0
Friday 25 Dec 2015 08:30
اگر موجودہ داعش کا خاتمہ ہوگیا تو استعمار کوئی نئی داعش وجود میں لے آئیگا

امت مسلمہ اب استعمار و استکبار کیخلاف اپنے پورے وجود کیساتھ کھڑی ہے، مولانا مختار حسین جعفری

34 ممالک کا نام نہاد اتحاد بھی مسلمانوں کو توڑنے اور حصوں میں تقسیم کرنے کیلئے ہے
امت مسلمہ اب استعمار و استکبار کیخلاف اپنے پورے وجود کیساتھ کھڑی ہے، مولانا مختار حسین جعفری
مولانا سید مختار حسین جعفری کا تعلق جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ سے ہے، وہ پونچھ میں واقع حوزہ علمیہ امام محمد باقر (ع) کے بانی و سربراہ ہیں، جو حوزہ 1977ء سے ملت تشیع کشمیر کی علمی، سماجی و دینی خدمات میں سرگرم ہے، جس کا ترجمان ایک ماہانہ جریدہ ’’نوائے علم‘‘ بھی کئی سالوں سے کشمیر اور ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں خاصی اہمیت کا حامل ہے، حوزہ علمیہ کے فارغ التحصیل طلاب قم المقدس میں اعلٰی تعلیم پر فائز ہیں، اور بعض ہندوستان کے مختلف علمی مراکز اور دانشگاہوں میں برسر روزگار بھی۔ مولانا مختار حسین جعفری جموں خطے کے مسلمانوں کی مذہبی و دینی امور کی سربراہی کر رہے ہیں، وہ جموں و کشمیر کی سیاسی و سماجی تنظیم ’’شیعہ فیڈریشن‘‘ کے بنیاد گذار اور شیخ عاشق حسین کے بعد مسلسل سرپرست اعلٰی کے عہدے پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے حالات حاضرہ اور ہفتہ وحدت کے حوالے سے ان سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: میلاد النبی (ص) کی یہ عظیم مناسبت کہ جسے امام خمینی (رہ) نے ملت اسلامیہ کے ملی و اجتماعی مفادات کے پیش نظر ’’ہفتہ وحدت‘‘ کے طور پر منانے کی اپیل کی، اس دردمندانہ اپیل میں کیا بصیرت پنہاں تھی۔؟
مولانا سید مختار حسین جعفری:
ظاہر سی بات ہے کہ اس مناسبت پر ایک بڑا موقع اتحاد اسلامی کا مسلمانوں کے ہاتھ آتا ہے، اور اس نازک دور میں اتحاد اسلامی کے لئے زیادہ کوششیں کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے، کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان دنیا بھر میں پراگندہ ہیں، امام خمینی (رہ) نے جو قدم اٹھایا تھا، وہ مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے لئے تھا، مسلمانوں کے آپسی انتشار و تضاد و تفرقہ کے خاتمہ کے لئے تھا، جب سے امام خمینی (رہ) نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا، اس وقت سے ہی دشمن نے رخنہ اندازی کرنے کی کوششیں کیں، انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مسلمانوں کو اور انکے اتحاد کو توڑا جائے اور اب بھی انکی مسلسل کوشش چل رہی ہے، مختلف گروپوں کو تشکیل دینے کی شکل میں، جیسے داعش وغیرہ، جو شام اور دوسرے ممالک میں فعال ہیں، یہ اسلام کے خلاف کام کر رہے ہیں، یہ مسلمانوں کی یونٹی اور اتحاد کے خلاف کام کر رہے ہیں، دشمن زیادہ سے زیادہ گروپوں کو تشکیل دے کر تفرقہ پھیلا رہے ہیں کیونکہ دشمن جانتا ہے کہ امام خمینی (رہ) کے وحدت اسلامی کے برنامے پر پوری دنیا میں مسلمانوں نے لبیک کہا ہے، امام خمینی (رہ) کی آواز حق پر مبنی آواز تھی، تمام دنیا، تمام مسلمان امام خمینی کے عظیم ہدف کو سمجھ رہے ہیں، اگر کوئی ناسمجھ بن بیٹھا ہے تو وہ ایسے حکمران ہیں، جو ہمیشہ تفرقہ کی ہی کھاتے ہیں، جن کی دکانیں، جن کا اقتدار، جن کی کرسی اسی تفرقہ سے چل رہی ہے۔ لیکن
انشاء اللہ دشمنان اسلام کی تمام تر سازشیں ناکام ہونگیں، تحریک اتحاد اسلامی آگے بڑھے گی اور کامیاب ہوگی اور اب بھی یہ تحریک کامیاب ترین تحریک ہے، بات واضح ہے کہ کسی تحریک کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے، دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس تحریک کے مقابلے میں دشمن کتنا سرگرم ہے اور اسکی مخالفت کس قدر کی جاتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں، ابھی تک جتنی بھی تحریکیں اٹھی ہیں، ان میں یہ تحریک ’’اتحاد بین المسلمین‘‘ سب سے زیادہ مضبوط طریقہ سے ابھر کر سامنے آئی ہے، کہ جس کے مقابلے میں دشمن کی تمام تر بوکھلاہٹ سامنے آگئی۔ امام خمینی (رہ) کے زمانے میں بھی یہ طاقتیں اور انکی مکروہ سازشیں ناکام رہیں، اور آج جبکہ اتحاد اسلامی کی زمام مقام معظم رہبری امام سید علی خامنہ ای کے ہاتھوں میں ہے، امام خامنہ ای نے بھی اپنی دور اندیشی، دشمن شناسی، سوجھ بوجھ، بصیرت، استعداد، علمی کمالات اور عالمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور مسلمانوں کے دلوں میں جو انکی ہمدردی ہے، اس کے پیش نظر امام خامنہ ای نے انتہائی مثبت اقدام کئے، انکا وہ تاریخی فتویٰ جس میں آپ نے فرمایا کہ اسلامی مقدسات کی توہین حرام ہے، اب ظاہر سی بات ہے کہ یہ اس قدر مثبت اقدام ہے کہ جس کی وجہ سے استعمار کی بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ ہوتا گیا، وہ اپنی تمام تر سازشیں اسلام ناب محمدی (ص) کے خلاف اور اتحاد اسلامی کو توڑنے میں لگائے ہوئے ہے، اسی لئے استعمار نے مختلف جماعتیں اور مختلف گروہ کلام ناب کو توڑنے میں لگا دیئے ہیں۔ ایک اور اہم بات جو یہاں پر کہتا چلوں کہ کتنا افسوس ہے کہ جس مرکز سے ہمیں امید تھی، توقع تھی کہ وہ اتحاد بین المذاہب کے لئے کام کرتا، امت اسلامی کا مرکز مکہ و سعودی عرب اور وہاں کے حکمرانوں سے توقع یہ تھی کہ وہ اتحاد کے حوالے سے مثبت اقدام کرتے، لیکن بدقسمتی سے انہوں نے ابھی تک جس چیز کا ثبوت پیش کیا، وہ امت اسلامی میں تفرقہ ڈالنے کا ہے، انہوں نے ہمشہ انتشار و منافرت پھیلائی، تفرقہ ایجاد کیا اور مسلمانوں کو تقسیم کیا، جس کی تازہ مثال سعودی عرب کی سربراہی میں 34 ممالک کا ایران و عراق و شام کو نظر انداز کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد اتحاد ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودیہ کی سربراہی میں 34 ممالک کے دہشتگردی کیخلاف نام نہاد اتحاد کے بارے میں مزید جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید مختار حسین جعفری:
ابھی جو سعودی عرب کی سربراہی میں 34 ممالک کا دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اتحاد بن رہا ہے، سعودی عرب نے اس اتحاد میں بھی انتشار اور تضاد کی پالیسی دہرائی ہے، وہ ممالک جو واقعاً اتحاد اسلامی کے داعی ہیں جیسے ایران، عراق و شام۔ عراق کے روحانی سربراہ آیۃ اللہ العظمٰی سیستانی مدظلہ اللہ نے مسلمانوں کے اتحاد اسلامی کے حوالے سے فرمایا کہ ’’تم سنیوں کے بارے میں یہ نہ
کہوں کہ یہ ہمارے بھائی ہیں، بلکہ سنی ہم میں سے ہیں، اہل سنت ہمارا جز ہیں، ہمارا حصہ ہیں‘‘، تو ظاہر سی بات ہے کہ اگر عراق کے سپریم لیڈر کا یہ کہنا ہے تو ایسے ممالک کو کیسے اس دہشت گرد مخالف اتحاد میں نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ اتحاد نہ دہشت گردی کے خلاف ہے، نہ ظلم و ظالم کے خلاف ہے بلکہ یہ اتحاد بھی سعودی عرب نے مسلمانوں کو توڑنے اور حصوں میں تقسیم کرنے کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ہے۔ لیکن جو سازش بھی ایک بڑے اور مقدس ہدف کے مقابلے میں ہو، کسی دور میں بھی کامیاب نہیں رہی ہے، وقتی طور پر کامیابی انکی نظروں کا دھوکہ تو ہوسکتا ہے، لیکن دائمی کامیابی حق اور اہل حق کی ہوتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں کو کوئی سرنگوں نہیں کرسکتا ہے، یہ تحریکیں لوگوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہیں، اتحاد اسلامی کے لئے دنیا بھر کے لوگ فطری طور پر کوشاں نظر آرہے ہیں، جنہیں اب کسی بھی نام نہاد الائنس و اشتراک سے دبایا نہیں جاسکتا ہے، اب اسلام ناب محمدی (ص) کا بول بالا ہوکر رہے گا، مسلمان چاہتے ہیں کہ وہ ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں، امت مسلمہ اب استعمار و استکبار کے خلاف اپنے پورے وجود کے ساتھ کھڑی ہے، اب مستضعفین جہاں کے کھل کر جینے کا زمانہ آگیا ہے۔ مسلمان دنیا میں ایک بڑی طاقت ہے، اس طاقت کو جو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مسلمانوں کا بے جا استعمال ہو رہا ہے، اس سے مشرق وسطٰی اور خلیج فارس میں مسلمانوں کی دولت استعمار اور استکبار کے ہاتھوں لٹ رہی ہے، انکا راستہ عنقریب روک دیا جائے گا اور یہ سلسلہ بند ہوجائے گا، مسلمان انشاءاللہ متحد ہونگے اور متحد ہوکر مسلمان استعمار و استکبار کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کر دیں گے، اور امام خمینی (رہ) کے بقول اس علاقے میں کینسر کا پھوڑا جو اسرائیل کی شکل میں موجود ہے، وہ بھی امام خامنہ ای کی پیشن گوئی کے عین مطابق 25 سال میں صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوجائے گا، یہ چیزیں وقوع پذیر ہونگیں، انشاءاللہ۔

اسلام ٹائمز: پیرس حملے کے بعد بڑی طاقتیں بظاہر داعش کے خاتمے کیلئے سامنے آگئیں، اور نام نہاد 34 ممالک کا اتحاد بھی سامنے آگیا، کیا واقعی یہ داعشی فتنے کے خاتمے میں پرخلوص نظر آرہے ہیں۔؟
مولانا سید مختار حسین جعفری:
دیکھئے، اس کے مسائل اور اسباب کے اوپر غور کرنے کی ضرورت ہے، داعش کے محرکات کہاں سے ہیں، دیکھنے کی ضرورت ہے، داعش کی چابی کس کے پاس ہے دیکھنا ضروری ہے، اگر واقعاً مغربی طاقتیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہتی ہیں، داعش جیسے عناصر کا خاتمہ چاہتی ہیں اور اگر ان کے دلوں میں خلوص اور سنجیدگی ہو تو ممکن ہے، لیکن ماضی میں انکی حرکتوں نے ثابت کیا کہ یہ دہشت گردی کا خاتمہ تو دور کی بات ہے، خود ہی دہشت گردی کو پروان چڑھاتے ہیں۔ افغانستان میں انہوں نے دہشت گردوں
کی پشت پناہی کی اور پورے ملک کو تباہ و برباد کیا، عراق و شام میں داعش کو اتارا اور اب خود ہی داعش کے خاتمے کے لئے حملے کر رہے ہیں، انکی کارروئیوں میں ہرگز خلوص نظر نہیں آرہا ہے، یہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ اور مقامی عوامی استقامت کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، اگر یہ مخلص ہوتے تو انہیں چاہیے یہ تھا کہ جو علاقائی طاقتیں ہیں، انکی معاونت کرکے انکی ھمدردی و ھمکاری سے داعش فتنہ کا خاتمے کے لئے اقدام کرتے، مقامی طاقتوں سے کہا جاتا کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے اور یہ طاقتیں بے جا مداخلت بند کرتیں، اگر یہ بے جا مداخلت کی جاتی ہے تو اس داعش کا خاتمہ ہوگا اور نیا داعش وجود میں آئے گا، بڑی طاقتیں اس خطے میں اپنے وجود کی بقاء کے لئے چاہیں گی کہ وہاں کوئی نہ کوئی حامی و آلہ کار موجود رہے۔ اسامہ، صدام، داعش کو وہی وجود میں لائے، استعمال کیا اور پھر نئے روپ میں نئے دہشت گرد میدان میں اتارے، کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہوتے تو خطے میں اپنی بے جا مداخلت اور فضائی و زمینی حملے بند کرتے اور مقامی رضاکاروں اور حکومتوں کو اس کام کو انجام دینے پر چھوڑ دیتے۔

اسلام ٹائمز: ابھی مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل انکے آپسی اتحاد و ہمدلی میں نظر آرہا ہے، میلاد النبی (ص) کی مناسبت چل رہی ہے، اس مناسبت پر یا دیگر مناسبتوں پر ہمارے خطباء و علماء کی توجہ و اہمیت کس اہم ایشو پر ہونی چاہیئے۔؟
مولانا سید مختار حسین جعفری:
خطباء و ذاکرین و علماء کی تمام تر توجہ اتحاد اسلامی پر ہونی چاہیئے، نقطہ تبلیغ اور مرکز تبلیغ اتحاد بین المسلمین ہونا چاہیئے، اسلام ناب پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ کو متحد ہونا چاہیئے، اس کے لئے خطیبوں کو کوششیں کرنی چاہیئے، اس اسلام کی تبلیغ و ترویج نہیں جو اسلام امریکہ نے ایجاد کیا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ ادھر سے بھی اسلام کے دعوے ہوتے آرہے ہیں، لیکن اسلام ناب محمدی (ص) جو استعمار و استکبار جہانی کا مقابلہ سکھاتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ واعظین و خطباء و علماء کو اس اسلام کی شناخت کرا کے اسکی تبلیغ کرنی چاہیئے، اسلام کے نام پر جو بھروپیئے اور درندرے دنیا بھر میں گھوم رہے ہیں، جو اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں، انکو بے نقاب کرنا مبلغین کی دینی و منصبی ذمہ داری ہے، عوام کے سامنے ایسے عناصر کو بے نقاب کرنے کی اشد ضرورت ہے، تمام مسلمانوں کیلئے بلاتفریق مذہب و جماعت اس چیز کی تشخیص لازم ہے، پھر اتحاد اسلامی کے لئے راہ ہموار ہوسکتی ہے، کیونکہ اپسے عناصر اتحاد اسلامی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں، ایسے عناصر کو بے نقاب کرکے ہی اتحاد اسلامی کا حقیقی مظاہرہ ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر جو اولیاء خدا اور صوفیاء کرام کی سرزمین ہے، یہاں اتحاد بین المسلمین کے مواقع کس قدر پائے
جاتے ہیں۔؟
مولانا سید مختار حسین جعفری:
کشمیر میں الحمد اللہ اتحاد کے حوالے سے زمین ہموار ہے اور اختلاف کی کوئی بات شدت سے وجود نہیں رکھتی، لیکن اس کے باوجود بھی اگر اتحاد اسلامی کے حوالے سے یہاں کوشش کی جائے تو یہاں بہت زیادہ مواقع موجود ہیں، یہاں تمام افراد کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جاسکتا ہے، ایک جہت دے کر مسلمانوں کو اسلام کی سربلندی اور بالادستی کے لئے کوششیں ہونی چاہیئے، کشمیر میں اتحاد اسلامی کے مواقع دیگر جگہوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں، جیسا کہ آپ نے کہا کہ یہ اولیاء خدا کی سرزمین ہے اور تمام مسلمان اولیاء اللہ کو مانتے ہیں اور جو اولیاء کرام کو نہیں مانتے ہیں، پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا واقعی یہ لوگ مسلمان ہیں بھی یا یہ صرف مسلمان ہونے کے دعوے کر رہے ہیں، ایسا تو نہیں ہے کہ استعمار نے اس طریقے کے گروپ تشکیل دیئے ہیں، جو اس چیز کو جائز نہیں مانتے، مسلمانوں کے اتحاد کو پاش پاش کرنے کے لئے ہیں، واضح ہے کہ جب مسلمانوں کا قرآن ایک ہے، اللہ ایک ہے، نبی پاک ایک ہیں، کعبہ ایک ہے، قبلہ ایک ہے اور تمام بنیادی چیزیں ایک ہیں تو پھر اختلاف کی کوئی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے، جزوی معاملات کو مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر بھر میں اتحاد کے مواقع بہت زیادہ ہیں، بس مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: نائجیریا کے خونین سانحہ پر عالمی سطح پر عالمی طاقتوں اور عالمی میڈیا کی خاموشی پر آپکا تجزیہ کیا ہے۔؟
مولانا سید مختار حسین جعفری:
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ دنیا میں دو طرح کے اسلام موجود ہیں، ایک اسلام ناب محمدی (ص) اور ایک امریکی اسلام، ایک اللہ کا پسندیدہ دین اسلام اور ایک امریکہ کا پسندیدہ اسلام، نائجیریا میں جو سانحہ پیش آیا، یہ کوئی شیعی مسئلہ نہیں ہے، یہ اسلامی مسئلہ ہے، انہوں نے وہاں اسلامی تحریک چلائی، لوگوں نے اسلام کو سمجھا اور اسلامی تحریک کامیاب ہوگئی، اسلام کو سمجھ کر لوگ اسلام کے پرچم تلے جمع ہوگئے، دنیا نے دیکھا کہ جہاں جہاں بھی حقیقی اسلام نظر آرہا ہے اور حقیقی مسلمانوں پر ظلم و جبر و بربریت ہو رہی ہے، دشمن اسکی ہرگز تشہیر نہیں کرے گا، یہ نائجیریا کے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا اور وہاں کے مذہبی پیشوا شیخ ابراہیم زکزکی پر حملہ اور انکے تین فرزندوں کو پچھلے سال یوم القدس کی ریلی میں شہید کیا تھا، انکے ایک بیٹے کو اس سال شہید کیا گیا، انہیں خود زخمی کیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کیا، ابھی کیا صورتحال ہے نہیں پتہ، ہم دعاگو ہیں کہ رب العزت انہیں صحیح و سلامت رکھے، انکی حفاظت فرمائے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اس طرح کے مخلص لوگ جو واقعاً اسلام کی سربلندی کے لئے کام کر رہے ہیں، یہ پیغام پوری دنیا کے لئے ہے کہ اگر خلوص اور غیر جانبدارانہ طریقے
سے کوئی بات کہی جائے، اسلامی تعلیمات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ یورپ کے لوگوں کو اسلام ناب سمجھایا جائے، جہاں کے نوجوان اسلامی تعلیمات کو سمجھنا چاہتے ہیں اور وہاں کی نئی نسل اسلام کی جانب مائل ہو رہے ہیں، تو یہ نائجیریا کی اسلامی تحریک ایک سیلاب کی مانند تھی، جو استکبار کی جانب بڑھ رہا تھا، اس سیلاب کو روکنے کے لئے انہوں نے یہ کارروائی انجام دی، تمام مسلم عوام اور دیگر انسانیت دوست عوام اس کارروائی کی مذمت کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے میڈیا اور مسلمانوں کا حکمران طبقہ استعمار کے ہاتھوں میں ہیں، استعمار کے ایجنٹ ہیں، میڈیا بھی انکی آلہ کاری میں مصروف ہے، وہ میڈیا کو ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ انکے مظالم کی تشہیر ہو۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہر سال امام حسین (ع) کے چہلم کے موقع پر عظیم الشان اتحاد اسلامی کا مظاہرہ کربلا میں ہوتا ہے، لوگ بلاتفریق ملت و مذہب پیدل چل کر اس عظیم اجتماع میں شامل ہوتے ہیں، لیکن پوری دنیا کے میڈیا نے اسکی ایک بھی حقیقی تصویر لوگوں کو نہیں دکھائی۔ دراصل ان اسلامی تحریکوں کو دکھانے سے یہ خوف زدہ ہوجاتے ہیں، ان کو یہ ڈر لاحق ہے کہ اس تحریک سے یورپ اور مغرب کے ذی شعور افراد، جو اگرچہ مسلمان بھی نہیں ہیں لیکن حق کی جستجو میں سرگرم ہیں، یہ تحریکیں دشمن کی آنکھ کا کانٹا ہیں، یہ کربلا کی عظیم راہ پیمائی انکے مقاصد اور انکی سازشوں کے خلاف ہے، اس کی تشہیر وہ کیسے کرسکتے ہیں، ہم ان سے اس چیز کی توقع بھی نہیں کرسکتے ہیں، جب مسلمانوں کا میڈیا اس چیز کی تشہیر نہیں کرتا تو ہم دشمن اسلام کے میڈیا سے اس چیز کی توقع کہاں کرسکتے ہیں۔ ہمارے اسلامی میڈیا کو آزادانہ کام کرنا چاہیئے، اسے مضبوط یونا چاہیئے، وہ کوشش کرے کہ مسلمانوں کے مسائل ان کی کارکردگی اور ان پر ہو رہے مظالم دنیا تک پہنچائے۔ نائجیریا میں پچاس لاکھ کا مجمع جو سیاہ پرچم کی جگہ سبز پرچم لہرانے کے لئے جمع ہوا تھا اور رسول نازنین (ص) کے تئیں جذبہ و ایثار کا مظاہرہ کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے تھے، اس مراسم میں 50 لاکھ کا مجمع وہاں موجود تھا، اس عظیم الشان مجمع نے باطل کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ان پر سکتا طاری ہوگیا، کہ ایک افریقی ملک میں پچاس لاکھ کا مجمع کہ مکہ میں ابھی تک کبھی 50 لاکھ حاجی بھی جمع نہیں ہوئے ہیں، اس اجتماع سے انکا خوف زدہ ہونا فطری و طبعی بات تھی، انکی بوکھلاہٹ کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے فرزندان توحید پر وحشیانہ حملہ کیا، لیکن یہ انکی ناکام کوشش ہے، اگر انہوں نے 6 ہزار افراد کا قتل کیا، وہ نہ سمجھیں کہ نائجیریا کے مسلمان اس حملے سے مرعوب ہونگے، شہادتوں سے ملت زندہ ہوتی ہے، ملتوں کو شہادتوں سے قوت ملتی ہے، شہادت انسجام اور اتحاد پیدا کر دیتی ہے اور یہ تحریک آگے بڑے گی، یہ طوفان تھمنے والا ہرگز نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 507718
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش