1
0
Monday 21 Mar 2016 23:40
مسلمانوں کو اسرائیل کیخلاف متحد ہو جانا چاہیئے، وہ مسلمانوں کا قطعی خیر خواہ نہیں

اسرائیل سعودی گٹھ جوڑ نہ تو سعودی عرب کے مفاد میں ہے اور نہ ہی عالم اسلام کے، علامہ محمد عثمان غوری نورانی

سعودی فوجی اتحاد کے پیچھے بھی صہیونی طاقتوں کا ہاتھ ہے
اسرائیل سعودی گٹھ جوڑ نہ تو سعودی عرب کے مفاد میں ہے اور نہ ہی عالم اسلام کے، علامہ محمد عثمان غوری نورانی
علامہ محمد عثمان غوری نورانی جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کی مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں، ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ انہوں نے مذہبی سیاسی و تنظیمی فعالیت کا آغاز جمعیت علمائے پاکستان سے 1975ء میں کیا، وہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کے ہمراہ تنظیمی و مذہبی فعالیت انجام دے چکے ہیں، وہ کراچی کے ضلع وسطی کے صدر اور تنظیمی حوالے سے اہم فعال رہنما ہیں، وہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں واقع جامع مسجد نورانی میں امامت و خطابت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ دینی مدرسے جامعہ صفہ کے بانی سربراہ بھی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے علامہ محمد عثمان غوری نورانی کے ساتھ ممتاز قادری کی پھانسی، داعش، سعودی فوجی اتحاد، سعودی اسرائیل گٹھ جوڑ و دیگر موضوعات پر جامع مسجد نورانی، لیاقت آباد میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ممتاز قادری کو اتنی عجلت میں پھانسی دے دی گئی، جبکہ اس سے پہلے سے کئی پھانسی کے منتظر قیدی موجود ہیں، جن میں درجنوں خطرناک دہشتگرد بھی شامل ہیں، کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ محمد عثمان غوری نورانی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ ہمیں کوئی شک نہیں ہے کہ نواز حکومت نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر، انہیں خوش کرنے کیلئے غازی ممتاز قادری شہید کو پھانسی دی ہے، کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ نواز حکومت اپنے غیر ملکی آقاؤں کی ماتحت ہے، انہی کا کھاتی ہے، انہیں کا گاتی ہے، یہ اللہ تعالٰی کے بجائے اپنے غیر ملکی آقاؤں کو جواب دہ ہیں، جبکہ ہونا تو یہی چاہیئے تھا کہ ممتاز قادری کے بجائے ملک و قوم کیلئے خطرہ بننے والے سزا یافتہ دہشتگردوں کو پھانسی دینی چاہیئے تھی۔

اسلام ٹائمز: القاعدہ، طالبان اور داعش، کیا یہ حقیقت ہے کہ یہ تمام دہشتگرد گروہ وہابیت کی پیداوار ہیں۔؟
علامہ محمد عثمان غوری نورانی:
1947ء کو قیام پاکستان کیلئے چلنے والی تحریک پاکستان اور 1977ء کو چلنے والی تحریک نظام مصطفٰی کے پیچھے اہلسنت و جماعت کے عوام و خواص نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا، لیکن خارجی گروہ جس میں دیوبندی، وہابی و دیگر لوگ ہیں، انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اہلسنت کمزور ہیں، ان کے پاس وسائل نہیں ہیں، لیکن یہ اتنی بڑی کامیاب تحریک چلا کر ملک بنا بیٹھے ہیں، تو ان خارجی گروہوں نے اندرونی طور پر خاموشی کے ساتھ کام کیا، اپنے لوگوں کو منظم کیا، اور 77ء سے لیکر آج تک انہوں نے اپنے آپ کو بہت مضبوط کر لیا، انہیں بیرونی امداد بھی حاصل رہی، لیکن ہم پاکستان کی اکثریت اہلسنت و جماعت منظم نہ ہوسکے، خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے، جس کی وجہ سے ہم پیچھے ہوگئے، خارجی ٹولہ آگے بڑھ گیا، انہوں نے مدارس کے نام پر دہشتگردی کے مراکز قائم کئے، اپنے بڑے بڑے ادارے قائم کئے، اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں نہتے اہلسنت عوام کی مساجد و مدارس پر قبضے بھی کئے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں اس خارجی ٹولے کو بیرونی امداد حاصل ہوتی رہی ہے، جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے، اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود تمام خارجی ٹولے وہابیت کی پیداوار ہیں، وہابی فکر کے پروردہ ہیں۔ ابھی مجھے خود عمرے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، تو میں نے خود سعودی عرب میں بغور ان تمام چیزوں کو دیکھا ہے، وہاں تمام ملکی و غیر ملکی معلمین فکر وہابیت کے ماتحت ہیں، آپ سن کر حیران ہونگے کہ ان میں اکثریت معلمین کراچی کے جامعہ بنوریہ سے فارغ التحصیل ہیں، میں نے ان سے باقاعدہ بات کی ہے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگرد تنظیم داعش کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ محمد عثمان غوری نورانی:
حضرت محمد (ص) نے فرمایا ہے کہ قرب قیامت میں عنقریب میری امت میں فتنے پیدا ہونگے، طالبان، القاعدہ، داعش یہ سب انہیں فتنوں کا تسلسل ہے، یہ دین و مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ہمیں دھوکہ دیتے ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ وہی خارجی ٹولہ ہے، جس کا بارے میں حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا، حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت میں خارجیوں کا جو بڑا فتنہ کھڑا ہوا، یہ القاعدہ، طالبان، داعش وغیرہ اسی خارجی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی فوجی اتحاد کے بارے میں آپکی رائے کیا ہے۔؟
علامہ محمد عثمان غوری نورانی:
بنیادی طور پر اس اتحاد پر بہت عرصہ پہلے ہی کام کرنا چاہیئے تھا، اور صرف چونتیس نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کو اس میں شامل کرنا چاہیئے تھا، آپس میں مل بیٹھ کر مسلم امہ کے مسائل کا حل نکالنا چاہیئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ سعودی فوجی اتحاد کے پیچھے بھی صہیونی طاقتوں کا ہاتھ ہے، امریکا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو لڑا کر تیل کے ذخائر پر قابض ہوجائے، جبکہ ہم مسلمان ممالک اس حساس موقع پر سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں، جس کا نقصان بہرحال بدقسمتی سے عالم اسلام کو اٹھانا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو سعودی فوجی اتحاد کا حصہ بننا چاہیئے۔؟
علامہ محمد عثمان غوری نورانی:
پاکستان کو اپنی پوزیشن واضح رکھنی چاہیئے، اگر پاکستان فریق بن جاتا ہے، تو یہ خود پاکستان کیلئے بھی بہتر نہیں ہے، پاکستان کو ہر حال میں غیر جانبدار رہنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا واقعاً حرمین شریفین کو خطرہ ہے یا آل سعود یا سعودی بادشاہت نے حرمین شریفین کو ڈھال بنا رکھا ہے۔؟
علامہ محمد عثمان غوری نورانی:
آل سعود کی بادشاہت خود ایک غاضب بادشاہت ہے، آل سعود کو اپنی بادشاہت بچانی ہے، اپنا اقتدار و حکمرانی بچانی ہے، آج یہ پاکستان کو اپنی مدد کیلئے بلا رہے ہیں، لیکن دوسری جانب درحقیقت جب پاکستان کو ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت سعودی سانس بھی نہیں لیتے، دیکھتے بھی نہیں، خیال بھی نہیں کرتے، آج انہیں پاکستان کی ضرورت پڑی ہے تو وہ پاکستانی آرمی چیف کو بھی دعوت دے رہے ہیں، وزیراعظم کو بھی بلا رہے ہیں، لہٰذا یہ آل سعود کا ذاتی مفاد ہے، تحفظ حرمین شریفین کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ سب سعودی بادشاہت کے تحفظ کا معاملہ ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب و دیگر عرب بادشاہتوں کے امریکا سے تعلقات کے بعد صہیونی اسرائیل سے تعلقات کی خبریں عام ہونا شروع ہوگئی ہیں، کیا کہیں گے بڑھتے ہوئے سعودی عرب اسرائیل تعلقات کے حوالے سے۔؟
علامہ محمد عثمان غوری نورانی:
سعودی اسرائیل تعلقات کے حوالے سے خبریں حقیقت پر مبنی ہیں، لیکن سعودی عرب کو سوچنا چاہئے کہ اسرائیل مسلمانوں کا قطعی خیر خواہ نہیں ہے، اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کا گٹھ جوڑ کرنا، اسرائیل کی حمایت کرنا، نہ تو سعودی عرب کے مفاد میں ہے اور نہ ہی عالم اسلام کے مفاد میں۔ مسلمانوں کو تو اسرائیل کے خلاف متحد ہو جانا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 528823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
ماشاءاللہ علامہ صاحب، اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو سعودی اسرائیل گٹھ جوڑ پر اسی طرح کا بیباک مؤقف اپنانے اور اس گٹھ جوڑ کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ہماری پیشکش