0
Saturday 23 Jan 2016 02:39
وفاقی وزیر داخلہ کا لب و لہجہ دہشتگردوں کے حوالے سے نرم و شیریں محسوس ہوتا ہے

دہشتگرد جہنمی ہیں، انکا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں، صاحبزادہ نثار المصطفٰی

جبتک دہشتگرد اور انکے سرپرستوں سے ہمارا رویہ نرم رہیگا، سانحات پیش آتے رہیںگے
دہشتگرد جہنمی ہیں، انکا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں، صاحبزادہ نثار المصطفٰی
صاحبزادہ نثار المصطفٰی معروف مذہبی شخصیت ہیں۔ اٹھائیس سال سے راولپنڈی میں خطیب، مدرسہ فیض القرآن کے مہتمم، آستانہ دربار عالیہ حسن ابدال کے گدی نشین اور خانقاہ معلٰی باغدرہ شریف کے سرپرست ہیں۔ تصوف سے وابستہ، تحریک اخوت اسلامی کے سرگرم عہدیدار، اتحاد بین المسلمین کے داعی ہونے کے ناطے کئی ملکوں کے دورے کر چکے ہیں۔ یورپ میں بھی ان سے عقیدت رکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے قارئین کیلئے صاحبزادہ نثار المصطفٰی سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ملک میں طالبان کے بعد تواتر سے داعش کی خبریں آرہی ہیں، اور دہشتگردی کے سانحات میں مرنے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں اور انگلیاں اسلام پہ اٹھ رہی ہیں، صورتحال کا حل کیا ہے۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو فتنہ خوارج بھی ملے گا، جو اسلام کے نام پر مسلمانوں، حتیٰ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بھی سرگرم تھے، تو اسلام کا نام لیکر ایسے لوگ ماضی میں بھی موجود تھے، لہذا یہ ضروری نہیں کہ اسلام کا نام لینے والا ہر گروہ اسلام کی سربلندی کیلئے ہی سرگرم ہو۔ دہشت گرد اسلام کے نام کو بدنام کر رہے ہیں، دہشتگردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اسلام کا معنٰی ہی سلامتی ہے۔ اسلام امن کا درس دیتا ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے جسم کے تمام اعضاء سے دوسروں کو فائدہ پہنچے، اگر اس کے اعضاء سے دوسروں کو فائدہ نہیں پہنچ رہا، بلکہ نقصان پہنچ رہا ہے، تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ طالبان ہوں یا داعش، جو بھی دہشت گردی کرتا ہے، دین اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں بطور مفتی یہ فتویٰ دے چکا ہوں کہ جو لوگ دہشتگردی اور خودکش حملے کرتے ہوئے مر جاتے ہیں، وہ حرام کی موت مرتے ہیں، ایسے  لوگوں کے لئے آخرت میں جنت نہیں جہنم ہے۔ دہشتگرد جہنمی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے تعلیمات محمد (ص) کو اجاگر کیا جائے، دنیا کے کونے کونے تک اسلام کے حقیقی پیغام کو پہنچایا جائے اور ہر قسم کی دہشتگردی و دہشتگردوں کی مذمت کرکے ان سے بیزاری کا اظہار کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: آرمی پبلک سکول کے بعد چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں دہشتگردی کا بہت بڑا سانحہ برپا کیا گیا ہے، ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنیوالوں کا لال مسجد سے تعلق جا نکلا ہے، آپکے خیال میں حکومت کو کیا کرنا چاہیئے۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
میں متعدد پلیٹ فارمز پر مولوی عبدالعزیز کی گرفتاری کا مطالبہ کرچکا ہوں۔ حکومت کو ہر دہشت گرد، دہشت گردی کیلئے تاویلیں پیش کرنے والے، دہشت گردوں کی پشت پناہی یا انہیں زمینی، نظریاتی تحفظ فراہم کرنے والوں کے خلاف انتہائی سختی سے پیش آنا چاہیئے۔ ایک شخص دہشت گردوں کی اعلانیہ حمایت کرتا ہے، ان کو نظریاتی تحفظ فراہم کرتا ہے، معلوم نہیں اس کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ ہمارے وزیر داخلہ کا لب و لہجہ اور رویہ ان عناصر کے ساتھ زیادہ نرم اور شیریں محسوس ہوتا ہے۔ ہماری درسگاہوں، سکولوں، یونیورسٹیز میں بچوں کو بیدردی سے مارا جا رہا ہے، جبکہ مولوی عبدالعزیز کی قبیل کے لوگ ان سانحات کی مذمت تک نہیں کرتے بلکہ دہشت گردوں کی جانب سے صفائیاں پیش کرتے ہیں، تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی دہشتگرد یہی ہیں، میں پہلے بھی کہتا تھا اور اب بھی کہتا ہوں، ان کے خلاف سخت اور جامع کارروائی کرنے کی اشد ضرورت ہے، جب تک دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ ہمارا رویہ نرم رہیگا، سانحات ہوتے رہیںگے۔ آرمی پبلک سکول کے بعد باچا خان یونیورسٹی پر حملہ دہشتگردوں کا غیر انسانی فعل ہے، جہنمی دہشتگرد کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک خیال یہ بھی ہے کہ اب تک نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو کارروائیاں سرانجام دی گئی ہیں، وہ ناکام ہوگئی ہیں، اس لئے دہشتگردی کی کارروائیاں جاری ہیں۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری فورسز کا کردار بے مثال ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ پاک فورسز کو جن مشکل حالات میں بیک وقت خارجی و داخلی محاذوں پر برسرپیکار ہونا پڑا، کسی اور فورس کے بس کی بات نہیں تھی۔ گرچہ دہشت گرد اب بھی جہاں موقع ملے حملہ کرتے ہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک فوج نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ اب دہشت گردی کی کارروائیوں میں پہلے کی طرح شدت باقی نہیں ہے۔ جو اندرون ملک یا بیرون ملک پاکستان کی سلامتی کے خلاف دہشتگرد سرگرم ہیں، انشاء اللہ پاک فوج ان کا بھی جلد ہی قلع قمع کریگی۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں سعودی عرب کی قیادت میں 34 ملکی اتحاد ترتیب دیا گیا ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے حل میں یہ اتحاد کتنا کارآمد ہوگا۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
اگرچہ اس میں اسلامی ممالک شامل ہیں، تاہم میں اسے اسلامی دنیا کو درپیش چیلنجز کے حل میں معاون بھی نہیں سمجھتا، بلکہ اسلامی دنیا کو مزید تقسیم کرنے کے مترادف سمجھتا ہوں۔ اس اتحاد میں ایران، شام، عراق جیسے اہم ممالک شامل نہیں ہیں۔ اس اتحاد کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ، یا داعش کا خاتمہ بتایا گیا، مگر داعش سے جو ممالک زیادہ متاثر ہیں، وہ اس اتحاد میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس اتحاد میں شامل کچھ ممالک یمن پر حملے میں شریک ہیں اور یمن کا سابق صدر بھی اس اتحاد میں شامل ہے۔ 34 ملکی اتحاد میں پاکستان نے بھی نام کی حد تک شمولیت کی حامی بھری ہے۔ وگرنہ جس وقت اس 34 ملکی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کا فیصلہ ہوا، اس وقت تو پاکستان کو خود بھی نہیں پتہ تھا، حالانکہ پاکستان یمن کے مسئلہ پر غیر جانبدار رہا تھا۔ خیر ہماری دعا ہے کہ اسلامی دنیا کا ایک ایسا اتحاد وجود میں آئے، جس میں تمام اسلامی ممالک شامل ہوں، اور یہ اتحاد کسی ایک یا ایک سے زائد اسلامی ملک کے خلاف بھی نہ ہو اور نہ ہی اس کے عزائم و مقاصد فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہوں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب اور ایران کو ایکدوسرے کے قریب لانے کیلئے پاکستان کے حالیہ کردار سے متعلق آپکا کیا موقف ہے۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
سعودی عرب اور ایران اسلامی دنیا کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے اہم ملک ہیں۔ سعودی عرب میں شیخ باقر النمر کی سزائے موت کو کسی صورت پسندیدہ یا ناگزیر عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر سعودی حکومت کو شیخ النمر کی شخصیت سے بہت زیادہ مسئلہ تھا، تو بھی اس کا حل سزائے موت نہیں تھا۔ انہیں سزائے موت سنائے جانے اور اس پر عملدرآمد میں بھی کچھ وقفہ تھا، اس دوران سفارتی ذرائع کو بروئے کار نہیں لایا گیا۔ سزا پر عملدرآمد کے بعد ایران میں سعودی سفارتخانے کو جو نقصان پہنچایا گیا، وہ بھی ناپسندیدہ عمل ہی تھا۔ بہرحال اسلامی دنیا کے عوام دونوں ممالک سے خیر کی امید رکھتے ہیں، دونوں کے درمیان رنجشوں سے صرف اسلام کے دشمنوں کو ہی فائدہ ملے گا۔ اگر مسلکی تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ہمارا برادر پڑوسی ملک ایران اتحاد کے لیے بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ اس کی پالیسی اتحاد کے حوالے سے بہت اچھی ہے۔ ایران پوری اسلامی دنیا میں اتحاد، اتفاق کیلئے کوشاں بھی ہے اور خواہش مند بھی ہے۔ اس کی بڑی واضح پالیسی ہے کہ ہر ملک کا شہری اپنے ملک کے قوانین کا احترام کرے اور اپنے عقیدے پہ آزادی سے کاربند رہے۔ ایران میں فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کی اکثریت ہے، مگر وہاں سب امن و اتفاق سے رہتے ہیں۔  ایران اور سعودی عرب کو دوبارہ سے قریب لانے میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے، لائق ستائش ہے۔ وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف نے دونوں ممالک کے دورے کرکے ثابت کیا ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کے اجتماعی مفادات کا نگہبان ہے۔

اسلام ٹائمز: یمن پر سعودی حملوں کی ابتداء سے تاحال حرمین کو درپیش خطرے کا ذکر تواتر سے کیا جا رہا ہے، کیا واقعی کسی اسلامی ملک کیجانب سے حرمین کو خطرہ لاحق ہے۔؟
صاحبزادہ نثار المصطفٰی:
مسکراتے ہوئے، حفاظت حرمین ہر مسلمان واجب سمجھتا ہے۔ اس لیے میرا نہیں خیال کہ حرمین الشریفین کو کسی اسلامی ملک سے کوئی خطرہ لاحق ہے۔ تاہم اسلام دشمن طاقتیں اپنے مخصوص عزائم حاصل کرنے کیلئے سرگرم ہیں اور وہ ناکام و نامراد رہیں گی، انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 514358
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش