0
Saturday 16 Apr 2016 14:52
اصل لڑائی عالمی صہیونیزم اور عالمی مستضعفین کی ہے

یمن کے پا برہنہ مجاہدیں نے سعودی عرب کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے، مولانا شیخ غلام حسین متو

سعودی عرب علاقہ میں اپنی بادشاہت کی سرحدوں کی وسعتوں کے خواب دیکھ رہا ہے
یمن کے پا برہنہ مجاہدیں نے سعودی عرب کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے، مولانا شیخ غلام حسین متو
شیخ مولانا شیخ غلام حسین متو کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شالنہ پانپور سے ہے، وہ 1994ء سے 2013ء تک جمہوری اسلامی ایران میں زیرتعلیم رہے، مولانا غلام حسین مطہری فکری و ثقافتی مرکز جموں و کشمیر کے روح رواں ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں اپنی دینی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، مطہری فکری و ثقافتی مرکز کے زیر اہتمام جموں و کشمیر کے شہر و گام میں دینی و تربیتی ورکشاپس، سالانہ بیداری کانفرنسز، عظیم الشان اجتماعات، وحدت کانفرنسز اور ہفتہ وار کلاسز انجام پاتی ہیں، مولانا غلام حسین متو کے زیر نظارت ان کے مقامی علاقے میں ایک منفرد تعلیمی ادارہ بھی فعال ہے، اسلام ٹائمز نے حالات حاضرہ پر شیخ مولانا غلام حسین متو سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اولاً ہم جاننا چاہیں گے کہ یمن جو ایک سال سے زیادہ کے عرصے سے آل سعود کے مظالم میں گھرا ہوا ہے، یمن کے ایک سال کے حالات پر آپ کن الفاظ میں تجزیہ کرنا چاہیں گے۔؟
مولانا شیخ غلام حسین متو:
سعودی بادشاہت نے گذشتہ چند عشروں کے دوران علاقے میں عرب اور اسلامی ملکوں پر اپنی برتری و اجارہ داری کا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس سلسلہ میں سعودی عربیہ نے کتنا سرمایہ خرچ کیا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ تیل اور حاجیوں کے پیسوں سے خریدے گئے جنگی ساز و سامان کے بھروسے اور جھوٹی طاقت کے نشہ میں چور ہو کر یہ ملک علاقہ میں اپنی بادشاہت کی سرحدوں کی وسعتوں کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اپنے عجلت پسندانہ، متعصبانہ اور غیر دانشمندانہ فیصلوں اور علاقے کے مختلف ملکوں میں مہم جوئی کی راہ اختیار کرکے نہ صرف یہ کہ اپنے ملک کو علاقے میں مختلف قسم کے وسیع بحران کا باعث اور محاذ آرائی سے دوچار کر دیا بلکہ عربی و اسلامی انقلابات کا پھیلتا ہوا دائرہ، اپنے ملک کی سرحدوں تک پہنچنے کی راہ ہموار کرکے ریاض کا سیاسی سکون بھی غارت کر دیا ہے۔ یمن کے پا برہنہ مجاہدیں نے سعودی عربیہ کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے۔ انھوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ غاروں میں رہنے والے یہ یمنی ان کا یہ حشر کر دینگے، یمنی مجاہدین نے یقیناً بہت نقصان اٹھایا، پورے کے پورے شھر تباہ، تمام بنیادی مراکز زمین بوس، مگر اس کے عوض انھوں نے اپنی سرفرازی، حریت، استقلال، آزادی، ناموس کی حفاظت کرنے میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ظاہر ہے عزت کی زندگی مفت ہاتھ نہیں آتی۔ مغرور طاقتوں کے غرور کو توڑنے کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا شام و عراق سے داعش کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔؟
مولانا شیخ غلام حسین متو:
جنگوں میں جو چیز فیصلہ کن ہوتی ہے، وہ صرف حربی ساز و سامان نہیں ہے بلکہ جنگ کا حق پر مبنی ہونا، مضبوط ارادے اور مقابل قوتوں پر چھا جانے کا بلند حوصلہ۔۔ اور یہ چیز ہم نے ان چند سالوں میں اپنی آنکھوں سے مشاھدہ کی ہے۔۔۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے کس طرح صدامی فوج اور ان کے حمایت کرنے والے عرب و غیر عرب طاقتوں کو آٹھ سالہ جنگ میں شکست فاش دی۔۔ حزب اللہ نے کس طرح اسرائیلی آرمی کی ناکوں چنے چبوائے۔۔۔ بقول امام خامنہ ای کے ’’آج کی جنگ ارادوں کی جنگ ہے، جس کے ارادے بلند ہونگے وہ کامیاب ہے‘‘ داعش اور ان کے آقاؤوں کے خلاف برسر پیکار طاقتیں مضبوط ارادوں سے مالا مال ہیں، یقیناً وہ اس جنگ میں اس وحشی زرخرید لشکر کو تاریخ کی بدترین شکست کا مزا چکھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: اگر ممکن ہوا تو، شام اور عراق میں داعش کی مکمل پسپائی کے بعد عالم اسلام کے حالات کیا ہوسکتے ہیں۔؟
مولانا شیخ غلام حسین متو:
یہ فتنہ ضرور کوئی اور رخ اختیار کرے گا، اس لئے کہ اصل لڑائی داعش اور ایران، داعش اور عراق، داعش اور حزب اللہ کی نہیں ہے، اصل لڑائی عالمی صہیونیزم اور عالمی مستضعفین کی ہے، یہ جو داعش اور ان جیسے گروپ ہیں یہ آلہ کار ہیں، دشمن ان کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ البتہ یہ لڑائی ایک نازک موڑ پو پہنچ چکی ہے، جس کی طرف مستضعفین کے امام و پیشوا امام خامنہ ای نے بارہا اشارہ کیا کہ ہم ایک تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔۔ یقیناً داعش اور ان جیسے زرخرید گروپوں کی شکست کے پیچھے فلسطین کی آزادی کا سورج طلوع ہوگا اور مزاحمتی طاقتیں آخری لڑائی تل ابیب میں لڑیں گی۔

اسلام ٹائمز: ایران انقلاب اسلامی کے بعد پابندیوں کے باوجود مکمل ترقی و پیش رفت کی منازل تیزی سے طر کرتا آیا ہے، اب جبکہ ظاہری طور پر پابندیاں ہٹ چکی ہیں، اب آپ ایران کو کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟
مولانا شیخ غلام حسین متو:
پابندیوں کا جہاں تک تعلق ہے، یقیناً ایران اور ایران کی عوام کو کھٹن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان مشکلات کے ہوتے ہوئے اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنا صرف اس ملت کا شیوہ ہے، جس کی پاس با بصیرت قیادت، روشن نصب العین، زندگی میں مقصدیت اور سامنے تاریخ اسلام خصوصاً کربلا کی تاریخ ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران انہی پابندیوں کے نتیجہ میں مضبوط ایران بنا، آج کی دنیا میں استقلال، آزادی اور عزت کے ساتھ اگر کوئی ملک جی رہا ہے تو وہ ایران ہے۔ پابندیوں کے مکمل طور پر ہٹنے کے سلسلہ میں ابھی کچھ بھی قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں، کیونکہ امریکہ اور یورپ کی تاریخ مکر، فریب، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، معاہدوں کی خلاف ورزی سے بھری پڑی ہے اور ایران کی دانشمند قیادت خصوصاً ولی امر مسلمین امام سید علی خامنہ ای ملت کو بارہا اس جانب متوجہ کرتے رہے ہیں۔ ایران کی آج تک کی ترقی کا راز اپنے وسائل اور اپنی توانائیوں پر تکیہ اور زیادہ سے زیادہ ملک کو بیرونی ملکوں سے بے نیاز کرنے میں چھپا ہے۔۔۔ امام خامنہ ای بارہا حکومتی ذمہ داران کو پائیدار و مضبوط اقتصاد کے معیاروں کو بہتر بنانے، پیداوار بڑھانے، اندرونی خلاقیت، ترقی اور بیرونی برآمدات کے اصولوں پر مشتمل پائیدار اقتصاد کی کلی اور مجموعی پالیسیوں کی طرف راہنمایی کرچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حماس یا حزب اللہ پر بعض نام نہاد اسلامی ممالک کیجانب سے پابندی کی بات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا شیخ غلام حسین متو:
حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینا اتنا ہی مضحکہ خیز ہے، جتنا اسرائیلی وزیر اعظم شارون کو امن کا نوبل انعام دینا مضحکہ خیز ہے۔ جس تنظیم نے تاریخ کے سب سے بڑے دہشت گرد، دہشت پرور اور دہشت پر یقین رکھنے والے ملک کی ناک میں دم کر دیا، جس تنظیم نے داعش جیسے خونخوار دہشت گرد گروپ کے بڑھتے ہوئے حوصلے خاک ملا دیئے، بھلا وہ دہشت گرد ہوسکتی ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ حزب اللہ کا کارنامہ کیا ہے اور اس تنظیم کی اصلی معرکہ آرائی کس فکر سے ہے اور یہ تنظیم کس کی آنکھوں میں خار چشم بنی ہوئی ہے؟ حزب اللہ نے اپنے وجود سے اب تک امریکہ، اسرائیل اور ان کے آلہ کاروں کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ جو معرکہ تمام عرب ملک ملکر انجام نہ دے سکے، وہ کارنامہ اس تنظیم نے اپنے محدود وسائل اور ایمانی طاقت کی بنیادوں پر انجام دیا اور وہ ہے اسراییل کی توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام، مسئلہ فلسطین کا احیاء، قدس کی آزادی کا جذبہ، فلسطینی مزاحمت کی ھمہ جانبہ حمایت اور فلسطین کو فراموش شدہ مسئلہ سے نکال کر عالم اسلام کے اصلی اور بنیادی مسئلہ کی حیثیت سے ملت اسلامیہ کے سامنے پیش کرنا اور اس طرح کے بہت سارے مسائل جن میں حزب اللہ نے نمایاں کارنامہ انجام دیا۔

اسلام ٹائمز: ایران میں ایک کتاب ’’من زندہ ام‘‘ بہت زیادہ پڑھی گئی ہے اور بہت زیادہ مقبول ہوئی ہے، اب اسکا ترجمہ آپ کے زیر اہتمام ہوا ہے اور اسکا یہاں بک ریڈنگ انعامی مقابلہ بھی آپ کروا رہے ہیں، جاننا چاہیں گے کہ ایسا کیا ہے اس کتاب میں کہ اس کتاب کو ایران اور دیگر ممالک میں اس قدر سراہا گیا ہے۔؟
مولانا شیخ غلام حسین متو:
مذکورہ کتاب بھی نسل خمینی کی ایک خاتون کی مزاحمت اور صبر و پائیداری کی زندہ مثال ہے، محترمہ معصومہ آباد نے اس کتاب میں اپنی اکیس سال کی عمر تک کے حالات و واقعات کا احاطہ کیا ہے، انقلابی فکری بنیادوں اور ان سے حاصل ہونے والی غیر متزلزل ثابت قدمی پر روشنی ڈالی ہے۔ اس انتہائی دلچسپ داستان زندگی کے مطالعہ کے بعد بہت سے صاحبان فکر کے لئے یقینی طور پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ انقلاب نرم بستروں پر آرام کرکے، عیش و عشرت کی زندگی گزار کر، ائرکنڈیشنڈ ہالوں میں، عالیشان سیمیناروں سے نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہر آن عہد مسلسل سے پروان چڑھتا ہے، یہ کتاب بتائے گی کہ نعرے، ترانے اور زوردار تقریریں جذبات کی تسکین تو کرسکتے ہیں مگر میدان عمل کے لئے جس حرارت ایمانی اور یقین محکم کی ضرورت ہے، اس کی آبیاری کے لئے خواہشات کی قربانی اور وابستگیوں کا خون درکار ہے اور اتنا حوصلہ وہ علم و آگہی، وہ معرفت اور وہ غیر متزلزل فکر ہی دے سکتی ہے، جس کی بنیاد پر ایمان قائم ہو۔

اس کتاب کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ امام خامنہ ای نے اس کی تقریظ ان الفاظ میں لکھی: ’’کتاب کا غم و اندوہ اور فخر و مباہات کے ملے جلے احساسات کے ساتھ پرنم آنکھوں سے مطالعہ کیا اور قدم بقدم ایسے صبر و حوصلہ اور پاکیزگی و خلوص کی داد دیتا رہا نیز اچھے، برے یا خوشی اور غم دونوں سے لبریز واقعات کی اتنی ماہرانہ ترجمانی پر بھی دل سے تعریفیں نکلیں، ان راہ خدا کے مجاہدوں اور قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانے والوں کی یادیں ہمارا وہ عظیم اور قیمتی سرمایہ ہے، جن سے نہ صرف تاریخ کو روشنی ملی ہے بلکہ ہمیشہ اور ہر دور کے لئے درس عمل ہے، یادوں کے اس خزانہ کی تحریری شکل میں یا کسی اور صنف فن کی وساطت سے دوسروں تک منتقلی ایک عظیم خدمت ہے، دیگر بہت سی تحریروں کی طرح زیر نظر کتاب کا بھی دوسری زبانوں میں ترجمہ بہت ضروری ہے۔‘‘

اسلام ٹائمز: اس کتاب کے بک ریڈنگ مقابلے میں آپکی توقعات کیا ہیں اور کے تئیں کتب بین نوجوانوں کا کیا رجحان ہے۔؟
مولانا شیخ غلام حسین متو:
الحمد للہ چند برسوں سے مطہری فکری و ثقافتی مرکز اپنے علمی، فکری و ثقافتی لٹریچر سے نوجوانوں کی پیاس بجھانے میں مصروف عمل ہے اور نوجوانوں نے اس طرح کے لٹریچر کا اچھا خاصا استقبال کیا ہے۔ ہمارے نوجوان خالص، فکر انگیز، انقلاب آفرین، کردار ساز اور شخصیت ساز لٹریچر کی تشنگی کب سے محسوس کر رہے ہیں، چنانجہ جس دن سے ’’میں زندہ ہوں‘‘ کی رسم اجرا انجام پائی ہے، تب سے اب تک سترہ سو کے قریب کتابیں نوجوان خرید چکے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے یہ کتاب جوانوں کی توقع کے بالکل عین مطابق ہے۔ اس کتاب کی جانب نوجوانوں کا الحمد للہ بہت اچھا رجحان ہے۔ مختلف علاقوں سے ہمیں خبر ملی ہے کہ بہت سے نوجوانوں نے کتاب کا دو تین بار مطالعہ کیا ہے، بعض مقامات پر کتاب کا گروپ کی صورت میں مطالعہ کیا جا رہا ہے، شیعہ سنی سبھی جوان کتاب خرید رہے ہیں، جن لوگوں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کتاب شروع کرنے کے بعد اسے چھوڑنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ بعض نوجوانوں نے معصومہ آباد کی اس صبر و پائیداری کو اپنے منظوم کلام میں خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 533600
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش