0
Thursday 28 Jan 2016 21:39
آج کے طلباء ہی کل کی فلسطینی قیادت اور فلسطین کی تحریک آزادی انہی کے دم قدم سے ہے

بان کی مون کو دہشتگرد قرار دیا جانا دراصل پوری اقوام متحدہ کو دہشتگرد قرار دیا جانا ہے، صابر کربلائی

بان کی مون کو دہشتگرد قرار دیا جانا دراصل پوری اقوام متحدہ کو دہشتگرد قرار دیا جانا ہے، صابر کربلائی
صابر کربلائی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ وہ فلسطین فانڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے یکجہتی فلسطین (APSP) اور گلوبل کمپین ٹو ریٹرن ٹو فلسطین (GCRP) کے بانی اراکین میں شمار ہوتے ہیں۔ 2012ء میں عالمی مارچ برائے آزادی القدس (GMJ) کے پاکستان میں بنیادی آرگنائزر بھی ہیں۔ صابر کربلائی کا نام پاکستان کے ان چیدہ افراد میں سرفہرست آتا ہے جنہوں نے ماضی یا حال میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جدوجہد کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ صابر کربلائی ایک مایہ ناز ریسرچ اسکالر اور کالم نویسی بھی کرتے ہیں، ان کے درجنوں کالم پاکستان کے معروف اخبار روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوچکے ہیں، وہ غرب ایشیا (مشرق وسطٰی) اور فلسطین کے حوالے سے خصوصی کالم نویسی انجام دیتے ہیں۔ دور حاضر میں فلسطین فانڈیشن پاکستان ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم ہے جس سے پاکستان کی ہر سیاسی و مذہبی جماعت سمیت حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اچھی طرح سے واقفیت رکھتی ہیں، گذشتہ دنوں ہی فلسطین پر غاصب اسرائیلی تسلط کے عنوان سے دنیا بھر میں یوم نکبہ مہم کا آغاز کیا گیا تو پاکستان واحد ملک تھا کہ جہاں فلسطین فانڈیشن پاکستان کی سرگرمیاں عرب ممالک کی نسبت زیادہ سراہی گئیں۔ گذشتہ تین مہینوں سے صیہونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور ان تین مہینوں  میں ایک سو ساٹھ سے زائد شہادتیں اور سینکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اسلام ٹائمز نے ان کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: فلسطین میں جاری انتقاضہ قدس سوم کی موجود صورتحال کیا ہے۔؟
صابر کربلائی:
فلسطین میں تحریک انتفاضہ تین ماہ سے جاری ہے۔ ہر آنے والے روز فلسطینی بچے، بوڑھے، جوان، مرد و زن تحریک کی لو تیز کرنے کے لئے اپنا خون پیش کر رہے ہیں۔ فلسطینی نوجوان ہر اعتبار سے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ مزاحمت کے نئے اور منفرد اسلوب سے دشمن کی انگشت بدنداں ہے طاقت، وحشت اور بربریت کے باوجود فلسطینیوں کا جذبہ حریت جوان سے جوان تر ہو رہا ہے۔ وطن اور قوم کے سلب شدہ حقوق کے حصول کے لئے جاری جدوجہد ثمر آور ثابت ہو رہی ہے۔ تحریک انتفاضہ کے آغاز کے وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ اس تحریک کا آگے بڑھنا مشکل ہے۔ اسی طرح اس کی سمت کا تعین کرنا بھی مشکل ہی سمجھا جا رہا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ تحریک کا کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر شروع ہونا تھا۔ اندرون ملک اور علاقائی سطح پر بھی تحریک انتفاضہ کے لئے فضاء سازگار نہ تھی اور اس کی مخالفت بھی کی جا رہی تھی۔ کچھ دنوں کی تحریک انتفاضہ کے بعد موضوعی عوامل نے نہ صرف یہ ثابت کیا ہے کہ یہ تحریک جاری رہے گی بلکہ اس کی درست سمت کا بھی تعین کر دیا ہے۔ گو کہ اب بھی اس تحریک کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں طرح کی آراء پائی جا رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز۔ آپکے خیال میں انتفاضہ القدس جاری رہے گا۔ اگر یہ جاری رہتا ہے تو کب تلک؟ اسے جاری رکھنے کے عوامل اور اختتام کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟
صابر کربلائی:
میرے خیال میں انتفاضہ القدس بدستور جاری ہے اور اس کے جاری رہنے کے تمام اسباب نہ صرف موجود ہیں بلکہ پوری قوت کے ساتھ کار فرما ہیں۔ گو کہ قومی صورت حال اور علاقائی حالات کافی پیچیدہ ہیں، مگر میں پورے وثوق سے کہوں گا کہ تحریک انتفاضہ القدس جاری رہے گی۔ اس تحریک کے جاری رہنے کے درج ذیل اسباب ہیں۔
مسئلہ فلسطین کے سیاسی حل کے تمام امکانات کے باب بند ہونے، اوسلو معاہدے کے منفی نتائج کے ظہور اور اس سمجھوتے کے کرتا دھرتاؤں کی جانب سے اس کی ناکامی کے اعتراف نے انتفاضہ القدس کو تقویت دی۔
قابض اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں دراندازی میں اضافہ، فلسطینیوں پر تشدد اور مظالم میں غیر معمولی اضافہ۔
غرب اردن اور بیت المقدس سمیت تمام فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری میں اضافہ، جس نے فلسطین کے قومی تشخص کو غیر معمولی حد تک متاثر کیا۔
غرب اردن میں فلسطینی اراضی کو ہتھیانے اور فلسطینی رقبے کو یہودیانے کی اسکیموں میں تسلسل اور اضافہ۔
اسرائیلی حکومت اور صہیونی سماج میں انتہا پسندی کے فروغ پذیر رحجانات و مظاہر، یہودی اداروں میں انتہا پسندوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ اور سیاسی اداروں پر انتہا پسندوں کا غلبہ۔
غزہ کی پٹی کے محاصرہ میں شدت اور غزہ کی ناکہ بندی ہٹانے کے لئے کی جانے والی سیاسی اور سفارتی مساعی کو سبوتاژ کرنے کی صہیونی پالیسی۔
فلسطینی سیاسی جماعتوں کی صفوں میں پائی جانے والی رسہ کشی اور اس کی روک تھام کے حوالے سے عوام میں پائی جانے والی مایوسی۔ وہ بنیادی اسباب ہیں جو تحریک انتفاضہ کے برقرار رہنے اور اس میں شدت پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ اسباب مذکورہ کی بناء پر فلسطینی تحریک انتفاضہ میں دن رات شدت آتی جا رہی ہے اور اس روکنے کی صہیونی سازشیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔ اس تحریک کو آگے بڑھانے اور اسے تقویت دینے کے لئے فلسطینی نوجوانوں اور نئی نسل کا کلیدی کردار ہے، جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیلنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ اسرائیلی دشمن کو اندازہ ہوچکا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نئی نسل کو بلیک میل نہیں کرسکتا اور تحریک انتفاضہ اب کسی جماعت کی مرہون منت بھی نہیں کہ کوئی اسے روک دے۔ اس تحریک میں وہ فلسطینی نوجوان حصہ لے رہے ہیں، جن کی کوئی سیاسی وابستگیاں بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریک تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس انتقاضہ میں کتنے فلسطینی شہید اور کتنے زخمی ہوئے ہیں اور زیادہ تر واقعات کن علاقوں میں پیش آئے ہیں۔؟
صابر کربلائی:
تیسری تحریک انتفاضہ القدس اپنے پورے ولولہ کے ساتھ اسرائیل پر کاری ضرب لگا رہی ہے اور جہاں تک اس تحریک کے شہداء کی تعداد کا تعلق ہے تو آج مورخہ 28 جنوری تک 165 (ایک سو پینسٹھ) فلسطینی جوان بشمول طلباء و طالبات شہید ہوچکے ہیں جبکہ صیہونی مظالم کی زد میں آکر گذشتہ تین ماہ میں اب تک دو ہزار دو سو سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے، اسی طرح سیکڑوں کی تعداد میں فلسطینیوں کو قید و بند کی سختیوں سے بھی گزارا جا رہا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی حالیہ رپورٹس کے مطابق صیہونی زندانوں میں قید کئے جانے والوں میں کمسن بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انتفاضہ کو آگے بڑھانے کیلئے خواتین، طلباء، نوجوانوں اور بچیوں کا کردار کس حد تک اہم ہے۔؟
صابر کربلائی:
تحریک آزادی فلسطین کے تمام مراحل میں فلسطینی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا خصوصی کردار رہا ہے اور یہ کردار آئندہ بھی قائم رہے گا۔ فلسطینی ماؤں نے اپنے بچوں کو ثابت قدمی، استقلال، عزم و ہمت اور جذبہ قربانی کی جو تربیت دی، اس کی دنیا میں کہیں نظیر نہیں ملتی۔ یہ فلسطینی ماؤں کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مٹھی بھر فلسطینی مجاھدین قابض صہیونی ریاست کو ناکوں چنے چپوا رہے ہیں۔ فلسطینی خواتین ہر محاذ اور میدان میں پیش پیش رہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ہی نہیں بلکہ براہ راست تحریک آزادی کے ہر محاذ میں لازوال قربانیاں پیش کیں۔ فلسطینی خواتین نے مقدس مقامات کے دفاع کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ جدوجہد کی اور مردوں کے ساتھ مل کر دشمن کے ہر پرخطر وار کا مقابلہ کیا۔ اس لئے خواتین کی خدمات اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ طلباء فلسطینی تحریک آزادی کا ستون کہلاتے اور تحریک کا ایندھن ہیں۔ آج کے طلباء کل کی فلسطینی قیادت ہے اور فلسطین کی تحریک آزادی انہی کی دم قدم سے ہے۔ فلسطین کی تمام تنظیموں کو طلباء کی مدد اور معاونت حاصل ہے اور ہر دور میں طلباء سیاسی اور مزاحمتی تنظیموں کی اٹھائی گئی تحریکوں کو اپنے خون اور پسینے سے سینچتے رہے ہیں۔ فلسطین کی طلباء قیادت نے عوام میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ طلباء کو بھی تحریک آزادی کے ساتھ ہم آہنگ کئے رکھا۔ فلسطینی بچوں اور بچیوں کی تحریک آزادی میں بھی گراں قدر خدمات اور لازوال قربانیاں ہیں۔ فلسطینی بچے بچے میں وطن سے محبت اور آزادی سے جنون کی حد تک عشق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کم عمری کے باوجود فلسطینی نونہالوں نے بڑوں کی طرح اولوالعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے ہر کاری وار کو سہنے کے ساتھ ساتھ بھرپور قوت سے اس کا جواب دینے اور دشمن کے خلاف لڑ مرنے کا عملی ثبوت پیش کیا۔ صہیونی دشمن کی جانب سے فلسطینی بچوں کو ڈرامے دھمکانے، ورغلانے اور لالچ اور دھونس کے ذریعے ان کا ضمیر خریدنے کے تمام مکروہ حربے بھی بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسرائیل میڈیا الزام لگاتا ہے کہ فلسطینی نوجوان ہمیں چاقو کے ذریعے قتل کر رہے ہیں، یہ کس حد درست ہے اور اس انتقاضہ میں اب تک کتنے اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں۔؟
صابر کربلائی:
اسرائیل کا کام ہی جھوٹ بولنا اور الزام تراشی ہے اور صیہونیوں کی پوری تاریخ اسی جھوٹ اور الزام تراشیوں سے سیاہ پڑی ہوئی ہے، لیکن جہاں تک فلسطینی جوانوں کی مقاومت کی بات ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مظلوم فلسطینی ملت اپنے دفاع کے لئے بلکہ خود سے زیادہ مقبوضہ بیت المقدس اور دیگر مقدس مقامات کے دفاع کو مقدم رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تیسری تحریک انتفاضہ تین ماہ سے جاری ہے اور اب اسے چار ماہ کا عرصہ ہونے والا ہے۔ جی ہاں یہ بات درست ہے کہ فلسطینی مظلوموں نے دفاع قبلہ اول کے لئے جو ہتھیار اختیار کیا ہے، وہ چاقو ہے یا پھر اسکرو ڈائیور اقسام کی چیزیں ہیں، جس کی مدد سے وہ گھات لگا کر موقع دیکھتے ہی مقبوضہ سرزمین پر موجود صیہونی غاصب فوجیوں پر حملہ کرتے ہیں اور پھر منظر سے ہٹ جاتے ہیں، تاہم ان کارروائیوں میں فلسطینیوں کی شہادتیں بھی ہو رہی ہیں، جس کا پہلے ہی تذکرہ کیا گیا ہے، تاہم ان حملوں میں صیہونی افواج کو بھی ایک طرف پریشانی لاحق ہے تو دوسری جانب ان مجاہدانہ کارروائیوں کے نتیجے میں تین ماہ میں تیس (30) صیہونی فوجیوں کو واصل جہنم کیا جا چکا ہے جبکہ تین سو سے زائد اب تک زخمی ہوئے ہیں، جو کہ خود اسرائیلی انتظامیہ کے لئے سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کیجانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون پر دہشتگردوں کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا ہے۔؟
صابر کربلائی:
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل جو کہ نہ صرف غیر قانونی بلکہ جارح اور دہشت گردی کا مرکز ریاست ہے، اس کے حکمران خواہ وہ ماضی میں ہوں یا موجودہ نیتن یاہو ہوں، پوری دنیا ان سے واقف ہے کہ یہ خود دہشت گردی کے منبع ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی دراصل انہی کی کوکھ سے جنم لے کر پوری انسانیت کو خاک و خون میں غلطاں کر رہی ہے، تاہم صیہونی دہشت گرد وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے بان کی مون کو دہشت گردوں کا سرپرست کہنا ایک حوالے سے اس طرح درست ہے کہ اقوام متحدہ ہی تو ہے کہ جس نے ہمیشہ شیطان بزرگ امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کی ہے اور اس کام کو کسی حد تک بان کی مون نے بھی انجام دیا ہے، البتہ جہاں تک بان کی مون نے فلسطینی عوام کی حمایت اور مقبوضہ فلسطین میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کو اسرائیلی دہشت گردی سے تشبیہ دیا ہے تو شاید بہ حالت مجبوری بان کی مون کو اس قسم کا بیان دینا پڑا ہے، لیکن اس طرح کے بیانات سے مسئلہ فلسطین حل ہونے والا نہیں ہے، بات یہ ہے کہ بان کی مون اگر واقعی اسرائیلی غاصب ریاست کو دہشت گرد سمجھ رہے ہیں تو پھر اقوام متحدہ کی اسمبلی میں دہشت گرد ریاست کو کیوں رکنیت دے رکھی ہے۔؟ آخر کیوں بان کی مون مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے، بہرحال بان کی مون کا فلسطینیوں کی حمایت میں بیان آنا صرف اس حد تک تو ہے کہ اسے کسی جگہ پر ریفرنس بنایا جائے، لیکن عملی طور پر اقوام متحدہ اپنے بنیادی مقصد قیام امن میں ناکام ہوچکی ہے اور نیتن یاہو کی جانب سے بان کی مون کو دہشت گرد قرار دیا جانا دراصل پوری اقوام متحدہ کو دہشت گرد قرار دیا جانا ہے۔ لہذا اب پوری دنیا کے عوام اور حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ ان کو مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینا ہے یا پھر ظالم و جابر غاصب صیہونی ریاست کے جرائم کی پردہ پوشی کرنی ہے۔ ان تمام تر باتوں سے بالاتر نیتن یاہو کا بیان ان کی دماغی کیفیت کو عیاں کر رہا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کوئی نارمل دماغ نہیں بلکہ جنونی اور جنگ صفت دماغ کا حامل ہے کہ جو فلسطینیوں کی حمایت میں بات کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت کون کون سے مسلم ممالک فلسطین کی بجائے اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔؟
صابر کربلائی:
موجودہ صورتحال میں بہت واضح طور پر دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہے، ایک بلاک ہے جسے مزاحمت کا بلاک کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا بلاک جسے استعماری و استکباری کہا جاتا ہے، اب آپ خود دیکھیں کہ مزاحمت کے بلاک میں کون ہے؟ آپ کو ایران، شام، لبنان میں اسلامی مزاحمت حزب اللہ، فلسطین میں حماس کا عسکری شعبہ القسام بریگیڈ، جہاد اسلامی فلسطین، عراق اور اب روس، چین بھی اس بلاک میں شامل ہوا ہے، جبکہ اس مزاحمت کے بلاک کی مخالفت میں سرفہرست امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، یورپی یونین میں شامل ممالک، اسی طرح عرب لیگ میں شامل ممالک کی بڑی تعداد ہے، جو استعماری اور مزاحمت مخالف بلاک کے ساتھ ہے اور یہی بلاک ہے کہ جو نہ صرف فلسطینیوں کی مدد سے گریز کرتا ہے بلکہ فلسطینیوں کی مدد کرنے والوں پر بھی ضربیں لگانے کی گھنائونی سازشیں کر رہا ہے، تاہم یہی دوسرا بلاک ہے، جو فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ کو پسند نہیں کرتا جبکہ مزاحمتی بلاک روز اول سے فلسطینیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ ہے۔

اسلام ٹائمز: اسرائیلی وزیر دفاع موشے یعلون نے کہا ہے داعش اپنا تیل ترکی کو فروخت کر رہا ہے اور مزے کر رہا ہے۔؟
صابر کربلائی:
جی ہاں یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ماضی میں بھی امریکہ اور اسرائیل نے اپنے لے پالک دہشت گرد گروہوں القاعدہ اور طالبان کو اسی طرح کے کاروباری مراکز پر قبضہ کروا کر افغانستان اور عراق سمیت لیبیا اور یمن میں ایسے ہی کاروبار کروائے تھے، تاہم اب موجودہ دور میں امریکی اور اسرائیلی دوستی میں اندھی ہوئی ترکی حکومت بھی داعش نامی اس تکفیری دہشت گرد گروہ سے تیل کے سودے کر رہی ہے اور اس طرح جو رقم انہیں تیل خریدنے کی مد میں دی جاتی ہے، دراصل وہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے کے لئے دی جا رہی ہے، لیکن اب ترکی کے بارے میں داعش کے ساتھ تعلقات پوری دنیا میں کھل کر سامنے آچکے ہیں، جسے روس نے بھی بار ہا پوائنٹ آئوٹ کیا ہے اور اب اسرائیل نے بھی شاید کسی ناراضگی کے باعث ترکی کے اس راز کو افشاں کر دیا ہے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ داعش کی مدد تیل کی خرید و فروخت کے ذریعے ترکی کی مدد سے کی جا رہی ہے۔ دراصل ترکی اسرائیل ہی کی ایماء پر داعش کی مالی معاونت کے لئے تیل کے کچھ ذخائر پر قابض داعش سے تیل لے رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس انتقاضہ میں حماس اور جہاد اسلامی کا کیا کردار ہے۔؟
صابر کربلائی:
فلسطین میں اسرائیلی دشمن کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں فلسطینیوں کی انفرادی کارروائیاں اکثریت میں ہیں اور فلسطینی شہری کسی تنظیم یا جماعت کی سپورٹ کے بجائے انفرادی طور پر اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس انتقاضہ کو مستقبل میں کس طرح دیکھتے ہیں؟ یہ انتقاضہ فلسطین کیلئے مثبت ثابت ہوگا یا منفی۔؟
صابر کربلائی:
تحریک انتفاضہ نے اب تک کے عرصے میں بھی اپنے نتائج اور اثرات سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ تحریک تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ میرے خیال میں اس تحریک کے مستقبل میں درج ذیل نتائج اور اثرات مرتب ہونے چاہئیں۔
مسجد اقصٰی کی زمانی اور مکانی تقسیم کے سلسلے میں جاری صہیونی سازشوں کی روک تھام۔
فلسطینی شہریوں کے خلاف یہودی انتہا پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں میں کمی اور دوابشہ خاندان کو زندہ جلائے جانے جیسے ہولناک واقعات کی روک تھام۔
اسرائیلی ریاست کی علاقائی سطح پر اپنے اصل مقام پر واپسی۔ یعنی خطے کے تمام ممالک اسرائیل کے بارے میں یہ طے کر لیں کہ اسرائیل دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے اتحاد کا حصہ نہیں بلکہ خود دہشت گرد ریاست ہے، جو مشرق وسطٰی میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اسے کسی صورت میں اسلامی دنیا اور عرب ممالک کی سطح پر دہشت گردی کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ نہیں ہونا۔
یہ تحریک ثابت کرے گی کہ اسرائیل ایک وحشی ریاست ہے، جو فلسطین پر ناجائز طور پر قابض ہے۔ یہ ریاست خطے میں استحکام اور امن کی علامت نہیں بلکہ عدم استحکام کا عنوان ہے۔ یہ (صہیونی ریاست) کسی دوسرے پڑوسی ملک کی مدد نہیں کرسکتی اور نہ کوئی دوسرا ملک اس کی مدد کا مجاز ہے۔
خبر کا کوڈ : 516155
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش