0
Tuesday 22 Dec 2015 22:30
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں رکاوٹ کی ذمہ دار حکومت ہے

ایران مخالف سعودی فوجی اتحاد مسلم دنیا کو تقسیم کریگا، پاکستان کو اس اتحاد سے دور رہنا چاہیئے، سابق سفیر ظفر ہلالی

ایران، عراق اور شام کے بغیر سعودی اتحاد کا مؤثر ہونا ناممکن ہے
ایران مخالف سعودی فوجی اتحاد مسلم دنیا کو تقسیم کریگا، پاکستان کو اس اتحاد سے دور رہنا چاہیئے، سابق سفیر ظفر ہلالی
جناب ظفر ہلالی معروف پاکستانی سیاسی تجزیہ نگار اور سفارت کار ہیں، وہ یمن، اٹلی سمیت مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ایران سے ہے، جو بعد ازاں بھارت آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کے والد آغا ہلالی اور چچا آغا شاہی بھی مشہور سفارتکار تھے۔ وہ کالم نگار بھی ہیں، ان کے کالم مشہور پاکستانی و بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے جناب ظفر ہلالی کے ساتھ سعودی فوجی اتحاد اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: حال ہی میں سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانیوالے 34 ممالک کے فوجی اتحاد کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔؟
ظفر ہلالی:
جو چیز بھی سعودی عرب بناتا ہے، وہ ایران مخالف ہوتی ہے اور جو بھی اتحاد ایران مخالف ہو، پاکستان کو اس میں کبھی بھی شامل نہیں ہونا چاہیئے، ایران مخالف کسی بھی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہیئے، لہٰذا میں اس بات کا شدید اور سو فیصد مخالف ہوں کہ پاکستان سعودی فوجی اتحاد کی رکنیت لے، پاکستان کو ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہیئے کہ جس سے پاک ایران تعلقات خراب ہو جائیں۔ پھر آپ داعش کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں، وہ داعش جو نظریاتی حوالے سے وہابیت کے انتہائی نزدیک ہیں، یعنی لڑنے والے سعودی عرب اور داعش ایک ہی نظریات یعنی وہابیت کے حامل ہیں۔ دیکھیں عرب ممالک ختم ہوچکے ہیں، شام، عراق، لیبیا تباہ ہوچکے ہیں، اردن تو امریکا کا پٹھو ہے، پھر یہ جو خلیجی ممالک ہیں یہ تو امریکی پیٹرول اسٹیشنز ہیں، یہ خلیجی ممالک تو سپر مارکیٹ ریاستیں ہیں، ان کی اس کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: شام اور عراق جو سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ہیں اور ایران بھی، یہ تینوں ممالک اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں، کیا انکے بغیر یہ اتحاد مؤثر ثابت ہوگا۔؟
ظفر ہلالی:
ایران، عراق اور شام کے بغیر سعودی اتحاد کا مؤثر ہونا ناممکن ہے اور یہ سعودی فوجی اتحاد مسلم دنیا کو تقسیم کریگا، اس لئے ہمیں پاکستان کو اس اتحاد سے دور رہنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کا کردار سعودی فوجی اتحاد کے حوالے سے کیا ہونا چاہیئے۔؟
ظفر ہلالی:
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ پاکستان کسی بھی ایران مخالف یا سعودی مخالف اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتا، نہ بننا چاہیئے۔ دیکھیں ہم بہت خوش ہیں کہ روس مشرق وسطٰی میں آکر امریکی دباؤ کو کم کر رہا ہے، روس اور چین مستقبل کی عالمی طاقتیں ہیں، پاکستان کے ان دونوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈرز سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی دوستی کسی کے ساتھ ہوجائے، تو وہ ملک پاکستان کا دوست بن جائے، یہ درست نہیں۔ عوام کو بتایا جائے کہ سعودی عرب کے ساتھ نواز شریف کی کیا دوستی ہے، وہ تو ان کا نوکر ہے، تو ہمارے لیڈرز ایسے ہیں، یہ کیا حکمران ہیں، یہ تو نوکر ہیں۔ اس لئے ہم ہر وقت سعودی عرب کے حوالے سے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں، ورنہ جب سب سے پہلے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب نے فوجی اتحاد میں شمولیت کیلئے حکومت پاکستان سے پیشگی مشاورت نہیں کی، ہم سے تو کسی نے پوچھا ہی نہیں، ہم اس کی جانچ پڑتال کرینگے، جس پر نواز شریف نے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری سے ناراضی کا اظہار کیا، برہم ہوا، اور وضاحت طلب کرلی کہ سیکرٹری خارجہ نے ایسا کیسے کہہ دیا، یہ ہمارے حکمرانوں کا حال ہے، یہ درحقیقت سعودی عرب کے نوکر ہیں۔

اسلام ٹائمز: موجودہ ملکی صورتحال اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
ظفر ہلالی:
معذرت کے ساتھ، آہستہ آہستہ پاکستان ایک ناکام ریاست بننے کیساتھ ساتھ ایک کرمنل انٹرپرائز (criminal enterprise) بن گیا ہے، یہاں صرف ایک ہی ادارہ کام کا ہے اور وہ ہے فوج، جس کی کارکردگی کے باعث جیسا کے وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن اسٹریٹ کرائم، موبائل چھننے کے واقعات میں پھر اضافہ ہو رہا ہے، مجھے نہیں پتہ کہ وزارت کس طرح سے اعداد و شمار اکٹھے کرتی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کی کوئی سائنٹفک بنیاد نہیں ہے، ان کی بنیاد صرف وہ اعداد و شمار ہیں جو پولیس کو رپورٹ کیا جاتا ہے، جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر عوام پولیس کو رپورٹ کرتے ہیں، کیونکہ پولیس نااہلی کی وجہ سے وہ اسے بیکار سمجھتے ہیں، عوام سمجھتی ہے کہ چوروں کو پولیس اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، لہٰذا ان کو رپورٹ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ پورا سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔ قانون، عدلیہ، معیشت اور معیشت تو چھوڑیں، ہمارے ملک میں تو جادوئی معیشت ہے (voodoo economics)، ہمیں کہا جاتا ہے کہ ملکی معیشت گر رہی ہے، برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے، لیکن کرنسی مضبوط ہو رہی ہے، یعنی یہ تو جادوئی معیشت (voodoo economics) ہوگئی نا، کس ملک میں آپ نے سنا ہے کہ برآمدات گر رہی ہے، مصنوعات کی تیاری میں کمی ہو رہی ہے، لیکن کرنسی مضبوط ہے۔

کس ملک میں آپ نے چار الگ الگ صوبوں میں چار الگ الگ تعلیمی نظام دیکھے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی کی ڈگری پشاور یونیورسٹی تسلیم نہیں کرے گا، پھر ایسی صورتحال میں آپ کیا کرسکتے ہیں، آپ کہاں جائیں گے، ہمارے ہاں سب کچھ کھیل کود، ہنسی مذاق ہوگیا ہے۔ ایک تو آپ تاریخی ریاست نہیں ہیں، آپ کے وجود کا پورا انحصار ملکی رہنماؤں کی حکمت پر ہے، مثال کے طور پر ملک یوگو سلاویہ کو کیا ہوا، پہلی جنگ عظیم کے بعد بنا اور بکھر گیا، ختم ہوگیا، مختلف ممالک میں تقسیم ہوگیا، اسی طرح سوویت یونین بھی بکھر گیا، وہ تاریخی ریاست نہیں تھا، روس تاریخی تھا، اس لئے روس کبھی نہیں جائیگا، اسے آپ شمال، جنوب، مغرب مشرق میں تقسیم کر دیں، مگر روس، روس رہے گا، سوویت یونین کو کیا ہوا ستر سال کے بعد، حالانکہ انہوں نے اپنے لوگوں کو سو فیصد شرح خواندگی کے ساتھ بہترین تعلیمی نظام دیا، طبی سہولیات، سڑکیں، ترقی، کیا کیا انہوں نے نہیں دیا، مگر ان کے رہنما بے وقوف تھے، کرپٹ تھے، لہٰذا ختم ہوگئے، اسی طرح بھارت بھی تاریخی ریاست نہیں ہے، اس کے رہنما بھی بے وقوفی کا مظاہرہ کرینگے تو وہ بھی ٹوٹ جائیگا۔

اسلام ٹائمز: آپریشن ضرب عضب کی راہ میں سیاسی حلقوں کیجانب سے رکاوٹوں اور منفی دباؤ میں اضافہ محسوس کیا جا رہا ہے، حکومت بدعنوان سیاستدانوں کے حوالے سے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔؟
ظفر ہلالی:
وفاقی حکومت کی کیا بات کریں، صوبائی حکومتیں ہی خود بہت بڑا مسئلہ ہیں، آئین ایسا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو سارا اختیار دے دیا گیا ہے، دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر یہاں چوری، کرپشن ہو رہی ہے تو آپ لٹیروں، بدعنوانوں کو کبھی نہیں پکڑ سکتے، اس لئے کہ آئینی ترامیم کے بعد اختیارات اور طاقت تو انہی کے ہاتھ میں آگئی ہے، سسٹم تو تباہ ہوگیا ہے، کیونکہ آپ چور کو کہہ رہے ہیں کہ اپنے خلاف تحقیقات کرو، تو سسٹم کیسے چل سکتا ہے۔ واضح مثال آپ کے سامنے کہ سندھ حکومت نے رینجرز کو حاصل خصوصی اختیارات کو محدود و مشروط کر دیا ہے، مثال کے طور پر آپ دہشتگردوں کو پکڑنے جا رہے ہیں، راستے میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی لوٹ مار کر رہا ہے، وہ دہشتگرد نہیں ہے مگر ڈاکو ہے، لیکن آپ صرف دیکھ سکتے ہیں، اسے پکڑ نہیں سکتے، کیونکہ آپ کو اس لوٹ مار کرنے والے ڈاکو کو پکڑنے کی اجازت نہیں ہے، آپ کو پہلے وزیراعلٰی یا چیف سیکرٹری کو فون کرنا ہے کہ اجازت دو کہ فلاں آدمی لوٹ مار کر رہا ہے، اسے ہم پکڑیں یا نہیں، یہ تو پاگل پن ہے، یہ تو آئین کے خلاف ہے، یہ تو اسلام کے خلاف ہے۔ درحقیقت پینل کوڈ جو دو سو سالوں سے ہمارے پاس ہے، جب اس پینل کوڈ کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو وردی والے آدمی کو نہ آئین سے پوچھنا چاہیئے، نہ وزیراعلٰی یا چیف سیکرٹری سے پوچھنا چاہیئے، بلکہ اس وردی والے کا فرض ہے کہ اسی وقت اس چور، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ آدمی کو پکڑے، لیکن ہمارے حکمران تو کہتے ہیں کہ آپ اسے ہماری اجازت کے بغیر پکڑ ہی نہیں سکتے، درحقیقت یہ ہمارے حکمرانوں کا پاگل پن اور آئین کی خلاف ورزی کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کیخلاف بننے والے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں کسے رکاوٹ سمجھتے ہیں، نیز یہ رکاوٹیں کیسے دور کی جاسکتی ہیں۔؟
ظفر ہلالی:
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں رکاوٹ کی ذمہ دار حکومت ہے، حکمران ذمہ دار ہیں، ان کے علاوہ اور کون رکاوٹ ہوسکتا ہے اور یہ رکاوٹیں ہم باآسانی ختم کرسکتے ہیں، ابھی یہ وفاقی و سندھ حکومت کی لڑائی ہے، لیکن جس دن یہ پنجاب اور سندھ کی لڑائی ہوگئی، پھر مسئلہ حل نہیں ہوگا، پرانے زخم پھر تازہ ہوسکتے ہیں۔ زرداری صاحب نے اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے قانون بنا لئے ہیں، اس پیپلز پارٹی میں زرداری کے خلاف کھڑے ہونے کی کسی ایک کی بھی ہمت نہیں ہے کہ کوئی کہے کہ یہ تم کیا کر رہے ہو، جبکہ پورا کراچی چاہتا ہے کہ رینجرز کو غیر مشروط، غیر محدود اختیارات ملنے چاہیئے، جبکہ تم رینجرز کے ہاتھ باندھ کر رکھنا چاہتے ہو، ہم پارٹی چھوڑتے ہیں، ہم عہدوں سے مستعفی ہوتے ہیں، لیکن زرداری کے خلاف ایک استعفٰی نہیں آیا، کیونکہ پارٹی رہنما بے حیثیت ہیں، یہ تو اپنے گھر میں الیکشن نہیں جیت سکتے۔ جہاں تک بات ہے کہ رکاوٹیں کیسے دور ہوں، میرے خیال میں طریقہ یہ ہونا چاہیئے کہ رینجرز کو کہنا چاہیئے کہ پہلے مطلوب کرپٹ شخص پر ہوم ورک کریں، پھر جا کر پکڑ لیں، مکمل تحقیقات کرلیں، اس کے بعد حکومت سے کہیں کہ ہم اس کرپٹ شخص کو پکڑنا چاہتے ہیں، اور جیسے ہی رینجرز کہے گی حکومت سے، پھر کیا ہوگا، اس کیلئے رینجرز مانیٹرنگ کرے، ریکارڈ کرے کہ کیا ہوتا ہے، سندھ حکومت، قائم علی شاہ کیا کرتے ہیں، زرداری کو ملک و بیرون ملک سے کتنے فون کئے جاتے ہیں، سب چیزیں مانیٹر اور ریکارڈ کرکے کہ جب حکومت مطلوب کرپٹ شخص کو پکڑنے ک اجازت دینے سے انکار کرے اور کہے کہ یہ آپ کا گراونڈ نہیں ہے، تو پھر رینجرز کہے کہ یہ ہمارا گراونڈ ہے، اب ہم آپ کے فون کالز، آپکے خط و کتابت، آپ کی ہر چیز منظر عام پر لا رہے ہیں، دو بار ایسا کریں، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ رینجرز کو سارے اختیارات غیر محدود و غیر مشروط طور پر واپس مل جائیں گے، اور آپ کو حکومت سے محاذ آرائی بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ میں تو رینجرز سے کہتا ہوں کہ پکڑو انہیں، یہ چور، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ لوگ ہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے، لہٰذا کرپٹ عناصر کو پکڑیں مگر حکومت کو بتائیں نہیں، اگر آپ نے بتایا تو چور بھاگ جائے گا، آپ انہیں سیاسی طریقے سے ہرائیں، کیونکہ ہر چیز ڈنڈے سے تو حل نہیں ہوتی۔

اسلام ٹائمز: ایک حلقے کی رائے یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکا کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر نرمی محسوس کی جا رہی ہے، آپکی نگاہ کیا کہتی ہے۔؟
ظفر ہلالی:
کیا ہوا ہے جنرل کو، ایسا کچھ بھی نہیں ہے، ابھی پاکستان میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن جو اس وقت امریکی نمائندہ خصوصی بن گیا ہے، ابھی اس نے بیان دیا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، Pakistan is doing very well، انہیں پتہ ہے کہ راحیل شریف کون ہے، ایسا نہیں ہے کہ انہیں نہیں پتہ، شاید کہ صرف امریکا کو دکھانے کیلئے ہمیں ایک جمہوری فساد کی ضرورت ہو، درحقیقت طاقت تو انہی کے ہاتھ میں ہے، خارجہ پالیسی ان کے ہاتھ میں ہے، دفاعی پالیسی ان کے ہاتھ میں ہے، اب یہ امن و امان میں تھوڑا مسئلہ ہو رہا ہے، لیکن یہ مسئلہ بھی زیادہ دیر نہیں چلے گا، جیسا کہ میں نے پہلے حل پیش کیا کہ تھوڑا سا سیاسی طور طریقہ اپناتے ہوئے پکڑیں ان چوروں کو، کیونکہ چور چوری کرے گا، اب آپ کو بیٹھ کر اسے مناسب وقت پر پکڑنا ہے۔ لہٰذا فوج کو بالکل برتری حاصل ہے، کیوں، اس لئے کہ عوام فوج کے ساتھ ہے۔ درحقیقت ہمارا سسٹم غلط ہے، پہلے تو اس کو صدارتی نظام بنائیں اور دوسرا طاقت و اختیار منتقل کریں، مثال کے طور پر میئر کراچی کو کوئی اختیار نہیں ہے، لہٰذا اختیارات و طاقت کو منتقل کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 507143
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش