے۔؟
مولانا غلام محمد گلزار:
میرے خیال میں نائجیریا میں شیعوں کا قتل عام صرف سعودی خائنوں کی انقلاب اسلامی اور شیعوں کی ابھرتی ہوئی طاقت و قوت سے ’’بوکھلاہٹ‘‘ کا نتیجہ ہے، جو اپنے برسوں سرمایہ گذار مبلغوں کی محنتوں اور اپنی جمودی و فسطائی سوچ کی ترویج کے لئے بلینوں خرچ کئے گئے ڈالرز کو ضائع ہونے کو برداشت نہ کرسکے، تو اس الٰہی و حق کی آواز کو دبانے کے لئے روز قدس و بارہ دسمبر جیسے حملے کروائے گئے، ورنہ یہ کہاں کی انسانیت ہے، کہاں کا انصاف ہے، یہ حملے سراسر انسان دشمنی و اسلام دشمنی پر مبنی ہیں، ایسی صورتحال میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم مظلومین کی حمایت میں صدائے احتجاج بلند کریں، اور دشمن کی ناپاک سازشوں کے خلاف میدان میں اتر آئیں، یہی فرق انسان اور حیوان میں ہوتا ہے، انسان نہ صرف اپنے لئے جیتا ہے بلکہ اس کے شانوں پر دوسروں کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 506298
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش