6
0
Saturday 9 Jan 2016 18:30
سعودی عرب میں شیخ باقر النمر کی شہادت آل سعود کی بہت بڑی سیاسی غلطی ہے

شیخ باقر النمر کی شہادت پر مؤثر آواز بلند کرنے کیلئے تمام ملی تنظیمیں نمائندہ ولی فقیہ کے تحت احتجاج کریں، علامہ اسد اقبال زیدی

داعش کی فکر رکھنے والے دہشتگرد عناصر پاکستان میں پہلے سے موجود ہیں، جو اسکا نام استعمال کر رہے ہیں
شیخ باقر النمر کی شہادت پر مؤثر آواز بلند کرنے کیلئے تمام ملی تنظیمیں نمائندہ ولی فقیہ کے تحت احتجاج کریں، علامہ اسد اقبال زیدی
علامہ سید اسد اقبال زیدی شیعہ علماء کونسل پاکستان صوبہ سندھ کے جنرل سیکرٹری ہیں، ان کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع خیرپور سے ہے، انہوں نے یہاں سے گریجویشن کیا اور پھر جامعہ مصطفٰی سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قم المقدسہ، جمہوری اسلامی ایران تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے تقریباً 14 سال دینی تعلیم حاصل کی، قم المقدسہ میں شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے دفتر کے مسئول بھی رہ چکے ہیں، وطن واپسی پر وہ خیرپور میں سماجی کاموں میں مصروف رہے، وہ خیرپور میں قائم جامعة الحسینؑ کے پرنسل ہیں، اسکے ساتھ ساتھ اسکی شاخ مدرسہ باب الحسینؑ کے بھی بانی و پرنسپل ہیں، نوابشاہ میں قائم خواتین کے مدرسہ جامعة الفاطمیہ کی مسئولیت بھی ان کے پاس ہے، وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے دور سے تنظیمی طور پر فعال ہیں، وہ تین سال شیعہ علماء کونسل خیرپور کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور حالیہ تنظیمی انتخابات کے بعد صوبائی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پاکستان میں داعش کی موجودگی، اسکی فعالیت و سدباب اور سعودی عرب میں آیت اللہ شیخ باقر النمر کی مظلومانہ شہادت سمیت مختلف موضوعات کے حوالے سے ان کے ساتھ ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے شیعہ علماء کونسل کا مؤقف کیا ہے۔؟
علامہ سید اسد اقبال زیدی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے میں اسلام ٹائمز کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جس نے اس حساس موقع پر ہمارا مؤقف جاننے کیلئے زحمت کی اور تشریف لائے۔ پاکستان میں جتنے بھی تکفیری دہشتگرد گروہ موجود ہیں، چاہے وہ عالمی سطح پر ہوں یا مقامی سطح پر، وہ مزاج کے اعتبار سے کافی حد تک ملتے ہیں، اس وجہ سے ممکن ہے کہ وہ دو افراد ایک ہی وقت میں دو الگ الگ گروہوں میں فعال ہوں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں داعش کا نام استعمال ہوا ہے، ریکارڈ پر موجود ہے کہ سندھ کے بعض علاقوں میں داعش کی وال چاکنگ ہوئی ہے، جس پر ہم نے انتظامیہ کو متوجہ کیا کہ داعش کا نام استعمال ہو رہا ہے، سندھ کے بعض شہروں میں بعض دہشتگرد تنظیموں کی طرف سے داعش کیلئے خوش آمدید کے نعرے بھی لگائے گئے ہیں، داعش کی فکر کے افراد پاکستان میں پہلے سے موجود ہیں، داعش ایک الگ سے مخلوق نہیں ہے کہ وہ نازل ہوکر کہے کہ میں داعش ہوں، اب اگر پاکستان میں داعش کی تکفیری فکر کو کوئی قبول کرتا ہے، تو یہ صرف نام کا تبادلہ ہے، داعش جیسی فکر رکھنے والے تکفیری دہشتگرد گروہ پاکستان میں پہلے سے موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان میں داعش کے نام سے فعال دہشتگرد عناصر کے شام و عراق میں موجود داعش کے نیٹ ورک سے کوئی روابط ہیں۔؟
علامہ سید اسد اقبال زیدی:
یقیناً، میں نے جو بات آپ سے کہی کہ یہ دہشتگرد عناصر مزاج و فکر کے اعتبار سے ایک ہیں، اب اس تنظیمی و دیگر حوالے سے عملی روابط ہیں یا نہیں، یہ بات پاکستانی ایجنسیاں اور انتظامیہ بہتر جانتی ہیں، لیکن پاکستان میں داعش کے نام پر فعال دہشتگرد تنظیمیں، جو پاکستان میں پہلے سے فعال ہیں، ان میں اور عراق و شام میں موجود داعش میں مزاج و فکر کے اعتبار سے ہم آہنگی ہے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے حکومت اور ریاستی اداروں کے اٹھائے گئے اقدامات سے مطمئن ہیں۔؟
علامہ سید اسد اقبال زیدی:
اب تک جو اقدامات ہوئے ہیں، اور خاص طور پر نیشنل ایکشن پلان جو بنایا گیا تھا، وہ اسی حوالے سے تھا، تاکہ اندرونی و بیرونی مسائل کا سدباب کیا جاسکے، پاکستان کو دہشتگردی سے بچایا جاسکے، اب تک اس حوالے سے قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی صاحب اس نیشنل ایکشن پلان پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، وہ سوالیہ نشان صرف باتوں کی حد تک نہیں ہے، کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں رونما ہونے والے سانحہ صفورا، سانحہ شکار پور، سانحہ جیکب آباد سمیت ملک بھر میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات نشاندہی کر رہے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر اگر صحیح معنٰی میں عمل درآمد ہوتا، تو ملک بھر میں دہشتگردی کے یہ واقعات رونما نہ ہوتے۔

اسلام ٹائمز: نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکامی کا ذمہ دار کسے قرار دیتے ہیں، حکومت کو یا افواج پاکستان کو۔؟
علامہ سید اسد اقبال زیدی:
وہ رکاوٹ، وہ مسائل، وہ مشکلات، ان کے آپس میں اختلافات، آپس میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا، یہ سب اپنے مقامات پر ہیں، ہمارا مؤقف یہ کہ اس میں حکومت آتی ہے، فوج آتی ہے، اس میں ریاستی ادارے شامل ہوتے ہیں، ان سب کے ساتھ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جس مقصد کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اس مقصد میں کماحقہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے، یہ عمل سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان میں بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں شیعہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا، ہمیں برملا بتایا جائے کہ اتنی بڑی تعداد میں شیعہ مسلمانوں کو پاکستان میں شہید کیا گیا، لیکن اس نیشنل ایکشن پلان کے تحت کتنے قاتل دہشتگردوں کو پھانسی دی گئی۔ لہٰذا یہاں پر میں ضمناً مطالبہ بھی کرتا چلوں کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت محب وطن شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ان تمام دہشتگردوں کو بے نقاب کرکے منظر عام پر لایا جائے اور پھانسی دی جائے، جنہیں اب تک بچایا جا رہا ہے، کن مقاصد کیلئے باقی رکھا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب میں آیت اللہ شیخ باقر النمر کی شہادت اور اسکے بعد خود سعودی عرب کے مستقبل کی صورتحال کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ سید اسد اقبال زیدی:
سعودی عرب میں آل سعود کے ہاتھوں آیت اللہ باقر النمر کی مظلومانہ شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہیں، مکتب اہل بیت علیہم السلام کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے، ہم شیعہ علماء کونسل پاکستان سعودی عرب کے اس اقدام کو ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تصور کرتے ہیں، ہمارے بزرگ علماء نے سعودی عرب کو متنبہ کیا تھا کہ جو اقدام تم اٹھانے جا رہے ہو، پھانسی دینے جا رہے ہو، یہ قدم نہ اٹھانا، یہ تمہارے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا، شہید آیت اللہ شیخ باقر النمر کی مظلومانہ شہادت سے آج ناصرف شیعہ بلکہ دنیا بھر کے مسلمان بیدار ہوگئے ہیں، پوری دنیا میں سعودی عرب کیخلاف صدائے احتجاج بلند ہوچکی ہے، مرد قلندر شیخ باقر النمر نے کسی شیعہ یا سنی کیلئے نہیں بلکہ ظلم و ظالم کے خلاف مظلوم و اتحاد بین المسلمین کیلئے آواز اٹھائی تھی، انکی تحریک پُرامن عوامی تحریک تھی، انہوں نے ہمیشہ پُرامن جدوجہد کی، انہوں نے کبھی مسلح جدوجہد کی دعوت نہیں دی، وہ عوامی بیداری و جدوجہد کے ذریعے جمہوری حقوق کی بازیابی چاہتے تھے، انکی شہادت سے انکی سوچ ختم ہونے کے بجائے مزید تیزی کے ساتھ پھیلے گی، انکی تحریک مزید جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ اس وقت سعودی عرب ہر محاذ پر، چاہے وہ یمن و بحرین کا محاذ ہو، شام و عراق کا محاذ ہو، ناکام ہو رہا ہے۔ خود سعودی عرب میں بڑھتی ہوئی عوامی بیداری کے باعث آل سعود کی بادشاہت کا تختہ الٹنے کے قریب ہے، انشاءاللہ، پوری دنیا کے بیدار، حریت پسند، آزادی طلب، شہنشاہیت مخالف مسلمان شیخ باقر النمر کی تحریک کو آگے بڑھائیں گے، وہ دن دور نہیں کہ جب شہید باقر النمر کا خون رنگ لائے گا اور سعودی عرب میں ایک عوامی جمہوری حکومت قائم ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آیت اللہ شیخ باقر النمر کی شہادت پر پاکستان بھر میں سعودی عرب کیخلاف احتجاج جاری ہے، لیکن کیا وجہ کہ نظام ولایت سے مربوط ملی تنظیمیں اس مشترکہ ایشو پر مؤثر و کارآمد آواز بلند کرنے کیلئے مشترکہ احتجاج کی راہ اپناتی نظر نہیں آتیں۔؟
علامہ سید اسد اقبال زیدی:
یہ جو آپ نظام سے مربوط تنظیموں کی بات کر رہے ہیں، میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ یہ سب تنظیمیں جب ایک نظام سے وابستہ ہیں، تو ایک تنظیم کیوں نہیں ہو جاتیں، وہ آپ مجھے جواب دینگے، کیا مسائل کیا رکاوٹیں ہیں، جس کی بناء پر بقول آپ کے، یہ میرا لفظ نوٹ کیجئے گا کہ بقول آپ کے جتنی بھی تنظیمیں آپ سمجھتے ہیں کہ نظام سے وابستہ ہیں، تو پھر الگ کیوں ہیں۔ جب ایک تصور ہمارے پاس قائم ہے اور ایک حقیقت موجود ہے کہ امام خمینیؒ قائد شہیدؒ (علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ) کو اپنا نمائندہ بناتے ہیں، انکے انتقال کے بعد رہبر معظم (ولی امر المسلمین آیت اللہ العظمٰی سید علی الحسینی خامنہ ای) اور خود امام خمینیؒ اپنے آخری ایام میں علامہ ساجد علی نقوی صاحب کو اپنا نمائندہ بناتے ہیں، نمائندے کے اعتبار سے ایک واضح پالیسی ہمارے پاس موجود ہے، قیادت ایک الگ چیز ہے، جو پاکستان کا ایک سسٹم ہے، اس میں علماء نے علامہ ساجد نقوی صاحب کو قائد بنایا، ٹھیک ہے۔ یہاں سے نظام کے اعتبار سے نمائندہ ولی فقیہ علامہ ساجد علی نقوی صاحب ہیں، جب ایک نمائندہ سیاسی میدان میں موجود ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ باقی دیگر تنظیموں کو چاہیئے کہ جب وہ نمائندہ ایک سیاسی میدان میں ملکی حالات کے پیش نظر ایک حکم جاری کرتا ہے یا کال دیتا ہے، تو وہ تمام تنظیمیں جو اپنے آپ کو سمجھتی ہیں کہ وہ نظام سے وابستہ ہیں، انہیں چاہیئے کہ نمائندہ ولی فقیہ کی طرف آجائیں اور مشترکہ صدائے احتجاج بلند کریں، ہر تنظیم واقعاً اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اچھے انداز کے ساتھ نمائندہ ولی فقیہ کے سائے تلے جمع ہو، تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی بات بہت اچھی ہو جائے گی کہ ہم ایک طاقتور و مؤثر آواز بلند کرسکیں۔

واضح رہے کہ میں نے دیگر تنظیموں کو احتجاج سے منع نہیں کیا ہے، میں نے مشترکہ احتجاج کیلئے اپنا فارمولہ پیش کیا ہے، اگر اس مشترکہ ایشو پر نمائندہ ولی فقیہ کے ماتحت آتے ہیں، اور بقول آپ کے سب تنظیمیں نظام سے وابستہ ہیں، تو بہت اچھا اور واضح سوال ہے آپ کا، سب ملی تنظیمیں ایک نمانئدہ ولی فقیہ کے تحت آجائیں، تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے، مثلاً ہر علاقے میں انجمنیں ہوتی ہیں، ماتمی انجمنیں، مشکلات و مسائل کے حل کیلئے چھوٹی چھوٹی تنظیمیں ہوتی ہیں، لہٰذا خود تنظیموں کا وجود کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن ان تنظیموں میں شدت پسندی نہیں ہونی چاہیئے، انہیں اخلاقیات کے دائرے میں رہنا چاہیئے، وہ تنظیمیں اپنے بزرگوں کا احترام کریں، وہ تنظیمیں اگر نظام سے وابستہ ہیں، تو نمائندہ ولی فقیہ کو وہی حیثیت دیں، جو نظام ولایت فقیہ کہتا ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ کافی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے اور ہمارے درمیان کوئی دوری پیدا نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اس ایشو پر آپکی جماعت کے اہل سنت تنظیمات سے روابط کی کیا صورتحال ہے۔؟
علامہ سید اسد اقبال زیدی:
ایک خاص تکفیری طبقے کو چھوڑ کر الحمداللہ ہمارے تمام اہل سنت مکاتب فکر کے علماء سے مسلسل رابطے قائم ہیں، اور اہل سنت علماء نے شہید باقر النمر کی سزائے موت کی شدید مذمت کی ہے، کچھ اقدامات ہم اٹھانے جا رہے ہیں، جس میں اہل سنت علماء بھی ہمارے ساتھ شریک ہونگے اور ثابت کرینگے کہ سعودی عرب کی مذمت میں سنی شیعہ مسلمان ملکر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 511449
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عادل
Iran, Islamic Republic of
چند سال شده علامه ساجد نقوی می گویند من ملت را در اسلام اباد جمع خواهم کرد که تا امروز نشده ایا این اقدامات که سید اسد می گویند از همین قبیل است.ایا بعد از اعلام لغو نخواهد شد؟
M A شريفي
Iran, Islamic Republic of
بابصيرت ليڈرشب هميشه ميدان ميں حاضر رهتي هے اور .....ليڈرشب هميشه دشمن كيليے ميدان خالي چهوڑتی هے، شيخ نمر شهيد كے ليے ايك جلوس بهي نكالنے كي آپ لوگوں كو توفيق نهيں هويي اور اسلام آباد كي سڑكيں ssp كے ليے خالي كر ديں، كيا يهي آپكے قايد كي مدبرانه سياست هے، دوسرے شهروں ميں بهي ملتوي كرنے كي كيا وجه تهي، امام خميني نے تو فرمايا تها (حضور در صحنه)) آپ لوگوں نے هر دفعه ميدان كو خالي چهوڑا اور آيے بهي تو اپنے هي دوستوں كي ٹانگيں كهينچنے كے ليے آيے، جب آپ كے پاس كسي بهي ايشو كے ليے كويي پروگرام نهيں هے اور همشه ميدان دشمن كے ليے خالي چهوڑنا هے تو دوسري تنظيموں كو بهي لورياں دينے كے ليے آپكي چهتري كے نيچےلا كر كيا كرنا هے، ان كو اپنے حساب سے كام كرنے دو۔
منتظرمھدی
Iran, Islamic Republic of
عزیزم میدان میں رہنےکا فقط یہ مطلب نہیں ہے کہ چند جوانوں کو اکٹھا کرکے مظاہرے کیے جائیں بلکہ دشمن کی سازشوں کو بھانپ کر اور حالات کا بغور جائزہ لے کر حکمت عملی اپنانے کا نام﴿حضور در صحنہ﴾ ہے۔ لہذا برائے کرم ایسی باتیں نہ کی جائیں کہ جو آپ کے فہم و شعورسے باہر ہوں۔ مولانا اسد اقبال زیدی صاحب کی باتیں کاملاً درست اور بجا ہیں۔ جب ہم سب لوگ ولی فقیہ کے نظریئے کے پیروکار ہیں تو پھر کیوں اس راستے پر نہیں چلتے کہ جو ولی فقیہ کا راستہ ہے اور ولی فقیہ کا راستہ نمائندہ ولی فقیہ سے ہی ہوکر گزرتا ہے۔ برائے مہربانی ایسی باتیں نہ کی جائیں کہ جن کا علم نہ ہو۔ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور پھر کوئی فیصلہ کریں۔
Iran, Islamic Republic of
اچها بڑا آیا سمجه دار
Iran, Islamic Republic of
شریفی صاحب سے کاملا متفق هوں
muhamad ali
Iran, Islamic Republic of
salam jo log numaenda wali faqih hone ka dawa karte hain wo walie faqih ke mabani fikri per bhi to amal pera hon...dushman ki sazishon ka jawab sirf khamoshi to nahi hai barader man.. khabi aap ko b esa kam karna chae jis ki waja se apka dushman khamosh hojae.....
ہماری پیشکش