0
Tuesday 15 Mar 2016 00:04

سعودی عرب عالم اسلام کو تباہ و برباد کرنیکا فیصلہ کرچکا ہے، مفتی گلزار نعیمی

سعودی عرب عالم اسلام کو تباہ و برباد کرنیکا فیصلہ کرچکا ہے، مفتی گلزار نعیمی
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ انہوں نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے اپنے نظریات کے لئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ انہوں نے جماعت اہل حرم بھی بنائی ہے۔ اسلام ٹائمز نے مفتی گلزار نعیمی سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: آصف علی زرداری کا بیان آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آرمی سے متعلق انکے بیان کو غلط رنگ دیکر پیش کیا گیا ہے، دوسرا انہوں نے آرمی چیف کی توسیع کی بات کی ہے، لیکن اگلے ہی دن اس بیان سے مکر گئے ہیں، اس صورتحال کو طرح دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
بہت شکریہ آپ تشریف لائے، جی آصف علی زرداری نے ہمیشہ سیاسیات کو مادیت کی طرف رکھا ہے، مالیات کی طرف پھیرا ہے، ہمیشہ روپے پیسے اکٹھے کرنے کیلئے سیاست کی ہے، وہ صدر بنے تو اس کے تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا۔ کئی معنوں میں اس عہدہ کو داغدار کیا ہے، انہوں نے جب دیکھا کہ کراچی میں ہماری کرپشن کو بےنقاب کیا جا رہا ہے اور رینجرز آپریشن کر رہی ہے تو اس پر انہوں نے رینجرز اور فوج کیخلاف سخت بیان دیئے اور ردعمل کا اظہار کیا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ آرمی چیف ایک نڈر آدمی ہے اور اس پر ان گیدڑ بھبھکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا، حتٰی یہ بیان دینا کہ ہم رہیں گے اور آپ چلے جائیں گے تو اب موصوف منت و سماجت کی طرف آگئے ہیں۔ یہ بیان خود ایک منت و سماجت ہے، میرا اپنا نقطہ نظر ہے کہ جب عہدے دیئے جاتے ہیں، اس کی معیاد مقرر نہیں کی جانی چاہیئے۔ اگر اہلیت رکھتا ہے اور اسے کام کرنے دیا جانا چاہیئے۔ قرآن و سنت کے یہ منافی اقدام ہوتا ہے۔ یہ عہدے سے برطرفی فقط اس وقت کی جاتی ہے، جب وہ کوئی اسلامی قانون کو توڑے یا ایسے اقدام کرے، جو اس کے شایان شان نہ ہو، بصورت دیگر کسی کو عہدے سے ہٹانے کا حکم موجود نہیں۔ یہ کوئی شرعی اور غیر شرعی مسئلہ نہیں۔ اگر جنرل راحیل کو توسیع مل جاتی ہے تو اچھی بات ہے، نہیں ملتی تب بھی کوئی بات نہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے آپریشن ضرب عضب کو شروع کیا ہے اور انہیں یہ موقع دیا جانا چاہیئے کہ وہ اس آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مشرف اور کیانی کو توسیع مل سکتی ہے تو انہیں بھی ملنی چاہیئے، اس سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ جائے گی، اس سے دہشتگردی کیخلاف جاری آپریشن کو کامیاب بنانے میں مدد ملے گی۔ توسیع دینے سے کوئی قرآن کا حرف ٹیڑھا نہیں ہوگا، نہ ہی اس سے آئین پاکستان پر حرف آئیگا۔ لوگ آئین آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر پورا نہیں اترتے، اس کے باوجود وہ عہدوں پر براجمان ہیں۔ اس وقت کسی کو کوئی آئین یاد نہیں رہتا۔ توسیع نہ دینا کسی پرعزم بندے کو سر سے اتارنے والی بات ہے۔ وطن اور ملک کی خاطر انہیں توسیع ملنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی کی نظریاتی سیاست کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
پیپلز پارٹی کی نظریاتی سیاست اس وقت ہی ختم ہوگئی تھی جب بےنظیر کو قتل کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی نظریاتی سیاسیات بےنظیر کیساتھ ہی دفن ہوگئی۔ یہ نقصان فقط پیپلز پارٹی کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے ناقابل تلافی ہے، سیاست میں یہ لوگ آئے اور لوگوں کے پیسوں سے ضمیر خریدے، کرپشن کی انتہا کر دی، سندھ کے وزیر داخلہ چیختے رہے، اسی دور میں یہ سب کچھ ہوا، کمیشن، کک بیک، رشوت کو بام عروج پر آصف علی زرداری نے پہنچایا ہے، آج سابق وزراء کا خیال ہے کہ آصف زرداری نے صحیح بیان نہیں دیا۔ انہیں بیان تو یاد آگیا لیکن ان کی کرپشن یاد نہیں رہی، بلکہ اس میں ساتھ ساتھ رہے۔ یہاں ملک کی بات نہیں ہو رہی، یہاں مال اور دولت کی بات ہو رہی ہے۔ آج ہم پیپلزپارٹی کو نظریاتی جماعت نہیں کہہ سکتے۔

اسلام ٹائمز: پیپلزپارٹی والے کہتے ہیں کہ کرپشن اور دہشتگردی فقط کراچی اور سندھ میں نظر آرہی ہے، اگر ڈاکٹر عاصم نے کوئی گناہ کیا ہے تو کیا رانا ثناءاللہ جیسے لوگ پنجاب میں نہیں بیٹھے، وہاں رینجرز کی کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے تمام علاقوں اور تمام حصوں میں کرپشن کیخلاف کارروائی ہونی چاہیئے، پنجاب میں اور زیادہ ضرورت ہے کہ یہاں کارروائی کی جائے، انہوں نے پنجاب میں یہ رویہ اپنا لیا ہے کہ یہ بادشاہوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں، ان کی زبان اب قانون بن گئی ہے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں ہے کہ ملک کی بقاء کس میں ہے، جو لوگ سانحہ ماڈل کو پی گئے ہیں، ان سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ میرا تحریک منہاج القرآن سے کوئی تعلق نہیں، لیکن حیرت ہے کہ وہاں اتنی لاشیں گرا دی گئی ہیں، کسی کو اس کا کوئی خیال نہیں، آج وہ معاملہ داخل دفتر کیا جا رہا ہے۔ وہاں انسان گرے ہیں، بتائیں کہ اس سانحہ پر کیا کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ دہشتگردوں کے سرپرست رہے ہیں، آج پنجاب میں کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ آپریشن کیا جائے۔ جب آپریشن ہوا تو آپ کو نظر آئے گا کہ کراچی سے زیادہ پنجاب میں کرپشن ہے۔

اسلام ٹائمز: نیب نے پنجاب میں کارروائی کا آغا کیا ہے تو میاں صاحب بول پڑے ہیں، اس پر کیا کہتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
یہ بہت بڑا المیہ ہے، اداروں کی اس طرح بےحرمتی کرنا بہت ہی قابل افسوس بات ہے، ایسا بیان دینا قابل مذمت ہے۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی تو پھر ڈر کس بات کا ہے۔ پھر اس طرح کے بیانات کا کیا مقصد ہے۔ پھر تو نیب کی مداخلت کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ اگر آپ بے قصور ہیں تو آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی، کیونکہ آپ تو حکومت میں ہیں۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور آپ کے پاس ہے۔ نیب سے متعلق وزیراعظم اور وزراء کا بیان اداروں کی توہین کے مترادف ہے۔ یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔

اسلام ٹائمز: چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کہتے ہیں کہ مشرف کو عدالتوں سے استثنا حاصل ہے، لیکن اسی ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا، جب تک دہرا معیار ختم نہیں ہوتا ملک میں انصاف مہیا نہیں ہوسکتا۔ آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میں اس بیان کی تائید کرتا ہوں، انہوں نے درست کہا ہے۔ قانون کی نظر میں سب کو برابر ہونا چاہیئے۔ قانون یہ ہونا چاہیے کہ ملک کے مفاد میں کس نے کام کیا ہے اور کس نے نہیں۔ معاملہ یہ نہیں کہ آمر کا احتساب ہونا چاہیئے اور جمہوری لوگوں کو چھوڑ دینا چاہیئے۔ اگر ایک جمہوری آدمی ایک آمر سے زیادہ کرپشن کرتا ہے اور ملک کو نقصان پہنچاتا ہے تو پھر پھانسی اس جمہوری آدمی کو لگانا چاہیئے۔ یہاں معیار ملک کا مفاد ہونا چاہیئے۔ کیا اگر مشرف نے کرپشن کی ہے اور زرداری نے بھی ڈبل کرپشن کی ہے، اگر مشرف کو سزا دینے کی بات کرتے ہیں تو پھر زرداری کے بارے میں بھی وہی بات کرنی چاہیئے۔ قانون تو ملک کے تحفظ کیلئے بنایا گیا ہے۔ اگر جمہوری لوگ قانون کی خلاف ورزی ایک آمر سے زیادہ کریں تو چھوڑ دینا چاہیئے۔ ایسا نہیں ہے، اسے زیادہ سزا ملنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب میں آپریشن ضرب عضب کی آڑ میں اسپیکر بند کرائے جا رہے ہیں اور درود تک بند کرا دیا گیا ہے، جبکہ کالعدم جماعتوں کے رہنما اسی انداز میں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خود اسلام آباد میں مولانا عبدالعزیز کی مثال سامنے ہے۔ وہ داعش کو دعوت دیں، اس پر ایف آئی تک درج نہیں ہوسکتی۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
یہی زیادتی ہے اور ظلم کی بات ہے، کیا اسی سے دہشتگردی ہو رہی تھی کہ آپ نے صلواۃ و سلام پر پابندی عائد کرا دی۔ پورے پنجاب میں پابندی لگا سکتے ہیں، اب مسجد میں ایک ہارن سے اذان دینے کی اجازت ہے۔ میں آپ کی بات کی تائید کروں گا کہ جب تک داعش جیسی تنظیم کو دعوت دینے والوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، تب تک دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی، ایک شخص اسلام آباد میں بیٹھ کر ملکی اداروں کو بدنام کر رہا ہے اور الزامات عائد کر رہا ہے، اس پر کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ وہ آئین اور قانون توڑنے کی بات کر رہا ہے، اس پر ایف آئی آر تک درج نہیں ہوسکتی جبکہ جو ایف آئی آرز درج ہیں، ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اگر مشرف نے آئین توڑا تو اس کو پھانسی پر لٹکایا جائے اور مولانا عبدالعزیز آئین کی دھجیاں بکھیر دیں تو اس پر خاموشی اختیار کرلی جائے، یہ مناسب نہیں۔ قانون کی نظر میں مشرف، زرداری اور عبدالعزیز کو برابر ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ضرب عضب میں فوج اپنی طرف سے صحیح کام کر رہی ہے، لیکن صوبے اپنے حصے کا کام نہیں رہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
یہی تو اس ملک کا المیہ ہے، سیاسی لوگ کچھ اور کام کر رہے ہیں اور ریاستی ادارے کچھ اور کام کر رہے ہیں، ریاستی ادارے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور سیاسی لوگ سیاسی مفادات کیلئے انہی دہشتگردوں کو سیو کور دے رہے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ ریاستی ادارے جن کیخلاف لڑ رہے ہیں، انہی عناصر کو سیاستدان تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ بیرونی ایجنڈے پر عمل کیا جا رہا ہے، کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا کہ دین اور ملکی تقاضے کیا ہیں۔

اسلام ٹائمز: توہین رسالت کے معاملے پر مذہبی جماعتیں حد سے زیادہ حساس دکھائی دیتی ہیں، حتٰی اس بات کو بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں کہ اس قانون کو جو کہ ضیاءالحق دور میں بنایا گیا، اس میں کوئی نظرثانی کی جائے۔ کیا انسان کے بنائے ہوئے قانون پر نظرثانی کی بات کرنا اور اسکے ضعیف پہلووں کی نشاندہی کرنا بھی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ آپکی نظر میں اسکا فقہی پہلو کیا بنتا ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
ایک تو توہین رسالت ہے، اس پر کوئی کمپرومائز نہیں، جو براہ راست رسالت مآب (ص) کو ٹارگٹ کریگا اسے ہم دائرہ اسلام سے یک جنبش قلم نکال دیں گے، وہ خود دائرہ اسلام سے باہر ہو جائیگا، جہاں تک ان قوانین کا تعلق ہے، جو انسان کے بنائے ہوئے قانون ہیں، ان میں سقم رہ سکتا ہے، جیسے پروسیجرل لا ہے، اس میں بہت سقم موجود ہے، اسی وجہ سے ناجائز ایف آئی آرز ہوتی ہیں، اسی قانون کو آڑ بنا کر دشمنیاں نبھائی جاتی ہیں، اس قانون کو عیسائیوں سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت 295 کے تحت سینکڑوں ایف آئی آرز درج کرائی گئی ہیں۔ اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس قانون پر اگر نظرثانی کرنی ہے تو پھر اہل علم کو آگے لایا جائے، جو شریعت سے واقفیت رکھتے ہوں۔ انہیں یہ اختیار دینا چاہئے کہ وہ اس میں کمزور پہلووں کی نشاندہی کریں۔ اس کے پروسیجرل لا کو دیکھا جائے۔ سچ یہ ہے کہ جو شخص تھانے میں بیٹھ کر ایف آئی آر کاٹتا ہے، اسے تو اپنے ملک کے قوانین کا پتہ نہیں، وہ توہین رسالت کی ایف آئی آر کیسے کاٹ سکتا ہے۔ اس کی ایف آئی آر کاٹنے کیلئے ایک خاص پراسس ہونا چاہیئے۔ اس کی ایف آئی آر کاٹنے کیلئے کسی سینیئر افسر کی ڈیوٹی ہونی چاہیئے، تاکہ وہ درست فیصلہ کرکے پھر ایف آئی آر کاٹے۔ یہ ایس ایچ او کی بس کی بات نہیں۔ اس وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا شیرانی نے بیان دیا ہے کہ اگر حکومت نے یہ قانون بھیجا تو ہم اس پر نظرثانی کریں گے۔ بعض اسکی بھی مخالفت کر رہے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
دیکھیں، میں سچ کہوں تو یہ ہے کہ ہم اہل سنت جنہیں بریلوی کہا جاتا ہے، ان کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں، جو گدی نشین حضرات ہیں، وہ سیاسی جماعتوں سے منسلک ہیں، ان کا سیکولر ایجنڈا ہے۔ ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے موقف کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارے علماء خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا ٹریک ریکارڈ درست نہیں۔ اس وجہ سے ان پر اعتماد نہیں ہوتا۔

اسلام ٹائمز: شام و عراق پر سعودی عرب کا کردار سب کے سامنے ہے اور ابھی 34 ممالک کا اتحاد جسکی فوجی مشقین بھی ہو رہی ہے۔ اسکو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
سعودی عرب فیصلہ کرچکا ہے کہ عالم اسلام کو تباہ و برباد کرنا ہے، سعودی عرب کوئی ایسا موقع نہیں جانے دے رہا، جس سے اسلام کو نقصان نہ پہنچے۔ سعودی وزراء سے ہم کبھی صلح کی بات نہیں سنتے، ہمیشہ جنگ و جدال کی بات کرتے ہیں، تقسیم کی بات کرتے ہیں، ایران اور سعودی عرب کو ایک ٹیبل پر بیٹھنا چاہیے، آپس کے مسائل ٹیبل پر بیٹھ کر حل کریں۔ اس صورتحال کا نقصان امت مسلمہ کو ہے۔ سعودیہ زیادہ نقصان کی طرف مائل ہے، فائدہ کی طرف مائل نظر نہیں آتا۔
خبر کا کوڈ : 527439
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش