2
0
Thursday 11 Feb 2016 21:30
تحفط حرمین کے نام پر تحفظ اسرائیل کا معاملہ کارفرما ہے

پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کو درپیش مسائل کا حل انقلاب اسلامی میں موجود ہے، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

34 ملکی اتحاد میں شامل ممالک اسرائیل کے دفاعی خدمتگار ہیں
پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کو درپیش مسائل کا حل انقلاب اسلامی میں موجود ہے، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
معروف ریسرچ اسکالر، کالم نویس، مقالہ نگار، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی کا نام کسی تعارف محتاج نہیں۔ طویل عرصہ شعبہ تدریس سے منسلک رہے ہیں۔ تاہم ان کی وجہ شہرت ان کی تحریریں ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیمی حوالے سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ انقلاب اسلامی کے اثرات و ثمرات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر چکوال سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ایک طویل عرصے سے وفاقی دارالحکومت میں مقیم ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ برس سے طبعیت کی ناسازی کے باوجود بھی قلمی سلسلہ رواں رکھے ہوئے ہیں اور اپنی رہائشگاہ پر طالب علموں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کا سفر کرنے کے بعد اپنے مشاہدات کو قلم بند کرچکے ہیں۔ مشرق وسطٰی کے حالات، ایران امریکہ تعلقات اور انقلاب اسلامی کی سالگرہ کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے ڈاکٹر ابوبکر عثمانی کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ہے، جس کا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ایک پاکستانی ہونیکے باوجود آپکی نصف سے زائد تحریریں ایران سے متعلق ہیں، جبکہ پاکستان کو درپیش مسائل و چیلنجز سے متعلق آپ خال خال لکھتے ہیں، کیوں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، آپ نے اپنا اور اپنے ادارے کا جو تعارف کرایا تھا، اس کے بعد یہ سوال میرے لئے یقیناً غیر متوقع ہے۔ آپ سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے۔ میری کل تحریروں کا تین چوتھائی حصہ انقلاب اسلامی سے متعلق ہے، نہ کہ ایران سے متعلق۔ میرے خیال میں دونوں میں بہت فرق ہے۔ جہاں تک پاکستان کو درپیش مسائل و چیلنجز کی بات ہے تو اگر صحیح معنوں میں انقلاب اسلامی کا مطالعہ کیا جائے تو خط امام خمینی میں نہ صرف پاکستان کے مسائل بلکہ پوری امت مسلمہ کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا حل مضمر ہے۔ مسلمان ملکوں میں آج ایران کو اگر بہت زیادہ اہمیت و حیثیت حاصل ہے اور اسے ہر لحاظ سے مضبوط و کامیاب سمجھا جا رہا ہے، تو اس میں بنیادی دخل انقلاب اسلامی کا ہے۔ گرچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امام خمینی کی قیادت میں برپا ہوئے انقلاب کی، ایرانی قوم نے حفاظت کی اور ایرانی قوم اس انقلاب کی وارث ہے۔ میرے خیال میں یہ غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی نے نہ صرف ایران کی بلکہ دیگر مسلمان ملکوں کی نظریاتی، دفاعی، معاشی، ثقافتی سرحدوں کی بھی حفاظت کی ہے۔ کیا انقلاب اسلامی سے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایران کے سامنے دنیا کی بڑی طاقتیں سرنگوں ہوں گی، تاہم آج جب انقلاب کی 37ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ایران کی شرائط پر دنیا اس سے نئے عہد و پیمان کرچکی ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایران میں کاروبار کی غرض سے ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں۔ جہاں تک پاکستان کے مسائل کا آپ نے ذکر کیا، تو اس کیلئے میں اتنا ہی کہوں گا، کہ ایران میں انقلابی حکومت نے ایک طویل عرصہ سخت معاشی پابندیوں میں گزارا، مگر اس کے باوجود نظریہ پہ کوئی کمپرو مائز نہیں کیا، داخلی و خارجی معاملات پہ گرفت مضبوط رکھی، جبکہ پاکستان جس کو پابندیوں کا سامنا بھی نہیں، پھر بھی عالمی مالیاتی فنڈ کی مدد کے بغیر چلنے سے قاصر ہے، ایٹمی طاقت سمیت ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہے، مگر اس کے باوجود یکے بعد دیگرے قومی اداروں کی نجکاری کرنے پر مجبور ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ملکی وسائل، نظم و نسق اگر امین ہاتھوں میں ہوں تو حل ہی کیا، مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ وطن عزیز کے باسیوں کی بدقسمتی کہ ان پر خائن حکمران مسلط ہیں، انقلاب سے پہلے ایرانی قوم کا نصیب بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ عرب دنیا کا بھی یہی حال ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی طاقتوں کیساتھ ایران کے جس معاہدے کا آپ نے ذکر کیا، کیا مرگ بر امریکہ کا نعرہ اس معاہدے کے بعد بے معنی نہیں ہوگیا۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
جی، یہ المیہ صرف پاکستان میں ضد انقلاب اذہان کا نہیں، بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں انقلاب مخالف عناصر سرگرم ہیں، وہ شروع سے ہی اس انقلاب اسلامی کی کامیابیوں اور ثمرات کو دھندلانے کیلئے ایسی بے سروپا (میتتھ) سوچ ایجاد کرتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران نے اپنی حکمت عملی، تدبر کے ذریعے اپنا اصولی موقف دنیا سے تسلیم کرایا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایران کی اس کامیابی کو سراہا جاتا، چہ جائیکہ یہ شور کہ مرگ بر امریکہ کا نعرہ بے معنی ہوگیا ہے۔؟ میرے خیال میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا معاہدے کے بعد انقلابی حکومت اور نظام نے اسرائیل کو قبول کرلیا ہے،؟ یا اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کی فکری و اخلاقی مدد روک دی ہے،؟ یا دنیا بھر میں حقیقی اسلامی تحریکوں سے اظہار لاتعلقی کر دیا ہے،؟ یقیناً ایسا نہیں ہے، بلکہ ایٹمی معاہدے کے بعد نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ دنیا بھر میں مستضعفین، جور و ظلم کا شکار طبقے کو نئی امید ملی ہے اور خائن حکمران و ظالم حکومتیں خود خطرہ محسوس کرنے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسی امریکہ کی سرپرستی میں، اسرائیل کی مشاورت و ایماء پر کئی کئی ملکوں پر مبنی نت نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔ تشکیل پانے والے ان نئے اتحادوں کے مدمقابل کون کھڑا ہے۔ یہ بھی دنیا پر واضح ہے۔ اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کرکے اقوام عالم کو اسلام سے جتنا متنفر کرنے کی کوشش کی گئی، انقلاب اسلامی سے متاثر تحریکوں نے اتنا ہی لوگوں کو اپنے اندر ضم کیا ہے۔ اسلام سے متنفر کرنے والے دہشتگردوں کے مقابلے میں کون ہے، اور اپنے اندر ضم کرنے والی اسلامی تحریکوں کا پشت بان کون ہے، تو اس کا جواب یقیناً اسلامی جمہوریہ ایران کی صورت میں ملتا ہے۔ آپ یا آپ کے ہم خیال افراد کیلئے شائد یہ تکلیف دہ ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ سامراج، طاغوت کے مدمقابل آج بھی پوری استقامت کیساتھ کوئی موجود ہے تو وہ ایران ہے، وہ بھی انقلاب اسلامی، خط امام خمینی کی بدولت ہے۔ پوری دنیا کے وہ انسان جو بنیادی حقوق سے محروم ہیں، مستعضف ہیں، لاچار ہیں، ظالم جابر حکمرانوں کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں، ان سب کو صرف انقلاب کے زیر سایہ نظام سے امیدیں وابستہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے فرمایا کہ دنیا نے ایران کے موقف کو تسلیم کیا ہے، مگر معاہدے کے مطابق تو ایران پہ ایٹمی قوت کے حصول کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں، اور ساتھ ہی ایران کی دفاعی تنصیبات بھی براہ راست نگرانی میں آگئی ہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
جی نہیں ایسا نہیں ہے۔ دفاعی تنصیبات کی نگرانی معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ جس حد تک ایران کو جوہری ٹیکنالوجی درکار تھی، اس پہ ایران کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ پرامن مقاصد کیلئے ایران جوہری توانائی سے استفادہ کرسکتا ہے۔ نہ ہی ایران کی کسی ذمہ دار شخصیت نے کبھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایٹم بم بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ رہبر عظیم حضرت سید علی خامنہ ای نے بھی جوہری بم بنانے سے نہ صرف منع کیا تھا بلکہ اسے انسانیت کے خلاف بھی قرار دیا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہو کہ ایران ایٹم بم بنائے یا ایٹمی دھماکہ کرے تو یہ اس کی خواہش یا خوش فہمی تو ہوسکتی ہے، کسی ملک کی پالیسی نہیں۔ ویسے میرے ذاتی خیال میں ایران کو اپنے دفاع کیلئے ایٹمی توانائی کے حصول کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس کا میزائل پروگرام نہ صرف اس کے اپنے دفاع کیلئے بلکہ صہیونی کینسر کے علاج کیلئے بھی کافی ہے۔ کچھ روز قبل ایران کی ایک ذمہ دار شخصیت نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ہمارے پاس میزائل اتنی زیادہ مقدار میں موجود ہیں کہ ان کو رکھنے کیلئے جگہ کم پڑ رہی ہے۔ ساتھ ہی میزائلز سے بھری ہوئی سرنگوں کی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ یہ بیان ان تمام ملکوں کیلئے اشارہ تھا، جو ایٹمی طاقت کی کمی کو ایران کی کمزوری سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ اس بیان کے بعد مختلف ممالک (بالخصوص ایران مخالف) کی خارجی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں، اور اس کے بعد کئی کئی ملکوں پر مبنی اتحاد بھی وجود میں لائے گئے۔

اسلام ٹائمز: آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایٹمی ایران کے مقابلے میں غیر ایٹمی ایران زیادہ طاقتور ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
جی بالکل، ایٹمی ہاتھی ملکی وسائل کے گنے زیادہ کھاتا ہے اور حرکت کم کرتا ہے۔ ایٹم بم جیسے ہتھیار کو انسانوں پر استعمال کرنے کیلئے امریکہ جتنا غیر انسانی رویہ اور درندگی درکار ہوسکتی ہے۔ جس کی کم از کم ایران سے ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہمارا ملک پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے، مگر یہ ایسا ایٹم ہے، جو ہماری حفاظت کرنے کے بجائے ہم ہی سے چوکیداری کرا رہا ہے۔ اس کی حفاظت پر ہمارے بے تحاشا وسائل خرچ ہو رہے ہیں، اس کے باوجود بھی آئے روز اس کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے یا نہ ہونے سے متعلق دشمن سوال اٹھاتے ہیں۔ ایٹم بم اس حد تک ناقابل استعمال ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام ایٹمی ملک سمارٹ جوہری ہتھیار بنا رہے ہیں، یا بنا چکے ہیں، تاکہ ان کو استعمال کرکے ایک مخصوص علاقے میں دشمن کو مقررہ حد کے اندر رہتے ہوئے نقصان پہنچایا جاسکے۔ تاہم میرے نزدیک یہ سمارٹ ایٹمی ہتھیار بھی ناقابل استعمال ہوں گے، کیونکہ دشمن اگر اپنی سرحد میں ہو تو اس ہتھیار کے استعمال کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز باقی نہیں رہتا، اور دشمن سرحدی خلاف ورزی کرکے اندر گھس آئے تو کسی بھی ملک کی فوج اپنے ملک کے اندر جوہری ہتھیار کا استعمال نہیں کریگی۔ اس کے مقابلے میں قابل استعمال جدید میزائل پروگرام زیادہ موثر ہے۔ ویسے بھی سامراج کی نظریں ایران کے ایٹمی پروگرام سے زیادہ ایران کے میزائل پروگرام پر لگی ہوئی ہیں، اور ایران کا ردعمل دیکھنے کیلئے ایران سے جب پابندیاں اٹھائی گئیں تو اس کے کچھ دیر بعد ہی ایران کے میزائل پروگرام پر پابندی کا اعلان کیا گیا تھا، جسے ایران کی حکومت نے مسترد کر دیا۔

اسلام ٹائمز: ابھی آپ نے کہا ’’امریکی سرپرستی میں، اسرائیل کی ایماء پر تشکیل پانے والا اتحاد‘‘ کیا آپ کا اشارہ اسی 34 ملکی اتحاد کیجانب ہے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
بالکل سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے اتحاد کے عزائم سمجھنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ سب سے پہلے امریکہ نے اس اتحاد کا خیر مقدم کیا ہے اور اسرائیل اس اتحاد کا غیر اعلانیہ حلیف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب دنیا میں اپنے اثر و رسوخ اور مضبوط پراکسیز کی نمائش کیلئے اسرائیل نے یہ اتحاد ایران کے ایٹمی معاہدے کے بعد تشکیل دیا ہے۔ مقصد ایران سمیت دنیا پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ اتنے ممالک میرے وجود کے دفاعی خدمتگار ہیں۔ ایران کی جانب سے میزائل سے بھری سرنگوں کا انکشاف فقط اسرائیل کیلئے تھا، تاہم عربوں بالخصوص سعودی عرب نے ایران اور اسرائیل کے درمیان اپنے وجود کا اعلانیہ اقرار کیا۔ اس سے قبل بھی ایک عرب شہزادے نے کہا تھا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ٹکراؤ کی صورت میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ میں یہ کہنے میں کوئی جھجک یا عار محسوس نہیں کرتا کہ سعودی عرب اپنے دفاع یا سالمیت کی لڑائی نہیں لڑ رہا بلکہ صرف اور صرف اسرائیل کے دفاع کی پالیسی پر کاربند ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد اتحاد نے شام میں زمینی فوج کے داخلے کا اعلان کیا ہے، جس کا جواب شام کے وزیر خارجہ نے بڑی وضاحت کیساتھ دیا ہے اور ایرانی ذمہ داران نے بھی سعودی عرب کو ایسی غلطی کے ارتکاب سے منع کیا ہے۔ اگر واقعی یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہوتا تو اس کے سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز کی ابتدا خلیجی ریاستوں سے ہوتی۔ جہاں سب سے زیادہ دہشتگرد کمانڈرز ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ جہاں سے دہشتگرد تنظیمیں آپریٹ ہوتی ہیں۔ اگر یہ اتحاد مخلص ہوتا تو شام، عراق اس اتحاد میں شامل ہوتے اور ان کی رائے کو مقدم رکھا جاتا، کیونکہ دہشتگردی کا شکار وہی ملک زیادہ ہیں۔ مسلکی بنیادوں پر ملکوں و ریاستوں کا اکٹھ عالم اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹنے کے مترادف ہے۔ اس اتحاد کے تجویز کنندہ، پشت بان اور اراکین عالم اسلام کے اجتماعی مفادات کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ (بات ذرا دور نکل گئی) جہاں تک پاکستان کی اس اتحاد میں شمولیت کی بات ہے تو موجودہ حکمرانوں کے ذاتی مفادات اس امر کے متقاضی تھے کہ رسمی طور پر ہی سہی اس میں شرکت کرے۔ پاکستان کا یہ موقف اصولی ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو پاکستان ساتھ کھڑا ہوگا، کیونکہ پاکستان یہ جانتا ہے کہ خطرہ سعودی عرب کی سالمیت کو درپیش نہیں، نہ ہی حرمین کو بلکہ تحفظ حرمین کے نام تحفظ اسرائیل کا معاملہ کارفرما ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی دفاعی پالیسی میں اسرائیل کو دشمن کا درجہ حاصل ہے۔ سعودی عرب کی طرح دوست کا نہیں۔

اسلام ٹائمز: داعش سے تو پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے، اسکے تدارک کیلئے اگر اسلامی ممالک یا خطے کے ممالک اکٹھے ہوتے ہیں تو کیا یہ خوش آئند نہیں ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
مسکراتے ہوئے، علاقائی کہاوت ہے کہ دلی شہر نمونہ، اندر مٹی باہر چونا۔ چند روز قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ کو خاتون صحافی نے آئینہ دکھایا کہ داعش تو آپ نے خود تخلیق کی تھی، یہ حقیقت ہے۔ طالبان، القاعدہ، داعش، بوکو حرام اور اس طرح کے دیگر ناموں کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک ہی ملٹی نیشنل کمپنی کی مختلف مصنوعات۔ دہشتگردی ایک عالمی کاروبار کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اس کاروبار کو تخلیق کرنے والے، پھیلانے والے، فروغ دینے والے اور اس سے نفع حاصل کرنے والے (امریکہ اور اس کے حلیف) اسی دہشت گردی کو ختم کرنے کے اعلانات کرتے ہیں، اور اپنے عزائم کے حصول کیلئے مختلف ملکوں کو حالت جنگ میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس کاروبار میں امریکہ اور دیگر چند ممالک کو تو فائدہ ہی فائدہ ہیں، البتہ پوری دنیا کو ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ اس داعش کے خلاف امریکی ایماء، سعودی قیادت اور اسرائیلی خواہش پر مبنی اتحاد کتنا خوش آئند ہوسکتا ہے۔ جو داعش امریکہ نے تخلیق کی ہو، سعودی سرمائے سے پروان چڑھی ہو اور اسرائیلی کمک سے جس نے شام کو تہس نہس کیا ہو۔ یقیناً یہ عجیب بات ہی ہے کہ اسی داعش کے خلاف ایسا اتحاد تشکیل پایا ہے، جس کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے اور خیر مقدم امریکہ کر رہا ہے۔ داعش جس نے سب سے زیادہ شام میں تباہی پھیلائی، یہ اتحاد اسی شام پر حملے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ اس تناظر میں تو اتحاد اور دہشتگردوں کے مقاصد مشترکہ ہیں۔ دہشتگردی چند ممالک کا نفع بخش کاروبار ہے اور وہ اس نفع بخش کاروبار سے کنارہ کش نہیں ہوسکتے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کیلئے پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے، اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
پاکستان نے اپنی طرف سے مخلصانہ کوششیں کی ہیں اور کسی حد تک سعودی حکمرانوں کے خدشات کو رفع بھی کیا ہے۔ میرے خیال میں سعودی حکومت کو پاکستان کا مشکور ہونا چاہیئے، ہمیشہ کی طرح پاکستان نے انہیں ایک مشکل سے نکالا ہے، قرین قیاس یہی تھا کہ اگر پاکستان سعودی عرب کے مخالف پلڑے میں اپنا وزن ڈالتا نجد و حجاز میں ایک بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہوچکی ہوتی۔

اسلام ٹائمز: فلسطین کی آزادی کیلئے تو لکھتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں، مگر کشمیر کی آزادی کی بات نہیں کرتے، اس تضاد کو کیا سمجھا جائے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
مسئلہ کشمیر کے حل میں مخلصی بنیادی شرط ہے، جس کا فقدان ہے۔ آئے روز اخبارات کے آرٹیکلز میں نت نئے انکشافات تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے، یہاں تک کہ ماضی میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آچکا ہے کہ جس میں اقوام متحدہ کے اندر پاکستانی وفد کے سربراہ کی تقریر سے بھارتی وفد کی ایماء پر نہ صرف کشمیر سے متعلق فقرے حذف کئے گئے، بلکہ تقریر کا متن بھارتی ہائی کمشنر کو دکھا کر منظوری لی گی۔ اب اس کے بعد مزید کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ اوفا میں پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات میں پاک بھارت مذاکرات کی بحالی پر اتفاق ہوا۔ اس وقت جو ایجنڈا تشکیل پایا، اس میں کشمیر کا لفظ تک شامل نہیں کیا گیا، مذاکرات کا وقت آیا تو اسی نقطے کو لیکر بھارت نے مذاکرات سے فرار اختیار کیا۔ کشمیر سے بالاتر ہوکر دیکھیں تو دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان گہرا یارانہ محسوس ہوتا ہے، جبکہ لاہور میں پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات میں معروف تاجر کی پس پردہ کوششوں کا انکشاف کاروباری مقاصد کو بھی عیاں کرتا ہے۔ میں اعداد و شمار میں نہیں جاتا، تاہم بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں انتخابات میں پول ہونے والے ووٹوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں کل 87 نشستیں ہیں، جبکہ اس اسمبلی میں مخلوط حکومت ہے۔ فرض کریں اگر اس اسمبلی میں مودی کی جماعت کو سادہ یا دو تہائی اکثریت حاصل ہو جاتی ہے اور اسی اسمبلی میں ایک بل کے ذریعے وہ مقبوضہ کشمیر کو حاصل سپیشل سٹیٹس ختم کرا دیتی ہے تو کشمیر کا معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہوکر رہ جائے گا۔ میرے خیال میں اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس اب انتخابات کے بائیکاٹ کا سلسلہ ختم کرکے انہی انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے آزادی کا بل پاس کریں۔ اس کے علاوہ کشمیر کے مسئلہ کا حل یو این کے پاس ہے، پاکستان کو اپنا مقدمہ وہیں پر لڑنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 520094
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ahsan
United Kingdom
اسلام ٹائمز: معروف اسکالر اور رائٹر نے اسلام ٹائمز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی ہاتھی ملکی وسائل کے گنے زیادہ کھاتا ہے اور حرکت کم کرتا ہے۔ ایٹم بم جیسے ہتھیار کو انسانوں پر استعمال کرنے کیلئے امریکہ جتنا غیر انسانی رویہ اور درندگی درکار ہوسکتی ہے، جس کی کم از کم ایران سے ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہمارا ملک پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے، مگر یہ ایسا ایٹم ہے جو ہماری حفاظت کرنے کے بجائے ہم ہی سے چوکیداری کرا رہا ہے۔ اس کی حفاظت پر ہمارے بے تحاشا وسائل خرچ ہو رہے ہیں، اس کے باوجود بھی آئے روز اس کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے یا نہ ہونے سے متعلق دشمن سوال اٹھاتے ہیں۔ ایٹم بم اس حد تک ناقابل استعمال ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام ایٹمی ملک سمارٹ جوہری ہتھیار بنا رہے ہیں۔
Fatima
United Kingdom
Amazingly well written
ہماری پیشکش