1
0
Monday 29 Feb 2016 10:15

کسی بھی قوم و قبیلے کی ہتک عزت کا باعث بننے والی ہر کارروائی کی مذمت کرتے ہیں، مولانا منیر حسین

کسی بھی قوم و قبیلے کی ہتک عزت کا باعث بننے والی ہر کارروائی کی مذمت کرتے ہیں، مولانا منیر حسین
مولانا منیر حسین جعفری جولائی 2012ء کو پہلی دفعہ تحریک حسینی کے صدر منتخب ہوئے۔ اسکے بعد 2014ء میں دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ تاہم جون 2016ء کو انکی مدت صدارت ختم ہونے والی ہے۔ موصوف معتدل مزاج و طبیعت کے مالک اور غیر متنازعہ شخصیت کے حامل ہیں۔ اپنی صدارت کے دوران کرم ایجنسی کی سطح پر اہل تشیع کے اتحاد کے لئے کافی کوششیں کیں۔ پاراچنار میں موجود مختلف سیاسی قوتوں میں برابر طور پر مقبول ہیں۔ مولانا صاحب مختلف سیاسی طبقات کو ایک میز پر بٹھانے کا ملکہ رکھتے ہیں، جس کے لئے انہوں نے عملاً کوششیں بھی کی ہیں۔ تحریک حسینی کے پلیٹ فارم سے کچہری سے لیکر ذاتی معاملات تک بلا تفریق عوام کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ کرم ایجنسی کی موجودہ صورتحال پر اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو کی ہے، جسے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ قبل یہ خبر یا افواہ پھیلی تھی کہ کرم ایجنسی میں داعش کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، پمفلٹ تقسیم ہو رہے ہیں، اسکی حقیقت کیا تھی۔؟
مولانا منیر حسین:
بسـم اللہ الـرحمن الـرحیم، ہاں بالکل ایسی افواہیں تھیں۔ کئی دفعہ پمفلٹس تقسیم ہوئے۔ حکومت نے بھی ایمرجنسی نافذ کی تھی اور عوام کو الرٹ رہنے کی سفارش کی تھی۔ رات کو پہرہ دینے اور ہر دم تیار رہنے کی سفارش کی تھی۔ لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا، حتٰی کہ اب بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اصل حقیقت کیا تھی، کیونکہ ایک طرف حکومت رات کو مسلح ہوکر پہرہ دینے کے احکامات جاری کرتی تھی، جبکہ دوسری جانب مختلف حیلے بہانوں سے حکومت جگہ جگہ گھروں پر چھاپے بھی مارتی رہی ہے۔ جبکہ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ مقبل کے علاقے میں داعش کے نام سے باقاعدہ طور پر سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ خود مقبل قبیلے کے افراد کا کہنا ہے کہ ہم اپنے علاقے میں اتنے بے بس ہیں کہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا کہ یہ داعش کون لوگ ہیں، جنکے خلاف قیام کرنے کو کہا جا رہا ہے اور وہ داعش کون لوگ ہیں جو حکومت کے زیر کنٹرول علاقے میں بلا خوف و خطر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے؟ یعنی کہیں کسی گھر پر کوئی چھاپہ پڑا ہے۔؟
مولانا منیر حسین:
ایسے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ بعض افراد کو خوا مخواہ کیسز میں ملوث قرار دے کر مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح کئی مقامات پر چھاپے پڑے اور چادر اور چاردیواری کی بیحرمتی کی گئی۔ ایک مقامی انفارمر کی اطلاع پر مہورہ گاوں میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر گھر کی تلاشی لی گئی، لیکن انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ لگا۔ کیونکہ گھر میں کچھ تھا ہی نہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اگر یونہی ہر کس و ناکس کی باتوں میں آکر گھروں کی بیحرمتی کرتی رہی تو اس سے مسائل سلجھیں گے نہیں بلکہ اس سے مزید مشکلات پیدا ہونگی۔ لہذا ہم ایسی تمام حرکتوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، جس سے کسی بھی قوم و قبیلے کی ہتک عزت مقصود ہو۔

اسلام ٹائمز: سابق پی اے اور انتظامیہ کیساتھ آپ لوگوں کے تعلقات کچھ ناخوشگوار رہے، بتائیں موجودہ پی اے اور انتظامیہ کیساتھ تعلقات کیسے ہیں؟ انکے ساتھ کچھ انڈر سٹینڈنگ ہے۔؟
مولانا منیر حسین:
ہمارے تعلقات کسی کے ساتھ خراب نہیں رہتے، سابق پی اے صاحب کی اکثر حرکتیں نامناسب رہتی تھیں۔ خصوصاً تحریک کے حوالے سے انکی پالیسی نہایت معاندانہ تھی۔

اسلام ٹائمز: آپکے متعلق حکومت کے کچھ تحفظات ہونگے، یہ بتائیں کہ حکومت کی پالیسی کس حوالے سے معاندانہ تھی۔؟
مولانا منیر حسین:
کرم ایجنسی میں انتظامیہ کی پالیسی بیشتر اوقات غیر مساویانہ رہا کرتی ہے۔ ہم اپنے جائز حقوق کے لئے آواز بھی اٹھائیں تو حکومت انہیں غلط رنگ دے کر ہمارے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کرتی ہے، جبکہ دوسرا فریق دہشتگردی کا ارتکاب بھی کرے تو کوئی گرفت نہیں ہوتی۔ عوام الناس تو کیا، ہم نے ایک تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایک مسئلے پر آواز اٹھائی اور حکومت سے بار بار مطالبہ کیا، جب کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو ہم نے ایک کھلا پمفلٹ لکھ کر تقسیم کیا اور عوام کو حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا۔ جس پر حکومت نے مثبت ردعمل کے بجائے منفی ردعمل دکھایا اور الٹی سیدھی دھمکیاں دینے لگی۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کی پالیسی طوری بنگش قبائل کے ساتھ بالعموم، جبکہ تحریک حسینی کے ساتھ بالخصوص بہت ہی معاندانہ رہتی ہے۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے، آپکی مدت صدارت ختم ہونیوالی ہے، کیا یہ صحیح ہے، اور اگر صحیـح ہے تو یہ بتائیں کہ آپکے بعد یہ منصب کون سنبھالیں گے؟ کوئی مناسب امیدوار ہے جو آپکا قائم مقام بن سکے۔؟
مولانا منیر حسین:
تحریک حسینی کے صدر کا انتخاب دو سال کے لئے کیا جاتا ہے اور دو سال بعد دوبارہ الیکشن کے ذریعے نئے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو کہ عموماً ہر جفت سال کو مئی یا جون کے مہینے میں منعقد ہوتے ہیں۔ چنانچہ مئی کے اواخر یا جون کے پہلے ہفتے کو سپریم کونسل اور کابینہ ایک ایک مناسب امیدوار کا نام سامنے لائے گی۔ جس کے بعد مرکزی کونسل باقاعدہ الیکشن کے ذریعے کسی ایک امیدوار کا انتخاب کریگی، تو انشاء اللہ جون تک میری جگہ ایک اور مناسب شخص یہ اہم منصب سنبھالیں گے۔

اسلام ٹائمـز: پاراچنار میں طوری بنگش قبائل کی تازہ صورتحال کیا ہے؟ اختلافات میں کچھ کمی آئی ہے یا اسی طرح چل رہ ہیں۔؟
مولانا منیر حسـین:
اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے اب کافی حد تک نفاق کا فتنہ ختم ہوچکا ہے۔ مرکزی جامع مسجد میں اب سید، غیر سید تحریک اور مرکز والے، تمام تنظیمی اور غیر تنظیمی لوگ سب اکٹھے نماز پڑھتے ہیں۔ جامع مسجد کے نئے پیش امام ہر خطبہ جمعہ میں اتفاق اور اتحاد کی تلقین کرتے ہیں۔ حالات نوے فیصد تک سدھر گئے ہیں۔ نفرت کی فضا کافی حد تک ختم ہوچکی ہے۔  لہذا امید ہے کہ آنے والے ایام میں حالات مزید بہتر ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 524317
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

s kifayat hussaini
United States
very nice
ہماری پیشکش