4
0
Tuesday 29 Mar 2016 21:30
پاکستان کو کسی بھی صورت میں سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کرنی چاہیے

انتہا پسندی کو فروغ دینے والے پاکستانی ریاستی نیریٹو کو تبدیل کئے بغیر دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد

پاکستانی ریاست اپنے اسٹراٹیجک اثاثوں یعنی انتہا پسند عناصر کو بچانا چاہتی ہے، تاکہ مستقبل میں بھی استعمال کیا جاسکے
انتہا پسندی کو فروغ دینے والے پاکستانی ریاستی نیریٹو کو تبدیل کئے بغیر دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان پاکستانی صحافت کی انتہائی مشہور و معروف شخصیت اور سینیئر کالم نگار و تجزیہ کار ہیں، وہ شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ اردو کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں اور آجکل بحیثیت Adjoint پروفیسر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ آواز انسٹیٹیوٹ آف میڈیا سائنسز کراچی کے سینیئر فیکلٹی ممبر بھی ہیں، وہ گذشتہ تیس سال سے زائد عرصے سے درس و تدریس اور چالیس سال سے زائد عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں، ان کے کالم و تجزیئے روزانہ مختلف قومی اخبارات و جرائد کی زینت بنتے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کے ساتھ سانحہ لاہور، پنجاب میں آپریشن کا آغاز، پاکستانی ریاست نیریٹو، ایرانی صدر کا حالیہ دورہ پاکستان، سعودی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت سمیت دیگر اہم موضوعات کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں ایک نشست کی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ لاہور کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
سانحہ لاہور کی ذمہ دار بنیادی طور پر پاکستانی ریاست ہے، پاکستانی ریاست کا بیانیہ یا نیریٹو (narrative) انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے، پاکستان کی فوج وہ ادارہ ہے، جس نے ریاست کی شکل اختیار کر لی ہے اور ریاست کے نیریٹو (narrative) کو ڈکٹیٹ (dictate) کراتی ہے، اسکا فائدہ اس میں ہے کہ انتہاپسند گروہوں کو باقی رکھے، تو ان کے خلاف جتنے بھی آپریشن ہوئے، ان میں بھی کچھ انتہا پسند گروہوں کو زندہ رکھا گیا، انہیں کشمیر و دیگر محاذ پر استعمال کرتے رہے، کیونکہ پاکستانی ریاست کا نیریٹو (narrative) انتہا پسندی کو ختم کرنا نہیں چاہتا، وہ انتہا پسندی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، وہ مسلم بنیاد پرستی (fundamentalism) پر دنیا کو بلیک میل (blackmail) کرنا چاہتی ہے، یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ اب ریاست سے مراد پاکستان کی فوج ہے۔ جب فوج اس نیریٹو کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، تو سارے ملکی ادارے اس کے آگے مفلوج ہیں، پابند ہیں۔

اسلام ٹائمز: ریاست سے مراد فوج کیوں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
ویسے تو ریاست سے مراد اس کے تین ستون یعنی انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ ہیں، مگر میں اس کی پھر وضاحت کر رہا ہوں کہ وہ ادارہ جس نے ریاست پر زبردستی غلبہ حاصل کر لیا، وہ ہے فوج، وہ سارے معاملات اپنی مرضی سے چلاتی ہے، وہ ان انتہا پسند گروہوں کو کھڑا کرتی ہے، بعد میں انہیں اپنی ضرورت کے مطابق کم زیادہ کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت پر ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
حکومت فوج کے آگے مفلوج ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ جو لوگ حکومت میں ہیں، ان کی ذہنیت (mindset) بھی وہی ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ سانحہ لاہور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی کارستانی ہے، کیونکہ کوئی مسلمان بے گناہوں کو خون میں تڑپانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، کیا واقعاً ایسا ہے، یا پھر اس سانحے میں کالعدم دہشتگرد تنظیمیں ملوث ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
یہی وہ نیریٹو (narrative) جو طالبان دہشتگردوں سمیت دیگر انتہا پسند گروہوں کو بچاتا ہے، یہ ساری تاویلیں انہی انتہا پسندوں کو بچانے کیلئے گڑھی جاتی ہیں، یہ بات دنیا پر واضح ہوچکی ہے کہ طالبان نے جو ماڈل بنایا تھا، وہ انسانیت دشمنی پر مبنی تھا، جب ان کی حکومت بنی تھی، انہوں نے تعلیم، ثقافت، اخلاقیات سب کو تباہ و برباد کر دیا تھا، پاکستانی طالبان بھی انہیں کے نقش قدم پر ہیں، یہ بات بھی طے ہے کہ اس انتہا پسندی کو پاکستان کی فوج اور امریکہ نے فروغ دیا تھا، لہٰذا اس قسم کی تاویلیں گڑھ کر ان انتہا پسندوں کو بچانے کی کوششیں نہیں کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ لاہور کے بعد پنجاب میں دہشتگردوں کیخلاف فوجی آپریشن شروع کرنیکا فیصلہ کر لیا گیا ہے، کیا کہیں گے اس فیصلے پر۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
2005ء کے بعد سے یہ مطالبہ ہو رہا تھا کہ جنوبی پنجاب میں دہشتگرد عناصر کے خلاف آپریشن کیا جائے، لیکن کوئی بھی حکومت اس کیلئے تیار نہیں تھی، فوج بھی اس کیلئے تیار نہیں تھی، آج جب لاہور پر حملہ ہوا ہے تو جنوبی پنجاب میں آپریشن کیا جا رہا ہے، جبکہ جنوبی پنجاب میں آپریشن کا آغاز تو دس سال پہلے ہی ہو جانا چاہئے تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انتہا پسند گروہوں کو برقرار رکھا ہوا ہے، اس لئے کہ آپ انہیں کشمیر اور افغانستان میں استعمال کرتے ہیں، پاکستانی ریاست کے نیریٹو (narrative) کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ بہرحال اب یہ جو آپریشن شروع کیا گیا ہے، اسے محدود پیمانے پر صرف چند لوگوں کی گرفتاری تک نہیں ہونا چاہیئے، تمام مدارس کی اسکینگ ہونی چاہئے، دہشتگردی میں ملوث مدارس اور انتہا پسندوں کی سپلائی لائن بند ہونی چاہیئے، کیونکہ انتہا پسندوں کی فیکٹریاں موجود ہیں، پھر سب سے بڑی بات یہ ہے بے انتہا اسلحہ ملک بھر میں موجود ہے، عجیب سی بات ہے کہ پاکستان بھر میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اتنی بڑی مہم چل رہی ہے، لیکن اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے کہ ملک سے اسلحہ ختم کیا جائے، اگر ملک میں اسلحہ نہیں ہوگا تو کوئی انتہا پسندانہ عزائم رکھتا بھی ہے تو اس پورا نہیں کر پائے گا۔ لہٰذا ملک سے اسلحے کا خاتمہ انتہائی ضرور ہے۔

اسلام ٹائمز: انتہا پسند و دہشتگرد عناصر اور انکی سوچ کا خاتمہ کیسے ممکن ہے، نیز ریاستی نیریٹو کیا ہونا چاہیئے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
ہم اگر اپنا موازنہ دنیا کے جدید ممالک سے کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں دہشتگردی و انتہا پسندی کا ماخذ و منبع ختم کیا جاتا ہے، لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہماری ایجنسیاں یہ کہتی ہیں کہ قائداعظم کے مزار پر دہشتگرد حملے کا خطرہ ہے، تو وہ مزارِ قائد کی ہر سڑک بند کر دیتے ہیں، لیکن وہ اس انتہا پسند فرد یا گروہ کو ختم نہیں کرتے، نہ اسے کراچی میں آنے سے روکتے ہیں، لہٰذا جب تک وہ ماخذ و منبع کی طرف نہیں جائیں گے، اس کے خاتمے کیلئے اقدامات نہیں کرینگے، سکیورٹی مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکے گا، بنیادی بات یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ سکیورٹی کی ضرورت ہی نہ ہو۔ جہاں تک بات نیریٹو کی ہے، پاکستانی ریاست کا نیریٹو (narrative) 11 اگست 1947ء کی قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر کے مطابق ہو، تو پھر جا کر ہم انتہا پسندی و دہشتگردی کے بحران سے نکلیں گے، کیونکہ جب ہم کشمیر میں جہادی بھیجیں گے، ان کی سرپرستی کرینگے، تو وہی جہادی واپس آکر دہشتگردی کرینگے، انہیں جہادیوں نے پاکستان واپس آکر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا، لہٰذا یہ بات طے ہے کہ جو انتہا پسند وہاں جائے گا، وہ یہاں آکر عوام کو بھی مارے گا۔ لہٰذا انتہا پسندی کو فروغ دینے والے پاکستانی ریاست کے نیریٹو کو تبدیل کئے بغیر ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں داعش کی موجودگی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، اسکی حقیقت کیا ہے؟ یا صرف پہلے سے موجود دہشتگرد نام استعمال کر رہے ہیں اور داعش کے نام پر فعال ہو رہے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
انتہا پسندی کا کوئی بھی نام ہو، چاہے وہ داعش ہو، طالبان و لشکر جھنگوی ہو، چاہے وہ سپاہ صحابہ ہو، یا مختلف مسالک میں انتہا پسندی ہو، یہ تمام پاکستان کیلئے خطرناک ہے، اس کی کوئی بھی شکل ہو، اس کا خاتمہ ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ خاتمے کی بات کر رہے ہیں، لیکن کالعدم دہشتگرد تنظیمیں پاکستان بھر میں نام بدل کر فعال ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ ان تمام انتہا پسند عناصر کو ریاست بچانا چاہتی ہے، یہ ریاست کے اسٹراٹیجک اثاثے ہیں، جنہیں وہ استعمال کرتے ہیں، مستقبل میں بھی انہیں استعمال کیا جاسکے، اس لئے ان کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اور یہ فعال ہیں۔

اسلام ٹائمز: جمہوری اسلامی ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے ایجنٹ کی گرفتاری، اسکے پاسپورٹ پر ایرانی ویزہ، اسکا ایرانی چاہ بہار بندرگاہ پر فعال ہونا، جیسے انکشافات سامنے لائے گئے، کیا ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر ”را ایجنٹ“ کی گرفتاری ظاہر کرنے کے پس پشت کوئی کہانی نظر آتی ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
پاکستانی ریاست کا ایک حصہ کسی صورت بھی بھارت کے ساتھ دوستی کے حق میں نہیں ہے، اب انہوں نے نیا حربہ استعمال کرتے ہوئے اس معاملے میں ایران کو گھسیٹنے کی کوشش کی ہے، بھارت کی ایران کے ساتھ دوستی ہے، بھارت نے مشکل وقت میں ایران کا ساتھ دیا ہے، تو وہ انہیں کسی صورت قبول نہیں ہے، وہ اس معاملے میں ایران، بھارت اور افغانستان کو گھسیٹ رہے ہیں، جبکہ یہ انتہائی عجیب سی حکمت عملی ہے کہ آپ پاکستان کے تینوں سرحدوں کو خراب کر رہے ہیں، پتہ نہیں آپ کیسے زندہ رہینگے، آپ کیا سعودی عرب کے سہارے زندہ رہینگے، جو دنیا بھر میں تباہی و بربادی مچا رہا ہے، یہ انتہائی خراب قسم کی صورت حال ہے، پاکستانی حکومت بھی اس معاملے کو کنٹرول نہیں کر پائی، یہ پروٹوکول کے انتہائی خلاف ہے کہ ایک ملک کا صدر دورہ پر آیا ہوا ہو اور اس سے یہ سوال کیا جائے، جو کہ ایرانی صدر سے "را" ایجنٹ سے متعلق کیا گیا، یہ پاکستان کو خطرناک صورتحال کی طرف لے جایا جا رہا ہے، اس پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے کہ ایرانی صدر کے اہم دورے کے موقع پر ہی یہ "را" ایجنٹ والا معاملہ کیوں اٹھایا گیا اور ایران کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کیوں کی گئی، ایک ایسے وقت میں جب ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بحالی کی طرف جا رہے ہیں، آپ کیسی ریاست بنانے جا رہے ہیں، یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔

اسلام ٹائمز: ایرانی صدر نے اپنے دورہ پاکستان میں کہا کہ ایران جب بھی پاکستان کے قریب ہونیکی کوشش کرتا ہے، بعض عناصر افواہیں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں، آپکی نگاہ میں ایرانی صدر کا کن عناصر کی طرف اشارہ ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
یہ وہ انتہا پسند مذہبی عناصر ہیں اور ریاست کی وہ قوتیں جو فرقہ وارانہ بنیادوں پر کشیدگی پیدا کرتی ہیں اور ایران کے خلاف نفرت پھیلاتی ہیں، ایرانی صدر کے تحفظات بالکل صحیح ہیں۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، ایران، بھارت اور افغانستان کے ساتھ دوستی پاکستانی عوام کے مفاد میں ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت سے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان:
سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت سے پاکستان پر انتہائی منفی اثر پڑے گا، پاکستان شدید ترین فرقہ واریت کا شکار ہو جائیگا، دہشتگرد گروہ داعش انسانیت کی دشمن ہے، اس کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیئے، لیکن پاکستان کو کسی بھی صورت میں سعودی عرب کی سربراہی میں بنائے گئے اس اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 530419
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Pakistan
توصیف صاحب نے پاکستانی ریاستی نیریٹو کے حوالے سے انتہائی حقائق پر مبنی باتیں کی ہیں، افواج پاکستان سے دست بدستہ گزارش ہے کہ اس پر توجہ دیں۔
لقمان
Pakistan
حیرت ہے کہ انہوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے اتنے جرأتمندانہ مؤقف کا اظہار کیسے کر لیا۔۔۔۔ بہرحال سلام ہو ان کی حق پرستانہ آواز پر۔
بنت حوا
Pakistan
حقائق پر مبنی انٹرویو دیا ہے محترم توصیف صاحب نے، میں ان کو اچھی طرح جانتی ہوں، یہ بہت بیباک اور جرأتمند شخصیت ہیں، اسلام ٹائمز کو پاکستان بھر میں رہنے والی اس قسم کی شجاع شخصیات کا انٹرویو زیادہ سے زیادہ کرتے رہنا چاہیئے، نہ کہ بے اختیار و منافق سیاسی و مذہبی افراد کا۔
نیک بانو
Pakistan
سلام۔۔۔ میں بنت حوا صاحبہ کی رائے سے کاملاً متفق ہوں، کیونکہ میں بھی سر توصیف کی اسٹوڈنٹ رہ چکی ہوں، وہ اپنی دلائل پر مبنی رائے انتہائی جرأت و بباک طریقے سے بیان کیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سر کو اسی طرح عوام کی رہنمائی کرنے کی مزید توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ہماری پیشکش