0
Thursday 17 Mar 2016 02:04
کے پی کے حکومت کی کارکردگی ماضی کی نسبت بہت بہتر ہے

مشہد سے چلنے والی دیوار مہربانی کو پوری دنیا میں ویلکم کیا گیا، نذیر اللہ برکی

خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کا زیادہ نشانہ سکولز بنے ہیں
مشہد سے چلنے والی دیوار مہربانی کو پوری دنیا میں ویلکم کیا گیا، نذیر اللہ برکی
نذیر اللہ برکی ڈیرہ اسماعیل خان سے یوتھ پارلیمنٹ کے ممبر اور یوتھ سٹینڈنگ کمیٹی برائے گورننس کے رکن ہیں۔ طویل عرصے سے پسماندہ علاقوں میں صحت و تعلیم کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان ایجنسی کے علاقے لدھا کی تحصیل کانیگرم سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم ابتدائی تعلیم ٹانک میں حاصل کرنے کے بعد پشاور، اسلام آباد میں حصول تعلیم کی غرض سے کچھ برس وقت گزار چکے ہیں۔ اب وہ گومل یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر میں متعدد فلاحی پروگراموں پر کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں نذیر اللہ برکی نے اپنے دوستوں کے ہمراہ ڈیرہ اساعیل خان میں پہلی مرتبہ دیوار مہربانی بنائی۔ پہلے ہی دن اس دیوار مہربانی کا سینکڑوں افراد نے وزٹ کیا۔ ڈی آئی خان میں اس اقدام کو شہری حلقوں میں خوب سراہا گیا، اسلام ٹائمز نے نذیر اللہ برکی ان کی فلاحی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملاقات کا اہتمام کیا۔ ملاقات کے دوران ہونیوالی گفتگو انٹرویو کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: اب تک کن فلاحی اداروں کیساتھ منسلک رہے ہیں۔؟
نذیر اللہ برکی:
یوتھ پارلیمنٹ پاکستان کے علاوہ متعدد ملکی فلاحی اداروں کے ساتھ مختلف پروگرامز میں کام کرچکا ہوں۔ چونکہ زمانہ طالب علمی ہے، لہذا مستقل طور پر کسی بھی ادارے کے ساتھ منسلک رہ کر مسلسل کام کرنا نہایت مشکل ہے۔ چنانچہ تعلیمی مصروفیات کے بعد دامن وقت میں جتنی گنجائش ہوتی ہے، وہ فلاحی سرگرمیوں پر خرچ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرامز اور عوامی مہم کا حصہ رہا ہوں۔ میرے ساتھ دیگر تعلیمی اداروں کے دوست بھی موجود ہیں۔ ہم آئندہ چند دنوں میں نوجوانوں کی آگہی کے حوالے سے تین روزہ فیسٹیول کرنے جا رہے ہیں، جس میں دیگر طلباء گروپس کا تعاون بھی ہمیں حاصل ہوگا۔ انشاءاللہ

اسلام ٹائمز: دیوار مہربانی کا آئیڈیا کہاں سے ملا اور اس پر فوری عملدرآمد کی ضرورت کیوں محسوس کی۔؟
نذیر اللہ برکی:
دیوار مہربانی کی ابتداء ایران کے شہر مشہد سے ہوئی، جو کہ رفتہ رفتہ دیگر ملکوں شہروں تک بھی پہنچی۔ بنیادی طور پر دیوار مہربانی انسان کو انسان کی مدد پر آمادہ کرنے کا آسان ترین طریقہ ہے، اور اگر اسی کو وسیع معنوں میں دیکھیں تو اس طرح کی سرگرمیوں سے سٹریٹ کرائم کی شرح میں کافی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے، کیونکہ میرے خیال میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائم کی بنیادی وجہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ اب ایک غریب انسان، جسے روزگار میسر نہیں ہوگا، وہ اپنا، اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ تو اپنائے گا ہی۔ چنانچہ دیوار مہربانی جیسے اقدامات کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ ایران کے بعد اس آئیڈیا کو پاکستان میں بھی بہت پذیرائی ملی، اسلام آباد، لاہور، راولپنڈی، کراچی و دیگر شہروں میں درد دل رکھنے والے لوگوں نے دیوار مہربانی بنائی۔ جس سے ہزاروں شہری مستفید ہوئے۔ مجھے اس آئیڈیا نے بہت اپیل کیا، ہم دوستوں نے تفصیلی مشاورت کے بعد گومل میڈیکل کالج کے ساتھ دیوار مہربانی قائم کی، چونکہ ڈی آئی خان بھی ایک پسماندہ ضلع ہے، لہذا دیگر شہروں کی طرح مستقل بنیادوں پر یہاں دیوار مہربانی قائم رکھنا مشکل تھا، لہذا ہم اسے ہفتہ وار ایونٹ کے طور پر لے گئے۔

اسلام ٹائمز: اس فلاحی کام میں دیگر کون سے اداروں کی آپکو مدد حاصل رہی۔؟
نذیر اللہ برکی:
بطور ادارہ تو ہمیں کہیں سے زیادہ مدد نہیں ملی، البتہ میرے گروپ کے علاوہ احساس گروپ کے سربراہ و دیگر احباب کا تعاون شامل رہا۔ خاص طور پر سٹی گورنمنٹ کے تعاون کے باعث یہ سب ممکن ہو پایا۔ امید ہے کہ آئندہ بھی ضلعی انتظامیہ کا تعاون فلاح انسانیت کی سرگرمیوں میں حاصل رہے گا۔ بس ایک پریشانی کا سامنا رہا، کہ بعض پیشہ ور اور منشیات کے عادی افراد دیوار مہربانی پہ موجود تمام اشیاء ایک ہی وقت میں لے جانے کی کوشش کرتے، اگر یہ افراد اپنے استعمال کیلئے بھی لے جائیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا، مگر یہ پیشہ ور عادی افراد فروخت کی غرض سے یہاں سے چیزیں لے جاتے اور بیچتے۔ ایک سے زائد مرتبہ انہیں نقد کیش دیکر رخصت کرنا پڑا۔ ویسے پنجاب کے شہروں کی نسبت ڈی آئی خان میں غربت بہت زیادہ ہے۔

اسلام ٹائمز: گروپ میں کتنے لوگ شامل ہیں، اور کونسے ایشو پر توجہ مرکوز ہے۔؟
نذیر اللہ برکی:
ڈی آئی خان سمیت اس پورے علاقے یعنی ٹانک، فاٹا، بنوں، لکی وغیرہ میں بنیادی مسئلہ تعلیمی، شعوری، معاشی، معاشرتی پسماندگی ہے۔ جس کیلئے اس پورے خطے میں سب سے زیادہ لوگوں میں فکری، شعوری بیداری پیدا کرنا، انہیں ان کے حقوق و مسائل سے آگاہ کرنا اور ان حقوق کے حصول کیلئے انہیں ترغیب دینا ہماری پہلی ترجیح ہے، اور میرے خیال میں دیگر اداروں کی بھی پہلی ترجیح عوام میں تعلیم و صحت اور حقوق کے حوالے سے شعور کی بیداری ہونی چاہیئے۔ ویسے تو کارخیر میں میرے ساتھ دیگر کئی دوست شامل ہیں، مگر فاٹا ہی سے تعلق رکھنے والے عثمان گنڈہ پور، دلسوز بلوچ، مصطفٰی برکی، سید عبدالرشید، رضوان محسود، طاہر محمود اور آصف اللہ کی ہمراہی سے ہی یہ سرگرمیاں ممکن ہوئیں۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں لاکھوں بچے سکولز سے باہر ہیں، ان کیلئے آپ کام کیوں نہیں کرتے، اسکے علاوہ آپکے اپنے آبائی گائوں کانیگرم میں زیادہ غربت و جہالت ہے، وہاں آپ دیوار مہربانی قائم کیوں نہیں کرتے، ڈی آئی خان میں ہی کیوں۔؟
نذیر اللہ برکی:
تعلیم ایسی بات نہیں ہے کہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے میں ہم نے غفلت برتی ہے، مگر بات گھوم پھر کر وہیں آجاتی ہے کہ عوام میں تعلیم، صحت کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کے سامنے ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کا سب سے زیادہ نشانہ سکولز ہی بنے ہیں اور کئی پسماندہ علاقوں میں والدین کو باقاعدہ قائل کرنا پڑتا ہے کہ وہ بچوں کو سکول بھیجیں، چنانچہ شہریوں کو (AWARENESS) کی زیادہ ضرورت ہے، درحقیقت یہ بچوں و بڑوں کی تعلیمی حوالے سے مدد ہی ہے۔ دیوار مہربانی ایک موٹیویشن ہے، جو انسان کو انسان کی مدد پر آمادہ کرتی ہے۔ میرے خیال میں جس تسلسل کے ساتھ یہ دیوار مہربانی پھیل رہی ہے تو ان علاقوں میں بھی پہنچ جائے گی، جہاں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ جہاں تک ڈیرہ اسماعیل خان کے چناو کا ذکر ہے تو یہ شہر پشاور کے بعد سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، جہاں مختلف قسم کے تعلیمی ادارے موجود ہیں، جن میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ چنانچہ مجھے قوی امید ہے کہ یہاں اس کارخیر میں حصہ لینے والے طالب علم اپنے آبائی علاقوں میں جاکر اس طرز کے منصوبے شروع کریں گے۔ معاشرے کی بہتری کیلئے کام کرنے والوں کیلئے کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں۔ میرا سیدھا سا فارمولا ہے کہ آپ ایک سو کے بجائے پانچ کمٹڈ انسان تیار کریں، جو اپنے جیسے پانچ بنائیں، تھوڑے عرصے میں زیادہ بہتر نتائج ملنے شروع ہو جائینگے۔

اسلام ٹائمز: آپ خیبر پختونخوا کی موجودہ حکومت کی کارکردگی ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں کیسی محسوس کرتے ہیں۔؟
نذیر اللہ برکی:
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت کی مجموعی کارکردگی ماضی کی تمام حکومتوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی، صحت کا انصاف، قانون اور معلوماتِ عامہ تک رسائی، مقامی حکومتوں کا قیام، میرٹ کی بالادستی اور کرپشن کا خاتمہ موجودہ حکومت کی مرہونِ منت ہے، موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ معلومات تک عوام کی رسائی اور کرپشن کے خلاف کوشش ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈیرہ اسماعیل خان میں ماضی کی نسبت امن ہے، تاہم لوگ تفریحی سرگرمیوں سے خوف کے باعث کتراتے ہیں، اس خوف کی فضا کا خاتمہ کرنے کیلئے کیا کرنا چاہیئے۔؟
نذیر اللہ برکی:
میرے خیال میں اب شہر کی فضا امن کے حوالے انتہائی سازگار ہے، ماضی کی بدامنی بھی فاٹا کے حالات سے زیادہ خراب محسوس نہیں ہوتی، جہاں جنگ کی صورت حال ہے۔ تفریحی سرگرمیوں سے خوف کی فضا کا خاتمہ ممکن ہے۔ فاٹا والوں کیلئے تو ڈی آئی خان ہمیشہ سے ہی بہت پرامن رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں ہم یوتھ پیس فیسٹیول 2016ء کا انعقاد کر رہے ہیں، جس میں ڈیرہ ڈویژن کے تقر یباً 150 نوجوان شرکت کریں گے، اس فیسٹول کا مقصد نوجوانوں میں امن، جمہوریت، لیڈر شپ اور رواداری کا شعور اجاگر کرنا اور انہیں فلاحی سرگرمیوں پر آمادہ کرنا ہے۔ یوں تو سارا ڈی آئی خان ہماری ٹیم میں شامل ہے، لیکن کچھ لوگ مسلسل اس فیسٹیول کی تیاروں میں دن رات مصروف عمل ہیں، ان میں اکثریت طلباء کی ہیں، جن کا تعلق گومل یونیورسٹی، گرلز کالج، قرطبہ یونیورسٹی اور کامرس کالج سے ہے۔
خبر کا کوڈ : 527877
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش