0
Sunday 10 Apr 2016 01:48

موجودہ مذہبی جماعتوں کی تحریک سے نظام طالبان تو آسکتا ہے نظام مصطفٰی نہیں، علامہ ناصر عباس جعفری

موجودہ مذہبی جماعتوں کی تحریک سے نظام طالبان تو آسکتا ہے نظام مصطفٰی نہیں، علامہ ناصر عباس جعفری
مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری ایم ڈبلیو ایم میں اپنی دوسری ٹرم مکمل کرچکے ہیں اور آج اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے، ایم ڈبلیو ایم شوریٰ عالی کی جانب سے نئے سیکرٹری جنرل کیلئے دئیے گئے تین ناموں میں سے ایک نام علامہ ناصر عباس جعفری کا بھی ہے۔ اسلام ٹائمز نے مجلس وحدت مسلمین کی ابتک کارکردگی اور نظام مصطفٰی کی تحریک سے متعلق اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب مجلس وحدت مسلمین کی دوسری ٹرم مکمل ہوگئی، آپ اور آپکی کابینہ آج اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونے جا رہے ہیں، کیا سمجھتے ہیں کہ ان چھ برسوں میں ایم ڈبلیو ایم نے کیا مقام بنایا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
دیکھیں جن حالات میں مجلس کی تاسیس ہوئی اور آغاز ہوا وہ حالات آپ کے سامنے ہیں، ہر طرف مایوسی تھی، دہشتگرد طاقتیں ملکی اور عالمی سرپرستوں کے ساتھ ملت پر حملہ آور تھیں، ہر جگہ حملے ہو رہے تھے، وہ ہمیں ڈرانہ چاہتے تھے، ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتے تھے، وہ ہمیں تنہا کرنا چاہتے تھے، وہ ہمیں نیم جان اور پسی ہوئی آواز میں تبدیل کرنا چاہتے تھے، وہ یہ چاہتے تھے کہ عزاداری نہ ہو، ہمیں معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جائے جیسے انہوں نے قادیونیوں کے ساتھ کیا۔ آپ نے دیکھا کہ اسی ملک کے اندر لوگوں کو بسوں سے اتار کر مارنا، بم بلاسٹ کرنا، ہمارے طاقت کے مرکز پارا چنار کا محاصرہ کرنا، جہاں جہاں ہم طاقتور تھے وہاں یہ لوگ ہم پر حملہ آور تھے، اس پر ہماری کوئی آواز نہیں تھی، ہمارے لئے کوئی بولتا تک نہیں تھا، سب تماشا گر تھے، ایوانوں تک ہماری آواز نہیں جاتی تھی، میڈیا ہماری آواز دباتا تھا، ہرطرف مایوسی کا عالم تھا، ہرطرف بےتوجہی نظر آتی تھی، ریاستی اور حکومتی سطح پر سب خاموش تھے ۔ ان حالات میں قوم کو شعور و بصیرت دینے، حوصلہ دینے، انہیں مایوسی سے نکالنے اور مین اسٹریم میں لانے کیلئے اس جدوجہد کا آغاز ہوا، اس مبارزے کا آغاز ہوا، آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں، شیعہ سنی اکٹھے ہیں، اس کیلئے عملی جدوجہد کی ہے، سیاسی جماعتیں ہمیں تسلیم کرتی ہیں۔

عزاداری کے دشمن مایوس ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ راولپنڈی عاشورہ کے معاملے پر یہ لوگ ایسے اکٹھے ہوگئے تھے جیسے مشرکین مکہ جنگ خندق میں مقابلہ کرنے کیلئے اکٹھے ہوگئے تھے، ایسا ہی یہاں ہوا تھا، ایک بہت بڑا سازشی منصوبہ تیار تھا، یہ لوگ اکٹھے ہوکر آگئے تھے کہ عزاداری کو ختم کرایا جائے، الحمد اللہ انہوں نے شکست کھائی، وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔ آج میڈیا میں ہماری آواز ہے، آج ہماری آواز میں طاقت پیدا ہوچکی ہے، قوم میں مایوسی ختم ہوچکی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ مشکلات اور مسائل ختم ہوچکے ہیں، کلی طور پر ایسا نہیں ہے، پہلے کی نسبت بہت بہتر حالات ہیں، آج ہم شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبوں کی بات کر رہے ہیں۔ مجلس نے کئی شعبوں میں قوم کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے، مجلس مظلوموں کی آواز بنی ہے، ہم نے یمن کے معاملے پر آواز اٹھائی اور اپنا نقش اور رول ادا کیا، سیاسی جماعتوں اور رہنماوں سے ملاقاتیں کی اور ان تک اپنی آواز پہنچائی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان یمن کی جنگ کا حصہ نہیں بنا، اسی طرح ہم نے بحرین، عراق، شام، کشمیر کے مظلوموں کا ساتھ دیا۔

مجھے یاد ہے کہ ملکی اور قوم کو درپیش مسائل پر جب لوگوں کے پاس جاتے تھے تو لوگ کہتے تھے کہ ہمیں اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیئے، اس ملک میں کچھ نہیں ہوسکتا، یقنی طور پر لوگ اس حد تک مایوس ہوچکے تھے۔ اس وقت ہم یہ کہہ کر اٹھے تھے کہ کم از کم ہم عزت کی موت تو مرسکتے ہیں، میدان میں تو مر سکتے ہیں، ہمارا خون مقابلہ کرتے ہوئے بہنا چاہیئے، لیکن خاموشی کسی صورت درست نہیں ہے۔ ہمارا خون وطن اور اہل وطن کیلئے میدان میں گرنا چاہیئے۔ اسی جوش و جذبہ کے ساتھ اٹھے، آپ مجلس سے پہلے کا دور دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ شہید قائد کی یاد تک بھلا دی گئی تھی، وہ جو اس قوم کا محسن تھا، جو اپنے لہو میں تر ہوکر اپنے جد امام حسین (ع) کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس سچے عارف حسین کی یاد تک بھلا دی گئی تھی۔ وہ ظلم کیخلاف پاکستان میں مبارزے کی تحریک کا سربراہ تھا، بانی تھا، ان کی یاد تک نہیں منائی جاتی تھی۔ مجلس نے ان کی یاد کو دوبارہ سے زندہ کیا، ان کے پیغام کو عام کیا، ہر سال پاکستان کی سطح پر بڑا اجتماع کرکے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

وہ شہید جو ہمارے دلوں میں تھا وہ زبانوں پر آیا، آج وہ شہید ہمارے خون میں موجود ہے، شہید ہماری نہضت میں موجود ہے، نظریہ ولی فقیہ کو پاکستان میں بھلا دیا گیا تھا، ایک خاص سطح پر اس کا تذکرہ کیا جاتا تھا، ولی فقیہ کا نظریہ جو شہید کے خون میں شامل تھا، اسے بھلا دیا گیا تھا، اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا۔ ان کی پوری نہضت ولی فقیہ سے جڑی ہوئی تھی۔ آج میں کہہ سکتا ہوں کہ نظریہ ولی فقیہ کا پاکستان میں احیا کرنے میں مجلس وحدت مسلمین کا اہم نقش اور رول ہے۔ آج ممکن ہے کہ بہت سار ے لوگ نظریہ ولی فقیہ کو نہ مانتے ہوں، لیکن اپنے آپ کو اس نظریہ سے متصل کرتے ہیں، تاکہ اس حوالے سے کوئی استفادہ کرسکیں، یہ جتنی بھی فضا ہے اس میں مجلس کا اہم رول ہے۔ چھ سال کسی بھی جدوجہد کیلئے تھوڑے ہوتے ہیں، مجلس وحدت مسلمین نے فکری، نظری، سیاسی، اجتماعی، سماجی، تربیتی، فلاحی اور رفاحی حوالے سے اہم کام کئے ہیں اور آگے بھی جاری رکھیں گے۔ انشاءاللہ

اسلام ٹائمز: ادارہ جاتی حوالے سے مستقل بنیادوں پر کتنا کام ہوا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
یہ پیش نظر رہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں، وہ انتہائی حساس جگہ پر واقع ہے، جہاں پل پل صورتحال بدلتی رہتی ہے، بیس کروڑ کے ایٹمی ملک پر عالمی قوتوں کی گہری نظر ہے، ان قوتوں کا ہمارے سیاسی نظام میں، اداروں میں گہرا نفوذ ہے، ان کا ہمارے میڈیا، ایجنسیوں کے اندر نفوذ بہت زیاد ہے، اس کی زندہ مثال ہمارے ملک میں مختلف سیاسی، سماجی اور دیگر بحران ہیں، سکیورٹی کا بحران ہے، تفرقہ ہے، یہ بات اس کی دلیل ہے کہ ان کا نفوذ زیاد ہے، وہ جو کام کرتے ہیں اس پر گہرا سوچتے ہیں، افراد ہائیر کرتے ہیں، اس پر کام کرتے ہیں، تب جا کر وہ اپنے کاموں کو انجام دیتے ہیں، اگر ہم پاکستان میں رہتے ہوئے ان مشکلات سے قوم کو نکالیں تو ہمیں ادارے بنانے پڑیں گے، اگر ادارے مضبوط نہیں کریں گے تو ہماری یہ موومنٹ زیادہ عرصہ نہیں چل پائیگی، اس کیلئے سسٹم بنانے اور افراد کی تربیت کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر سیاسی شعبہ ہے تو اس کے پیچھے باقاعدہ پولیٹیکل اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کا شعبہ ہونا چاہیئے، کئی ادارے بننے چاہئیں، جو ہمارے اداروں کو محفوظ کرسکیں اور انہیں صحیح خطوط پر چلا سکیں۔

اجرا کرنے والوں کی بھی تربیت ہونی چاہیئے۔ میں مثال دوں کہ ایک نقشہ بنانے والا ہوتا ہے، دوسرا مستری ہوتا ہے، جو اس نقشے کے مطابق مکان تعمیر کرتا ہے، یعنی وہ اس نقشے کے مطابق کاموں کا اجرا کرتا ہے، کابینہ کا کام مستری والا ہے، جن پر نگاہ رکھنا اور یہ دیکھنا کہ کام نقشے کے مطابق ہو رہا ہے یا نہیں، وہ پیچھے موجود اداروں کا کام ہے، جن کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں۔ وہ ادارے دشمن کی حکمت عملی کا مطالعہ کریں اور اس سے لڑنے کیلئے پلان دیں۔ اس کیلئے اداروں کی ضرورت ہے، آپ کسی بھی سیاسی جماعت کو دیکھ لیں، ان کے پیچھے ایسے ادارے نہیں ہیں۔ ہمارے پیچھے جو ادارے ہوں کہ وہ مکتبی تعلیم سے جڑے لوگ ہوں۔ اب مجلس یہ سوچ رکھتی ہے کہ اس طرح کے مستقل ادارے بننے چاہیئں اور اس پر کام ہونا چاہیئے۔ ہم نے ادارے بنانے ہیں، تاہم وہ سیکولر نہیں ہوں گے، ایسے ادارے بنائیں گے جن کی بنیاد دینی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کئی ایسے افراد جو ایم ڈبلیو ایم کی تاسیس کے وقت تو ساتھ تھے لیکن آج نہیں ہیں، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
دیکھیں، میرے خیال میں جب مجلس کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت کسی کے ذہن میں ہی نہیں تھا کہ ہم تنظیم بنانے جا رہے ہیں، اس وقت فقط اتنا ذہن میں تھا کہ ہم ان حالات سے کیسے نکلیں۔ اسی طرح چلتے چلتے جماعت بن گئی، ہماری یہ نہضت جماعتی شکل میں تبدیل ہوگئی، جب آپ جماعتی شکل میں کام کرتے ہیں تو مشکلات کچھ اور ہوتی ہیں، شروع شروع میں اس وقت تربیت بھی نہیں ہوسکی۔ ہم ایمرجنسیز کی صورتحال کو ہینڈل کرتے رہے، اسی میں الجھے رہے، آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ایمرجنسی کی صورتحال آپ کا بیشتر وقت لے لیتی ہے۔ اجرا کرنے والے لوگ فیلڈ میں کام کر رہے ہیں، انہی سے کہیں کہ آپ تربیتی کام کریں، انہی سے کہیں کہ آپ پلاننگ بھی کریں، آپ ان سے کہیں کہ تمام امور کو انجام دیں تو بہت مشکل ہے۔ جب ہم نے کام شروع کیا تو بہت سارے دوست آگئے، ان کی سوچیں مختلف تھیں، کئی جگہوں پر اختلاف نظر تھا، لیکن قومی مشکل میں سب اکٹھے ہوگئے تھے، ایک ٹیم کی شکل میں کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ٹیم کی شکل میں کام کرتے وقت اکثریت رائے کو فوقیت ہوتی ہے، نہ کہ انفرادی سوچ کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، ممکن ہے کہ ایک فرد کی رائے بہت اہم ہو، لیکن اکثریت کی رائے کچھ اور ہو، یہ امکان ہے کہ اکثریت رائے کی سوچ اس وقت غلط ہو، لیکن نظم یہی کہتا ہے کہ آپ اکثریت رائے پر چلیں، اجتماعی دانش کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ورنہ اس طرح تنظیم نہیں چل سکتی۔ اس وقت مشکل ہوجاتی ہے کہ جب ہم ویٹو پاور حاصل کرنا چاہیں، ویٹو پاور کے ذریعے اکثریت رائے کو بلڈوز کریں۔ بعض دوست ممکن ہے کہ ایک سوچ لیکر آئے ہوں کہ وہ ایسے کام کریں گے اور ان کو ان کی سوچ کے مطابق جگہ نہ ملی ہو۔ اس لئے انہوں نے علیحدہ ہوکر اپنا ادارہ بناکر چلنا مناسب سمجھا ہو۔ تنہا کام تنہا ہوتا ہے، وہ نہضت نہیں ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تنہا کام کرنے والوں کا اجتماعی جدوجہد پر یقین نہیں ہوتا، یاد رکھیں کہ اجتماعی جدوجہد میں پریشرز ہوتے ہیں، دباو ہوتا ہے، کئی طرح کی مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آج دوسری ٹرم مکمل ہو رہی ہے اور آپ مستعفی ہو رہے ہیں، مجلس کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
یہ اللہ کے قوانین ہیں، اگر مجلس اور اس کے لوگ اخلاص کے ساتھ اور نظام ولایت کے ساتھ متصل رہے اور مبارزے پر یقین رکھا، مظلوموں اور پسے ہوئے لوگوں کیلئے جدوجہد پر یقین رکھا، ان کے اندر سادگی رہی، پروٹوکول کی لعنت میں گرفتار نہ ہوئے، دنیا سے محبت، مقام، شہرت اور منصب سے دور رہے، اپنی خود سازی جاری رکھی، اپنے اللہ کے ساتھ رابطے کو قوی رکھا، مظلوموں اور محروموں کے ساتھ اپنا تعلق جاری رکھا تو یہ کامیابی سے ہمکنار ہونگے۔ اگر یہ چیزیں نہ رہیں تو کوئی بھی تحریک ہو یا موومنٹ ناکامی سے دوچار ہوتی ہے، وہ تنظیم جو اخلاص سے عاری ہوجائے، جس میں محبت دنیا آجائے، دنیا پرستی میں گرفتار ہوجائے، جس کے اندر شہرت طلبی آجائے، مظلموں اور محروموں سے رابطہ ختم ہوجائے تو کوئی بھی تنظیم، تحریک ہو، وہ زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ ایک قصے اور کہانی کی طرح تو لوگ یاد رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں کچھ نہیں ہوتیں۔

اسلام ٹائمز: اس بار کنونشن کا نام پیام وحدت رکھا گیا ہے، اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
مجلس وحدت مسلمین کا نام ہی وحدت مسلمین ہے، جو وحدت پر یقین رکھتی ہے، جو وحدت کو فقط نعرے کی حد تک نہیں بلکہ اپنا ایمان سمجھتی ہے۔ ہم تمام پاکستانیوں کے درمیان، چاہے مسالک ہوں، مذاہب ہوں یا مومنین کی داخلی وحدت ہو، ہم اتحاد چاہتے ہیں، یہ ہمارا ایمان ہے، ان ناموں سے ہمیں یاد دہانی رہتی ہے کہ ہم وحدت کے ذریعے ہی اپنے دشمنوں کو ناکام و نامراد کرسکتے ہیں۔ ان کے منصبوں کو شکست دے سکتے ہیں، کیونکہ دشمن شروع ہی نفرت اور تفرقہ سے کرتا ہے، وحدت وہ اساس اور بنیاد ہے جو ہمیں دشمن پر غالب کرسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ لیکس سازش ہے یا حقیقت۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
میرا خود آپ سے سوال ہے کہ پانامہ لیکس نے کونسی نئی بات بتائی ہے جو اہل وطن کو نہیں معلوم تھی، سب کو پتہ ہے کہ انہوں نے ناجائز طریقہ سے دولت بنائی ہے، انہوں نے ملیں باہر لگائی ہیں، یہ ٹیکس چور ہیں، یہ دوسروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں، لیکن اپنا سرمایہ باہر لے جاتے ہیں، یہ سب کو معلوم ہے۔ ان کے اثاثے غیر فطری بڑھے ہیں، جب یہ سیاست میں آئے تھے، ان کے پاس کیا تھا؟، اب کیا ہے، یہ لوگ طاقتور ہوگئے، لیکن ملک کمزور ہوگیا ہے۔ ان کے بچے مضبوط ہوگئے ہیں، اخلاقی حوالے سے ان کا خاتمہ ہوچکا ہے، تمام بڑی پارٹیاں اخلاقی لحاظ سے تباہ ہوچکی ہیں، ہمارے اوپر سب عیاں ہے۔ یہ حکمران اخلاقی لحاظ سے اپنا وقار کھو چکے ہیں، وہ کبھی بھی ملک کو عالمی سطح پر اوپر نہیں لے جاسکتے، یہ عالمی ممالک کے ساتھ بیٹھ تک نہیں سکتے۔ یہ لوگ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک مرتبہ پھر مذہبی جماعتوں نے نظام مصطفٰی کا نعرہ لگا دیا ہے اور تحریک چلانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
آپ کے اس سوال پر اتنا کہتا ہوں کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ اس نظام مصطفٰی تحریک کے لیڈر کون ہیں؟، جناب مولانا فضل الرحمان صاحب ہیں، ان سے کوئی پوچھے جناب آپ وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ میں کیوں بیٹھے ہو، پہلے وہاں سے تو نکلو، دوسرے لیڈر کون ہیں جناب سراج الحق، وہ خیبر پختونخوا حکومت کا حصہ ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر آپ اپنے سیاسی مقاصد اور مفاد حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنا نام دو، قوم کو بتاو کہ پیر مولانا فضل الرحمان کا نظام، سراج الحق کا نظام اور مولانا سمیع الحق کا نظام لانا چاہتے ہیں۔ میرا ان سے سوال ہے کہ آپ نے 1977ء میں نظام مصطفٰی کی تحریک چلائی تو وہ نظام مصطفٰی کہاں گیا؟ سب نے دیکھا کہ اس کے اندر سے نظام ضیاءالحق آیا، جس کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں، کلاشنکوف کلچر، تفرقہ، لسانیت، تمام برائیاں اسی نظام مصطفٰی کی کوکھ سے آئی ہیں، جنہیں ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ کیونکہ یہ شکست کھا چکے ہیں، عوام میں ان کی کوئی اخلاقی قدر نہیں رہی، اندر سے عوامی محبت کھو چکے ہیں، یہ اندر سے کھوکھلے ہوچکے ہیں، بڑے بڑے دہشتگرد ان کے گھروں سے پکڑے گئے ہیں، جماعت اسلامی کے لوگوں کے گھروں سے القاعدہ کے لوگ پکڑے گئے، انہوں نے شکست کھائی ہے، اب یہ لوگ نیا شوشہ چھوڑ رہے ہیں، ہاتھ میں نظام مصطفٰی کا پرچم لیکر چلنا چاہتے ہیں، یہ ان کا بہت بڑا فراڈ ہے، میرے خیال میں ان کی تحریک سے وہ کام جو طالبان نہیں کرسکے تھے، پاکستان پر قبضے کا، یہ اس طرف پاکستان کو لیکر جانا چاہتے ہیں۔ موجودہ مذہبی جماعتوں کی تحریک سے نظام طالبان آئے گا نظام مصطفٰی نہیں۔
خبر کا کوڈ : 532523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش