0
Wednesday 20 Apr 2016 22:56
سعودی بادشاہت کی القاعدہ، داعش، بوکوحرام جیسی دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں

سعودی عرب نے وہابیت کے ذریعے عالم اسلام کو عدم استحکام سے دوچار کیا، مفتی محمد مکرم خان قادری

اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے والے حزب اللہ اور حماس کے اتحاد کی مدد و حمایت کی جائے
سعودی عرب نے وہابیت کے ذریعے عالم اسلام کو عدم استحکام سے دوچار کیا، مفتی محمد مکرم خان قادری
مفتی محمد مکرم خان قادری منہاج القرآن علماء کونسل کراچی کے ناظم اور مرکزی ایڈوائزری کونسل کے رکن ہیں۔ آپ جامعہ المنہاج میں لیکچرار اور تین ماہانہ میگزین کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ جامع مسجد غوثیہ گلشن حدید میں خطیب و امام کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مفتی محمد مکرم خان قادری کے ساتھ پانام لیکس، نواز حکومت مخالف تحریک، سعودی فوجی اتحاد، او آئی سی اور اسکے حالیہ سربراہ اجلاس کے موضوعات پر انکے دفتر میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاناما لیکس اور پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بلاامتیاز احتساب کرنے کے حوالے سے دیئے گئے بیان کے حوالے سے کہا کہیں گے۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ عوام و خواص میں جس نے بھی کرپشن کی ہو، ملک کو لوٹا ہو، اس کا بے رحمانہ احتساب ہونا چاہئے، اسے قانون کے کٹہرے میں لانا چاہئے، گذشتہ روز آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اپنے بیان میں کرپشن کے حوالے سے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، پاکستان میں ہونے والی عسکری دہشتگردی کے خلاف تو پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کررکھاہے جس سے عسکری دہشت گردی کے سامنے مضبوط بندھ باندھ دیا گیا ہے، لیکن جب تک ملک میں جاری معاشی دہشتگردی کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی، ملک میں امن و آتشی کا قیام فقط خواب ہی رہے گا، لہٰذا ملک میں جاری معاشی دہشتگرد ی کے خلاف بھی آپریشن کے حوالے سے آرمی چیف کا بیان انتہائی خوش آئند ہے، اس تناظر میں اگر آپ دیکھیں کہ نوے کی دہائی میں شریف برادران نے بیرون ملک آف شور کمپنیاں، جائدادیں اور اثاثے بنائے، اور جب ان کی اولادیں بڑی ہو گئیں، تو انہوں نے یہ سب کچھ ان کے نام کر دیا، لہٰذا کرپشن میں ملوث عناصر چاہے ان کاتعلق حکومت سے ہو، اپوزیشن سے ہو، اشرافیہ سے ہو، سرمایہ داروں ،بیورو کریسی سے ہو، ان سب کے خلاف تحقیقات کی جائیں اور ان سب کا بے رحمانہ احتساب کیا جائے اور ملوث کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔

اسلام ٹائمز: اس تناظر میں نواز حکومت کا مستقبل کیا نظر آ رہا ہے۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
 جس پیمانے پر نواز شریف اینڈ کمپنی نے کرپشن کی ہے، ان کی بے بہا کرپشن بے نقاب ہونے کے بعد ممکن نہیں ہے کہ یہ حکومت مستحکم رہ پائے گی۔ میرے خیال سے تو اب نواز حکومت کچھ عرصے ہی کی مہمان ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاناما لیکس کے معاملے پر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، اطلاعات کے مطابق لندن میں نواز شریف اور آصف زرداری کی ملاقات بھی ہوئی ہے، نواز شریف لندن علاج کرانے نہیں، بلکہ آصف زرداری سے ملاقات کرنے گئے تھے، زرداری سے معاملات طے کرنے گئے تھے، پاناما لیکس پر اپوزیشن کا جو حکومت مخالف پریشر آنا تھا، وہ ان دونوں نے گٹھ جوڑ اور مک مکا کرکے تقریباً ختم کر دیا ہے۔ اب اسٹیٹس کو کے خلاف تحریکات ہی اپنا کردار ادا کریں تو کچھ بدلاؤ آسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہر القادری نواز حکومت کے خلاف کیا کوئی بڑی تحریک چلانے جا رہے ہیں۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
جی بالکل! پاکستان عوامی تحریک کی ملک بھر میں پھیلی تنظیمات پریس کلبوں پر نواز حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا شیڈول جاری کر چکی ہیں۔ صرف پاناما لیکس کے معاملے پر ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء اور ملک بھر میں جو ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہوا ہے، ظلم و جبر میں جکڑے غریب عوام کے ساتھ پاکستان عوامی تحریک عنقرب سڑکوں پر ہوگی۔

اسلام ٹائمز: نواز لیگ کی جانب سے لندن میں عمران خان کے خلاف ان کی سابقہ زوجہ جمائما خان کے گھر کے باہر احتجاج کیا گیا، کیا عمران خان کو بھی رائیونڈ میں وزیراعظم نواز شریف کے گھر کا گھیراؤ کرنا چاہیئے اور پھر سے دھرنا سیاست کی جانب جانا چاہیئے۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
نواز لیگ کے بدمعاشوں کا لندن میں جمائما خان یا انکی والدہ کے گھر کے باہر احتجاج کرنا بے وقوفانہ اور بچکانہ حرکت تھی، کیونکہ انکا عمران خان سے ماضی کا رشتہ تو ہے، لیکن پاکستانی سیاست سے بالکل کوئی تعلق نہیں، لہٰذا انہیں پاکستانی سیاست میں گھسیٹنا اور وہاں شور شرابہ کرنا، مظاہرے کرنا، نواز لیگ کی اس حرکت نے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں، اس کے جواب میں تو نہیں، لیکن ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں عمران خان اور انکی جماعت تحریک انصاف سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو ناصرف حکومت کے ان محلات کا گھیراؤ کرنا چاہئے کہ جنہیں ملک کی غریب عوام کے خون پسینے سے بنایا گیا ہے، بلکہ حکومت مخالف مہم چلانی چاہئے، تاکہ ان ظالم اور بدمعاش شریف دہشتگردوں سے مظلوم عوام کی جان چھڑائی جا سکے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں حالیہ سعودی کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
سعودی عرب کا منفی کردار عالم اسلام کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، ماضی میں بھی وہ غیروں کا آلہ کار بنا رہا، سعودی حکمرانوں نے جنت البقیع، جنت المعلی اور دیگر مقامات پر قائم مزارات اہلبیتؑ و مزارات صحابہ کرامؓ کو جس بے دردی سے منہدم کیا، اور پوری دنیا میں القاعدہ، طالبان، داعش، بوکوحرام جیسی دہشتگرد تنظیموں کو سپورٹ کیا، ان کی مالی و عسکری مدد کی، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح افغان وار کے دوران پاکستان، افغانستان میں وہابی اسلام کو پروموٹ کرنے کیلئے امریکی مدد سے تقریباً بیالیس (42) ہزار مدارس بنائے گئے، جہاں CIA کے زیرِ سایہ وہابی اسلام کو نئے پَر اور پُرزے لگائے گئے، اور اس کا اعتراف تو خود سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کر چکی ہیں۔ لہٰذا سعودی عرب نے ہمیشہ عالم اسلام میں وہابیت کے پھیلاؤ اور تسلط کیلئے اسلام ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کیا، شیعہ سنی مسلمانوں کو ان دہشتگرد تنظیموں کے ذریعے ٹارگٹ کروایا۔

اسلام ٹائمز: سعودی فوجی اتحاد کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
سعودی عرب نے 34 ممالک پر مشتمل جو فوجی اتحاد بنایا ہے، بہتر ہوتا کہ یہ عالم اسلام کے دفاع، سلامتی اور تحفظ کیلئے آگے آتا، لیکن سعودی فوجی اتحاد کا ایجنڈا اس کے برخلاف نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی سے اس اتحاد کو بعض اسلامی ممالک کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ چنانچہ اگر اس اتحاد کو کارآمد بنانا ہے، تو اس تاثر کو زائل کرنا ازحد ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی سربراہی میں عرب ممالک کی جانب سے ایک طرف تو داعش کے خلاف جنگ کی بات کی جا ری ہے اور دوسری جانب ان ممالک کے امریکا سے تو تعلقات تھے ہی اور اب اسرائیل سے تعلقات کی خبریں عام ہو رہی ہیں، کیا کہنا چاہیں گے اس روش کے حوالے سے۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ اگر آپ اسرائیل کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اسلامی و عرب ممالک ہی اسرائیل کے سب سے بڑے محافظ رہے ہیں، اسلامی ممالک کے بیچ میں وہ تو آرام و سکون میں نظر آتا ہے لیکن، اطراف کے عرب اسلامی ممالک تباہی و بربادی سے دوچار ہیں۔ جون 1967ء کی (حرب الایام الستۃ) جنگ میں عرب افواج کے 21 ہزار فوجی ہلاک، 45 ہزار زحمی اور 6 ہزار قیدی بنا لئے گئے، جبکہ اندازاً 400 سے زائد طیارے تباہ ہوئے جبکہ اس کے مقابلے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے 779 فوجی مارے گئے جبکہ 2563 زخمی اور 15 قیدی بنا لئے گئے۔ جون 1967ء کی جنگ میں شکست کے نتیجے میں غزہ (فلسطین) اور جزیرہ نمائے سینا کا 24 ہزار مربع میل (ایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر) کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا، نہر سوئز بند ہوگئی اور مصر جزیرہ نمائے سینا کے تیل کے چشموں سے محروم ہوگیا۔ اگر اس بدترین شکست کے بعد بھی یہ ممالک اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہیں تو مستقبل میں امت مسلمہ کو پہنچنے والے مزیدنقصانات کے ذمہ دار بھی یہی ممالک ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: تنظیم تعاون اسلامی (OIC) کے عالم اسلام کے حوالے سے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
OIC نے نہ تو ماضی میں کوئی کردار کیا ہے اور نہ ہی اس سے مستقبل میں کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک غیر فعال اور بے مقصد فورم ہے جو آج تک مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کیلئے کبھی سامنے نہیں آیا۔ اس وقت بھی کہ جب عالم اسلام داخلی و خارجی انتشار کا شکار ہے OIC کے ممبران ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: او آئی سی کے حالیہ سربراہی کانفرنس میں فلسطین پر قابض اسرائیلی غاضب حکومت کے خلاف برسر پیکار اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ اور ایران کے خلاف محاذ بنایا گیا، کیا کہیں گے اس افسوسناک صورتحال پر۔؟
مفتی محمد مکرم خان قادری:
جیسا کہ میں نے کہا کہ او آئی سی کیلئے اسلامی نہیں کچھ غیروں کے مفادات مقدم ہیں۔ وہ تنظیمات جو اسرائیلی مفادات کیلئے چیلنج ہو سکتی ہیں یا جن تنظیمات سے اسرائیلی مفادات کو خطرہ ہو سکتا ہے، OIC ہر اس تنظیم کے خلاف اسرائیل کے حق میں کردار ادا کرتی رہی ہے اور شاید مستقبل میں بھی وہ اپنا یہ گھناؤنا کردار ادا کرتی رہے، یہی OIC کی وہ پالیسیز ہیں، جس کی وجہ سے آج تک قبلہ اول کی آزادی اور مسئلہ فلسطین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ OIC اگر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی، تو اسرائیل کب کا صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا، اور مسئلہ فلسطین حل ہو چکا ہوتا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے عربوں کی بے رخی کے باعث حزب اللہ نے حماس کا ساتھ دینا شروع کیا اور فلسطینیوں کی مدد اور حمایت کی، تب سے عرب دنیا میں حماس کو ملنے والی مدد و اعانت میں کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ حماس اور حزب اللہ کی مخالفت اپنے عروج پر ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب انتفاضہ تحریک یاسر عرفات کے انتقال کے بعد تقریباً دم توڑتی جا رہی تھی اور عرب ممالک اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہو کر مسئلہ بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین سے جان چھڑا رہے تھے، ایسے میں حماس کیلئے حزب اللہ کی حمایت کسی نعمت سے کم نہ تھی ،یقیناً یہ ایک اچھی Combination ثابت ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اسے مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی تک محدود رکھا جائے۔ ماضی قریب میں عرب دنیا بالخصوص سعودی عرب کی نام نہاد بادشاہتوں کا القاعدہ، داعش، بوکوحرام جیسی دہشتگرد جماعتوں کی سرپرستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، جس کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا داخلی انتشار و افتراق کا شکار ہوئی۔ اسلامی دنیا کے داخلی انتشار کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قبلہ اول کی آزادی اور مسئلہ فلسطین کیلئے ایسی تمام دہشت گرد تنظیمات کا قلع قمع کیا جائے، اور اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے والے حزب اللہ اور حماس کے اتحاد کی مدد و حمایت کی جائے، ان کا تحفظ کیا جائے، کیونکہ حزب اللہ اور حماس وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے اسرائیل کے آگے بندھ باندھ رکھا ہے، اگر انہیں نقصان پہنچتا ہے تو فلسطین سمیت عرب دنیا کو اسرائیل کے ناپاک عزائم سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ OIC اگر اب بھی ہوش کے ناخن لے کر انتفاضہ تحریک کی مدد و حمایت کا اعلان کرتی ہے، تو امید کی جا سکتی ہے بہت جلد مشرق وسطی پر چھائے اسرائیلی ظلم و جبر کی سیاہ رات ڈھل سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 534464
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش