5
0
Friday 18 Mar 2016 18:40

پاکستان میں پرچم ولایت کے علمبرداروں کو ایک دوسرے کو طاقتور بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا، علامہ شفقت شیرازی

پاکستان میں پرچم ولایت کے علمبرداروں کو ایک دوسرے کو طاقتور بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا، علامہ شفقت شیرازی
علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اپنی تنظيمی زندگی كا آغاز 1983ء میں گورنمنٹ كالج آف كامرس سرگودھا سے كيا۔ پہلے آئی ایس او کے یونٹ جنرل سیکرٹری اور پھر صدر کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد حالیہ سرگودھا ڈویژن کے ڈویژنل مسئول کی حیثیت سے بھی ذمہ داری انجام دی۔ علامہ شفقت شیرازی 1987ء میں بی کام کرنے کے بعد تحریک اور ڈاکٹر شہید سے مربوط ہوگئے، ایک سال تک تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ضلع سرگودھا کے جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری ادا کی۔ قائد شہید کے آخری دو تنظیمی کنونشنز ٹنڈو تھورو حیدر آباد سندھ اور کوئٹہ میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ضلع سرگودھا کی نمائندگی کی۔ شہید قائد کا آخری بیرونی دورہ شام و لبنان کا تھا، واپسی پر انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ شام و لبنان میں مسلسل رابطہ کیلئے کسی شخص کا انتخاب کیا جائے، جو کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر تحریک کی نمائندگی بھی کرے اور تحریک سے مربوط رہے۔ ڈاکٹر شہید اور علامہ افتخار نقوی جیسے قریبی ساتھیوں نے سجاد میکن صاحب کے توسط سے علامہ عارف الحسینی کی اس خواہش اور اس مسئولیت کیلئے ان کے انتخاب کا پیغام بھیجا۔ علامہ شفقت شیرازی قائد محترم کی خواہش کی تکمیل اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کی شہادت کے دن 5 اگست 1988ء کو نمائندہ امام خمینی برای شام و لبنان آیت اللہ السید احمد الفھری مرحوم کے نام اپنے قائد کا تعارفی اور تائیدی خط لے کر دمشق روانہ ہوگئے، یہ تعارفی اور تائیدی خط علامہ شہید عارف الحسینی نے اپنی شہادت سے چند روز پہلے مدرسہ جعفریہ پارا چنار میں تحریر فرما کر انہیں دیا تھا۔ علامہ شفقت شیرازی نے قائد شہید کی آخری زیارت کے شرف کے ساتھ ساتھ ان سے دعائیں، راہنمائی اور نصیحتیں بھی حاصل کی تھیں۔ علامہ شفقت شیرازی نے تعلیمی، تدریسی و تبلیغی عمل کے ساتھ ساتھ سوریہ و لبنان میں تحریک جعفریہ اور بعد میں شوریٰ کی نمائندگی کے فرائض سرانجام دیئے۔ مجلس وحدت مسلمین کی تاسیس سے اب تک ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری امور خارجہ کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے مہینے میں ان سے شہید کی زندگی کے موضوع پر ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر سید محمد علی نقوی کو آپ نے کیسا پایا، ذاتی معاملات کے ساتھ ساتھ تنظیمی معاملات میں انکی مقبولیت کی کیا وجہ تھی۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے زندگی کے ہر مرحلے میں ایک خاص کردار ادا کیا، ایک ان کی زندگی کا ذاتی کردار ہے کہ ایک خاندان میں اک فرزند پیدا ہوتا ہے، جو نجف اشرف کی مقدس فضاؤں میں سانس لیتا ہے، جو اپنے عالم دین والد کے ساتھ افریقہ کے اندر رہتے ہیں کہ جہاں ان کے والد تبلیغ کے فرائض سرانجام دیتے ہیں، پھر ان کی اپنی تعلیم کا سلسلہ ہے، یہ سب ان کی ذات سے متعلق ہے، ان حوالوں سے بھی وہ ایسی شخصیت تھے کہ جو اپنے خاندان میں بھی مقبول تھے، اپنے والد کے علماء دوستوں میں بھی بہت مقبول تھے اور ہر شخص ان سے عشق کرتا ہے، جس کی مثال ان کے والد سید امیر حسین نقوی دوست علماء جن میں علامہ صفدر حسین نجفی صاحب ہیں یا لاہور کے باقی علماء کرام جو وہاں موجود تھے، سب اس نوجوان سے بہت محبت کرتے تھے، اس کے تدین کی وجہ سے، اخلاق و کردار کی وجہ سے، ان کے لوگوں کے ساتھ ہنس مکھ ہونے کی وجہ سے، بزرگوں کا احترام کرنے کی وجہ سے، اپنی تعلیمی و پروفیشنل زندگی میں ایک کامیاب نوجوان ہونے کی حیثیت سے، اس زمانے میں جب نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار تھی، یہ متقی نوجوان ایک آئیڈیل شخص تھا، اچھے مومن نوجوان طالب علموں کیلئے۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بطور طالب علم رہنما ہم شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی خدمات کو کس طرح سے حفظ کرکے اسے آئندہ نسلوں تک منتقل کرسکتے ہیں۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
شہید محمد علی نقوی اسٹوڈنٹ رہنما کے طور پر ایک اجتماعی کردار میں داخل ہوتے ہیں، وہ تعلیمی اداروں میں ملت تشیع کی جتنی بھی طلباء تنظیمیں کام کر رہی ہوتی ہیں، ان کے ساتھ روابط و تعلقات قائم کرتے ہیں، یہ زمانہ سوشل ازم کے عروج کا زمانہ تھا، سرخ انقلابات دنیا میں آ رہے تھے، دنیا بھر میں نوجوانوں کو ملحد بنا کر دین سے دور کیا جا رہا تھا، اس زمانے میں یہ نوجوان اسلامی اقدار کے احیاء کیلئے ایک انقلابی الٰہی تنظیم بنانے کی کوشش کرتا ہے، وہ اپنے ہم عصر نوجوانوں سے ملتا ہے، ان نوجوانوں کے ساتھ ملکر ایک ایسی الٰہی تنظیم کا قیام عمل میں لاتا ہے، جو آج تک ایک ثمر آور درخت کی مانند قائم ہے، جس سے پوری ملت اسلامیہ استفادہ حاصل کر رہی ہے، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان جس کی ڈاکٹر شہید نے بنیاد رکھی تھی، اس سے منسلک افراد، اس سے تربیت یافتہ افراد دنیا میں جہاں جہاں بھی گئے، جہاں جہاں بھی موجود ہیں، وہاں اسلامی ثقافت و فرہنگ، تعلیمات کی ترویج اور اجتماعی خدمات کے حوالے سے ہر جگہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ڈاکٹر شہید ایک کامیاب اسٹوڈنٹ رہنما تھے، انہوں نے تعلیمی میدان کو بھی نہیں چھوڑا، اعلٰی تعلیمی مراتب بھی حاصل کئے، اسلامی، اجتماعی، ثقافتی، فرہنگی خدمات انجام دینے والی اسلامی طلباء تنظیم آئی ایس او کی وسعت کیلئے پاکستان بھر کے دورے کرتے ہوئے، اسکی وسعت کیلئے جو کردارا دا کیا، وہ بحیثیت اسٹوڈنٹس رہنما ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے۔ ہمیں شہید کے ان کے کاموں کو اپنی نئی نسل کے درمیان روشناس کرانے کی ضرورت ہے کہ جس میں شاید بہت حد تک ہم کمی محسوس کر رہے ہوں۔

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو بطور شیعہ رہنما آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
جب تشیع کے خلاف آمر ضیاء کے دور میں ظالمانہ فضاء بنتی ہے، تشیع کے گھیراؤ کیلئے آمر ضیاء ظالمانہ سسٹم نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس وقت بھی ڈاکٹر شہید بطور قومی رہنما میدان عمل میں موجود اس زمانے کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم و دیگر علماء کرام کی خدمت میں ہر لمحہ موجود ہوتے ہیں، ان کے دست بازو بنتے ہیں، اور جب علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی سربراہی میں جب ملت تشیع ظالم حکومت کا گھیراؤ کرتی ہے تو اس موقع پر بھی کفن پوش ہراول دستے کی قیادت کرتے ہوئے قومی حمیت و غیرت کے حامل ڈاکٹر شہید اپنی قربانی پیش کرنے کیلئے سب سے آگے ہوتے ہیں، اور پھر ان کی شخصیت ایک شیعہ ملی لیڈر کی حیثیت سے دنیا کے سامنے متعارف ہوتی ہے۔ ان کی خدمات کو شاید ہی ہم کسی کتاب میں بند کرسکیں، مگر یہ کہ ہم شیعہ قوم کی اسی طرح سے خدمت کریں کہ جیسے شہید ہم سے چاہتے تھے۔

اسلام ٹائمز: ایک انقلابی اور قومی رہنما کے طور پر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا کردار کیسا تھا۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
جب ایران میں حضرت امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، دنیا بھر میں انقلاب اسلامی ایران کا پیغام پہنچتا ہے، اور اس انقلابی فکر کو پورے پاکستان میں پھیلانے، تشیع کی عالمی نہضت کے لحاظ سے اور پاکستان کے اندر ملی و قومی مسائل کے حل کیلئے، مستقبلِ پاکستان کیلئے جب شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی بیعت تسلیم ہوتی ہے، تو شہید قائد کا دست راست بھی یہی نوجوان ڈاکٹر شہید قرار پاتا ہے، اس زمانے میں پاکستان کے اندر ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کے بعد آمر ضیاءالحق نے ترقی کی نہج پر جاتے ہوئے پاکستان کو ڈی ریل (derail) کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر ایک انتہائی متشدد مذہبی فکر پروان چڑھنا شروع ہوگئی، اور پاکستان کو مختلف بحرانوں میں دھکیلا جا رہا تھا، پاکستان کے اندر، نفرت، تکفیریت، مذہبی تعصبات کی بنیاد رکھی جا رہی تھی، اس وقت پاکستان کو اسکے اصلی ٹریک (track) پر لانے کیلئے جو حقیقی لیڈرشپ پاکستان میں موجود تھی، وہ شہید قائد کی تھی، اور انکے دست راست بطور قومی لیڈر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی تھے، اس وقت شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی نے مینار پاکستان سے آمر ضیاءالحق کو للکارتے ہوئے کہا کہ ہم اسلام سے دستبردار نہیں ہوتے، ہم پاکستان میں وہ اسلامی نظام لائیں گے، جو اہل تشیع اور اہلسنت دونوں کیلئے قابل قبول ہوگا، ہم پورے پاکستان کو بچائیں گے، شہید قائد نے اس وقت آمر ضیاء کے نام نہاد ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا، انہوں نے آمر ضیاء کے اس ظالمانہ آمرانہ نظام کے خلاف تحریک چلائی، تو تحریک کے روح رواں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی تھے، تمام مشکل موقعوں پر قوم کے اندر طاقت و روح پھونکنے والی شخصیت بھی ڈاکٹر شہید کی تھی۔ پاکستان میں جہاں کہیں بھی مشکلات و مسائل ہوتے تھے، تو شہید قائد کے بعد جس کی طرف لوگوں کی نگاہیں اٹھتی تھیں، وہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ذات تھی۔ ڈاکٹر شہید پاکستانی عوام کے ہیرو تھے، انہوں نے بطور قومی لیڈر انتہائی انتھک مخلصانہ کردار ادا کیا۔

اسلام ٹائمز: بعض لوگ کہتے ہیں شہید قائد کی شہادت کے بعد شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک بہترین اپوزیشن رہنما کے طور پر سامنے آئے، آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا بطور اپوزیشن لیڈر والا کردار بہت ہی کم بیان ہوتا ہے، شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کے بعد جو سسٹم چلا، اس کے اندر انہوں نے جو مثبت طریقے سے، تشیع کی سیاست کے اندر رہ کر، جس انداز سے انہوں نے تشیع کی طاقت کو حفظ کیا، جس انداز سے انہوں نے تشیع کی طاقت کو محفوظ کیا، اور اسکے ساتھ ساتھ تکفیریت کا مقابلہ کیا، اور جب انکے پاس کوئی عہدہ نہیں رہا، ان کو سسٹم نے دور کر دیا، سسٹم کے اندر ان کی گنجائش نہیں رہی، لیکن وہ پھر بھی متن کے اندر رہے، پھر بھی وہ میدان کے اندر رہے، ڈاکٹر شہید بند کمروں میں بیٹھ کر منصوبہ بندی نہیں کرتے تھے، کمروں میں بیٹھ کر انقلابی نہیں رہتے تھے، بلکہ ہر قومی مسئلہ میں ڈاکٹر شہید اور انکے ساتھی میدان کے اندر حاضر رہتے تھے، چاہے ان کے پاس عہدہ رہا یا نہ رہا، وہ آخری دم تک میدان میں رہے، حتیٰ کہ سڑک پر شہید ہوگئے، انہوں نے میدان کو کبھی نہیں چھوڑا، ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ آج بہت سارے لوگ ایسے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر شہید کے مشن پر باقی ہیں، ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں، انکی فکر کے وارث ہیں، لیکن ایسے دعویدار ہمیں میدان میں نظر نہیں آتے، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی روش یہ نہیں تھی، انکا یہ انداز نہیں تھا، لہٰذا آج اگر شہید ڈاکٹر موجود ہوتے تو آج تشیع کے اندر جو نہضت چلی ہے، وہ اس کے متن میں ہوتے، اس کا کوئی بھی عنوان ہوتا، وہ کبھی بھی اپنے آپ کو اجتماعی ذمہ داریوں سے دور نہیں کرتے، ان کے پاس عہدہ ہوتا یا نہ ہوتا، لیکن وہ میدان کے اندر حاضر ہو کر اجتماعی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے ہوتے، آج کل لوگ فقط اور فقط ان کی چند سنی سنائی چند باتیں منتقل کرکے اپنے آپ کو شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی فکر و مشن کا وارث و محافظ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، ڈاکٹر شہید کا اسٹوڈنٹ لیڈر کا زمانہ ہو، یا شیعہ لیڈر اور قومی لیڈر کا زمانہ ہو، یا پھر اپوزیشن لیڈر کا زمانہ ہو، ہر مرحلے کے اندر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سنگین اجتماعی ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر اٹھائے میدان میں حاضر نظر آئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو سفیر انقلاب کیوں کہا جاتا ہے۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
انقلاب اسلامی کو انہوں نے فقط پڑھا یا قریب جا کر دیکھا نہیں، بلکہ جس طرح شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی نے افکار حضرت امام خمینی و پیغام انقلاب اسلامی کو بعین ہی پاکستان میں منتقل کیا، سفیر انقلاب نے بھی اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، سفیر انقلاب نے اس انداز سے نظام ولایت فقیہ، افکار و خط امام خمینی کو پاکستان کے اندر متعارف کرایا کہ لوگ انہیں سفیر انقلاب کہنے پر مجبور ہوگئے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہید کو نوجوانوں کا بھی ایک مقبول رہنما کہا جاتا ہے، آخر اسکی کیا وجہ ہے، نوجوانوں کیلئے شہید کیا پلان رکھتے تھے۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
حدیث شریف میں آیا ہے کہ ”المومن القوی خیر ومن المومن الضعیف“ کہ طاقتور مومن، ضعیف اور کمزور مومن سے بہتر ہوتا ہے، لہٰذا شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ہمیشہ ملت کے طالب علم و غیر طالب علم نوجوانوں کو طاقتور بنانے کیلئے کام کرتے تھے، طاقور بنانا ہے یعنی ان کو فکری لحاظ سے، فرہنگی لحاظ سے، اقتصادی لحاظ سے، وہ نوجوان کے ناکارہ ہونے کے قائل نہیں تھے، اسی لئے وہ نوجوانوں کو جسمانی سمیت ہر حوالے سے فٹ (fit) رہنے کی تاکید کرتے تھے، اور خود اس کا عملی نمونہ بھی تھے، اسی لئے وہ نوجوانوں کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ اپنی معنویات کو، روحانی مقام کو بلند کرنے کیلئے دعا و مناجات، اسلام سے عشق و محبت، نماز شب انتہائی توجہ دیں، یہ تمام چیزیں خود ان کی روش کے اندر موجود تھیں، پھر معاشرے کے اندر پیدا ہونے والے انحرافات کے بارے میں وہ وقت سے پہلے نوجوانوں کو آگاہ کر دیا کرتے تھے، وہ باخبر شخصیت تھی، اس دنیا میں جو تبدیلیاں آتی تھیں، دشمن کی جانب سے کسی بھی میدان سے حملہ ہوتا تھا، وہ نوجوانوں کو اس کے خطرات سے آگاہ کرتے تھے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی بتاتے تھے، کوئی بھی شخص چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا پڑھا لکھا نہ ہو، ہر شخص ڈاکٹر شہید سے متاثر ہوا ہے، آپ پورے پاکستان کی مساجد، امام بارگاہوں، علاقوں میں جائیں، آپ کو ہر جگہ پر لوگ بتائیں گے کہ ڈاکٹر شہید یہاں آئے تھے، یہاں انہوں نے ورکشاپ رکھی تھی، یہاں انہوں نے دعائے کمیل منعقد کی تھی، یہاں انہوں نے یہ پروگرام کیا تھا، یہاں لائبریری قائم کی تھی، یہاں ووکیشنل ادارہ قائم کیا تھا، یہاں اسکول و کالج قائم کیا تھا، یعنی ڈاکٹر شہید نے کسی بھی شعبے کو چھوڑا نہیں، وہ تشیع کی، قوم کی، پاکستان کی جتنی بھی قوت ہے، اس کو بروئے کار لانے کے قائل تھے، استفادہ کرنے کے قائل تھے، تاکہ قوم و ملت اس سے مستفید ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: نوجوانوں کو باعمل علماء کرام سے قریب کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر شہید کی روش کیا رہی۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
عموماً نوجوانوں کو علماء کرام سے دور اور متنفر کیا جاتا ہے، لیکن ڈاکٹر شہید نے نوجوانوں کو باعمل علماء کرام کے قریب کیا، ان کے پاس لے جاتے تھے، نوجوانوں کیلئے باعمل اور صالح علماء کرام کے دروس کا انعقاد کروایا کرتے تھے، انہوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ نوجوانوں کے اندر اسلام اور باعمل و صالح علماء کرام کی محبت باقی رہے، ڈاکٹر شہید خود بھی ایک علمی و دینی خاندان کے چشم و چراغ تھے، اس لحاظ سے ان کا علماء کرام کے ساتھ اور دوسری طرف نوجوانوں کے ساتھ گہرا ربط تھا، لہٰذا وہ ان دونوں کو آپس میں مربوط رکھتے تھے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ تنقید نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کے اندر اتنی جرات و طاقت تھی کہ ہر شخص کے سامنے کلمہ حق بیان کر دیتے تھے، چاہے وہ بڑے سے بڑا عالم و اسکالر ہو، جو حق و حقیقت ہوتی تھی، اچھے اور مثبت پیرائے میں ہر جگہ پر بیان کر دیا کرتے تھے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہید کی نگاہ میں ملی تنظیموں کی عالم اسلام میں موجود انقلابی تحریکوں کیساتھ وابستگی کی افادیت کے حوالے سے کہا کہیں گے۔؟

علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی:
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی امت حزب اللہ کے قائل تھے کہ جتنے بھی لوگ خطِ ولایت پر موجود ہیں، پرچم ولایت کے علمبرداروں کو بھی آپس میں متحد و متفق ہونا ہوگا، قریب ہونا ہوگا، ایک دوسرے کو طاقتور بنانے میں کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ ہمارا دشمن ایک ہے، ہمارے خلاف متحد و متفق ہو کر حملہ آور ہے، وہ شیطان بزرگ امریکا ہو یا اسرائیل یا غرب ہو، یا خطے میں انکے محور میں گھومنے والی طاقتیں ہوں، جو متحد و متفق ہوکر اسلام پر حملہ آور ہیں، لہذٰا ڈاکٹر شہید کی بھی یہی خواہش تھی، وہ اس کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ ڈاکٹر شہید بین الاقوامی حالات سے بہت آگاہ تھے، زمانے میں آنے والی تمام تبدیلیوں پر ان کی گہری نگاہ ہوتی تھی، ان کی گہری پہچان رکھتے تھے، دشمن کے تمام حربوں کو بھی اچھی طرح پہچانتے تھے، اس لئے وہ دیکھتے تھے کہ دشمن کہاں کہاں سے حملہ آور ہو رہا ہے، کون کون اس کے اہداف ہیں، اس لئے وہ ہمیشہ مظلومین و مستضعفین و پسے ہوئے لوگوں کی نصرت کیلئے اقدامات کرتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 528243
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Romania
سلام
اگر ایک میرا سوال بھی اسلام ٹائمز ایڈ کر لے اور جملے اس لئے وہ ہمیشہ مظلومین و مستضعفین و پسے ہوئے لوگوں کی نصرت کیلئے اقدامات کرتے تھے۔ کیا یہ نام نہاد لیڈر اس پر عمل کر رہے ہیں۔ یا صرف ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو اپنی تقریروں اور انٹرویوز میں کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں بس۔ خود عمل کروں پاکستان کی شیعہ کمیونٹی میں بہت سے مظلوم اور مستضعف لوگ ہیں، ان کے لئے ان نام نہاد لیڈروں نے آج تک کیا کیا ہے۔ صرف باتوں کے ۔۔ مثلاً غلام رضا نقوی ۔۔۔ اور کچھ لوگ قومی سانحات کی وجہ سے جیلوں میں ہیں، ان کے لئے بیان بازی کے علاوہ کیا کیا ہے ۔۔۔ کچھ بھی نہیں، صرف ڈاکٹر صاحب کی باتیں کرکے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔۔۔
علی رضوان
Romania
بلکہ ان کے اندر اتنی جرات و طاقت تھی کہ ہر شخص کے سامنے کلمہ حق بیان کر دیتے تھے، چاہے وہ بڑے سے بڑا عالم و اسکالر ہو، جو حق و حقیقت ہوتی تھی، اچھے اور مثبت پیرائے میں ہر جگہ پر بیان کر دیا کرتے تھے۔ آغا کے انٹرویو سے ۔۔۔
سائرہ ہاشمی
Pakistan
شہید ڈاکٹر کی خدمات کو پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی، اسلام ٹائمز کی اچھی کاوش ہے کہ جس نے شہید کے افکار پر کافی زیادہ انٹرویوز کا اہتمام کیا۔ شکریہ
رضا مشہدی
Pakistan
اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، اور اسی طرح راہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
احسن زیدی
Pakistan
شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا ایک عظیم فریضہ ہے، ماشاء اللہ اسلام ٹائمز ہمیشہ شہیدوں کی یاد کو زندہ رکھتا ہے۔ خدا آپ کا بھلا کرے، ورنہ شاید یہ نئی نسل اپنے شہیدوں کے افکار سے واقف ہی نہ ہوسکے۔
ہماری پیشکش