1
Friday 6 May 2016 18:01
یونیورسٹیز کے اساتید شہید مطہری کے سامنے طفل مکتب ہیں

اگر علماء اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں تو پاکستان میں انقلاب کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، مولانا حسن مہدی کاظمی

اگر علماء اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں تو پاکستان میں انقلاب کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، مولانا حسن مہدی کاظمی
جامعہ بعثت پاکستان کی اہم دینی درس گاہ ہے، مولانا حسن مہدی کاظمی جامعہ کے ٹرسٹی اور مسئول ہیں، قم سے فارغ التحصیل ہیں اور انجنئیرنگ کی ڈگری رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز کیساتھ معاشرے میں مدرسہ اور یونیورسٹی کا کردار بہتر بنانے اور طلاب اور علماء کی ذمہ داریوں کے حوالے سے، یونیورسٹی اور حوزہ کو عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے چلانے کے آرزو مند مولانا حسن مہدی کاظمی کی اہم گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: معاشرے کی ترقی کیلئے اعلٰی تعلیم کیوں ضروری ہے، حوزوی ہو یا یونیورسٹی کی تعلیم؟
سید مہدی حسن کاظمی:
کسی بھی معاشرے پہ حکمفرما کوئی نہ کوئی سوچ یا نظریہ ہی ہوتا ہے، اور اس کے حامل افراد اعلٰی تعلیم یافتہ ہی ہوتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی اور حوزہ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کو ایسے افراد تیار کرکے دیں جو صاحب نظر ہوں، جو مختلف نظاموں کے متعلق نظریہ رکھتے ہوں، ایسے ہی افراد کی بنیاد پر قومیں ترقی کرتی ہیں۔ ظاہری طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے سبب ترقی ہے، حالانکہ ٹیکنالوجی تو ایک نتیجہ ہوتا ہے، اصل میں اس کے پیچھے نظریات ہوتے ہیں، جہاں طے ہوتا ہے کہ کونسی چیز انسان کی رفاہ کے لئے کیسے استمال ہوگی۔ یہ صاحب نظر افراد ہیں جو معاشرے کی اصل خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ظاہری ترقی جو سائنس کے ذریعے انجام پاتی ہے، دوسروں کو مرعوب کرکے انہیں غلام بنانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے پیچھے اس حد تک لگا دیا جاتا ہے کہ انسان اپنا مقام اور ارزش ہی فراموش کر بیٹھے، اس کے نتیجے میں انسان اپنی رشد و ارتقا سے بھی غافل ہو جاتا ہے۔ یہ ہے اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کی ذمہ داری کہ وہ ایسے نظریات کو فروغ دیں، جس سے ترقی کا حقیقی مفہوم واضح رہے کہ ٹیکنالوجی اپنی جگہ پہ اور انسان کی انسانی خصوصیات اور رشد و کمال اپنی جگہ اور مقام رکھتا ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید مرتضٰی مطہری معلم انقلاب ہیں، انہوں نے یونیورسٹیز میں لیکچرز دیئے، جہاں سے انقلابی نظریات کے حامل افراد نے انقلاب کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا، انقلاب کیلئے زیادہ حصہ کس کا بنتا ہے، حوزہ کا یا یونیورسٹی کا۔؟
سید حسن مہدی کاظمی:
بنیادی بات یہ ہے کہ شہید مرتضٰی مطہری فرزند حوزہ تھے، یونیورسٹی سے نہیں نکلے۔ یہ ہنر انہوں نے حوزہ سے حاصل کیا، دانشگاہ کے اساتید بھی انکے سامنے شاگرد بن کے بیٹھے۔ خود علامہ طباطبائی کے بارے میں ہانری کاربن کہتے ہیں کہ میں جب انکے سامنے حاضر ہوتا تھا دو زانو ہو کے بیٹھتا تھا، جیسے ایک شاگرد بیٹھتا ہے۔ وہ یورپی فلسفی اور نامور مستشرق تھے۔ یونیورسٹی کے افراد شہید مرتضٰی مطہری جیسی شخصیات کے سامنے طفل مکتب ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہ ذمہ داری حوزے کی ہے کہ معاشرے کے ہر فرد تک پہنچے اور اپنی ذمہ داری پورے کرے، صرف یونیورسٹی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقے تک۔ عالم دین کی ذمہ داری دانشگاہ تک محدود نہیں بلکہ ہر طبقے کے افراد تک رسائی ضروری ہے۔ شہید مطہری کا کمال یہ ہے کہ جو نظریہ کتابوں میں تھا، انہوں نے کتابوں سے نکال کر اسے معاشرے میں لاگو کیا۔ خود شہید مطہری کے الفاظ ہیں کہ صرف استخارے کرنا علماء کی ذمہ داری نہیں، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حوزہ اور اس حوزہ سے تیار ہونیوالے علماء وہ کردار ادا کرسکتے ہیں جو انقلاب اسلامی کیلئے ایران میں علماء نے انجام دیا۔؟
سید حسن مہدی کاظمی:
اگر پاکستان کی بات کریں تو ایسی مثالیں موجود ہیں، جیسے علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم، علامہ صفدر حسین نجفی اور علامہ عارف حسین حسینی جیسی شخصیات نے ایسا کردار ادا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تین بڑے نام ہمیں یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ حوزے میں اتنی صلاحیت ہے کہ اگر علماء اپنی ذمہ داری سمجھیں تو معاشرے کی کایا پلٹ سکتے ہیں اور انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ حوزہ میں اتنی توانائی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں، تھوڑا سا احساس کریں اور جدوجہد کریں تو یہ ممکن ہے۔ اگر علماء صحیح طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، انقلاب کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستانی معاشرے، بالخصوص نوجوانوں میں یہ جوہر پایا جاتا ہے، کیا وہ علماء کی بات سنتے اور قبول کرتے ہیں، ساتھ کھڑے ہوں گے۔؟
سید حسن مہدی کاظمی:
ہاں، اگر علماء زیادہ اصطلاحی گفتگو نہ کریں، انکی زبان میں بات کریں، تو قبول کرتے ہیں، ساتھ بھی دیتے ہیں۔ ان سے گھلیں، ملیں، زیادہ فاصلہ نہ رکھیں، انکے مزاج اور ضروریات کے مطابق ان تک پیغام پہنچائیں، اگر انکی اپنی ضرورت اور سطح کو مدنظر رکھیں اور انہیں محسوس ہو کہ ہمیں توجہ مل رہی ہے تو نوجوان علماء سے والہانہ اور عاشقانہ انداز میں تعلق پہ فخر کرتے ہیں۔ پاکستان میں نوجوان کی جو فکری مشکل موجود ہے، اگر عالم دین کی گفتگو میں اسے اسکا حل ملتا ہے تو وہ ضرور سنتا ہے، احترام بھی کرتا ہے اور مائل بھی ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں حوزہ اور دانشگاہ کا رابطہ کیسا ہے، کیا حوزہ بالخصوص بعثت کے علماء محسوس کرتے ہیں کہ نوجوانوں کیلئے نیا سیٹ اپ بنانیکی ضرورت ہے۔؟
سید حسن مہدی کاظمی:
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر گروہ نے اپنی ذمہ داری نبھانی ہے۔ پہلے سے موجود سیٹ اپ ہیں، جیسے آئی ایس او ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ علماء انکا ساتھ دیں، تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا کرسکیں اور حوزہ تو اپنی ذمہ داری نبھا ہی نہیں سکتا، جب تک جوان اسکا ساتھ نہ دیں۔ یہ ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ہیں۔ کئی مقامات پہ ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایس او کو اگر ضرورت ہے تو جامعہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ میدان میں آئے اور تنظیم کو مضبوط بنانے کے لئے تعاون کرے۔ اسی طرح جوانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ حوزے کو کم رنگ نہ ہونے دیں، جوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ حوزہ اگر فعالیت کر رہا ہے تو لازمی طور پر جوانوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہے۔ گذشتہ عرصے میں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے، بعثت نے آئی ایس او کے ساتھ مل کر ورکشاپس کروائی ہیں، اسکے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ چند ماہ میں ہزاروں طلاب تک رسائی ہوئی ہے۔ وہاں تنظیمی یونٹس بھی بنائے گئے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ حوزہ اور جوان ایک دوسرے کی مدد سے آگے بڑھ رہے ہیں، یہ معاشرے کے دو بازو اور دو پر ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ عرصے سے پاکستان میں مدارس کے متعلق تحفظات میں اضافہ ہوا ہے، دہشتگردوں کی مدد کے الزامات بھی ہیں، آپکا کیا نقطہ نظر ہے، اسکا حل کیا ہے۔؟
سید حسن مہدی کاظمی:
ایک بات تو واضح ہے کہ ایسے جو بھی مدارس ہیں، انکا تعلق مخصوص مسلک اور ایک خاص سوچ رکھنے والوں سے ہے۔ یہ بات ہم گارنٹی سے کہہ سکتے ہیں کہ اہل تشیع کا ایک بھی مدرسہ ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہیں، یہ بات سوسائٹی بھی جانتی ہے، میڈیا بھی اور انتظامیہ بھی۔ اگر کوئی ایسا لیبل لگاتا بھی ہے تو وہ لاعلمی کی وجہ سے ہے، یا کسی پروپیگنڈہ کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ہمارے مدارس کی خوبی یہ ہے کہ انکا ڈائریکٹ رابطہ ہے معاشرے سے، جسکی وجہ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے، کسی سے۔ ہر علاقے کے لوگ مدارس سے مربوط ہوتے ہیں، تعاون کرتے ہیں، مدارس سے استفادہ کرتے ہیں۔ شدت پسندی کا کوئی عنصر ہمارے درمیان نہیں پایا جاتا۔ اگر کوئی مخالف نظریات بھی رکھتا ہے تو ہماری طرف سے افہام و تفہیم کا دامن ہاتھ میں رہتا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق تو اہل کتاب سے بھی کلمہ توحید پہ قریب ہوسکتے ہیں، شیعہ اور اہل سنت تو پہلے قریب ہیں، باہمی طور پر تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے، وہ نظریہ اور روش جو اس تعاون کی گنجائش سے خالی ہے، وہ شدت پسندی ہے۔ ہمارا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلام نصاب نہیں بلکہ نظام زندگی ہے، پاکستان میں اسلام کے نفاذ کیلئے علماء اپنی ذمہ داری کس طرح ادا کریں؟
سید حسن مہدی کاظمی:
اسکا راستہ مشکل نہیں، وہ ہے تعلیم و تربیت۔ وہ نظام تعلیم و تربیت جس کی بنیاد ہمارے ائمہ اطہار علہیم السلام نے رکھی۔ اس کا احیا علماء کی اصل ذمہ داری ہے۔ اس میں اتنی طاقت ہے کہ یہ نظریات لوگوں تک پہنچیں تو جہاں باطل قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کی ضرورت ہوگی، لوگ کھڑے رہیں گے، جہاں دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی، دور ہو جائیں گے۔ پاکستان میں شہید علامہ عارف حسین حسینی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی جدوجہد کے نتیجے میں ایک مضبوط بنیاد موجود ہے، انہی خطوط پہ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ شہید حسینی کی راہ وہی راہ ہے، جو امام خمینی کا راستہ ہے۔ اتنی زیادہ مدت گذرنے کے باوجود بھی انکے افکار، نظریات اور جدوجہد کے نقوش باقی ہیں، جو ہمارے لئے قابل استفادہ ہیں، ہم ان سے استفادہ کریں گے تو آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہ صرف علماء کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر طبقے کا اپنا کردار ہے، جو ادا ہونا چاہیے۔ معاشرے کی پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ مدارس میں ایسے افراد کو بھیجیں جو باصلاحیت ہوں، نہ کہ ناکارہ ترین افراد ہوں۔ معاشرہ ذہین ترین افراد کو مدارس میں بھیجے۔ اسی طرح یونیورسٹی کے افراد حوزہ اور علماء کی سرپرستی میں اپنا کردار ادا کریں۔ حوزہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ درست نظریات کے ساتھ دانشگاہ کو ساتھ لیکر چلے۔ معاشرے کے مختلف طبقات کا تعامل بہت ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 536595
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش