0
Tuesday 23 Feb 2016 22:41

خیبر پختونخوا حکومت نااہل ترین حکومت ہے، پشاور سمیت صوبہ میں فوجی آپریشن کی ضرورت ہے، علامہ سبطین حسینی

خیبر پختونخوا حکومت نااہل ترین حکومت ہے، پشاور سمیت صوبہ میں فوجی آپریشن کی ضرورت ہے، علامہ سبطین حسینی
علامہ سید محمد سبطین حسینی کا تعلق پارا چنار سے ہے، وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، القائم ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جس کے تحت چلنے والی زینبیہ اکیڈمی شہداء کے بچوں کی کفالت کی اہم ذمہ داری انجام دے رہی ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر اور دیگر چند تازہ ترین موضوعات پر علامہ سبطین حسینی کا انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا بالخصوص پشاور میں اب بھی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، لیکن حکومت ناکام نظر آرہی ہے، اس حوالے سے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔؟
علامہ سبطین حسینی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جیسا کہ پورے ملک میں ضرب عضب کی آڑ میں دہشتگردوں کا پیچھا کیا جا رہا ہے، لیکن افسوس پشاور شہر کی حد تک کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے، ٹارگٹ کلرز اور دہشتگردوں کی بھرپور انداز میں کارروائیاں جاری ہیں، اس سلسلے میں نہ ہی فورسز والے کوئی خاطر خواہ اقدامات کر رہے ہیں اور نہ ہی حکومت والے، ہم نے فورسز سے پریس کانفرنسز کے ذریعے بار بار اپیلیں کیں، مطالبات کئے کہ حکومت کا کام نہیں، یہ پولیس کا کام نہیں، چونکہ وہ بیچارے تو اپنی حفاظت بھی نہیں کرسکتے، تو براہ کرم آپ دور دراز تو جاتے ہیں لیکن آپ کے منہ میں جو بیٹھے ہیں, ان کیخلاف کارروائی کریں، لیکن افسوس کہ ان اقدامات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا اور صوبائی حکومت تو نااہل ترین حکومت ہے، اس سے قبل جب ایسے واقعات ہوتے تھے تو حکومتی اہلکار، وزراء آتے تھے، حتٰی کہ جنازوں پر ورثاء سے پہلے پہنچ جاتے تھے، لیکن اس حکومت کے نمائندے تو ٹس سے مس نہیں ہوتے، نہ کسی شہید کے جنازے پر آتے ہیں نہ تعزیت پر اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھاتے ہیں، ہم نے اس سلسلے میں وزیراعلٰی سے بھی ملاقات کی تھی، آئی جی سے بھی ملے تھے، لیکن کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوسکا، ہم دیکھ رہے ہیں کہ فوج کب تک یہ منظر دیکھے گی، تڑپتی نعشوں، ان کے بچوں کی سسکیوں کا نظارہ کرے گی، تو براہ کرم جتنی جلدی ہوسکے آپریشن کرکے پشاور شہر کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پشاور سمیت صوبہ کے مختلف اضلاع میں فوجی آپریشن کی ضرورت ہے۔؟
علامہ سبطین حسینی:
جی بالکل۔ لیکن پشاور میں تو آپریشن کی اشد ضرورت ہے، یہاں کالعدم تنظیمیں ہیں، جلوس بھی نکالتی ہیں، برادر اسلامی ممالک کیخلاف بینرز بھی لگاتی ہیں، عوامی مقامات پر ان کے ایسے بیبرز اور بیانات آویزاں ہوتے ہیں، جو دوسرے اسلامی ممالک سے مذہبی لگاو رکھنے والے کیلئے اذیت کا باعث ہوتے ہیں۔ ان کالعدم تنظیموں کے رہنماء لشکر اسلام جیسی دہشتگرد تنظیم کے لیڈروں کیساتھ فوٹو سیشن بھی کرتے ہیں، اخبارات وغیرہ میں ان کی تصاویر بھی آتی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔

اسلام ٹائمز: کالعدم جماعتوں کے رہنماء وزیراعلٰی پرویز خٹک صاحب سے کئی ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں، کیا وزیراعلٰی صاحب سے ملاقات میں آپ لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔؟
علامہ سبطین حسینی:
وزیراعلٰی کیساتھ ہر کوئی ملاقات کرسکتا ہے لیکن کالعدم تنظیم جس کو ملک کا آئین، ملک کے ادارے کالعدم قرار دیں، اس کے رہنماوں کیساتھ ملنا قانون شکنی ہے، لیکن یہ تو حکومت ایسی ہے کہ آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتی ہے، جس تنظیم کو ملک کا آئین، قانون اور ادارے کالعدم قرار دیں، اس سے ملاقات اور ان کو محافظ فراہم کرنا کہاں کا انصاف ہے۔؟ پرامن شہری، علمائے کرام، سیاسی شخصیات کو محافظ فراہم نہیں کئے جاتے، تاہم کالعدم جماعتوں کے رہنماوں کو محافظ دیئے گئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں مجلس وحدت مسلمین کی فعالیت کس حد تک ممکن ہوگئی ہے۔؟
علامہ سبطین حسینی:
ہم نے ایک عہد لیا تھا، لاکھ کوتاہیوں کے باوجود ہم نے اس عہد پر پورا اترنے کی کوشش کی، ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ تنظیم سازی کا درپیش تھا، الحمداللہ اس وقت پورے کے پی کے میں کوئی بھی ضلع ایسا نہیں جہاں ہمارا سیٹ اپ موجود نہ ہو، بیشک فعال ہو یا نہ ہو، لیکن سیٹ اپ ضرور موجود ہے، ہم نے اپنی بساط کے مطابق بہت کوشش کی، لیکن آپ خود اس بارے میں بخوبی آگاہ و واقف ہیں کہ بعض ایسے اضلاع ہیں جہاں ہمارے مسئولین کو دہشتگردوں کی جانب سے دھمکی آمیز خطوط آتے ہیں اور تنظیم سے دور رہنے کی وارننگ دی جاتی ہے۔ بعض اضلاع ایسے ہیں جہاں سرکار کی بھی مداخلت ہے اور ہمارے دوستوں کو تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے تنظیمی صورتحال کو دھچکا لگتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود الحمد اللہ ہم سے جتنا ہوسکتا تھا ہم نے تنظیم کو منظم اور فعال کرنے کی کوشش کی، جس پر ہم نے سب سے زیادہ زور دیا وہ تنظیم سازی تھی۔ انشاءاللہ آنے والے سیکرٹری جنرل کیلئے اتنی مشکلات نہیں ہوں گی، ہم اس حوالے سے کافی حد تک کام کرچکے ہیں، البتہ یہ بات ذہن نشین ہو کہ ہماری صورتحال کوئی کراچی، کوئٹہ یا پاراچنار والی نہیں ہے، جہاں کیپیٹل میں ہماری آبادی لاکھوں میں ہو، مثال کے طور پر پشاور میں ہماری آبادی ہزاروں میں بھی نہیں بلکہ اب تو سینکڑوں میں پہنچ گئی ہے، کئی خاندان ہجرت بھی کرچکے ہیں، اتنے بڑے شہر میں سینکڑوں کی آبادی کے ہوتے ہوئے کسی ملکی معاملہ پر فوری ردعمل دکھانا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے، کراچی، کوئٹہ یا لاہور جہاں ہماری آبادی لاکھوں میں ہو، وہاں مشکل نہیں ہوتا، اس کے باوجود ہم نے کئی مواقع پر فوری ردعمل دیا، شہداء کے حوالے سے دھرنے ہوں یا شیخ نمر کا واقعہ ہو، ہم نے فوری ردعمل دیا۔ اب المیہ یہ ہے کہ ڈی آئی خان میں یوم القدس کے جلوس پر ہمارے دوستوں پر پرچے ہوئے، لہذا ہماری صورتحال باقی صوبوں سے ذرا الگ ہے، لیکن پھر بھی ہماری کوشش ہے کہ جہاں تک ہوسکے یہ تنظیم آگے بڑھے اور مرکز سے بھی ہم نے درخواست کی تھی، اور انشاءاللہ آنے والے دنوں میں علامہ راجہ ناصر عباس صاحب کے پی کے کا دورہ بھی کر رہے ہیں، اور ان کا دورہ انشاءاللہ تنظیم سازی، تنظیمی حرکت اور تنظیمی ارتقاء کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسلام ٹائمز: شام اور ایران کے معاملہ پر پاکستان نے غیر جانبدرار رہنے کا اعلان کیا تھا، تاہم سعودی فوجی مشقوں میں شرکت اختیار کرنا کیا جانبداری نہیں۔؟
علامہ سبطین حسینی:
یہ جو 34 ممالک کا اتحاد ہے، یہ نام نہاد اتحاد کے علاوہ کچھ نہیں، داعش کوئی بہت بڑی دہشتگرد تنظیم نہیں، 25 ہزار دہشتگردوں کیلئے کسی ایک ملک کا ہونا کافی ہے، ضروری نہیں کہ اس کیلئے 34 ممالک کا اتحاد بنایا جائے، یہ دراصل اسلام، قرآن اور اسلامی ممالک کے عوام کو کمزور کرنے کی ایک سازش ہے، جیسا کہ امریکہ نے ہی داعش کی تشکیل کی، امریکہ نے ہی طالبان کو بنایا، اب ان کیخلاف نام نہاد اتحاد کا سرپرست بنا ہے اور یہ علمانہ ذمہ داری ایک بار پھر سعودی عرب نے قبول کی۔ تو سعودی عرب کی خیانت شروع دن سے سرعام ہے، انہوں نے فلسطین کیخلاف اسرائیل کا ساتھ دیا، ان کے شہزادے ببانگ دہل کہتے رہے کہ ہم اسرائیل کیساتھ ہیں، کچھ عرصہ پہلے بھی ایک سعودی شہزادے کا اس حوالے سے انٹرویو پوری دنیا نے دیکھا، میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین کی آزادی کیلئے اس قسم کا اتحاد بننا چاہیئے۔ یہ دراصل اسلامی ممالک کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے، پاکستان کی فوج ایک بہادر فوج ہے اور اس کے سپاہ سالار ایک بہادر اور بابصیرت فوجی اور سپاہ سالار ہیں۔ ملکی حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہمیں اس قسم کے کسی اتحاد کا حصہ بننے کی بجائے اس کی مخالفت کرنی چاہئے، پاکستان کے عوام بھی حکومت کو اس قسم کے کسی اتحاد کا حصہ بننے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ پاکستان وہ ملک کے جو لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا، یہ کوئی اتفاق فاونڈری نہیں کہ نواز شریف اس کو اپنے کاروبار کی نہج پر چلائے، اس اتحاد کی کوئی وقعت نہیں، اسلامی ممالک کے عوام بھی ہوشیار ہیں، اس قسم کے اتحادوں سے ان کی بخوبی واقفیت ہے، ایسا اتحاد جس کی سرپرستی ایسا ملک کرے، جس کے پاس دہشتگردوں کی نرسریاں ہیں، جنہوں نے دنیا بھر میں دہشت کا بازار گرم کیا ہو، جو حج جیسے مقدس موقع پر بھی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی مزموم کوشش کرتے ہیں، تو انشاءاللہ ان کے یہ عزائم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے، پاک فوج بھی اپنی بصیرت، بصارت اور ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انشاء اللہ ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی۔
خبر کا کوڈ : 523187
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش