0
Sunday 24 Apr 2016 11:48
داعش فتنے کا خاتمہ عالم اسلام پر موقوف ہے

ایران و حزب اللہ کا راستہ حق و عدالت کے زیر سایہ طے ہوتا ہے، مولانا سید غافر رضوی

اس پرآشوب دور میں اتحاد کی بہت شدید ضروررت ہے
ایران و حزب اللہ کا راستہ حق و عدالت کے زیر سایہ طے ہوتا ہے، مولانا سید غافر رضوی
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی کا تعلق ہندوستانی ریاست یو پی سے ہے، مولانا سید غافر رضوی تعلیم و تدریس کے علاوہ متعدد محاذوں پر سرگرم عمل ہیں، تحقیق، تصنیف، خطابت اور شاعری میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ ادارۂ شعور ولایت لکھنؤ انڈیا کے معاون مدیر ہیں، ادارۂ ابوطالب لاہور میں رکن ھیئت تحریریہ، ادارۂ ریاض القرآن لکھنؤ میں فعال رکن کی حیثیت سے مصروف ہیں، ادارۂ نور اسلامک مشن لکھنؤ میں عمومی رکن ہیں، ہندوستان کے مشہور و معروف اخباروں میں بھی ان کے مضامین مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں، مولانا سید غافر رضوی کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا سید غافر رضوی سےحالات حاضرہ بالخصوص وحدت اسلامی کے موضوع پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کی موجودہ صورتحال خصوصاً یمن میں آل سعود کی جارحیت پر آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
تمام عالم اسلام از جملہ ملک یمن میں آل سعود کی جارحیت، ایک غیر انسانی حرکت ہے، اگر اس حرکت کو حیوانی حرکت سے تعبیر کیا جائے تو یہ بھی صحیح نہیں ہوگا کیونکہ اس جارحیت کو دیکھ کر دنیائے حیوانیت بھی لرز اٹھتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو انسان اس ظلم و ستم پر خاموش ہے، وہ انسانیت کے دائرہ سے خارج ہے۔ بالخصوص اسلام ہمیشہ ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت کا درس دیتا ہے، اگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تو کم سے کم ظلم کے خلاف صدائے احتجاج تو بلند کرسکتے ہیں!

اسلام ٹائمز: شام و عراق میں داعش کی کارروائیوں اور وہاں اس فتنے کے وجود کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
جیسا کہ میں نے متعدد مضامین و مقالات میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ دشمن اسلام نئے نئے چہروں کے ساتھ دنیا کے سامنے آرہا ہے، جب وہ پہچان لیا جاتا ہے تو نقاب بدل کر سامنے آتا ہے، داعش کا وجود کوئی نیا نہیں ہے بلکہ یہ بہت پرانی تنظیم ہے، کبھی القاعدہ، کبھی سپاہ صحابہ، کبھی طالبان اور دور حاضر میں داعش کا نقاب اوڑھ کر سامنے آیا ہے۔ اس تنظیم کو اسلام و مسلمین سے کوئی مطلب نہیں ہے بلکہ یہ تنظیم صرف اپنا الو سیدھا کرنا جانتی ہے، چاہے اس سے اسلام کو کتنے ہی عظیم سانحات سے رو برو ہونا پڑے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس فتنے کا شام و عراق میں ہی خاتمہ ممکن ہے، یا یہ فتنہ مزید اور دیگر ممالک میں بھی پھیلتا جائے گا۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
جہاں تک اس فتنہ کے خاتمہ کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ اس کا ختم ہونا یا مزید بڑھنا عالم اسلام پر موقوف ہے، اگر عالم اسلام چپ سادھے بیٹھا رہے اور گاندھی جی کے بندروں کا کردار ادا کرتا رہے تو اس کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا، البتہ اگر عالم اسلام ایک ہاتھ کی پانچ انگلیوں کی طرح ایک مشت محکم بن جائے اور اتحاد کا ثبوت دے تو دہشتگردی کے رخ پر ایسا کاری ضربہ لگے گا کہ اس کا جبڑا دنیا کا کوئی ڈینٹسٹ نہیں جوڑ پائے گا۔

اسلام ٹائمز: داعش فتنے کے خاتمہ میں ایران و حزب اللہ کا کیا رول ہے۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
ایران اور حزب اللہ ہمیشہ راہ حق پر گامزن رہتے ہیں، ان کا راستہ حق و عدالت کے زیر سایہ طے ہوتا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ راہ حق پر گامزن لشکر کی ہمیشہ فتح ہوئی ہے، اور قرآن نے بھی راہ حق پر گامزن افواج کو کامیابی کی سند دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: آلا ان حزب اللہ ھم الغالبون، آگاہ ہوجاؤ کہ بے شک خداوند عالم کا لشکر ہی کامیاب ہے اور خداوند عالم کا لشکر وہی ہے جو راہ حق و حقیقت اور راہ عدالت پر گامزن ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں یہ فتنہ اتنا طول پکڑتا گیا اور ابھی تک یہ داعش موجود ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
کیونکہ ابھی تک ہر علاقہ میں اس تنظیم کو دندان شکن جواب نہیں ملا ہے، جس طرح حزب اللہ نے ان کو ناکوں چنے چبوائے تھے، اسی طرح ہر علاقہ کے باشندے اسی عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو اس تنظیم کا خاتمہ زیادہ دور نہیں اور اس کام کے لئے اساسی شرط اتحاد و یکجہتی ہے۔ جب تک اتحاد کا نمونہ پیش نہیں کیا جائے گا، تب تک یہ ظلم کا پودا پھلتا رہے گا۔ اس زمانے میں اتحاد کی نہایت ضرورت ہے۔ اتحاد کا مطلب مذہب کی تبدیلی نہیں بلکہ اپنے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دشمن کے مقابل ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجانا اتحاد کا حقیقی مفہوم ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ یا آئندہ ایسے فتنوں سے نجات کیلئے اتحاد اسلامی کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
اتحاد ہر زمان و مکان میں اہمیت کا حامل رہا ہے، بالخصوص اس پرآشوب دور میں اتحاد کی بہت شدید ضروررت ہے، کیونکہ دہشتگردی کا خاتمہ صرف اسلامی اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ صرف تعصب کی عینک لگاکر دنیائے ہست و بود پر نظر کرنا قرین عقل نہیں ہے بلکہ دوربین نگاہوں کی ضرورت ہے، اگر ہم اتحاد کو اپنا پیشہ بنالیں تو دہشگردی کا خاتمہ چندان دور نہیں ہے، اگر تمام عالم اسلام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائے تو دہشتگردی کا کچھ ایسے خاتمہ ہوگا کہ وہ دوبارہ سر اٹھانے کے لئے سو بار سوچے گی اور اس پر کربلا کا عظیم سانحہ گواہ ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں عالم اسلام کے نام نہاد ممالک بھی تفرقے اور انتشار کے پھیلاؤ میں پیش پیش رہے ہیں اور دشمن اسلام کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
در حقیقت کچھ عیش پسند حکمرانوں کا یہ ماننا ہے کہ ان کے تخت و تاج پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے پائے، چاہے اس کو بچانے کی خاطر بے غیرتی کے بازار میں عزت ہی کیوں نہ نیلام ہوجائے، سکوں کی کھنک نے ان کے دلوں کو موہ لیا ہے، دشمن کے رعب سے اس کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور پاؤں دھو دھو کر پی رہے ہیں؛ جو حکمران صرف نام نہاد مسلمان ہیں اور ان کو اسلام کے درد و غم کی کوئی پرواہ نہیں ہے، وہ مسلمان کے نام پر ایسا دھبہ ہیں، جو دنیا کے کسی پوڈر یا صابن سے صاف نہیں ہوگا، اگر ایسے حکمران دہشتگرد تنظیموں کی قیادت کرتے نظر آئیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ اسلام سے دوری انسان کو اندھا، بہرا اور گونگا بنا دیتی ہے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر لگ جاتی ہے کہ ان کو حق و باطل کا فرق سمجھنے میں نہیں آتا، انھیں صرف سکوں کی کھنک سنائی دیتی ہے، سکوں کی چمک دکھائی دیتی ہے اور سکوں کی مدح و ثنا میں ہی لب کشائی کرتے نظر آتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر انتشار و تصادم نے جگہ لے لی ہے، اسکی جگہ دوبارہ عالمی سطح پر اتحاد اسلامی کی ضرورت کس قدر ہے۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
ہم نے اپنے متعدد مضامین میں بیان کیا ہے کہ اس پرآشوب دور میں جب کہ ہر سمت ظلم و ستم کی گھنگھور گھٹائیں تُلی ہوئی ہیں، اتحاد و یکجہتی کی ہر گام پر نہایت ضرورت ہے، کیونکہ اتحاد ہی ایک ایسی طاقت ہے جو بڑے سے بڑے دشمن کو مات دیتی ہے، اگر اس زمانے سے ظلم و ستم کا خاتمہ مقصود ہے تو بغیر اتحاد کے ممکن نہیں ہے، اسلامی مملکتوں کو اس بارے میں غور و خوض کرنا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ دو بلیوں کی لڑائی میں بندر فائدہ اٹھالے؛ تعصب کو کنارے رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں، تاکہ جلد از جلد اس پرآشوب دور کو ختم کیا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: کیوں اتحاد اسلامی کو اس قدر دین مبین نے اہمیت دی ہے۔؟ اور کیوں اور کیسے اتحاد اسلامی موجودہ فتنوں سے نجات کا ضامن ہے۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
یوں تو ہر مذہب نے اتحاد پر تاکید کی ہے، ہر مذہب کی تعلیم یہی ہے کہ دنیا میں امن و امان قائم رہے، لیکن دوسرے مذاہب کی بنسبت دین اسلام نے اتحاد پر زیادہ زور دیا ہے، کیونکہ خود دین اسلام کا وجود بھی اتحاد کے بل بوتے پر قائم ہے، دین اسلام یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دین اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا ہے تو ان کی سوچ سراسر غلط ہے، اسلام اتحاد و یکجہتی اور بھائی چارگی کا مذہب ہے، رسول اسلام (ص) کی زندگی میں جنگ سے زیادہ صلح نظر آتی ہے، حضور اکرم (ص) نے صرف اس وقت قبضہ شمشیر پر ہاتھ رکھا، جب پانی سر سے اونچا ہوگیا، جب ہر طرف سے اتحاد کے دروازے بند ہوگئے اور امن و آشتی کا کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔ خدا کی جانب سے آئے ہوئے تمام الٰہی نمائندوں کی یہی سیرت رہی کہ جب تک اتحاد قائم رہے، اس کو برقرار رکھا جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا لائحہ عمل اپنایا جائے کہ عالمی سطح پر اتحاد اسلامی کا مظاہرہ ہوسکے۔؟
مولانا سید غافر رضوی:
ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا، اتحاد کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، اگر کسی ملک میں ظلم و ستم روا رکھا جا رہا ہے تو دوسرے ممالک کے لوگ ریلیاں نکالیں اور صدائے احتجاج بلند کریں، صدائے احتجاج میں بڑی طاقت ہے، احتجاج اکابر حکمرانوں کی حکومت کے پائے لرزا دیتا ہے۔ شاید یہ کہنا بے جا نہ ہو کہ ہمارے پاس اتحاد کی فضا قائم کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ظلم کے خلاف ریلی نکالنا ہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 534955
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش