0
Sunday 27 Mar 2016 03:25
تکفیریت کی حوصلہ افزائی کرنیوالے ایوانوں میں بیٹھے ہیں

وحدت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ کسی میں ضم ہوجائیں، علی مہدی

ہماری بدقسمتی یا دشمن کی سازشیں، انقلابی طبقہ ٹکڑوں میں تقسیم ہے
وحدت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ کسی میں ضم ہوجائیں، علی مہدی
علی مہدی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ایم فل نفسیات کے طالب علم ہیں۔ آئی ایس او کے ساتھ ان کا رشتہ اس وقت سے قائم ہے، جب وہ میٹرک میں تھے۔ 2008ء میں میٹرک کے دوران محب یونٹ آرگنائزر کے طور پر تنظیمی سفر کا آغاز کیا۔ کالج میں پہلے سال ہی یونٹ نائب صدر کی ذمہ داریاں ادا کیں، پھر یونٹ صدر اور بعد ازاں ضلعی جنرل سیکرٹری کے اعزازی عہدے پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ گریجویشن کے دوران ڈویژن کی مسئولیت ملی، پہلے ڈویژنل سیکرٹری اطلاعات، پھر ڈویژنل نائب صدر، ڈویژنل فنانس سیکرٹری، اسی طرح ڈویژنل اسسٹنٹ چیف اسکاؤٹ اور پھر مرکزی چیف اسکاؤٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ چیف اسکاؤٹ کے بعد مرکزی سینیئر نائب صدر اور اس کے بعد اب تنظیمی سال 15-2016 میں مرکزی صدر کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مرکزی صدر کے ساتھ مختصر نشست کا اہتمام کرکے تنظیمی و قومی حوالے سے جو گفتگو کی، وہ انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: تنظیمی سال 15-2016 کے حوالے سے کیا ترجیحات طے کی تھیں اور اس میں کتنی کامیابی ملی۔؟
علی مہدی:
میرا اپنا یہ خیال ہے کہ مرکزی صدر کی ذمہ داری ایک جنرل ذمہ داری ہے۔ جس میں اسے تمام شعبہ جات کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ایک آدھ شعبہ پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کرے گا، تو دیگر شعبہ جات میں کچھ کمزوری رہ جائے گی۔ لہذا مرکزی صدر کو تمام شعبوں پر ہی فوکس کرنا چاہیے۔ ماضی میں ایسا ہوا بھی ہے کہ کسی ایک دو شعبہ پہ توجہ سے اس شعبہ میں تو کارکردگی بہتر رہی، تاہم دیگر شعبوں میں کمی رہ گئی۔ میرے خیال میں اچھی اور فعال ٹیم کی مدد سے ہر شعبے میں کام کرنا چاہیئے۔ البتہ یہ خواہش ضرور تھی کہ شعبہ تربیت پر زیادہ کام کیا جائے۔ اس حوالے سے اچھا رہا، خصوصاً مسئولین کے حوالے سے اس سال میں اچھا تحرک رہا۔ یونیورسٹیز میں تربیت اور تعلیم کے حوالے سے سرگرمیاں زیادہ رہیں۔ تعلیم، تربیت، توسیع تنظیم یہ وہ شعبہ جات ہیں، جن میں بہتری آئی ہے۔

اسلام ٹائمز: متحدہ طلباء محاذ میں دیگر طلباء تنظیمیں شامل ہیں، مگر آئی ایس او کے سوا تشیع کی دیگر طلباء تنظیمیں شامل نہیں ہیں۔؟
علی مہدی:
متحدہ طلباء محاذ میں صرف ملک گیر تنظیمیں ہوتی ہیں۔ جو تنظیمیں کسی ایک علاقے میں متحرک ہوں مگر مرکز میں نہ ہوں تو متحدہ طلباء محاذ کی مرکز میں موجود کمیٹی انہیں شامل نہیں کرتی۔

اسلام ٹائمز: عقائد کے تحفظ کے حوالے سے آئی ایس او ماضی کیطرح سرگرم نہیں، کیوں۔؟
علی مہدی:
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے جو لوگ علمی مراکز سے مربوط تھے، وہ سب ایک صفحہ پر تھے، اب اسے ہماری بدقسمتی کہیں یا دشمن کی سازشیں کہ آج جو انقلابی طبقہ ہے، وہ خود ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکا ہے، اور اس وجہ سے وہ لوگ جو عقیدتی حوالے سے مسائل کھڑے کر رہے ہیں، وہ اس تقسیم کو سنہری موقعہ کے طور پر لیتے ہیں۔ ہماری قوت ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے یہ مسائل ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپریشن ضرب عضب کو کتنا کامیاب دیکھتے ہیں۔؟
علی مہدی:
جسموں کو مارنے سے دہشتگردی کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکتا۔ آپ دس ماریں تو بیس اور نکل آئیں گے۔ بیس کو ماریں تو پچاس اور آجائیں گے۔ ایک جگہ ماریں گے تو دوسری جگہ پر آجائیں گے۔ چنانچہ جسموں کو مارنے کی بجائے اس شدت پسندانہ تکفیری سوچ کو ختم کرنا ہوگا۔ اس سوچ کو ختم کئے بغیر آپ ایک کے بجائے دس ضرب عضب بھی لانچ کر دیں تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان کے اندر شدت پسندانہ تکفیری سوچ کے حامل اگر خود ایوانوں میں محفوظ بیٹھے ہوں گے اور ان کے خلاف حقیقی آپریشن نہیں کیا جائیگا تو پاکستان کی صورتحال کسی صورت میں تبدیل نہیں ہوگی۔ بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جو تکفیریت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آئے روز اہل تشیع کو ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی میں نشانہ بنایا جا رہا ہے، مگر آئی ایس او خاموش ہے، کیوں۔؟
علی مہدی:
ماضی میں واقعات کی شرح اس طرح نہیں تھی، جیسے آج ہے۔ واقعات کو اس انداز میں زیادہ کر دیا گیا ہے کہ یہ روٹین کی بات لگتی ہے۔ یعنی اگر کہیں دھماکہ ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اس میں تیس لوگ نشانہ بن گئے ہیں تو شکر پڑھا جاتا ہے کہ زیادہ لوگ نشانہ نہیں بنے۔ واقعات کے زیادہ ہونے کے باعث ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ردعمل نہیں آرہا، ویسے ہر واقعہ پر ردعمل آبھی نہیں سکتا۔

اسلام ٹائمز: تنظیم کے نام میں پاکستان کا نام شامل ہے، مگر قومی دن نہیں مناتی، کیوں۔؟
علی مہدی:
آئی ایس او ایک محب وطن آرگنائزیشن ہے۔ اس کے مختلف یونٹس، ڈویژنز میں پاکستان کے قومی دنوں کے حوالے سے پروگرام کئے جاتے ہیں، البتہ مرکزی سطح پر کوئی بڑے پروگرام نہیں کئے گئے۔ اس مرتبہ ہمارا ارادہ ہے کہ چودہ اگست کے موقع پر یوم آزادی کو ملک گیر اور بڑی سطح پر منائیں۔

اسلام ٹائمز: قومی وحدت کے حوالے سے آئی ایس او کا کیا کردار ہے۔؟
علی مہدی:
آئی ایس او قومی وحدت کی علمبردار رہی ہے۔ البتہ یہ واضح کر دوں کہ وحدت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ کسی میں ضم ہوجائیں۔ وحدت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی شناخت کے ساتھ دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں۔ آئی ایس او نے ہر موقع پر کوشش کی ہے کہ جتنے لوگوں کو قریب کرسکتی ہے قریب کرے۔ آئی ایس او ہر موقع پر یہ کوشش کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ ابھی کراچی میں حمایت مظلومین جہاں، جو پروگرام ہوا، جس کا آغاز لینے والی آئی ایس او تھی۔ جس میں گیارہ کے قریب قومی تنظیمیں شامل تھی۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل راجہ ناصر عباس نے وحدت کی خاطر ایم ڈبلیو ایم کے توڑنے کی بات کی ہے، آپ اسے کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟
علی مہدی:
راجہ صاحب نے جس وقت یہ بیان دیا، میں اس وقت وہیں موجود تھا۔ انہوں نے جس تناظر میں یہ بات کی، میں وہ بتانا چاہونگا، راجہ صاحب سے پہلے ایک مقرر نے یہ بات کی کہ جو قائدین آج یہاں اکٹھے بیٹھے ہیں، وہ پورا سال اکٹھے کیوں نہیں بیٹھ سکتے اور پوری زندگی ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔ ویسے بھی پاکستان میں یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ تنظیمیں اختلافات کا باعث بنتی ہیں۔ تو میں اس جملے کو اس نگاہ دیکھتا ہوں کہ ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر مجلس کے ختم ہونے سے اتحاد قائم ہوتا ہے اور مجلس، وحدت کی راہ میں رکاوٹ ہے، تو مجلس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ البتہ چونکہ یہ راجہ صاحب کا بیان ہے، لہذا وہ خود اپنے بیان کی زیادہ بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 529797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش